خواجہ شیدا کے مجموعہ کلام’’دیوانِ شیدا ‘‘کی رسمِ اجرا

Share

رسم اجرا

عبد المجید خواجہ شیداؔ کے مجموعہ کلام ’’دیوانِ شیدا ‘‘ کی رسمِ اجرا کی تقریب کا انعقاد

بتاریخ۳۰ /مارچ۲۰۱۵ء ، بروزپیر ، وقت ۳بجے دن ، مرکزی لائبریری ، آڈیٹوریم ،مانو ، میں عبد المجید خواجہ شیداؔ کے مجموعہ کلام ’’دیوانِ شیدا ‘‘کی تقریب رسمِ اجرا کا انعقاد عمل میں آیا۔جلسے کا آغازتالئ قرآن مہتاب عالم کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ڈاکٹر ابوالکلام،صدر شعبہ اردو،مانو نے صدر جلسہ ،مہمان خصوصی،مہمان اعزازی اور مبصرین کا تعارف کرایااورمع حاضرین جلسہ ان کا استقبال کیانیزانہوں نے عبدالمجید شیدا کی شخصیت کے ہمہ جہت پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور کہاکہ وہ بہت اچھے وکیل، ماہر تعلیم، عالم دین ، ذولسان، مجاہد آزادی اور معتبر شاعر تھے۔ان کی شخصیت ہمارے لیے قابل تقلید ہے۔پروفیسر بیگ احساس ،سابق صدر شعبۂ اردو ، یونیورسٹی آف حیدرآبادنے دیوان شیدا پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی شاعرانہ خصوصیات کو مثالوں سے واضح کیااور کہا کہ وہ سیاست کو بزمِ شعر میں لے جانے کے قائل نہیں تھے، ان کے پاس کلاسیکی رنگ تغزل پایا جاتا ہے ۔ان کی شاعری میں روایتی اندازپایاجاتاہے۔

علاوہ ازیں کچھ مضامین میں جدت و ندرت بھی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے مزید کہاکہ شیداؔ نے اپنے مذہبی جذبات کوبڑی خوبصورتی سے شعری پیکر میں ڈھالاہے۔ پروفیسرفاطمہ بیگم پروین، سابق صدر شعبہ اردو ، عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد نے ’’دیوان شیدا ‘‘ پرتبصرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک اچھا انسان ہی اچھا شاعر ہوسکتا ہے ۔عبد المجید خواجہ شیدا کیؔ شخصیت بہترین انسان کا عملی نمونہ رہی ہے۔ان کا سلسلۂ نسب صوفی بزرگ خواجہ عبید اللہ اہراری سے ملتا ہے۔وہ اپنے دل میں ملک وملت کا درد رکھتے تھے۔ ان کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے محترمہ نے کہا کہ انھوں نے واردات قلبی کابیان بھی کیا ہے اور زندگی کے تجربات کو بھی اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔وہ زبان کی سطح پر صوتی آہنگ کا خاص خیال رکھتے ہیں اوران کی شاعری میں محاورات، تشبیہات، استعارات، تلمیحات اور حسن تعلیل وغیرہ کے استعمال میں دبستان لکھنؤ کااثر جھلکتا ہے۔انھوں نے بھی کہا کہ عبد المجید خواجہ شیداؔ نے کچھ انوکھے موضوعات جیسے پہلو ، زانو Body Languageاور Facial Expressions وغیرہ پر شعر کہے ہیں۔انھوں نے سہل ممتنع کو شیداؔ کی شاعری کی سب سے اہم خاصیت قرار دیا۔مہمان اعزازی محترم جناب آر ۔ایچ خواجہ صاحب،سابق سیکریٹری وزراتِ معدنیات اور سیاحت، حکومتِ ہند ، نے اپنی تقریر میں عبد المجید خواجہ شیداؔ کے جذبہ حب الوطنی اور متصوفانہ رنگ کے غیر مطبوعہ اشعار سنائے۔ مہمانِ خصوصی پروفیسر ایم ۔ایچ ۔قریشی، دانشور و معروف جغرافیہ داں ۔ جے۔این۔ یو۔ اورجامعہ ملیہ اسلامیہ میں قائم کردہ عبدالمجید خواجہ چےئر کے پروفیسر نے اپنے خطبے میں عبد المجید خواجہ شیداؔ کی شخصیت و سوانح پر روشنی ڈالی۔جدوجہد آزادی اورہندوستانی مسلمانوں میں تعلیمی شعور بیدار کرنے میں خصوصاً جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام واستحکام میں ان کی شخصی کوششوں اور فیاضیوں نیز ان کے معاصرین محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹر مختار انصاری ک کی خدمات کا تذکرہ کیا۔اور ساتھ ہی انھوں نے کتاب کے مرتب داکٹر شہزاد انجم اور عبد المجید خواجہ چیئر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی کوششوں اورارباب مجاز کا شکریہ ادا کیا۔
پروفیسر خواجہ محمد شاہد، عزت مآب نائب شیخ الجامعہ ‘ مولانا آزاد نیشنل اردو یو نیورسٹی نے عبد المجید خواجہ شیداؔ کے حوالے سے جد وجہد آزادی میں مسلمانوں کے رول پر روشنی ڈالی، علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ وہ دور ہندو مسلم اتحاد کا سنہرا دورتھا اورعبد المجید خواجہ شیداؔ کی زندگی کا روشن باب تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ آج بھی سماج میں اسی طرح کی آپسی سوجھ بوجھ، اتحاد و اتفاق اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے، جس سے عبد المجید خواجہ شیداؔ کی زندگی عبارت تھی۔ ان کی شخصیت ہمارے لیے مشعل راہ ہے، جس سے ہمیں روشنی حاصل کرنی چاہیے۔آخر میں ڈاکٹر مسرت جہاں ، اسسٹنٹ پر وفیسر، شعبۂ اردونے اظہار تشکر پیش کیا اور جناب مصباح الانظر، اسسٹنٹ پر وفیسر، شعبہ اردو نے نظامت کے فرائض انجام دئیے اورشعبۂ اردو ،مانو ،کے طالب علم جرار احمدکی جانب سے یونیورسٹی کے ترانے کی پاور پوئنٹ پریزنٹیشن کی پیشکش کے ساتھ ہی جلسہ اختتام کو پہنچا۔اس موقعہ پر عبدالمجیدخواجہ شیداؔ کے خاندان کے افراد، یونیورسٹی کے رجسٹرار جناب ایس۔ایم۔ رحمت اللہ صاحب، صدر شعبۂ تعلیم و تربیت پروفیسرصدیقی محمد محمود،صدر شعبۂ عربی ڈاکٹر عبد القدوس، لائبریرین ڈاکٹرعباس خان، پروفیسر خالد سعید،پروفیسر نسیم الدین فریس،ڈاکٹر شمس الہدی دریابادی،ڈاکٹر بی۔بی ۔ رضا خاتون ،شعبہ اردو کے علاوہ دیگر شعبوں کے طلبا و ریسرچ اسکالرس بھی موجود تھے۔

جرار احمد
جرار احمد

رپورٹ : جرار احمد

Share
Share
Share