کنول پرشاد کنول کی نظم نگاری

Share

کنول پرشاد کنول

کنول پرشاد کنول کی نظم نگاری

صالحہ شاہین ۔ریسرچ اسکالر۔اورینٹل اردو ۔ جامعہ عثمانیہ

اردو شاعری کو بام عروج پر پہنچانے میں جہاں مسلمانوں کا ہاتھ ہے وہیں ہندوؤں نے بھی اس زبان کو نہ صرف گلے لگایا بلکہ اس زبان میں شاعری کر کے اردو زبان و ادب کو ترقی کی جانب گامژن کیا۔ان شعرائے کرام میں فراق گورکھپوری،تلوک چند محروم،دتا تریہ کیفی،کشن پرشاد کول،ہری چند اختر،پیارے لال رونق،سر ی مکھن داس،سوامی پرشاد اصغر،منشی چنولال دلگیر،تکارام اور کمل پرشاد کمل کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ان شعرائے کرام نے ہندوستان کے تاریخی واقعات،رسم و رواج،مذاہب خواہ وہ ہندوؤں سے متعلق ہو ں یا مسلمانوں سے،کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ،ان میں زیادہ تر ایسے شعرائے کرام بھی ہیں جنھوں نے نعت رسول اللہ صلی علیہ وسلم بھی لکھی ہیں۔انہیں شعرائے کرام میں سے ایک کمل پرشاد کمل بھی ہیں۔ ۱۵ اپریل ۱۹۲۱ ؁ء کو حیدرآباد کے ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے ۔چونکہ حیدرآباد کے حکمراں ادب نواز تھے اسی لیے یہاں کی رعایا پر بھی وہی اثرات مرتب ہوئے۔کمل پرشاد کمل کا گھرانا بھی ایسا ہی تھا جہاں کا ماحول شاعرانہ تھا۔بچپن سے ہی انھوں نے دیکھا کہ ان کے والد اور ان کے دوست احباب اٹھتے بیٹھتے شعرو شاعری کرتے ہیں تو ان میں بھی شعرو شاعری کرنے کا شوق پیدا ہوا۔

فنون لطیفہ کی ایک شاخ شاعری بھی ہے۔دنیا کی ہر زبان میں شاعری کا گراں بہا خزانہ موجود ہے۔اردو زبان و ادب کا دامن بھی اس خزانے سے خالی نہیں ۔اردو زبان و ادب میں صرف حسن و عشق کی ہی باتیں نہیں ہوتی،بلکہ زندگی کے مسائل اور کرب پر بھی بحثیں ملتی ہیں۔مذہبی،تہذیبی و تمدنی،سیاسی،معاشرتی مسائل کی ترجمانی ان شعرائے کرام کی شاعری میں ملتی ہیں۔کنول پرشاد کنول کی شاعری میں بھی ان سب کی آمیزش ملتی ہے۔ان کی شاعری میں اظنے وطن سے والہانہ محبت،دوستوں سے خلوص اور اپنے گھر خاندان سے والہانہ لگاؤ،اور زندگی کے بے شمار مسائل کا انھوں نے جائزہ لیا ہے۔اس کے ساتھ ہی ان کی شاعری میں حسن و عشق کا بھی پرتو دیکھنے کو ملتا ہے۔
کنول کی شاعری انسان دوستی،دکنی تہذیب اور سرزمین دکن سے ان کے والہانہ محبت کی غمازی کرتی ہے۔کنول صاحب کو انسان دوستی سے گہرا لگاو ہے۔ویسے تو انہیں دنیا کے ہر فرد سے حد درجہ انسیت ہے۔لیکن دیار دکن سے ان کی محبت ،محبت کی حد دیوانگی کو چھونے لگتی ہے۔ اس کی اس سے عمدہ مثال کیا ہوگی کہ کنول صاحب کے مجموعے کلام لہو کے چراغ کی سب سے پہلی نظم کا عنوان دیار دکن رکھا ہے۔اس نظم کے مطالعہ سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے دیار دکن کو ایک خوشنما پھولوں کے چمن سے تشبیہ دی ہے۔نظم پیش خدمت ہے۔
نہ پوچھو اس نگر کی کیفیت کیا عام ہوتی ہے
نشیلی اس کی صبحیں بہکی بہکی شام ہوتی ہے
ہر اک ذرے کے دل سے پیار کی گنگا ابلتی ہے
وفا جیسے دکن والوں کے قالب ہی میں پلتی ہے
ہیں ایسے میزباں ،مہماں کو اپنے اپنا گھر دیدیں
ہیں ایسے دوست ہنس کر دوستی میں اپنا سر دیدیں
ہیں کچھ اس کے دوستوں کے جنت کے نظارے
چلیں بس تو یہیں بس جائیں آکر دیوتا سارے
لہو کے چراغ ص ۱۷
حب الوطنی بھی ان کی شاعری کا ایک حصہ رہی ہے۔انھوں نے وقتا فوقتا اس طرح کے اشعار بیان کیے ہیں۔اس کی بھی مثالیں دیکھتے چلیں۔
زمیں تمام ایک ہے،زماں تمام ایک ہے
مکیں تمام ایک ہے،مکاں تمام ایک ہے
خوشا نصیب پیار کا،جہاں تمام ایک ہے
لیے ہوئے نظر نظر میں سر خوشی کا ارمغاں
یہ بزم غیر کا نہیں،اس انجمن کا ذکر ہے
دیار خلد کا نہیں،مرے چمن کا ذکر ہے
مرے عظیم ہند کا ،مرے وطن کا ذکر ہے
وطن جو عظمت بشر کا آج بھی ہے پاسباں
ہند کے نوجوانوں میں خدمت خلق کا جذبہ وہ کوٹ کوٹ کر بھرنا چاھتے تھے۔ان کی ایک مشہور نظم ایک چنوتی نئی جوانی کو میں اسی جذبہ کی کار فرمائی دیکھنے کو ملتی ہے۔کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں
ڈوبتے گھر کو بچاؤ تب جانے ہاں یہ جوہر دکھاؤ تب جانیں
ہے جوانی پہ ناز گر تمکو دیش پر جان لٹاؤ تب جانیں
موت سے بھی کٹھن ہے حرص سے جنگ اسی سے پنجہ لڑاؤ تب جانیں
غم کی بستی میں ر وشنی کرنے اپنے گھر کو جلاؤ تب جانیں
سب ہی آتے ہیں کام اپنوں کے کام غیروں کے آؤ تب جانیں
اس نظم کو پڑھتے وقت بے ساختہ حالی کی نظم کا خیال آتا ہے جس کا موضوع نوجوانوں سے خطاب رکھا ہے۔اس میں بھی انھوں نے نوجوانوں میں حب الوطنی اور دوسروں کے کام آنے کی ترغیب دی گئی ہے۔چونکہ کنول پرشاد کنول بھی نوجوانوں کے ذریعہ اس ملک کی ترقی چاہتے تھے ،اس لیے انھوں نے نوجوانوں کو اس کام کے کرنے کی چنوتی تک دے ڈالی۔
اردو شاعری کا زیادہ تر موضوع عشق و محبت ہی رہا ہے،اور شعرائے کرام نے متفرق طریقوں سے اپنے دل کے جذبات کو ان میں سمونے کی کوشش کی ہے۔کنول پرشاد کنول نے بھی اپنی محبت کو یاد کرتے ہوئے کچھ باتیں قلمبند کردی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جب عشق ہو جاتا ہے تو موت کے آگے بھی محبوب کی وفا رقص کرنے لگتی ہے اور لاکھ پہروں میں بھی کوئی نہ کوئی راستہ اپنے محبوب سے ملنے کا نکل ہی آتا ہے۔اس کی ترجمانی ان کی نظم وہ باتیں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
موت کی چھاؤں میں بھی وہ رقص وفا
لاکھ پہروں میں وہ ملاقاتیں
بارش سنگ میں زباں پہ غزل
اڑتے شعلوں میں رس بھری باتیں
برچھیوں کی انی پہ چلتے جاؤ
عشق کے معجزے کر اماتیں
ہر گھڑی تھرتھراتے ہونٹوں پر
گڑگڑاتی ہوئی مناجاتیں
بھیگی پلکوں پہ پیار کے موتی
حسن کی وہ حسین سوغاتیں
روپ کی چاندنی میں وہ دہکی سیج
کیا ہوئیں زندگی کی وہ راتیں
کنول پرشادکنول اپنے محبوب کی جدائی سے بھی ڈرتے ہیں۔انھوں نے اپنی نظم یوں نہ جاؤ میں اپنے دلی جذبات کو یوں بیان کیا ہے۔
یوں نہ جاوؤ سجل گھٹ کی طرح
من کی آنکھیں ابھی ترستی ہے
کھڑکیاں ،تیرے گھر کی دیواریں
ساتھ میرے کھڑی سسکتی ہے
دیکھ کے لپٹ کے قدموں سے
لان کی پتیاں لرزتی ہیں
یوں نہ جاؤ سجل گھٹ کی طرح
من کی آنکھیں ابھی ترستی ہے
کنول پرشاد نے جس زمانے میں شاعری شروع کی اس وقت ملکی سیاست نئی کروٹیں بدل رہی تھیں۔دوسری علمی جنگ نے شاعر کو بے حد متاثر کیا ۔انھوں نے اس سے متعلق بہت سی نظمیں لکھیں۔آزادی کے پہلے کھل کر اظہار کرنا ایک عام شاعر کے بس کی بات نہیں تھی۔حیدرآباد کے انقلابی شاعر مخدوم محی الدین پر سرکار کی سخت نگرانی تھی اوران کی کچھ نظمیں ضبط کر لی گئیں تھیں۔مخدوم کا ادب اپنے دور کی بلند آواز بنکر ابھرا تھا۔ان کے انقلاب کی آواز بہت تیز توتھی ہی لیکن اس پر کمیونزم کی گہری چھاپ تھی۔کنول صاحب نے نظم عہد حاضر کا ترانہ کہی۔یہ ان کے نوجوانی کے زمانے کی نظم ہے۔اس وقت سیاست بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی تھی۔گاندھی نے انگریزوں کو بھارت چھوڑو کا نعرہ تک دے دیا تھا ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان کا ہر خوددار نوجوان اپنے ہاتھ میں انقلاب کا پرچم اٹھائے ہوئے تھا۔اس نظم کے کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔
میں خالی گیت نہیں سچ کی للکا ر سنانے آیا ہوں
بہری دنیا کو زندگی کی جھنکار سنانے آیا ہوں
اب مرے بس کی بات نہیں ،میں گیت رسیلے لکھ پاؤں
بے فکرے جگ کے کانوں میں امرت کی بوندیں ٹپکاؤں
صدیوں نے اپنے لہوؤں سے جس دن کو تلک لگایا تھا
کیوں چھلک نہ پائی اس دن بھی اوشا کے گالوں پر لالی
جن لوگوں نے یہ رنگ چرا کر اپنے خوابوں کو سجایا ہے
میں آج انھیں کے آنکھوں کی سکھ نیند چرانے آیا ہوں
آزادی کے بعد حیدرآباد کے جو مسلمان پاکستان چلے گئے ۔ان میں قابل لحاظ تعداد کنول صاحب کے جگری دوستوں کی بھی تھی ۔کنول صاحب کے لیے ان کی جدائی آسانی سے سہ لینا ممکن نہ تھا۔اپنے بچھڑے ہوئے دوستوں کی یاد میں بھی انھوں نے بہت سے اشعار کہے ہیں۔ان اشعار سے ہمیں ان کی تکلیف کا اندازہ ہوتا ہے۔
وہ دھول اڑی گھر میں بہار آتے ہی
پھولوں نے بھی گھبرا کے چمن چھو ڑ دیا
ہر شام ہے بے رنگ ، سحر بے نور
جب سے میرے یاروں نے وطن چھوڑ دیا
پاکستان جانے والے اکثر دوست بھی کنول صاحب کے لیے بے چین رہا کرتے تھے۔۱۹۴۹ ؁ء میں کنول صاحب کے دوستوں نے ایک ایسا راستہ نکالا جس سے کنول صاحب سے ملاقات ہو ہی جائے۔انھوں نے پاکستان میں ہونے والے مشاعرے کا دعوت نامہ کنول صاحب کے نام روانہ کردیا اور کنول صاحب کو باربار ٹرنک کال کے ذریعہ یاد بھی دلاتے رہے ۔کراچی جانے سے ایک دن قبل انھوں نے ایک نظم نذر یاران وطن لکھی۔اس شاہکار نظم کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں۔
جسے تم یاد میں اپنی تڑپتا چھوڑ آئے ہو
تمہاری نذر اس بھولے وطن کا نام لایا ہوں
جلی جاتی ہے اجڑی کوکھ کے شعلوں میں جو ہر دم
اسی ارض دکن کا دوستوں پیغام لایا ہوں
قیامت تک نہ دھل پائیں جن کے نقش
وہ حسن صبح لایا ہوں، وہ رنگیں شام لایا ہوں
میں دیکھوں گا کہ اب کن کن سے تم آنکھیں چراؤگے
شب عثمان ساگر، صبح باغ عام لایا ہوں
اٹھاؤ اپنی نظریں، پی سکو تو ان کو پی جاؤ
بھری آنکھوں میں الفت کے چھلکتے جام لایا ہوں
دکن کی مئے بھری بولی کے رنگا رنگ پیالوں میں
میں کالی داس کا رس، بادۂ شام لایا ہوں
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کنول پرشاد کنول کی شاعری میں جہاں حب الوطنی دیکھنے کو ملتی ہیں وہیں انھوں نے سر زمین دکن کی خوبیوں کو اپنی شاعری کا مرکز بنایا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے شعرائے کرام کے مجموعہ کلام کو منظر عام پر لایا جایا تاکہ آج کے ہندو حضرات کو اس بات کا اندازہ ہو کہ یہ کوئی نئی زبان نہیں بلکہ یہ وہ زبان ہے جس زبان میں ان کے مزاہب کے لوگوں نے نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے۔

Share

One thought on “کنول پرشاد کنول کی نظم نگاری”

Comments are closed.

Share
Share