اتحادِ ملّت – – – یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا ؟ :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share

اتحادِ ملّت – – – یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا ؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
91+9885210770

اتحادِ ملت ہندوستانی مسلمانوں کا ایک اہم اور سلگتا ہوا موضوع رہا ہے۔ اس عنوان پر ملک کی آ زادی کے بعد سے بے شماربڑی بڑی کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں۔ کئی قائدین قوم اور علماء کرام اتحادِ ملّی پر برسوں سے تقاریر کر رہے ہیں۔ دانشواران ملت نے اپنی تحریروں کے ذریعہ قوم کو متحد ہونے کی دعوت دی۔ ملت کی اہم اور با اثر تنطیموں اور جماعتوں نے مسلسل اتحاد ملت کے لئے کوششیں بھی کیں اور اب بھی ان کی جانب سے اس کا سلسلہ جاری ہے۔ غرض یہ کہ ہر شخص اس کی اہمیت اور افادیت سے بخوبی واقف ہے۔

کسی بھی مسلمان سے آپ سوال کیجئے کہ کیا وہ اتحاد ملت کا آرزو مند ہے یا نہیں؟ اس کا سیدھا اور صاف جواب ہوگا کہ یہ اس کے دل کی تمنا ہے کہ سارے مسلمان متحد ہو جائیں، کوئی یہ نہیں کہے گا کہ مسلمان آپس میں انتشار کا شکار ہو کر ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں۔ جب سارے ہندوستانی مسلمان اتحادِ ملّی کا خواب دیکھ رہے ہیں تو پھر یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر کیوں نہیں ہوا؟ مسلمانوں میں کا مل اتحاد اب بھی ایک سراب بنا ہوا کیوں ہے؟ دشمن کی یلغار کے باوجود ہندوستانی مسلمان خانوں میں بٹے ہوئے کیوں ہیں؟ فروعی اور لا یعنی مسائل میں یہ ملت کیوں گُم ہو کر رہ گئی؟ جب دین اور شریعت پر تابڑ توڑ حملے ہو رہے ہیں ایسے وقت مسلکی اور فقہی عصبیت کے شعلے کون بھڑکا رہا ہے؟ ایک ایسے وقت جب کہ ہندوستانی مسلمانوں پر حالات کے دباؤ نے اضمحلال کی کیفیت طاری کر دی ہے اور وہ مسلسل زوال کی طرف جا رہے ہیں، اگر قوم کے رہبر انہیں اصل دین کی طرف بلانے کے بجائے انہیں تحفظِ مسلک کی طرف دعوت دیں تو کیا اس سے حالات میں مثبت تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اسلام اور مسلمان دشمن طا قتوں نے شروع سے ہی اس بات کی کوشش کی کہ مسلمانوں میں مسلکی اور گروہی اختلافات کو اس حد تک ہَوا دی جائے کہ ایک چنگاری شعلہ بن جائے اور آپس میں مسلمان ٹکرا جائیں۔ چنا چہ کچھ بر سوں سے ہندوتوا طاقتیں مسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کے مشن میں لگی ہوئی ہیں۔ اس کا شعور اور ادراک افسوس کہ مسلمانوں کو نہیں ہے۔ اسی لئے آپس میں لڑنے مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس بے حکمتی اور بے خبری نے ملت کی اجتماعی قوت کو کمزور کر دیا۔ اس کے مظاہر ہر طرف دیکھے جا سکتے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں یہ ملت بچھڑ کر رہ گئی۔ ملت کی تعلیمی پسماندگی، معاشی زبوں حالی اور سیاسی بے وقعتی اور بے وزنی اس کا کھلا ثبوت ہے۔ اس ہمہ جہتی ضعف اور زوال سے نکلنے کی کیا راہیں ہو سکتی ہیں اور ملت میں حقیقی اتحاد کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ اس پر پورے اخلاص کے ساتھ غور و خوص کر کے ملت کے رہنماء کوئی لا ئحہ عمل طے نہیں کر یں گے تو اس وقت تک اتحاد ملت محض ایک نعرہ ہی بن کر رہے گا۔
گزشتہ دنوں دہلی میں ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ شخصیتوں کی دعوت پر اتحاد ملت کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں ملک کی اہم اور مسلمانوں میں اپنا اثر رکھنے والی ملّی اور دینی تنظیموں نے حصہ لیا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اس میں ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں یہ ضروری سمجھا گیا کہ ملت میں اجتمائی یا مشترکہ قیادت کو ابھارا جائے۔ خاص طور پر مشترکہ مسائل کے حل کے لئے متحدہ پلیٹ فارم سے جدوجہد کی جائے۔ مذکورہ کانفرنس میں قردادوں کو منظور کرتے ہوئے ملت کے اکابرین نے ملک کے مسلمانوں کو بھروسہ دلایا کہ ملت کے قائدین اس نازک وقت میں اپنے اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے مسلمانوں کے مشترکہ مسائل کو حل کرنے کے لئے آ گے بڑھیں گے۔
اتحاد ملت کانفرنس کے داعی اور ملک کی مشہور و معروف شخصیت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں اس بات کو تسلیم کیا کہ مسلمانوں میں جو باہمی دوریاں پائی جا تی ہیں وہ محض کوئی اتفاقی بات نہیں ہے بلکہ اسلام دشمن طاقتیں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کو باٹنے کی سازشوں میں زمانہ دراز سے لگی ہوئی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمان اختلافی مسائل میں الجھنے کے بجائے اعتدال کی راہیں تلاش کریں۔ انہوں نے قرآن و سنت کو اتحاد کی مضبوط بنیاد قرار دیا۔ دیگر سارے مقررین جن میں ملک و ملت کی سربرآوردہ شخصیتیں شامل تھیں سب نے اتحاد ملت کو وقت کا اہم تقاضہ قرار دیتے ہوئے بڑی اچھی تجاویز پیش کیں۔ حالیہ عرصہ میں منعقد ہونے والی شاید یہ پہلی کانفرنس تھی جس میں ملک کی بیشتر دینی اور ملّی جماعتوں کے سر براہان نے شرکت کی۔ ان میں مولانا سید محمد رابع ندوی، صدر آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ، مولانا سید محمد ارشد مدنی، صدر جمعیتہ علمائے ہند، مولانا سیدمحمود مدنی، صدر جمعیتہ علمائے ہند(واضح رہے کہ اس وقت جمعیتہ کے دو گروپ ہیں) جناب سید سعادت اللہ حسینی، امیر جماعت اسلامی ہند، مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی، ڈاکٹر منظور عالم (داعی کانفرنس) جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل اور مولانا عبید اللہ خان اعظمی قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ شخصیتیں ہیں جن کی ملت کے لئے خدمات بھی رہی ہیں اورجن کا ملت پر اب بھی اثر ہے۔ اگر ملک و ملت کی یہ ہستیاں خلوصِ دل اور نیت کے ساتھ اتحاد ملت کے نقشہ میں رنگ بھرنے کے لئے اٹھتی ہیں تو بہت جلد اتحاد ملت کے خواب کی عملی تعبیر مل جائے گی۔ لیکن یہ کام ابھی آسان نہیں ہے۔ ایک گروہ اتحاد ملت کی آواز لگاتا ہے تو دوسرا اپنے انداز میں اتحاد کانعرہ بلند کرتا ہے۔ چناچہ اس کانفرنس کے فوری بعد دوسری کانفرنس اسی مقام پر دوسرے دن منعقد ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ملت کی قیادت میں ابھی پورا اتحاد نہیں ہوا ہے۔ اس تفصیل میں گئے بغیر کے دوسرے ہی دن اس نوعیت کی کانفرنس کیوں ہوئی۔ اس معاملے میں کسی بد گمانی کا شکار ہوئے بغیر یہ توقع کر نی چاہئے کہ اس کے داعیان کے پیشِ نظر بھی ملت کا اتحاد عزیز ہے۔ طریقہ کار میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ تیس، پیتیس کروڑ مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت ہو، ایک اچھا خیال ہے لیکن عملی طور پر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے کوشش اس بات کی ہو کہ کم از کم مشترکہ مسائل میں یہ ملت اور اس کی قیادت اتحاد کا ثبوت دے۔ ملک کے موجودہ حالات مسلمانانِ ہند کو یہ لمحہ فکر دے رہے ہیں ان سنگین حالات میں بھی مسلمان متحد نہیں ہوں گے تو کیا صورِ اسرافیل انہیں متحد کر ے گا؟ اس وقت ملت بے شمار اندیشوں اور خدشات کے گھیرے میں اپنی زندگی گزار رہی ہے۔ ہر طرف خوف اور ہراس کا ماحول ہے۔ ماب لنچنگ کے نام پر بے قصور مسلمانوں کی جانیں لی جا رہی ہیں۔ مسلمانوں کو شہریت سے محروم کر نے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ طلاقِ ثلاثہ کے خلاف پارلیمنٹ میں منظور کر لیا گیا ہے۔ جبری تبدیلی مذہب کے نام پر مذہبی آزادی کو ختم کے لئے قانون بنایا جا رہا ہے۔ دو سے زائد بچوں کی پیدائش ممنوع قرار دی جارہی ہے۔ تعلیمی پالیسی کے نام پر ایک خاص نظام تعلیم مسلمانوں پر تھوپا جا رہا ہے۔ مسلم نوجوانوں پر جھوٹے مقدمات دائر کرکے انہیں برسوں جیلوں میں سٹرایا جا رہا ہے۔ تاریخ کو مسخ کر کے مسلم حکمرانوں اور رہنماؤں کے امیج کو بگاڑا جا رہا ہے۔ ملک کا آئین اور قانون ہو تے ہوئے کھلے عام دارالحکومت میں پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کو مارو، کاٹو کے نعرے فرقہ پر ست لگا رہے ہیں۔ یہ سب کارستا نیاں اس لئے کی جا رہی ہیں کہ ہندوستان سے مسلمانوں کی شناخت اور ان کے تشخص کو ختم کر دیا جائے۔ اس طوفانِ بَلا خیز کے بعد بھی مسلمان نہ جاگے اور خوابِ غفلت میں رہے تو خدا جانے مسلمانوں کا انجام کیا ہو گا۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ اتحادِ ملت کن بنیادوں پر ہو۔ ہندوستانی مسلمان کسی ہنگامی مسئلہ کے حل کے لئے اپنے اتحاد کا ثبوت ہمیشہ دیتے رہے۔ اس اتحاد کا بہترین مظاہرہ شاہ بانو مقدمہ کے دوران دیکھا گیا۔ مسلمانوں کے اس بے مثال اتحاد کے سامنے حکومت کو جھکنا پڑا۔ حالیہ عر صہ میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف بھی مسلمان متحد نظر آ ئے۔ لیکن کیا وقتی اتحاد سے مسائل سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ یا ایسا اتحادمسلمانوں کو وہ مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ جب تک مسلمان قرآن و سنت کو اتحاد کی بنیاد نہیں بناتے امت میں حقیقی اور پائیدار اتحاد محض ایک خواب بن کر رہے گا۔۔ قرآن میں مسلمانوں کا جو مقصدِ حیات بتایا گیاہے وہ یہ کہ ” اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو ” (سورہ آل عمران:۳۰۱) ایک اور جگہ قرآ ن میں کہا گیا کہ "اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمہارے اند کمزوری پید ا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی”(سورہ الانفال ۶۴)نبی آخرالزماں ﷺ نے بھی فرما دیا کہ ” میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایک اللہ کی کتاب (قرآن مجید) اور دوسری میری سنت۔ جب تک تم ان دو چیزوں کو تھامے رہوگے کبھی گمراہ نہ ہوگے "لیکن زمانے کے نشیب و فراز کہئے کہ مسلمانوں کی نظروں سے یہ دونوں قیمتی چیزیں اوجھل ہو گئیں۔بھلے سے کسی مسلمان نے اپنی زبان سے قرآن کا انکار نہیں کیا اور نہ سنت کو جھٹلایا لیکن اس کی عملی زندگی قرآنی تعلیمات اور سنت نبویﷺسے خالی ہو تی چلی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امت پگڈنڈیوں میں آج بھی بھٹک رہی ہے۔ رسوم و رواج کو امت نے دین کا درجہ دے رکھا ہے۔ اور اصل دین خرافات کی نذر ہو گیا۔ دین سے امت کی یہ دوری نہ امت کے علماء کو بے چین کر رہی ہے اور نہ قوم کے مصلحین اس بارے میں فکر مند ہیں۔ اس امت کو اسلام کی بنیادی تعلیمات اور دین کی اساسی قدروں کے تحفظ کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا تھا لیکن افسوس کہ ملت کے بعض گروہ ملت میں فروعی اختلافات کو بڑھاوا دے کر قوم میں باہمی جنگ و جدل پیدا کرنا دین کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ ایسے ناہنجار اور مفاد پر ست عناصر کا مسلمان سماجی مقاطعہ کر یں تا کہ مسلمانوں میں اتحاد کی فضاء قائم رہے۔ ملک کے موجودہ سنگین حالات میں مسلکی انتشار ملت کے لئے سّم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملت کا ایک بڑا طبقہ نمازوں سے غافل ہے اور ایسے وقت آمین با لجھراور آ مین با لسّرکو موضوع بحث بنا کر ملت کو لڑنے اور لڑانے کا موقع دیں تو ہم کہاں تک دین کے داعی کہلانے کے مستحق ہیں؟ اللہ تعا لیٰ نے مسلمانوں کو "خیر امت "کے لقب سے نوازا۔ اس منصب کا تقاضا ہے کہ مسلمان، نہ صرف اہلِ ایمان کو اسلام کی طرف بلائیں بلکہ ساری انسانیت کو اس دین حق کی دعوت دیں جو ساری انسانیت کے لئے امن و سلامتی کا ضامن اور ان کی نجات کا ذریعہ ہے۔اس فرضِ منصبی کو چھوڑ کر مسلمان اپنے اپنے پسندیدہ مسلک اور جماعت کے لئے کام کریں گے تو آ نے والے دنوں میں حالات اس سے بھی زیادہ سخت ہو جائیں گے۔ ہمارے ملک کی باطل طاقتیں اپنے دیو مالائی قصوں پر مبنی دھرم کو عام کر نے میں لگی ہوئی ہیں۔ جن کے پاس نہ ایک خدا کا تصور ہے اور نہ کوئی آ سمانی صحیفہ ہے، ایسے لوگ اپنے مشرکانہ عقائد دوسروں پر بزور طاقت تھوپنا چاہتے ہیں۔ ہندتوا کے علمبردار سارے ملک کی عوام کو ہندو بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں دین حق کے علمبردا ر متحد ہو کر توحید کی دعوت لے کر نہ اُٹھیں تو یہ بہت بڑا سانحہ ہوگا۔ امت کا سوادِ اعظم اب بھی ملت میں اتحاد کا خواہاں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اتحاد کی دعوت دینے والے پہلے متحد ہونے کا عملی ثبوت دیں تو ملت کا اتحاد شرمندہ تعبیر ہو کر رہے گا۔ ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین: ورنہ ان بکھرے ہوئے تا روں سے کیا کام بنے (ابوالمجاہد زاہد)
——-

ڈاکٹر اسلام الدیم مجاہد
Share
Share
Share