مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share

مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آ شیانوں میں

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
91+9885210770

اُتر پردیش میں سیاسی ماحول کو گرمانے کا موسم آ گیا۔ بی جے پی دوسری مر تبہ اقتدار کو ہتھیانے کے لئے فرقہ وارانہ ایجنڈے کا بھرپور استعمال کر نے میں لگ گئی۔ ہندو اکثریتی ووٹ کو اپنے حق میں ہموار کر نے کے لئے جبری تبدیلی مذہب کا شوشہ چھوڑ کر یوپی میں جارحانہ فرقہ پر ستی کا کھلا مظاہرہ ہندوتوا طاقتوں کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ کل تک اس عنوان پر عام مسلمانوں کو گھیرا جا رہا تھا لیکن اب مسلمانوں کی قدآور مذہبی شخصیتوں کو بھی رات کے اندھیرے میں پکڑ کر انہیں ہراساں کر نے کی بدترین کاروائیاں شروع ہو چکی ہیں۔

تین دن پہلے منگل کی رات مشہور مبلغِ اسلام مولانا کلیم صدیقی کو اتر پردیش کے انسدادِ دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے جس بیدردانہ انداز میں اپنی تحویل میں لیا اور دوسرے دن ان کی گرفتاری کا اعلان کیا گیا اس سے اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ یوگی حکومت کے آ نے والے دنوں میں کیا کچھ خطرناک عزائم ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی اندورن اور بیرونِ ملک ایک نامور عالمِ دین کی حیثیت سے جا نے جا تے ہیں۔ وہ گزشتہ کئی دہوں سے دعوت و تبلیغ کا کام کرتے آ رہے ہیں۔ ان کی ساری دینی سرگرمیوں سے نہ صرف مسلمان اچھی طرح واقف ہیں بلکہ کئی غیر مسلم دانشور اور مذہبی پیشوا بھی ان کے حلقہ احباب میں شامل ہیں۔ وہ ایک ایسے اسلامی اسکالر ہیں جو بین مذاہب مکالمات میں بھی شرکت کر تے رہے ہیں۔ ایک ایسی علمی شخصیت کو جو پُر امن انداز میں اپنے دین کی تبلیغ کر رہی ہو اور جو ملک میں فرقہ وارانہ ہم آ ہنگی کی کوششوں میں لگی ہوئی ہو، اسے مبینہ طور پر مذہب تبدیلی کا ریاکٹ چلانے کا بے بنیاد الزام لگا کر گر فتار کرلینا نہ صرف ایک جرم ہے بلکہ بدترین قسم کا ظلم ہے۔اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہر اُ س شخص کی اخلاقی ذ مہ داری ہے جو ایک زندہ ضمیر رکھتا ہو۔ 65 سالہ مولانا کلیم صدیقی یوپی کے ضلع مظفر پور کے پھلت گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس علاقہ کے سارے ہی لوگ بلا لحاظِ مذہب و ذات مولانا کی عزت کر تے ہیں۔ ان کے جلسوں میں عام پڑھے لکھے افراد کی شرکت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ سیدھے سادھے انداز میں اسلام کی تعلیمات پیش کر تے ہیں۔ مولانا کا اندازِ بیان بڑا اچھوتا ہوتا ہے اس لئے جن کے ذہن اور دل پاک و صاف ہوتے ہیں ان کے دلوں میں مولانا کی باتیں اثر کر جاتی ہیں اور وہ حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے ہیں۔ مولانا نے کبھی لوگوں کو اسلام کی طرف بلانے کے لئے نہ کوئی لالچ دیا اور نہ ان پر کوئی جبر کیا۔ لیکن یوگی حکومت کی تفشیشی ایجنسیوں نے مولانا پر الزام لگا یاکہ وہ غریب خاندانوں اور بے روزگار نوجوانوں کو ما لی امداد کا لالچ دے کر انہیں اپنا مذہب تبد یل کرنے پر مجبورکر تے ہیں۔ یو پی پولیس کے اے ڈی جی پرشانت کمار نے چہارشنبہ کے دن پریس کانفرنس کر تے ہوئے مولانا پر یہ سنگین الزام لگایا کہ مولانا کلیم صدیقی غیرملکی فنڈنگ میں ملوث ہیں۔ انہیں تین کروڑروپئے بیرون ملک سے وصول ہوئے یوپی پولیس کے یہ الزامات کوئی نئے نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی داعی اسلام مولانا عمر گوتم اور مولانا جہانگیر قاسمی کو گرفتار کر تے ہوئے یہی بے بنیاد الزامات لگائے گئے تھے کہ انہوں نے بیرونی ممالک سے پیسہ لیتے ہوئے یہاں کے ہندوؤں کا مذہب تبدیل کیا۔ جبری تبدیلی مذہب کی آ ڑ میں یوگی حکومت مسلمانوں کو ہر طریقہ سے ہراساں کر نے میں لگی ہوئی ہے۔ بالفرضِ محال مولانا کلیم صدیقی کی کوئی مشکوک سرگرمیاں ہوں تب بھی کیا مسلمانوں اور ملک کی ایک قابلِ احترام شخصیت کو اچانک پولیس کے اس طر ح اپنی حراست میں لے سکتی ہے؟
ذرائع ابلاغ کے مطابق مولانا کلیم صدیقی 21 / ستمبر کی شام میرٹھ میں ایک تقریب میں شرکت کے لئے آ ئے تھے اور رات نو بجے عشاء کی نماز کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے وطن پھلت روانہ ہو رہے تھے۔ سفر کے دوران ہی اے ٹی ایس نے انہیں اپنی حراست میں لے لیا۔ ان کے اہل خانہ اور دیگر لوگوں کو بھی اس کی اطلاع نہیں دی گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مولانا بہت بڑے دہشت گرد تھے کہ اس ڈرامائی انداز میں انہیں اس طرح گرفتار کیا گیا۔ کیا صبح تک انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا؟ یا ان کے وطن پہنچنے کے بعد بھی یہ کاروائی کی جا سکتی تھی۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا کہ یوپی پولیس یہ باور کرانا چاہتی تھی کہ مسلمانوں کی بڑی سے بڑی ہستی کی ان کے پاس کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایک خطرناک مجرم کو جس طرح گھیرا ڈال کر اپنی گرفت میں لیا جاتا ہے مبینہ طور پر مولانا کے ساتھ بھی پولیس نے یہی بہیمانہ رویہ اختیار کیا۔ ساری رات ان کے افرادِ خاندان کے علاوہ ان کے چاہنے والے پریشان رہے کہ مولانا میرٹھ سے پھلت آ تے ہوئے کہاں غائب ہو گئے جب کہ میرٹھ سے پھلت کا فا صلہ صرف چالیس، پیتالیس منٹ میں طے کیا جا سکتا ہے۔ مولانا کو دوسرے دن یعنی چہارشنبہ (22 / ستمبر)کو لکھنو اے ٹی ایس اسپیشل کورٹ میں پیش کیا گیا۔ مولانا کی نمائندگی کر نے والے وکلاء کی کا میاب دفاع کے نتیجہ میں اے ٹی ایس کی تمام تر کوشش کے باوجود اسپیشل کورٹ کے جج نے مولانا کلیم صدیقی کو پولیس ریمانڈ دینے سے انکارکر دیا۔ البتہ وہ تادم تحریرعدالتی تحویل میں ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ عدالت ان کی ضمانت منظور کر تی ہے یا پھر پولیس کے مطالبہ کو قبول کر تے ہوئے انہیں پولیس تحویل میں دیتی ہے۔ ان کی گرفتاری کے ساتھ ہی ملک کی ملّی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے پوپی پولیس کی اس حرکت کی شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے اور انہیں فوری رہا کرنے کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ مسلم تنظیموں کے اس ردّعمل کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ اب جمہوری ملک میں پرامن انداز میں بھی مذہب کی تبلیغ پر قدغن لگائی جارہی ہے۔ جولوگ اپنے اس دستوری حق کو استعمال کر تے ہوئے تبلیغِ دین کا کام کر رہے ہیں ان کے خلاف من گھڑت الزامات لگا کر انہیں قانونی شکنجہ میں کسَا جا رہا ہے۔ اس بات کا سب کو یقین ہے کہ مولانا کلیم صدیقی پر جو الزامات کی پوچھاڑکی گئی ہے اّ سے استغاثہ ثابت نہیں کر سکتا۔ مولانا ایک نہ ایک دن عدالت سے باعزت بری ہوں گے۔ لیکن اس دوران وہ جس ذ ہنی اذیت سے دوچار ہوں گے اس کا اندازہ وہ لوگ نہیں کر سکتے جن کو کبھی پولیس یا کسی تفشیسی ایجنسی سے سابقہ نہ پڑا ہو۔ تحقیق کے نام پر جو سوالات کئے جا تے ہیں وہ انتہائی گھٹیا نوعیت کے ہوتے ہیں۔ کسی بے قصور کو گرفتار کر نے سے پولیس کی جو بدنامی ہو تی ہے اس سے بچنے کے لئے بحرحال گرفتارشدہ شخص پر نِت نئے الزامات لگا کر یہ باور کیا جاتا ہے کہ پولیس نے کسی بے گناہ فرد کو حراست میں نہیں لیا ہے۔ مولانا کلیم صدیقی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونے کے پورے آ ثارو قرائن ہیں۔ جج نے انہیں پولیس ریمانڈنہیں کیا لیکن انہیں رہا کر نے کی بھی کوئی اطلاع اس مضمون کے لکھے جانے تک نہیں آ ئی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کسی نہ کسی کیس میں پھسنانے کی پولیس پوری کوشش کرے گی۔ اس موقع پر ہم مولانا کی صحت و عافیت کے ساتھ ان کے لئے دین پر استقامت کی دعا کرتے ہیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ دینِ حق کے علمبردار آزمائشوں میں گھبراتے نہیں اور نہ ان کے قدم ڈگمگاتے ہیں۔ ملک کے فرقہ پرست چاہتے ہیں کہ اس ملک کے مسلمان اپنی دینی شناخت اور ملّی تشخص سے دستبردار ہو کر اس ملک میں ان کی مرضی اور منشاء کے مطابق زندگی گذاریں۔ اسیلئے مسلمانوں کے حو صلے پست کر نے کے لئے یہ حربے استعمال کئے جا ر ہے ہیں۔
اسی سال جون کے اواخر میں یوپی پولیس نے مولانا عمر گوتم اور مولانا جہانگیر قاسمی کو یہ کہتے ہوئے گرفتار کر لیا تھا کہ یہ لوگ ایک ہزار سے زائد لوگوں کا مذہب تبدیل کر تے ہوئے انہیں مسلمان بنا ئے ہیں۔ ان کے خلاف بھی یہی کہانی گھڑی گئی کہ یہ مذہبی مبلغین دھرم پریورتن کرتے ہیں۔ معصوم اور غریب لوگ ان کے بہکاوے میں آجاتے ہیں۔ تین مہینے گزرجا نے کے بعد بھی یہ الزامات عدالت میں ثابت نہیں کئے جا سکے۔ اب مولانا کلیم صدیقی کو بھی ان سے جوڑ کر کہا جا رہا ہے کہ تبدیلی مذہب کایہ ایک بہت بڑا ریاکٹ ہے جسے اے ٹی ایس نے بے نقاب کیا ہے۔ یوگی حکومت جبری تبدیلی مذہب کو ایک بیساکھی کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یوپی حکومت نے گزشتہ چار سالوں کے دوران عوامی فلاح و بہبود کا کوئی کام نہیں کیا ہے۔ خاص طور پر کوویڈ۔19کی قہر سامانی کے بیچ یوگی حکومت عوام کے درمیان ہی نہیں رہی۔ لوگ دواخانوں میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دم توڑتے رہے۔ قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں میں متوفیوں کی لائن لگ گئی۔ مہاجر مزدور ہزاروں میل پیدل چلنے پر مجبور ہو گئے۔ کتنے ہی لوگ راستوں میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ ان ساری زمینی حقیقتوں کایوگی آدتیہ ناتھ سامنا نہیں کر سکتے۔ اس لئے ان کا مریضانہ ذہن اشتعال انگیزی پر اُ تر آیا ہے اور وہ یوپی کو فرقہ وارانہ زہر میں ڈبوکر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنا چاہتے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو نرم نوالہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے آرایس ایس کے سر سنچالک موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ کوئی ہندو اگر مسلمانوں کو ہندوستان سے جانے کے لئے کہتا ہے تو وہ اسے ہندو نہیں مانتے۔ آج جب مولانا کلیم صدیقی کے ساتھ یہ بے رحمانہ سلوک ہو رہا ہے تو پھر آر ایس ایس کے سر براہ کی اخلاقی ذ مہ داری ہے کہ وہ ان کا دفاع کریں۔ اب ان شخصیتوں کا بھی امتحان ہے جن کا ادعا ہے کہ آر ایس ایس کی سوچ بدل گئی ہے اور مسلمانوں سے اب کوئی دشمنی باقی نہیں رہی۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر ایک شریف النفس مذہبی شخصیت کے ساتھ اس قسم کا مجرمانہ برتاؤ کیوں روا رکھا جا رہا ہے۔ دستورِ ہند جب پر امن انداز میں مذہب کی تبلیغ کی اجازت دیتاہے تو پھر اسلام کی تبلیغ و ترویج کرنا جرم کیسے بن گیا؟ دستور سازوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ مذہبی آزادی کے حق کو نہ صرف بیان کیا ہے بلکہ ملک کے ہر شہری کو یہ آزادی دی ہے کہ وہ اپنی پسند کامذہب اختیار کر سکتا ہے اور اس کی تعلیمات کو عام کر سکتا ہے۔ مودی یا یوگی حکومت شہریوں کے اس بنیادی حق کو کیسے چھین سکتی ہے؟ کسی ریاستی حکومت کو کیا اس بات کی اجازت ہے کہ وہ تبدیلی مذہب کے خلاف قانون بنائے؟ ہندتوا طاقتیں اپنے دیومالائی قصوں کو بیان کر کے شہریوں کا دھرم پریورتن کرنے کی ناکام کوشش کر تی ہیں۔ اس کے لئے انتظامیہ بھی ان کا ساتھ دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتا/ کرتی ہے تو اسے جبری تبدیلی مذہب کا نام دے کر پریشان کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر یوپی میں ایسے بیسیوں واقعات دیکھنے میں آ ئے جہاں لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے لیکن پولیس ان پر جبری تبدیلی مذہب کا مقدمہ دائر کر رہی ہے۔ حالات کے اس تناظر میں ہندوستانی مسلمانوں کو حکمت اور بصیرت سے آ گے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ فرقوں اور مسلکوں کے بندھنوں سے باہر نکل کر اخوتِ اسلامی کا کھل کر مظاہرہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ان نازک حالات میں بھی مسلمان خانوں میں بٹے رہیں گے اورایک دوسرے کے مددگار نہیں بنیں گے تو دشمن یکے بعد دیگر ہر ایک کو اپنا نرم چارہ بنالے گا۔ وقت کی پکار یہی ہے کہ
"چھپا کر آ ستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آ شیانوں میں ” (علامہ اقبال ؒ )
—–

ڈاکٹر اسلام الدیم مجاہد

Share
Share
Share