” لالی چودھری “ کے افسانوں میں عورتوں کے مسائل اور اس کا حل :- شیخ بدرالدین

Share

” لالی چودھری “ کے افسانوں میں
عورتوں کے مسائل اور اس کا حل

شیخ بدرالدین
MOB-7382752615

ہندوستا ن اور پاکستان میں پیدا ہوکر مغربی ممالک یعنی اردو کی نئی بستیوں سے تعلق رکھنے والوں میں سے ایک نام نعیم اصغر عرف (لالی چودھری)کا بھی شامل ہے۔ امریکہ کی خواتین افسانہ نگارمیں پہلا نام لالی چودھری کا آتا ہے۔انکے علاوہ شکیلہ رفیق،فرحت پروین،عذرانقوی اور شا ئستہ وغیرہ نے بھی اپنی شناخت قائم چکے ہیں۔

لالی چودھری کا شمار اُن ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کم لکھامگر اچھالکھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تیسری کہانی ”گڈو“کے متعلق ممتاز شاعر،ادیب اور نقاد کیول سوری لکھتے ہیں کہ :۔
”اتنی پرفیکٹ ٹکنیک اور صرف تیسری کہانی؟اب تک خاموش کیوں تھیں“۔
اور اس کے جوب میں لالی چودھری لکھتی ہیں:۔
”خاموش اس لیے تھیں کہ میں رائٹر نہں ہوں آگ لینے گئے اور پیغمبری مل گئی کے واقعے نے ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرایا ہے اور ساحر سے عقیدت نے مجھے بھی پل دو پل کی را ئیٹر بنا دیاہے“۔
واقعہ یہ ہے کہ لالی چودھری کو شاعروں میں غالب کے بعد ساحر لدھیانوی پسند ہیں۔کسی نے ساحر کی نظم”تاج محل“ ایک مضمون ”پاکستان لنک“میں لکھا تھا۔اور اس مضمون کے ردعمل پر انھوں نے سب سے پہلے ایک آرٹیکل لکھا تھا۔اسی کے بعد یہ ادبی دنیا میں قدم رکھی۔
۱۴ اگست ۱۹۵۰ ء میں لائل پور (موجودہ فیصل آباد)پاکستان میں پیدا ہوئی۔شادی کے بعد بر طانیہ اور کچھ عرصہ بر طانیہ میں گزار نے کے بعد لالی اور ان کے شوہر ۲۷۹۱ ء میں لاس اینجلس آگئے تھے اور اب وہی مقیم ہیں۔ان کے ایک بڑی بیٹی اور دو بیٹے بھی ہیں۔
لالی چودھری کی پہلی کہانی ”زنجیر“ جس پر ملحد،کافر اور سلمان رشدی جیسے ناموں سے پکا را گیا۔اور یہی کہانی ہندوستان کے مشہور رسالہ”سب رس“ ڈسمبر ۲۰۱۰ میں ”گڈوائف سینڈروم“ کے نام سے شائع ہوئی۔کہانی ”زنجیر“ کے متعلق لالی چودھری لکھتی ہیں:۔
”کہانی زنجیر“ کی کردار مجھے ایک پارٹی میں ملی تھی۔وہ سگریٹ کے کش لگا تے اور ہاروی وال بینگر نوش کرتے بظاہر کسی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔لیکن اس کے چہرے پہ چھائی ہوئی آثار قدیمہ کے کھنڈر رات کی ویرانی اور آنکھوں میں عہدعتیق کے مطلوب پیغمبر کی سی بے بسی اور اس کے شوہر کا behaviourاس بات کاغماز تھا کہ یہ پیاس اس کے اپنے اعصاب کی پکار نہیں بلکہ خاوند کی اطاعت گزا ری کا نتیجہ تھی۔ سو اس کے ہونٹوں سے ان کہے لفظ مجتمع کر کے میں نے ”الر جال قوا مون علی النساء“کے پیش نظر اسلام میں عورت کے دوسرے درجے کی مخلوق ہونے کی کہانی لکھ دی ۔ ۔ ۔ اور اس کی سزایہ ملی کے دو ماہ تک”زنجیر“پہ لے د ے ہو ئی اور مجھے ملحد،کافر اور سکینڈ سلمان رشدی کے ناموں سے پکارا گیا“۔
اس کے بعد ان کی کہانی کا سلسلہ شروع ہوا اور تیسری کہانی ”گڈو“ نام سے لکھی اور اس کہانی سے لالی چودھری کو کافی شہرت ملی۔”گڈو“ دیہاتی معاشرت میں پائے جانے والے جبر اور جا گیر دارانہ نظام میں عورت کا استحصال کی عکا سی کرتا ہے۔ افسانے میں عورت کی مظلو میت کو بٹر ے عالم ناک انداز میں پیش کیا گیا ہے۔انور سدید ”گڈو“کے بارے میں لکھتے ہیں۔
”لالی چودھری کا ا فسانہ گڈو دیہاتی معاشرے کی اس تلخ حقیقت کا ہی آینہ دار ہے۔ جاگیر دار کی عزت جو خود ساختہ اور خود ترا شیدہ ہے،اتنی اہم ہے کی اس کی بھیٹ ”گڈو“ دو شیزہ چڑ ھا دی جاتی ہے۔“
لالی چودھری کا کہانی پیش کر نے کا انداز بالکل جدا گانہ ہے۔ کہیں کبھی کہا نی کردار کی زبانی بیان ہوتی ہے، کبھی ہمہ داں راوی کہانی کا رقصہ بیان کر نے لگتا ہے کی درمیان میں کہانی کا کوئی کردار کہانی کے سرے کو تھام لیتا ہے اور اپنے مشاہدات، تجربات،و تاثرات بیان کرنے لگتا ہے جبکہ کہانی کے عمل میں وہ خودبھی شریک رہتا ہے۔اس کی مشال کہانی ”گڈو“ ہے۔ اس کا کردار ”نا ئلہ“ ہے۔ بیا نیہ کے ساتھ وہ جا بجا مکا لموں کو فطری انداز میں جوڑ تی جاتی ہے۔
لا لی چودھری کی کہانی فطری طور پر شروع ہوتی ہے۔ان کی کہانی میں آورد کی نہیں آمد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔لالی بات کو پیچ دے کر گھما پھرا کر پیش نہیں کر تی ہیں بلکہ سیدھے سادے انداز میں بیان کر تی ہیں۔ اس سلسلے میں شمس الر حمن فاروقی لکھتے ہیں:۔
”وہ اپنے کرداروں کی قاضی نہیں ان کی واقعہ نویس ہے“‘
وہ اکثر کہا نیوں کا فیصلہ قاری پر چھوڑ تی ہیں۔خود کوئی فیصلہ صادر نہیں کر تیں۔ ان کی زبان میں کہیں رکاوٹ نہیں ہے۔ پڑھنے والا قاری مسلسل پڑھتا جاتاہے اور کہانی کا اثر آخر تک بر قرار رہتا ہے۔
شمیم حنفی لکھتے ہیں:۔
”میرے لیے اس سلسلہ میں پہلا اور شا ید سب سے قیمتی تجربہ یہ رہا کہ تمام کہا نیاں میں تقر یبا مسلسل پڑھیں،محض ایک داخلی تر تیب کے باعث، اشتیاق اور تجس کی جو کیفیت پہلی کہا نی سے پیدا ہوئی تھی وہ آخر تک باقی رہی۔“
لالی چودھری کے افسانوں میں تانیثی رجحان بھی پایاجا تا یے۔یعنی عورت پر ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ ان کا افسانہ”حد چاہیئے سزامیں“ لکھتی ہیں کہ عورت کوئی ربر کی گڑیا نہیں ہے۔ اس کے پاس ایک حساس دل ہے اور ہمت بھی، وہ سماج کے ٹھیکیداروں سے سوال کر تی ہے کہ تم ہمیں (عورتوں کو) کتنی سزادوگے،کتنا استحصال کرو گے،کوئی حد بھی ہے”حد چاہیں سزامیں“
”حد چاہیے سزا میں ۔ ۔ ۔ “ لالی چودھری کا پہلا افسانوں مجموعہ ہے۔ جو ستمبر ۲۰۰۲ ء میں مکتبہ شعر و حکومت حیدرآباد سے شائع ہوا۔جس میں ۱۲ افسانے شامل ہیں:۔
۱۔ٖگڈو،۲۔شناخت،۳۔poeme،ت۴۔حد چاہیے سزا میں،۵۔خواب راستے عذاب منزل،۶۔سر گوشی،۷۔شب گزیدہ محر،۸۔رسم من تو،۹۔تعویذِ جاں، ۱۰۔ ایک لفظ کی کشتنی، ۱۱۔وقتِ سفر، ۱۲۔ نقشِ فریادی۔
اور اس کا پیش لفظ اردو کے مشہور ناقد شمیم حنفی نے لکھا ہے۔اور اس کا پہلا جملہ ہی کافی ہے اس مجموع کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے۔
”یہ کہانیاں میں نے شک کے ساتھ شروع کی اور انھیں حیرانی کے ایک گہرے احساس کے ساتھ ختم کیا“
عام طور پر عورتے مرد کی بے وفائی کے صدمے کو جھیل جاتی ہیں۔رو دھو کر اس گھڑی کا انتظار کرتی ہیں کہ بیل پھر لوٹ آئے گا اور کھونٹے سے بندھے گا۔جاگیر دارانہ سماج میں تو رنگین مزاج مردوں کی طوائف میں دلچسپاں عام بات تھی اور ملاز ماؤں کے ساتھ رات گزاری کرنا وغیرہ کو عورت سب کلیجے پر پتھر رکھ کر بر داشت کرلے تی تھی۔اس وقت عورت خود کو مرد سے کمتر سمجھتی تھی اور اس کے رہم و کرم پر زندہ تھی۔ اپنا گھر سلامت رکھنے یا بچوں کی خاطر وہ بہت سی قر بانیاں دینے کی عادی تھی۔
لیکن دور جدید میں عورت جو تعلیم یافتہ ہے خود کو مرد کے برابر سمجھتی ہے اور اپنے پیروں پر آپ کھڑی ہو سکتی ہے۔ وہ مرد کی بے وفائی کوبر داشت نہیں کر سکتی اس سے طلاق لے لیتی ہے،آزاد ہو جاتی ہے،ملازمت کرتی ہے ا ور اپنے بچوں کی آپ پر ورش کرتی ہے۔ لالی چودھری نے اپنا افسانہ ”حدچاہیے سزامیں“ بڑے خوبصورت انداز میں اس کا ذکر کیا ہے کہ جب بیلا کو ثاقب چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو وہ اپنے دوست نرگس سے بات کر تی ہے اور پاکستان واپسی لوٹنے سے بھی ڈرتی ہے۔ پورے پاکستانی کمیونٹی میں یہ بات آگ کی طرح پھیل جائے گی کے ثا قب بیلا کو چھوڑ دیا تو وہ خود کو ان کے حالات سے نمٹنے کے لئے تیار کرتی ہیں۔
”اللہ نے مجھے بھی مردوں کی طرح دو ہاتھ اور دو پاؤں دئے ہیں،اور میری ذہنی صلاحیت اگر ان سے برتر نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں۔میں کما سکتی ہوں۔“ ”عورت کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی اور مرد کے بغیر گھر….“ یہ سب مفروضے عورتوں کی ذہنی صلاحیت سلب کرنے کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ میں دکھاؤں گی کہ میرے کمائی میں کتنی بر کت ہے۔“
اس کہانی کے ذریعے لالی چودھری یہ بتا نا چاہتی ہیں کہ عورت بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ آج کی ترقی یافتہ دور میں عورت،مرد کے تمام ظلم وستم کو برداشت نہیں کر تی ہے۔مرد کے بغیر بھی جیاجاسکتا ہے۔ عصمت چغتائی کا قول ہے کہ:۔
”وہ عورتیں جوروٹی کپڑے کے لیے اپنے شوہر کی حرام کاریاں اور ذلتیں بر داشت کرتی ہیں،بیشواہی جیسی ہوتی ہیں کہ وہ پیٹ کی خاطر سودا کرتی ہیں۔“
لالی چودھری اپنی کہانیوں کو بڑی فنکارا نہ مہارت سے پیش کرتی ہیں۔کہانی پن کا فطری ہونا اور زبان کا سید ھا سادہ استعمال ان کے یہاں جابجا نظر آتا ہے۔اس کا اظہار ما بعد جدید ناقدنظام صدیقی ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
”کہانی میں جو مجھے زیادہ hunt کیا وہ یہ ہے کہ عصمت چغتائی اور قرہ العین حیدر کی جو نسوانی فکشن ماڈل تھا زبان کا،میں سمجھتا ہوں ایک لالی چودھری نے اس کوبہت آگے بڑھا یا ہے اور دوسری ذیکہ مشہدی نے جوعصمت چغتائی کا نسوانی ماڈل ہے اس کو بہت آگے بڑھایا۔“
لالی چودھری کے انداز بیان کی طرف وارث علوی نے بھی اشارہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں۔
”میرے نزدیک نئے افسانہ نگار وں میں صرف دو ایسے آئے ہیں، جھنوں نے سب سے پہلے عصمت چغتائی اور قرہ العین حیدر کی طرح اپنی زبان کا لوہا منوا یا۔ ایک ذکیہ مشہدی ہیں،دوسری لالی چودھری۔“
(لالی چودھری ایک غیر معمولی فنکار) وارث علوی بحوالہ گریزیا۔ص۔۲
افسانہ ”گڈ ّو“ میں لالی چودھری نے بڑے ہی خوبصرت انداز میں جاگیر دار طبقے کے منافقت کو پیش کیا ہے۔ راؤ اجمل اپنے چھوٹے بھائی راؤ اکمل کے بیٹے ”تصور“ کو انکے گھر میں کا م کرنے والی بشیر کی بیوی عمری جب بچے کو روتے دیکھ کر دودھ پلانے لگتی ہیں تو راؤ اجمل چھاتی کاٹ کر کتّوں کے سامنے پھینک نے کی بات کرتا ہے، اور اسی کی تیرہ سال کی بیٹی ”گڈّو“ سے۔۔۔ منافقت کی بھی حد ہوتی ہے۔“
”تصور کا روتے روتے بُرا حال تھا۔عمری جو ان کے مویشیوں کا گوبر اٹھاتی تھی بہت دیر تک ادھر سے ادھر سائے کی طرح منڈلاتی پھری۔ جب تصور کا بلکنا نہ تھما تواس کی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ وہ اسے گود میں لے کر پیڑھی پہ بیٹھ گئی اور ابھی اپنا کرتا اٹھا کر دودھ تصور کے منھ سے لگایا ہی تھا کہ راؤ اجمل خاں ادھر آنکلے انھوں نے تصور کو چیل کی طرح جھپٹ لیا۔
”ذلیل حرام خور تیری یہ مجال کہ مسلن ہو کر میرے بھتیجے کو دودھ پلائے میں تیری چھاتیاں کاٹ کر کتوں کے آگے پھینک دوں گا“ یہ کہتے ہوئے وہ اس کے خاوند کو آواز دینے لگے۔
”بشیر اس بدذات عورت کو یہاں سے لے جاؤ“
بشیر نے آتے ہی نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ لاتوں اور گھونسوں سے عمری کو نیلو نیل کردیا۔ تیری ماں
دی۔۔۔“
مگر جب اس کی تیرہ سالا بیٹی ”گڈّو“ جب پیر دبانے جاتی ہے تو وہ عیاش پرشت جاگیر دار کا شکار ہوجاتی ہے۔جب نائلہ اس کی بھتیجی”گڈّو“ سے پوچھتی ہے۔ یہ سب کیسے ہو؟ تو ”گڈّو“ کہتی ہے۔۔
”باجی آپ کیسی باتیں کرتی ہیں میں کمی کمین لڑکی اور وہ لمبڑدار“۔
باجی پچھلے سال کپاس کی چنائی کے دنوں میں صدرو بیمار پڑ گیا تو بی بی لمبڑدارنی نے مجھے لمبڑدار جی کے پاؤں دبانے بھیج دیا۔ میرے دبانے سے وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے”گڈّو“ تیرے ہاتھوں میں کوئی ایسی طاقت ہے جو بدن کی ساری تھکاوٹ اور درد چوس لیتی ہے۔اس کے بعد وہ مجھ سے ہی ٹانگیں دبواتے تھے نیائی والے مربعے میں ایک دن میں ان کی ٹانگیں دبارہی تھی کہ وہ مجھ سے پوچھنے لگے۔
”تم نہاتی کس صابن سے ہو؟“
میں نے کہا”سر تو لسی سے دھوتی ہوں ہاتھ پاؤں کبھی دیسی صابن سے کبھی سرسوں کی کھل سے“
نمبردار نے تکیے کے نیچے سے مجھے باشنا والے صابن کی ٹکی دی جس سے آپ نہاتی ہیں اور کہا کہ ساتھ میں جو غسل خانہ ہے وہاں جاکر نہاکر آؤ۔ جب میں نہا کر آئی تو میرے جسم سے بڑی اچھی مشکو آرہی تھی۔ لمبڑدار نے۔۔۔ اس کے آگے وہ کچھ نہ بول سکی اور آنسو اس کے گالوں پہ بہنے لگے۔”تو یہ واقعہ صرف ایک بار ہوا؟ نائلہ کا تجسس بھرا دماغ ماؤف ہوا جارہا تھا۔
”نہیں باجی پھر تو یہ روز کا وطیرہ ہوگیا۔ میں پہلے مشکو والے صابن سے نہاتی پھر۔۔۔“ آنسوؤں شدت سے اس کی آواز رندھ گئی تھی۔

مگر آخر میں لالی چودھری لکھتی ہیں کہ
”گڈّو“ تیرے بچپن کی ساری معصومیت اور تقدس خوش بودار صابن کی جھاگ کے ساتھ نالی میں بہہ گیا۔ تیری عصمت و عفت کی قیمت تو شرعی سوابتیس روپے (شرعی حق مہر) بھی نہ پڑی۔
لالی چودھری نے عورت کے استعمال اور جاگیر داروں کی عیاشی کا پردہ چا ک کیاہے۔آج کے ترقی یافتہ دور میں استحصال کا انداز تبدیل ضرور ہوا ہے۔لیکن استحصال تو ختم نہیں ہواہے۔آج بھی عورت کبھی کسی جاگیر دار کے استحصال کا شکارہوتی ہے توکبھی ترقی یافتہ ملک کی آزاد فضا میں بھی استحصال سے دو چارہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آج کے جدید دور میں اگر عورت چاہے تواستحصال ہونے سے بچ سکتی ہے۔ اگر ”گڈّو“پہلی بار اسکے ساتھ ہوئے ناقابلِ برداشت واقعے کا کسی سے ذکر کرتی تو شاید زمین جائیداد ہتیانے کی سازش کے الزام اور ابارشن جیسے جان لیوا اپریشن کا شکار ہوکر جان نہ گنواتی۔

۔۔۔۔
امدادی مواد:۔
شعر و سخن از گوپی چند نارنگ
سرگوشی از لالی چودھری کے سفر نامے
سب رس، مئی ۳۰۰۲ء
افسانہ ”حد چاہیے سزامیں“ از لالی چودھری
افسانہ ”گڈّو“ از لالی چودھری
لالی چودھری کے سفرنامے، مرتبہ ڈاکٹر رفیعہ سلیم
—–

شیخ بدرالدین

 شعبہ اردو
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ
PIN.202002
MOB-7382752615

Share
Share
Share