افغانستان بیرونی تسلّط سے آ زاد :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share

افغانستان بیرونی تسلّط سے آ زاد

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد )
9885210770

افغانستان سے امریکی فوج کا انخلااکیسویں صدی کا وہ نا قابلِ فرمواش واقعہ ہے جس کے دور رس اثرات مستقبل میں عالمی سیاست پر ضرور پڑ نے والے ہیں۔ 31 / اگست 2021تاریخ کا ایک یادگار دن بن گیا۔ افغانستان کی غیور اور حریت پسند قوم نے عصری دور کی ایک سُو پر پاور طاقت کی افواج کو بے نیل و مرام افغانستان کی سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ 31 اگست افغانیوں کے لئے ایک تاریخی دن رہا جب ان کا ملک بیرونی تسلّط سے مکمل آ زاد ہو گیا۔

دنیا کے نقشے پر اب افغانستان ایک آ زاد اور مقتدر ملک کی حیثیت سے جا نا جا ئے گا۔ سامراجی طاقتوں سے 20سال کی زبردست مزاحمت کے بعد افغانستان میں اب آزادی کا سورج طلوع ہوا ہے۔ دنیا حیران ہے کہ آخر طالبان نے اتنی آ سانی سے افغانستان کو کیسے فتح کر لیا۔ گزشتہ مہینہ کی 15/ تاریخ کو جب طا لبان نے افغانستان کے دارلحکومت کابل پر قبضہ کرلیا تھا، یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے اس قبضہ کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی چھڑ جا ئے گی۔ ملک میں قتل و خون کا بازار گرم ہوگا۔ لیکن یہ سارے خدشات اور پیش گوئیاں غلط ثابت ہوگئیں۔ افغانی عوام نے طالبان کو خوش آ مدید کہتے ہوئے استقبال کیا۔ حتی کے افغانی فوج بھی طالبان کے ساتھ ہو گئی۔ اس طرح اپنوں کا خون بہائے بغیر طالبان نے افغانستان کی باگ ڈور سنبھال لی۔ 15/ اگست 2021کو ملی اس غیر معمولی کا میابی کے بعد طالبان نے اپنے آ پ کو دنیا سے منوانے کے لئے بڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے اعلانات کئے جس کی دنیا کے سیاست دانوں کو توقع نہیں تھی۔ اپنی کامیابی کے تیسرے ہی دن 17/ اگست کو پہلی مرتبہ منظر عام پر آ تے ہوئے طالبان کے ترجمان ذ بیح اللہ مجا ہد نے کابل میں پریس کانفرنس کے دوران جن باتوں کو بیان کیا اس کی ساری تفصیلات میڈیا میں آچکی ہیں۔ اس پریس کانفرنس کے اہم نکات یہ تھے کہ طا لبان نے اپنی کامیابی کے بعد عام معافی کا اعلان کر دیا۔ کسی سے کوئی بدلہ یا انتقام لینے کی بات نہیں کی گئی۔ خواتین کو تمام شرعی حقوق دینے کا وعدہ کیا گیا۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ افغان سر زمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہو گی۔ غیر ملکی شہریوں اور سفارت خانوں کا تحفظ کیا جائے گااور تمام ممالک سے خوشگوار تعلقات رکھے جائیں گے۔ طالبان کے اس واضح موقف کے بعد بھی مغربی میڈیا ایک سازشی تھیوری تیار کر کے طالبان کے خلاف پروپگنڈا کر نے میں اب بھی مصروف ہے۔ افسوس اور المیہ کی بات ہے کہ ہندوستان کا میڈیا بھی حقائق کو جا نے بغیر طالبان کی اندھی دشمنی میں اپنا سارا زور لگا رہا ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ طالبان کو ان کی آ ئندہ کی کارکردگی کی بنیاد پر پرکھا جا ئے۔ یہ دیکھا جائے کہ انہوں نے اپنے ملک کی عوام اور بین الاقوامی برادری سے جو وعدے کئے ہیں کیا وہ اس کے مطابق عمل کر رہے ہیں یا پھر اس کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ان ساری چیزوں کو بالائے طاق رکھ کر میڈیا طالبان کے خلاف گمراہ کن باتیں پھیلانے میں لگا ہوا ہے۔ یہ باور کر ایا جا رہا ہے اب افغانستان شدید قسم کی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ جائے گا، انسانی حقوق کی پامالی ہو گی اور امریکی افواج کے انخلا کے نتیجہ میں افغانستان میں ایک زبردست بحران آ جائے گا۔ طالبان کی جانب سے کئے جا نے والے اعلانات کو اگر مثبت انداز میں لیا جائے تو سارے خدشات اور اندیشوں کو ختم کرنے میں دیر نہیں لگتی لیکن منفی سوچ نے عقل پر ایسے پردے ڈال دئے ہیں کہ افغانستان سے آ نے والی اچھی سے اچھی خبربھی نام نہاد امن کے ٹھیکیداروں کو ہضم نہیں ہو رہی ہے۔
اب جب کہ 31/ اگست کو افغانستان سے امریکہ کا آ خری فوجی دستہ بھی نکل چکا ہے اور پورا افغانستان طالبان کے کنٹرول میں آ چکا ہے۔ امریکی افواج کے انخلا کے چند گھنٹوں بعد کابل انٹر نیشنل ایر پورٹ پر طالبان نے نمازِ شکرانہ کی ادا کی اور پھر اس بات کا اعلان کر دیا گیا کہ ” اسلامی امارات افغانستان "اب ایک آ زاد اور مقتدر ملک ہے۔ افغانستان نے امریکہ کو شکست دے دی ہے۔ اس موقع پر طالبان کے ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ افغانستان باقی دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ ان ساری حقیقتوں کے سامنے آ نے کے بعد بھی یہ سمجھنا کہ افغانستان میں طالبان کو وقتی کا میابی ملی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی اس فتح کو مخالف طالبان طاقتیں یہ کہہ کر مسترد کر رہی ہیں کہ یہ سب امریکہ سے ڈِیل کا نتیجہ ہے۔ امریکہ نے ہی طالبان کے ہاتھوں میں اقتدار دیا ہے اور وہ جب چاہے ان سے اقتدار چھین سکتا ہے۔ ان کی منطق ہے کہ ساڑھے تین لاکھ افغانی فوج نے طالبان کے سامنے کیسے ہتھیار ڈال دئے اور کیسے انہوں نے خود کو طالبان کا دوست قرار دے لیا۔اس بات پر بھی تعجب کا اظہارکیا جارہا ہے کہ ایک سُپر پاور آ خر کیسے بغیر کسی مزاحمت کے طالبان کو افغانستان پر اپنی حکومت بنانے کے لئے رضا مند ہو گیا۔ حالانکہ یہی امریکہ تھا جس نے بیس سال افغانستان پر جنگ مسلط کر دی تھی اور اس جا رحانہ کاروائیوں کو سابق صدر امریکہ جارج ڈ بلیو بُش نے "صلیبی جنگ”سے تعبیر کیا تھا۔طالبان سے بر سر ِ پیکار رہنے کے لئے امریکہ نے کھربوں ڈالرخرچ کر ڈالے۔ یہ سب کچھ کرلینے کے باوجود امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجوں کو کیوں واپس بلالیا۔ یہ سوال اب طالبان سے بعض رکھنے والوں کو پریشان کر رہا ہے۔ اس لئے یہ پروپگنڈا کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہی افغانستان میں اقتدار طالبان کے سپرد کیا گیا۔ اگر اس مفروضے کو قبول بھی کرلیا جائے تو یہاں بھی طالبان کی حکمت ِ عملی کا میاب نظر آ تی ہے۔ دنیا طاقت کے سامنے جھکتی ہے۔ طالبان نے اپنی پُر شکوہ طاقت کا مظاہرہ کر تے ہوئے امریکہ کے قدم افغانستان میں جمنے نہیں دیا۔ ہر سطح پر امریکی افواج کا مقابلہ طالبان نے کیا اور بالاخر طالبان نے اپنی ایک نئی تاریخ رقم کر تے ہوئے امریکہ اور اس کے حواریوں کو افغانستان سے راتوں رات نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اس مرحلے پر افغانیوں کی قربانیوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔ وقت کی ایک بڑی طاقت سے لوہا لینا اور پھر اپنے وطن کو ان کے ناجائز قبضہ سے آ زاد کر انا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ امریکہ کی نگاہیں افغانستان پر ایک لمبے عرصے سے لگی ہوئی تھی۔ اس کی دیرینہ خواہش تھی کہ افغانستان پر امریکہ کا قبضہ دائمی رہے۔ دہشت گردی کے ایک واقعہ کو بنیاد بناکر امریکہ نے اکتوبر 2001میں افغانستان پر جس انداز سے جارحانہ حملے کرکے پورے ملک کو تباہ برباد کر دیا تھا اور وہاں گز شتہ 20سال سے اپنے خونین پنجے گاڑے ہوئے تھا، کسی کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا افغان قوم اس سے پنجہ آ زمائی کر تے ہوئے اسے وہاں سے مار بھگائے گی۔دنیا یہ عجیب منظر بھی دیکھا کہ امریکی طیارے 2001سے کابل میں موجود نیٹو ممالک کی افواج کو نکالنے کے بجائے صرف اپنے فوجیوں کو نکل کر افغانستان نکل گئے۔ یہ بدحواسی کی کیفیت کیوں پیدا ہوئی۔ ظاہر ہے کہ یہ طالبان سے ہبیت کا نتیجہ تھا۔افغان حکومت جو امریکی اورنیٹو اتحادیوں کی چھتر چھایا میں تھی اس اچانک صورت حال سے اس قدر خوف زدہ ہوگئی افغان صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے۔ طالبان کی اس شاندار کامیابی میں دوسرے ملکوں اور خاص طور پر استعماری طاقتوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے۔ افغانیوں نے ثابت کر دیا کہ کوئی بھی طاقت زیادہ عرصہ تک کسی پر بھی اپنی طاقت کا دھونس نہیں جماسکتی۔ اس تاریخی کا میابی نے ان ممالک کی عوام کا حو صلہ بڑھایا ہے جو آ ج بھی بیرونی طاقتوں کے شکنجہ میں ہیں
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد اس جنگ زدہ ملک کی تعمیرِ نَو میں حصہ لینے کے لئے دنیا کے مختلف ممالک کو آ گے آنا چاہئے تھا۔ لیکن اس کے بر خلاف طالبان کے خلاف بیان بازی سے کام لیا جا رہا ہے۔ یہ باور کر ایا جا رہا ہے کہ اب افغانستان میں جنگ کے بادل منڈلا تے رہیں گے۔ یہاں پھر ایک بار شدید خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ یہ خدشات ان عناصر کی جانب سے ظاہر کئے جا رہے ہیں جو کسی بھی حال میں طالبان کو افغانستان میں بر سرِ اقتدار آ تے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن ان کے سارے اندیشے اور پیش گوئیاں غلط ثابت ہو گئیں۔ دنیا نے کھلی آ نکھوں سے دیکھ لیا کہ کس شرمناک انداز میں امریکی فوج کو اپنا بستر بوریا افغانستان سے لپیٹنا پڑا۔ طا لبان کی یہ شاندار فتح ان کی بے مثال قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ افغانیوں کی اگر صرف حالیہ تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آ تی ہے کہ گز شتہ نصف صدی سے یہ قوم اپنے وطن کو بیرونی طاقتوں سے آ زاد کرانے کے لئے مسلسل ان سے بر سرِ پیکار رہی ہے۔ 1979میں اُ س وقت کی سوپر پاور طاقت سویت یونین نے افغانستان پر فوج کشی کر کے اس پر قبضہ کرنے کی پوری کوشش کی۔ کیمونسٹوں نے افغانیوں پر ظلم کے وہ پہاڑ توڑے کے اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ لیکن افغانیوں نے سویت یونین کے خلاف اپنی پنجہ آ زمائی میں کوئی کمی آ نے نہ دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سویت یونین کو افغانستان سے اپنی شکست و ریخت تسلیم کر تے ہوئے نکلنا پڑا۔ 1991میں یو ایس ایس آر کے بکھرجا نے کے بعد اس کی عالمی دادا گیری بھی ختم ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ افغا نستان پر حملے کے نتیجہ میں یو ایس ایس آر ٹوٹ گیا۔ امریکہ نے سویت یونین کی اس تباہی سے کوئی سبق نہیں لیا۔ 2001میں نائن الیون کے امریکہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ کو بنیاد بنا کر امریکہ نے افغانستان پر ہّلہ بول دیا۔ اس کے لئے یہ جواز تراشا گیا کہ اس حملے کے ذ مہ دار القاعدہ اور اسامہ بن لادن ہیں۔ ان بیس سالوں کے دوران افغانستان میں امریکہ نے جو تباہی مچائی وہ تاریخ میں درج ہو گئی ہے۔ دو لاکھ سے زیادہ افغان شہری امریکی فوج کا نشانہ بنے۔ ہزاروں باشندوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ انسانی حقوق کا نعرہ لگانے والوں نے افغانستان کی آزادی کے لئے جد وجہد کر نے والوں کو نا قابل بیان جسمانی اور ذہنی اذیتیں دیں۔ مظالم کی اس انتہا کے باوجود افغانیوں میں آزادی کا جذ بہ سرد نہیں پڑا۔ وہ سامراجی طاقت کے خلاف ڈٹے رہے اور یہ ثابت کیا کہ انہیں غلام اور محکوم بنانا آ سان نہیں ہے۔ امریکہ نے اپنی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کرکے افغانیوں کواپنے زیرِ اثر لانے کے مختلف حربے اختیار کئے۔ اپنی عسکری طاقت کے بَل بوتے پر امریکہ افغانستان کو اپنی ایک کالونی میں تبدیل کر نے کے منصوبے بنا تا رہا۔لیکن طالبان نے ان کی ہر سازش کو ناکام کر تے ہوئے اپنی قوم کی حمیّت کو زندہ رکھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ امریکہ کو بیس سال بعد افغانستان سے ندامت اور شرمندگی کے ساتھ واپس ہونا پڑا۔ افغانستان کی تاریخ معرکوں سے بھری پڑی ہے۔وہاں کسی بھی بیرونی طاقت کو مستقل اقتدار حاصل نہیں ہوا۔ تاریخ میں افغانستان کو "سلطنتوں کا قبرستان "(Graveyard of Empires) کہا جاتا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں افغانیوں نے بڑی بڑی سلطنتوں کو خاک چٹوادی ہے۔ اب پھر ایک بار افغانیوں نے اکیسویں صدی میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ افغانستان میں آ ئے ہوئے پرامن انقلاب کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھا جائے۔آنے والا وقت بتائے گا کہ طالبان کس حد تک اپنے وعدوں کو پورا کر تے ہیں۔ ان کے ماضی کو دہرا کر دنیا کو گمراہ کرنا یہ اخلاقی دیوالیہ پن کی نشانی ہے۔ اس وقت استعماری طاقتیں اور ان کے حواری یہ کام کر کے بڑے خوش ہو رہے ہیں لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔
—–

ڈاکٹر اسلام الدیم مجاہد

Share
Share
Share