مسجدعائشہ، تنعیم، مکہ المکرمہ -@- ڈاکٹرعزیزاحمدعرسی ورنگل

Share

مسجد عائشہ مکہ

مسجد عائشہ، تنعیم، مکہ المکرمہ

Masjid Ayesha, Taneem, Makkah
(جہاں سے حضرت عائشہؓ نے عمرہ کے لئے احرام باندھاتھا)

ڈاکٹر عزیز احمد عرسی ورنگل
09866971375

تنعیم مکہ معظمہ کے ایک محلہ کا نام ہے جو دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی کی شکل میں موجود ہے ، ان پہاڑیوں میں ایک پہاڑ نعیم اور دوسرا پہاڑ ناعم کہلاتا ہے اور وادی کو نعمان کہا جاتا ہے ، اسی نسبت سے اس علاقے کا نام تنعیم مشہور ہے۔یہ علاقہ حرم سے باہر ہے اور ’’حل‘‘ کی ابتدا ہے ۔ یہاں ایک عالی شان مسجد بنی ہوئی ہے جس کی تعمیر اپنی نوعیت کی ایک منفرد تعمیر ہے بلکہ ہم اس مسجد کو تعمیراتی شہکار کہہ سکتے ہے۔تمام مسجد میں بشمول مینار تقریباً سفید ترابی پلیٹوں کی استر کاری ہے جو دل خوش کن تاثر دیتی ہے، مسجد کے دو بڑے اور اونچے مینار اس کی شان ہیں جو کافی دور سے دکھائی دیتے ہیں۔ان میناروں کی ساخت منفرد ہے، بڑے سائز کا چوکور مینار نیچے سے بہت اوپر تک چلاجاتا ہے اور راس کے قریب پہنچ کر چاروں جانب پھیل جاتا ہے، یہ پھیلی ہوئی ساخت تین درجوں پر مشتمل ہے ، اوپری حصے میں گول ساخت بنی ہے جس پر ہلالی شکل لیکن جدا گانہ انداز کا کلس لگا ہوا ہے۔اصل مسجد کے سامنے ایک وسیع پورٹیکو بنا ہوا ہے جس کو سائبان کہنا زیادہ بہتر ہے ،اس سائبان میں کئی چوکور خانے بنے ہیں جن سے آسمان جھانکتا ہے ،یہ پورٹیکو خود اصل مسجد جتنا بڑا ہے جس میں زائرین کے بیٹھنے کی وافر جگہ موجود ہے،یہاں زائرین ایک دوسرے کا انتظار کرتے ہیں، اسی سائبان کے نیچے نجانے کتنی مرتبہ میں نے میری شریک حیات کا اور میری شریک حیات (عائشہ فرحاننہ)نے میرا انتظار کیا ہے ۔

صحن مسجد میں جہاں حمام خانے بنے ہوئے ہیں بڑا بورڈ لگا ہوا ہے جس پر ایک جانب’’ حدود حرم کی ابتداء‘‘ اور دوسری جانب’’ حدود حرم کی انتہا ‘‘لکھا ہوا ہے۔ مسجد کے صحن میں حکومت کی جانب سے چلائی جانے والی بسیں حرم پہنچانے کے لئے حاجیوں کی منتظر رہتی ہیں اور دوسری طرف سڑک کے کنارے ٹیکسی ڈرائیورس ’’حرم۔ حرم ‘‘ کی صدا لگاتے رہتے ہیں نجانے اس آواز میں کیا کشش ہوتی ہے کہ آج بھی جب وہ منظر یاد آتا ہے تو۔ حرم ، حرم ۔ کی آواز یں کانوں میں گونجنے لگتی ہے اور زبان پر بے اختیار ’’لبیک ‘‘کا ترانہ آجاتا ہے اور میں محسوس کرنے لگتا ہوں کہ میرا جسم کیا ۔۔۔میری روح بھی خوشی سے جھومنے لگی ہے۔
مسجد عائشہ،تنعیم کے صحن میں کھجور کے درخت ہیں،مسجد کے اطراف میں خوبصورت باغ ہے جو اس مسجد کی عظمت کو زائر کے دل میں فزوں تر کرتے ہیں ،اندرختوں کی شادابی زائر کے ذہن پر اثر انداز ہوتی ہے،اس ماحول میں جب حاجی مسجد کے اندر داخل ہوتا ہے تو اس کی دل کی دنیا بدل جاتی ہے ، اولاً مسجد کا اصل ہال نہایت خوبصورت ہے اور ثانیاً مسجد کا اندرونی ماحول اس سے زیادہ خوبصورت ہے کہ سرخ قالین سے مزین فرش ،خوش وضع چھت سے لٹکتا ہوا عالی شان فانوس، جدید وضع کا محراب و منبر،فرحت بخش ہوائیں،چھت اور کھڑکیوں سے جھانکتی روشنیاں ، احرام باند ھ کر گھومتے ہوئے حاجی ،دعاؤں کے لئے اٹھتے ہاتھ ، سجدوں کے لئے جھکتے سر، لبیک کی گونجتی ہوئی صدائیں ، زائر کے دل و دماغ پر اس قدر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہیں ،زائر زندگی بھر اپنے وقت پر خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے کا تہیہ کرلیتا ہے اور ان حسین یادوں کو کبھی بھلا نہیں پاتا کہ ان الصلاۃ علی المو ء منین کتاباً موقوتاً یعنی بے شک نماز کا مومنین پر اپنے وقت مقررہ پر ادا کرنا فرض ہے۔
ابتدائی دور میں مسجد تنعیم میں نہ وسعت تھی اور نہ یہ مسجد سہولتوں سے آراستہ تھی ، تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں سعودی حکومت کی تعمیر کردہ مسجد سے قبل بھی کئی مرتبہ چھوٹی بڑی مساجد تعمیر ہوتی رہی ہیں۔اس مقام پر مسجد کی تعمیر کی وجہہ بتاتے ہوئے مورخین لکھتے ہیں کہ جب 9 ھ ؁ کو رسول اللہ ﷺ حج کے لئے تشریف لائے تو حضرت عائشہ صدیقہؓ نسوانی مجبوری کے باعث عمرہ ادا نہیں کرپائیں، جب آپؓ پاک ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے انکے بھائی حضرت عبداللہؓ کے ساتھ تنعیم جانے کا حکم دیا تاکہ اس مقام سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کر سکیں،اس طرح آپ نے ماہ ذی الحجہ میں ہی عمرہ ادا کیا اور بخاری (جلد۔ ۱، ۲۴۰) کی روایت کے مطابق جب آپ ؑ سے پوچھا گیا کہ کیا اس طرح عمرہ ادا کرنا صرف آپؑ کے خاندان کے ساتھ مخصوص ہے تو جواب ملا کہ تمام مسلمانوں کے لئے ہے ۔
اس وقت جہاں مسجد عائشہ بنی ہوئی ہے اس مقام پر سب سے پہلے محمد بن شافعی نے مسجد تعمیر کی بعد میں ایک نامعلوم بڑھیا نے اس کی تجدید کروائی۔ 619 ہجری میں ملک مسعودؔ نے اس مسجد کی تعمیر کروائی اس کے بعد عدم نگہداشت اور دوسری مختلف وجوہات کی بنا یہ مسجد منہدم ہوگئی ،اس وقت زائرین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا،حتیٰ کہ زائرین وضو کے لئے پانی بھی خود ہی لاتے تھے۔ 978ہجری میں سنان ؔ پاشاہ نے اس جگہ ایک مسجد تعمیر کی جو16میٹر لمبی، 15میٹر چوڑی اور 4میٹر اونچی تھی علاوہ اس کے انہوں نے ایک کنواں بھی کھدوایا اور ایک حوض بنوا کر سرکاری ملازمین کے ذریعے کنوئیں سے پانی نکالنے کا انتظام کروایا تاکہ زائرین کو سہولت ہوسکے،اس کے بعد 1011 ہجری میں سلطان محمود غزنوی نے اس مسجد کی تجدید انجام دی اورزائرین کے لئے سہولتوں میں اضافہ کیا۔
موجودہ مسجد تنعیم( جس کو ’’مسجد عائشہ ‘‘ یا ’’مسجد عمرہ‘‘بھی کہا جاتا ہے) تمام تر سہولتوں سے آراستہ ہے کئی حمام اور وضو خانے بنے ہوئے ہیں جہاں کئی سو حاجی(مرد و خواتین) بیک وقت غسل کرسکتے ہیں اور احرام باندھ سکتے ہیں۔پینے کے پانی کا بہترین انتظام ہے کئی دوکانات ہیں جہاں مختلف اشیاء مل جاتی ہیں ، بالخصوص عمرہ کی ادئیگی کے سلسلے میں ضرورت کا تمام سامان مل جاتا ہے ،مسجد عائشہ میں خواتین کا مصلیٰ علاحدہ ہے موجودہ سعودی حکومت نے اس مسجد کوزائرین کی خدمت کی خاطر تمام تر سہولتوں کے ساتھ تعمیر کروایا ہے جس پرسعودی حکومت نے ایک کروڑ ریال خرچ کئے ہیں، آج بفضلہ تعالیٰ مسجد کی وسعت کا یہ حال ہے کہ اس میں تقریباً بارہ تا پندرہ ہزار افراد نماز ادا کرسکتے ہیں مسجد کا کل رقبہ 6000مربع میٹر ہے ۔ بہر حال یہ مسجد تعمیراتی خوبصورتی اور سہولتوں کی فراہمی کے باعث کبھی بھلائی نہیں جاسکتی
بالخصوص اس کی چھت جو اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتی ہے زائر کو عرصہ دراز تک یاد آتی رہتی ہے

ڈاکٹر عزیزاحمدعرسی
ڈاکٹر عزیزاحمدعرسی

Article:Masjid e Aisha
Written by:Dr.Azeez Ahmed Ursi

Share
Share
Share