کالم : بزمِ درویش – عید کی رشوت :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share

کالم : بزمِ درویش عید کی رشوت

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

میں نے موبائل فون اٹھا یا تو دوسری طرف درد سے بھرہو ئی نسوانی آواز میں عورت بول رہی تھی تعارف کے بعد بولی سر میں پچھلے کئی دنوں سے بہت پریشان ہوں آپ سے مدد رہنمائی چاہتی ہوں تو میں بولا بہن آپ پوچھیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتاہوں تو وہ بولی کیا اسلام میں ایک دوسرے کو تحفہ دینا لینا جائز ہے اِس سے آپس میں پیار محبت بڑھتا ہے تو میں نے اقرار میں کہا بلکل ایسا ہی ہے ساتھ ہی پوچھاآپ کون بات کر رہی ہیں اور کس تحفے کی بات کر رہی ہیں تو وہ بولی معذرت خوانہ لہجے میں بولی میں بہت شرمندہ ہوں اور معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کو اپنا تعارف نہیں کرا سکتی میں روحانیت کی طالب ہوں اور آپ کی ساری کتابیں میرے مطالعہ میں ہیں اِس لیے آنے والی بقرہ عید کے بارے میں میرا دماغ الجھا ہوا تھا تو سوچھا آپ سے بات کر کے اپنا دماغ کلیئر کر لوں

اصل میں میرا خاوند بہت بڑا سرکار ی آفیسر ہے جو رشوت بلکل بھی نہیں لیتے لیکن اپنے دوستوں سے ملنے والوں سے تحفہ وغیرہ لے لیتے ہیں تحفہ دینے والوں نے بتایا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک دوسرے کو تحفہ دینا چاہیے اِس سے پیار محبت میں اضافہ ہو تا ہے کیونکہ اسلا می رشتے سے تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اِس اخوت کو مزید مضبوط اور گہر اکرنے کے لیے ایک دوسرے کو تحفہ دینا چاہیے جب عورت اچھی طرح بول چکی تو میں نے کہا بہن جی اگر آپ کلیئر ہیں تو پھر مُجھ سے کیوں پوچھ رہی ہیں تو وہ بولی اصل میں میری جاننے والی دوست نے مجھے وہم میں ڈال دیا ہے جو تحفے کے جانور آپ کے خاوند کو کسی نے تحفے میں دئیے ہیں وہ تحفہ نہیں بلکہ رشوت ہے لہذا رشوت کے جانور وں سے قربانی جیسا اہم مذہبی فریضہ نہیں ہو سکتا اپنی دوست کی اس بات سے میں بھی کنفیوژ ہو گئی ہوں اب بات سنجیدہ زون میں داخل ہو گئی تھی لہذا میں نے خاتون سے پوچھا آپ نے اپنے خاوند کو روکا نہیں کہ قربانی کے جانور تو اپنے پیسوں سے لینے چاہیے اِس طرح کے تحفے کے جانوروں سے قربانی نہیں ہوتی تو وہ بولی میں نے دبے لفظوں میں خاوند کو یہ کہا تو وہ بولے میں نے کونسے رشوت میں یا کسی کام کے کروانے کے عوض یہ جانور لئے ہیں یا اگر میں کسی کا کام روک کر اُس کو مجبور کر تا کہ جب تک آپ مجھے جانور لا کر نہیں دیتے میں تمہارا کام نہیں کروں گا یہ تو میرے جاننے والے نے اپنی مرضی اور خوشی سے لاکر دئیے ہیں اُس کو مُجھ سے کوئی کام بھی نہیں ہے لہذا یہ تحفہ ہیں رشوت نہیں ہے اب میں نے بات کو مزید آگے بڑھایا اور کہا بہن آپ کے اور آپ کے خاوند کے کتنے بھائی ایسے ہیں جو کسی سرکاری اہم عہدے پر نہیں ہیں تو وہ بولی دو میرے بھائی اور ایک میرے خاوند کا بھائی ایسا ہے جو سرکار ی نوکری نہیں کرتے تو میں بولا اُن تینوں کو کبھی کسی نے عید پر جانورتحفے میں دئیے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے خاوند کو یہ جانور اِس لیے دئیے گئے ہیں کہ کیونکہ وہ سرکاری عہدے پر بڑا آفیسر ہے لہذا اِس لیے آنے والے وقت کے لیے اچھے خوشگوار تعلقات استوار رکھنے چاہیے تاکہ کسی برے وقت یا اہم کام کے وقت تحفے کے صدقے میں بننے والے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کام کرایا جاسکے لہذا یہ جانور آپ کے خاوند کو نہیں بلکہ اُس کے اہم عہدے کو دئیے گئے لہذا کسی اہم عہدے پر نہ ہو تو لوگ نہ دیں یا بغیر کسی لالچ کے دیں لہذا اگر آپ قربانی کا ثواب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنی کمائی بچت سے قربانی کے جانو ر لیں نہیں تو یہ قربانی خدا کی بارگاہ میں قبول نہیں ہو گی میری بات سن کر خاتون بولی میں نے اپنے قاری صاحب سے پوچھا تھا انہوں نے کہاکہ تحفہ لینا جائز ہے آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ تحفہ نہیں رشوت ہے تو میں نے پھر گزارش کی دیکھیں قاری صاحب کو آپ کے تحفوں کی عادت ہے وہ بیچارہ تحفے کے خلاف بات کر کے اپنی کمائی بند نہیں کر سکتا خاتون میری باتیں سن کر پریشان سی ہو گئی تھی وہ اپنی مرضی کی بات سننا چاہ رہی تھی جب میں نے اُس کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی تو فون بند کر دیا میرے لیے سوچ کی بہت ساری لکیریں چھوڑ گئی کہ یہ ہمارے معاشرے کا سلگتا ہوا سچ ہے کہ کرپشن رشوت اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھانا ہماری ہڈیوں تک پہنچ چکا ہے آپ معاشرے کا کوئی بھی بااثر انسان دیکھ لیں چاہیے وہ سرکاری آفیسر یا کسی طاقت ور بااثر کا رشتے دار وہ اپنی طاقت کا غلط فائدہ اٹھاتا ہے کرپشن رشوت کا پھیلاؤ اِس قدر بڑھ چکا ہے کہ مذہب اِس سے نہیں بچا رشوت کے طور پر حج کرانا معمول بن گیا ہے جیسے ہی بقرہ عید قریب آتی ہے عید کے جانوروں کی رشوت شروع ہو جا تی ہے جانوروں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے چالاک لوگ عید کے موقع پر ایک لسٹ تیار کرتے ہیں جس میں سرکاری افسران اور بااثر لوگوں کے نام شامل ہو تے ہیں اب ناموں کے قد و قامت کے حساب سے لاکھوں روپے کی عیدیاں بھیجی جاتی ہیں بیگمات کو زیورات اور قیمتی لباس یا شاپنگ کرائی جاتی ہے بااثر لوگوں کو اُن کی مرضی کے عید کے جانور تحفے میں دئیے جاتے ہیں یا پھر جانوروں کے لیے لاکھوں روپے لفافوں میں بند کر کے پیش کئے جاتے ہیں لینے دینے والے دونوں اِس کو کامیاب کلچرل سرگرمی کہتے ہیں اپنی ذہانت آرٹ کا میابی کی علامت کہتے ہیں یعنی مذہبی تہوار پر بھی رشوت کی چادر ڈال کر اپنی آخرت خراب کر لی ہے اور تو اور مذہبی علمبردار بھی اِس کی لپیٹ میں آچکے ہیں مختلف مساجد مدرسوں اور روحانی خانقاہوں میں عقیدت مند غریبوں کے لیے بہت سارے پیسے یا جانورجمع کرا تے ہیں تاکہ وہ لوگ جو عید کی استطاعت نہیں رکھتے ان تک بقرہ عید کی خوشیاں پہنچائی جا سکیں اب ایسی مقدس جگہوں پر قابض لوگ اپنے من پسند لوگوں کو ان کی پسند کے جانور تحفے میں پیش کرتے ہیں جب مذہب کے سر خیل اِسی حرکتوں پر اُتر آئیں گے تو عام لوگوں کا کیا حال ہو گا میں نے ذاتی طو رپر یہ مشاہدہ کیا ہے جب ایک عالم دین نے مجھے کہا اگر آپ پسند فرمائیں تو آ پ کو آپ کی مرضی کا جانور پیش کیا جاسکتا ہے اور تو اور ایک روحانی درگاہ کے سجادہ نشین نے پچھلی بار مجھے بہت سارے قیمتی صحت مند جانوروں کی تصویریں بھیجیں کہ جناب آپ کونسا جانور پسند فرمائیں گے تو میں نے معذرت کر تے ہوئے کہا یہ سعادت صرف آپ ہی حاصل کریں خدا کے لیے مذہبی عبادات کو تو خالص رہنے دیں نہیں تو خدا کا جلال حرکت میں آئے گا سب کچھ ملیا میٹ ہو جائے گا۔

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
Share
Share
Share