مشاعرہ کی تہذیب اور ہمارے شعرا

Share

مشاعرہ کی تہذیب

شعرسناکربھاگنے والے شعرا !

ایک لطیفہ پرانا سہی مگر موقع کی مناسبت سے دہرایا جاسکتاہے۔ایک دفعہ دو لو گ بھاگ رہے تھے ۔پچھلے والا کہہ رہا تھا کہ ابے رُک بھاگتا کہاں ہے؟ایک صاحب نے پکڑ کر پوچھا’’بھائی صاحب کیوں بھاگ رہے ہو؟‘‘بھاگتے ہوے شخص نے پھولتی سانس پر قابو پاتے ہوے کہنے لگا۔ ’’دیکھیے تو سہی وہ اپنی غزل تو سناگیا اب غزل شنانے کی میری باری آئی تو بھاگنے لگا۔‘‘

مشاعروں کے ماحول کو شعراء کرام ہی پامال کررہے ہیں۔ مشاعروں میں سامعین کی مکمل توجہ شاعروں پر مرکوز ہوتی ہے لیکن شعراء کرام اپنی حقیقت و اہمیت واقدار کو خراب کررہے ہیں جس کی وجہ سے شاعروں کا وقار گررہا ہے۔ دفتر روزنامہ اعتماد ورنگل میں ہندوستان کے مشہور و معروف شعراء جناب جوہر کانپوری، نعیم اختر خادمی، ابرار کاشف ، شبینہ ادیب کے علاوہ مقامی شعراء ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی، اقبال شیدائی ،اقبال درد،صادق احمد صادق نے صحافی و شاعر وحیدگلشن سے ملاقات کی۔ اس موقع پر مختلف موضوعات پر گفتگو کے دوران شعراء نے کہا کہ آج کل مشاعروں کا ماحول شعراء حضرات ہی خراب کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سینئر شعراء کرام بھی وقت مقررہ سے تاخیر سے آتے ہیں اور اپنا کلام سناتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یہ مشاعروں کا ماحول نہیں ہے۔ سامعین شاعروں کی عزت کرتے ہیں کلام کو بغور سماعت کرتے ہیں شاعروں کی اہمیت و اقدار کے ذریعہ کلام کو یاد بھی کرلیتے ہیں داد تحسین سے نوازتے ہیں لیکن شاعر کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مشاعرہ کے اختتام تک مشاعرہ کے شہ نشین پر موجود رہیں۔ لیکن ان دنوں تقریباًشعراء کرام اپنا کلام سناتے ہی شہ نشین سے اتر جاتے ہیں اور اپنا معاوضہ لیکر چلے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے مشاعرہ کی تہذیب نہیں ہے۔ اردوزبان میں ہم شاعری کرتے ہیں شاعروں کے چاہیے کہ وہ مشاعرہ کے اختتام تک شہ نشین پر موجود رہیں دیگر شعراء کی بھی ہمت افزائی پذیرائی کریں لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے۔ چند نامور شعر اور ابھرنے والے شعراء بھی اسی طرح کا طرز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہر شاعر کو چاہیے کہ وقت مقررہ سے قبل پہنچیں اورمشاعرہ گاہ میں اختتام تک رہیں تاکہ سامعین کو لگے کہ شعراء کرام تہذیب و تمدن وثقافت کے عادی ہیں ۔تاخیر سے مشاعرہ گاہ پہنچنے سے منتظمین کو تشویش لگی رہتی ہے اور مشاعرہ پڑھ کرچلے جانے سے تاخیر سے سماعت کرنے والے یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ وہ شاعر شاید نہیں آیا ہوگا۔ الغرض شعراء برادری کو چاہیئے کہ وہ مشاعرہ کی اہمیت برقراررکھیں اورایک شاعر دوسرے شاعری کی پذیرائی کرے مشاعرے کے اختتام تک مشاعرہ گاہ میں رہے۔
رپورٹ:وحید گلشن

Share
Share
Share