مسجد قبۃ الصخرا،فلسطین@ڈاکٹرعزیزاحمدعرسی۔ ورنگل

Share

مسجد صخرا

مسجد قبۃ الصخرا، فلسطین

Dome of Rock, Palestine
(جہاں سے رسول اللہ ﷺ معراج کو تشریف لے گئے)

ڈاکٹرعزیزاحمدعرسی۔ ورنگل
09866971375

گنبد صخرا کو 685 ؁ ء اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے بنوایا تھا۔ یہ سنہرے رنگ کی عظیم الشان گنبد ہے جس کی تعمیر 691ء میں مکمل ہوئی، یہ مسجد نہیں ہے اس میں نماز ادا نہیں کی جاتی اسی لئے اس کو مسجد کی جگہ ’’مشہد ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس خوبصورت ترین عمارت کی تعمیر کی غرض مورخین بتاتے ہیں کہ جب 621 ؁ ء میں اللہ کے رسولﷺ ’’ پہاڑی مقام‘‘ سے معراج کے لئے تشریف لے گئے اس وقت آپ نے الحرم الشریف کامپلکس کے احاطے میں موجود مسجد اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ جس پہاڑی مقام سے براق کے ذریعہ حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ معراج تشریف لے گئے ، اس مقام پر عقیدتاً اور بطور یادگار یہ عمارت یعنی گنبد صخرا بنائی گئی ۔اس مقام کو مقام صخرا بھی کہا جاتا ہے۔یہی مقام یعنی مسجد اقصیٰ کامپلکس مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے اور مقام صخرا بھی احاطہ مسجد اقصیٰ میں واقع ہے، مقام صخرا چٹان ہے جس میں ہلکی سی غار جیسی ساخت بنی ہوئی ہے،جس کی وجہہ سے اس مقام پر چٹانی چھت نظر آتی ہے۔ اس مقام پر کئی نبیوں نے استراحت فرمائی ہے اور اپنا کچھ وقت عبادت میں گذارا ہے۔جب حضرت عمر فاروقؓ نے بیت المقدس فتح کیا تو یہ مقام صخرا کچرے کے نیچے دبا ہوا

تھا جس کو پہچان کر حضرت عمرؓ نے اس کو اپنے عمامے سے صاف کیا اور کعبۃ اللہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا فرمائی۔بیت المقدس کو ابتدا میں حضرت داؤد ؑ نے تعمیر کیا اور انکے بعد ان کے فرزند حضرت سلیمانؑ نے جنوں کی مدد سے اس میں توسیع فرمائی اور اللہ کے حکم سے حضرت موسیٰ ؑ نے سب سے پہلے اس مقام کو قبلہ بنایا۔ مسلمانوں کے لئے اس کی فضیلت کی بڑی وجہہ وہ مقام ہے جہاں معراج تشریف لے جاتے ہوئے رسول اللہﷺ نے اپنے قدم مبارک رکھے تھے اس متبرک مقام کو مرکز مان کر 20میٹر دائروی احاطہ تعمیر کیا گیا جو ہشت پہلو دیواروں پر 35میٹر گنبد کی شکل میں آج بھی موجود ہے، اسی گنبد کو قبۃ الصخرا کہا جاتا ہے اور بعض علما کے مطابق’’ مسجد قبۃ الصخرا ‘‘ کہا جاتا ہے حالانکہ یہاں با ضابطہ نماز کا اہتمام نہیں ہوتا لیکن زائرین اس مقام پر نفل نماز ادا کرتے ہیں جہاں رسول اللہ ﷺ نے کچھ دیرعبادت فرمائی تھی۔ گنبد صخراکی عمارت ا سلامی تعمیرات کی ایک عظیم شہکار ہے ،یہ عمارت دوسری طرز ہائے تعمیرات میں اسلامی تعمیری تہذیب کو سمو کر بنائی گئی قدیم ترین عمارت ہے ،چونکہ اس میں تعمیر کا غالب طرز بازنطینی ہے اسی لئے ہم اس گنبد کو رومن اور Byzantine طرز تعمیر کا بہترین نمونہ قرار دے سکتے ہیں،گنبد کوسنہری ابھری ہوئی لکیریں کئی عدد برابر حصوں میں منقسم کرتی ہیں جس کی وجہہ سے گنبد کی خوبصورتی میں ناقابل بیان اضافہ ہوتا ہے اور دیکھنے والے کا دل بار بار اس جانب کھنچنے لگتا ہے کیونکہ نظارے کے وقت اس کا وجود عقیدت کی فراوانی سے تربتر ہوتا ہے۔عبدالملکؔ بن مروان نے اپنے زمانے میں نہ صرف مسجد اقصی ٰ کی تعمیر و توسیع کا کام کیا بلکہ گنبد صخرا کی تعمیر بھی کروائی ،لیکن یہ عمارت زیادہ دنوں تک اپنی اصل شکل میں محفوظ نہیں رہ سکی کیونکہ مسیحیوں نے ملکؔ بن مروان کی بنائی عمارت کو توڑ کر اس پر صلیب لگادی اور اس کو چرچ بنا دیا ،اس واقعہ کے بعد جب تاریخ نے کروٹ لی اور 1187 ء میں صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کو فتح کیا توگنبد صخرا کی چرچ والی حیثیت ختم کردی گئی اور اس عمارت کی تعمیر و ترمیم بھی انجام دی گئی ، صلاح الدین ایوبیؔ نے ہی مقام صخرا کے چٹانی حصے کی چھت پر ایک دھاتی پرت چڑھوادی تاکہ لوگ برکت کی نیت سے اس چٹان کو توڑ کر اس کے ذرات نہ لے جاسکیں۔ گنبد صخرا لکڑی سے بنی ہوئی ہے جس کو 24 پشتوں سے بنے ایک دائروی حصے پر رکھا گیا ہے ۔ ان پشتوں کو خوبصورت کھمبے سہارا دیئے رہتے ہیں۔یہ بہت خوبصورت عمارت ہے جس کو ہم اسلامی تعمیرات کا نقش اولیں کہہ سکتے ہیں ،یہ عمارت 13 صدیوں سے بغیر کسی بڑی تبدیلی کے روئے زمین پر کھڑی ہوئی اپنی تابانی دکھلا رہی ہے ،اسی لئے ماہرین اس کو تعمیری اعتبار سے تعمیری دنیا کے عجائبات میں شامل کرتے ہیں۔
گنبد صخرا کے اندر بہترین نقاشی کے نمونے موجود ہیں اندرونی جانب درخشاں سطح کی کاشیوں پر سورہ یٰسین لکھوا کر چسپاں کروایا گیا ہے، ان کاشی گروں کی کاریگری کا حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے اوپر ’’الاسرا۔‘‘ بھی لکھوایا گیا،اس گنبد کا قطر زائد از 20میٹر ہے ۔ عمارت کی چھت آٹھ ڈھلوان حصوں سے بنائی گئی ہے جس کے اطراف پیراپیٹ دیوار بنی ہے اس چھت کے درمیان میں اصل گنبد بنی ہوئی ہے جس پر سنہرا رنگ چڑھا ہوا ہے ، اس ہشت پہلو عمارت کے ہر پہلو کی دیوار 60 فٹ لمبی اور 36 فٹ اونچی ہے ، اس طرح جملہ دیواروں کی تعداد آٹھ ہے جن میں چار دیواریں ایسی ہیں جن کے سامنے گول ستونوں پر چھوٹا سا پورٹیکو بنا ہوا ہے اور ان میں اونچے دروازے نصب ہیں۔عمارت کے اندرون مختلف انداز کے سنگ مرمر کے ستون لگے ہیں،پوری عمارت کی بیرونی دیواروں پر چکنی چمکیلی سفالی کاشیوں (Mosaic) کی تختہ بندی موجود ہے اور یہ حصہ چینی کے خوشنما ریزوں کی پچی کاری (Faience)سے سجا ہواہے۔ان دیواروں میں کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں ایسی ہی خوبصورت کھڑکیاں گنبد میں بھی لگی ہوئی ہیں جن کی جملہ تعداد 56 ہوتی ہے یہ کھڑکیاں نوکیلی وضع رکھتی ہیں جس میں خوشنما شیشے لگے ہوئے ہیں اس عمارت میں ترابی پلیٹوں کی استر کاری کا بڑاکام سلطان سلیمان ؔ کے زمانے میں ہوا ،ویسے گنبد صخرا کاآرایشی کام وقتاً فوقتاً چلتا رہتا ہے اور اس کا ترمیمی کام بھی اکثر و بیشتر ہوتا رہتا ہے۔1250 سے 1510تک کا زمانہ مملوک حکمرانوں کا تھا اپنے عہد میں انہوں نے مسجد اقصیٰ الحرم الشریف کامپلکس کی بڑی خدمات انجام دی اور علاقے کی بہت ساری عمارتوں کی نہ صرف مرمت کروائی بلکہ کچھ نئی تعمیرات بھی کروائیں۔ گذشتہ صدی میں ترمیم کا سب سے بڑا کام 1874ء میں ہوا جس میں پوری گنبد صخرا کو اس انداز سے سنوارا گیا کہ اس کے نقوش آج بھی نظر آتے ہیں،اس کے بعد اس کی تزئین کا کام گذشتہ 50 برس قبل یعنی1959 سے 1964ء کے درمیان ہوا، اس تعمیر و ترمیم میں ساری دنیا کے مسلمانوں نے دل کھول کر حصہ لیا۔ ابتدا میں پوری گنبد پر سونا چڑھانے کا ارادہ کیاگیا تھالیکن بعد میں اس پلان میں تبدیلی لائی گئی اور سونے کی ملمع کاری کے بجائے اس کوخاص قسم کی المونیم کی استر کاری سے بدل دیا گیا۔ابتدا میں اس کی گنبد کو لکڑی سے بنایا گیا تھا جو موسمی حالات کے باعث بار بار خراب ہوتی رہتی تھی اسی لئے اس گنبد کی مختلف اوقات میں تعمیر و ترمیم کی جاتی رہی۔ 1320 ء میں سلطان ناصرؔ محمد، 1818 ء میں سلطان محمد ؔ وغیرہ کے علاوہ دوسرے سلاطین وقت نے بھی نہ صرف اس گنبد بلکہ اس کے اطراف واکناف کے علاقے کی بھی مرمت کی۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ اس گنبد کے اوپر سونے کی پرت چڑھانے کے لئے تقریباً ایک لاکھ سونے کے سکوں کو پگھلایا گیا اور بیرونی جانب سے اس کی استر کاری کی گئی، ایک اور دفعہ اس پر Iznicترابی پلیٹوں کی استر کاری کی گئی تاکہ اس کے حسن کو مزید بڑھایا جاسکے1960میں اس پر المونیم اور برانز کو پگھلا کر اس گنبد کی بیرونی جانب سے استر کاری کی گئی تاکہ اس کو مضبوطی عطا کی جاکر عرصہ دراز تک اسی حالت میں رکھا جاسکے ۔ 1998 میں جارڈن کے سلطان حسینؔ نے 8.2امریکی ڈالرس خرچ کر کے اس میں80کلو سونے اور
ضروری اشیاء سے مرمت کروائی۔
عیسائیوں کے نزدیک بھی گنبد صخرا کی اہمیت ہے اور وہ بھی اس کو مقدس خیال کرتے ہیں ان کے عقیدے کے مطابق قسطنطینؔ کی ماں نے یہاں ایک چرچ Church of St. Cyrus تعمیر کروایا تھا ، یہی چرچ بعد میں چرچ آف Wisdomکہلایا۔
یہودیوں کے نزدیک بھی یہ جگہ نہایت مقدس ہے ۔یہودی عقیدے کے مطابق گنبد صخرا میں وہ مقدس پتھر رکھا ہوا ہے جس پر حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسحٰقؑ کو ذبح کرنے کے لئے لٹایا تھا اور اس پتھر کو یہودی دنیا کی سب سے زیادہ مقدس جگہ تسلیم کرتے ہیں، یہاں اس بات کو واضح کر دیا جائے کہ یہودیوں کے پاس حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسمعیٰل ؑ کو نہیں بلکہ حضرت اسحٰق ؑ کو ذبح کرنے کے لئے پتھر پر لٹایا تھا ، جب کہ مسلمان حضرت اسمعٰیل ؑ کو ذبیح مانتے ہیں اور مسلمانوں کے نزدیک مقام ذبح منٰی کی کوئی چٹان تھی یا بعض مورخین کے نزدیک جبل مروہ تھا۔

ڈاکٹر عزیز احمد عرسی
ڈاکٹر عزیز احمد عرسی
Share
Share
Share