آمدنی کا فطری استعمال ۔ @ – پروفیسر مجید بیدار

Share
آمدنی کا فطری استعمال
پروفیسر مجید بیدار

آمدنی کے فطری استعمال کے طریقے

از: پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو ، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد

دنیا میں بسنے والا ہر انسان اپنی زندگی گذارنے کے لیے کسی نہ کسی روزگار کا سہارا لیتا ہے۔ یہ روزگار محنت و مشقت سے بھی حاصل ہوتا ہے اور انتظامی صلاحیتوں کے توسط سے بھی ممکن ہے۔ دنیا میں زندگی گذارنے کے لیے کوئی بھی پیشہ اختیار کرکے اُس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو متوازن طریقے سے خرچ کرنے کا عمل ہی آمدنی کے فطری استعمال کی دلیل ہے۔ عصر حاضر میں انسان کی بڑھتی ہوئی خواہشات اور ایجادات کا بڑھتا ہوا طوفان انسان کی آمدنی سے میل نہیں کھاتا، اس لیے آج کے معاشرہ میں بسنے والا انسان روزگار حاصل کرنے کے باوجود حاصل شدہ آمدنی سے روزمرہ زندگی کی کفالت نہ ہونے کی شکایت کرتا ہے۔ زندگی میں درپیش مختلف مسائل حل کرنے کے لیے قرض کا سہارا لیتا ہے، یا پھر مختلف ذرائع اور وسائل استعمال کرکے اپنی محدود آمدنی میں لامحدود خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہوجاتا ہے۔ یہی عمل ایک انسان کی آمدنی کے توازن کو بگاڑنے کا وسیلہ قرار پاتا ہے۔ کم سے کم آمدنی کے باوجود منصوبہ بند طریقہ سے زندگی گذارنے کا لائحۂ عمل تیار کیا جائے تو نہ صرف محدود آمدنی کا صحیح استعمال ممکن ہے، بلکہ حاصل شدہ آمدنی میں ہی زندگی کی ضروریات کی تکمیل کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ آج کے معاشرہ

میں اخراجات میں شدید اضافہ اور آمدنی ضروریات کے مطابق نہ ہونے کی شکایت عام ہے، جسے دور کرنے کے لیے آمدنی کے مطابق خرچ کو متوازن بنائے رکھنا ہی واحد حل ہوگا۔ اس مرحلہ میں انسان کی ناکامی اسے عمر بھر مقروض اور پریشان حالی کا شکار رکھتی ہے اور مختلف دباؤ کے تحت بیماریوں کا شکار ہوکر اپنی صحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ آمدنی کے مطابق گھر کے اخراجات کا منصوبہ بنایا جائے اور اس منصوبہ سازی کا مقصد ہی اپنی آمدنی کو متوازن طریقہ سے مناسب خرچ کے لیے مختص کیا جائے تو خوشگوار زندگی گذارنے کا راستہ ڈھونڈھا جاسکتا ہے۔
مکمل مضمون پی ڈی ایف میں پڑھیں ۔ ۔

Click to access aamadani_convert-Notepad.pdf

Share
Share
Share