مسجد حیات بخشی بیگم، حیدرآباد – – ڈاکٹرعزیزاحمدعرسی

Share

مسجد حیات بخشی بیگم

ڈاکٹر-عزیزاحمدعرسی

مسجد حیات بخشی بیگم، حیدرآباد
Masjid Hayat Bakhshi Begum

ڈاکٹر عزیز احمد عرسی- ورنگل-تلنگانہ
09866971375

حیات نگر’ چارمینار سے تقریباً 16کلو میٹر فاصلے پر واقع ہے لیکن شہر کی توسیع نے اسے اپنے دامن میں لے لیا ہے اس مقام یعنی حیات نگر میں ایک خوبصورت اور تعمیری شہکار مسجد حیات بخشی بیگم واقع ہے ،حیات نگر کو حیاتؔ بخشی بیگم نے اپنے نام پربسایا تھا ،وہ پانچویں سلطان محمد قلی قطب شاہ کی بیٹی، چھٹے سلطان محمد قطب شاہ کی بیوی اور ساتویں سلطان عبداللہ قطب ؔ شاہ کی ماں تھی، چونکہ محمد قطب شاہ کا انتقال اس وقت ہوا جب کہ حیاتؔ بخشی بیگم کی عمر صرف بیس سال سے کچھ زائد تھی اور عبداللہ قطب شاہ کمسن تھے ، اسی لئے حیات بخشی بیگم نے اپنے بیٹے کے عنان حکومت سنبھالنے کے قابل ہونے تک کامیاب حکمرانی کی اور عوام میں ’’مانصاحبہ‘‘ کے نام سے مشہورہوئیں، اسی نام پر اس ’’ٹینک ‘‘ کا
نام مانصاحب رکھا گیا جو آج ’’مانصاحب ٹینک ‘‘ کہلاتا ہے۔ حیات بخشی بیگم نے حیات نگر کے علاقے کو دو ایک وجوہات کی بنا پر ترقی دی، چونکہ حیات نگر کا علاقہ سورت اور مسولی پٹنم کے درمیان اصل شاہراہ پر واقع تھا اسی لئے ادھر سے گذرنے والے قافلوں اور تجار کی سہولت کی

خاطر اس علاقے کی ترقی ناگزیر تھی تاکہ ریاست کی معیشت مستحکم ہوسکے۔علاوہ اس کے حیات بخشی بیگم نے یہاں ایک عالی شان مسجد بھی تعمیر کروائی جو اپنی مثال آپ ہے ، نہایت خوبصورت اور پر شکوہ مسجد جوعوام کو سر بسجود ہونے کا موقعہ دینے کے علاوہ مسافرین کے لئے قیام کی سہولت بھی فراہم کرتی تھی۔ حیات بخشی بیگم کے دور میں مسجدسے ملحق ایک سرائے بھی موجود تھی، جس میں افراد بالخصوص تجار کے ٹہرنے کا معقول انتظام تھا۔گولکنڈہ ریاست کی تجارت کو فروغ دینے کے علاوہ اس مسجد کی تعمیر کے پیچھے ایک حقیقت یا کہانی بھی گشت کرتی دکھائی دیتی ہے،کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک ہاتھی جس پر عبداللہ قطبؔ شاہ یعنی حیات بخشی بیگم کا بیٹا جنگی تربیت کی غرض سے بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ہاتھی بھپر گیا اور دیوانگی کے عالم میں عبداللہ قطب شاہ کو لے کر دور نکل گیا جب کچھ دیر بعد ہاتھی کو قرار آیا اور وہ پر سکون ہو کر ایک جگہ بیٹھ گیا،بیٹے کو بے تحاشہ ڈھونڈتی مامتا کی ماری ماں حیات بخشی بیگم نے جب اپنے بیٹے کو زندہ سلامت دیکھا تو اپنے بیٹے کی جان بچنے کی خوشی میں مصمم ارادہ کر لیا کہ اسی مقام پر ایک مسجد کی تعمیر کروائیگی جہاں اس ہاتھی کو قرار آیا ، اس طرح یہ مسجد اللہ کے حضور ایک ماں کی جانب سے اپنے فرزند کی جاں بخشی پر ہدیہ تشکر اور نذرانہ محبت ہے ۔
ہدیہ تشکر کے طور پر ایسی قسموں کا کھانا یا ایسی منتوں کا مانگنا نہ صرف آج کے دور میں بلکہ اس دور میں بھی عام تھا ، خود شہر حیدرآباد کے بسنے کی وجہہ بھی خدا کے حضور باندھا ہوا ایک عہد و پیمان تھا، جب ریاست طاعون کی وبا سے متاثر ہوئی تو بادشاہ نے ایک منت مانگی کہ اگرریاست سے طاعون کی وبا ختم ہوجائے اور اللہ ہمیں اس آسمانی آفت سے محفوظ رکھے تو بطور شکرانہ وہ ایک عالی شان مسجد بنائے گا، جب خدا نے بادشاہ پر فضل کیا اور اس کی بات سن لی تو اس نے اپنی منت کو پورا کیا اورچارمینار کی شکل میں ایک ندرت آمیز مسجد تعمیر کروائی جو زمین پر ہوتے ہوئے بھی زمین پر نہیں ہے، میرا دل کہتا ہے اور صحیح کہتا ہے کہ چارمینار کی تعمیر کے پیچھے وہ حقیقت نہیں ہے جو ہم بچپن سے پڑھتے یا سنتے آرہے ہیں ، یعنی وہی بھاگ متی کی کہانی، ایک اولولعزم بادشاہ سے ہم یہ قطعی امید نہیں رکھ سکتے کہ وہ کسی کی محبت میں گرفتار ہو کر رود موسیٰ کی بھپری لہروں کو عبور کرنے کے لئے چل پڑے اور شہزادے کی اس ادا سے خوش ہوکر بادشاہ وقت سلطان ابراہیم قلی قطب شاہ دریائے موسیٰ پر پل بنانے کا حکم دے دے، حقیقت یہ ہے کہ پرانا پل 1578ء میں تعمیر ہوا جس کے 13 سال بعد چارمینار (1591)ء بنایا گیا،اس طرح پرانے پل کی تعمیر کو اس محبت بھری داستان سے جوڑنا غلط ہوگا،وکی پیڈیا کے مطابق پرانا پل دراصل تجارت میں فروغ کی نیت سے بنایا گیا تھا کیونکہ ریاست گولکنڈہ دنیا میں ہیرے اور موتی کی تجارت کا اہم مرکز تھا، گولکنڈہ ریاست کی حدیں آندھرا تک پھیلی ہوئی تھیں اور ان ہی علاقوں کی کانوں میں بڑی تعداد میں اعلیٰ درجے کے ہیرے برآمد ہوتے تھے جس کو تراش خراش کر یہاں کے ہنر مند اس کو ’’کوہ نور ‘‘ بنادیتے تھے، اس طرح ’’ پرانا پل‘‘ ہیرے ، موتی اور اس جیسی کئی تجارتوں کو فروغ دینے کے لئے بنایا گیاتھا ، اسطرح یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ پل کسی ضدی شہزادے کی بے معنی خواہشوں کی تکمیل کے لئے نہیں بنایا گیا بلکہ تجارتی غرض کے لئے تعمیر کیا گیا۔ اس موڑ پر غور کیجئے کہ وہ شہر جس کو بسائے جانے کے پیچھے یا وہ عمارت جس کی تعمیر کے پیچھے طاعون سے نجات کے لئے خدا سے مانگی گئی منت کی حقیقت ہے تو پھر یہ کیسے سمجھ لیا جائے کہ کوئی بھاگ متی تھی جو چچلم میں رہتی تھی اور جہاں اس کا گھر واقع تھا اسی مقام پر مجازی محبت کے ہاتھوں مارا بادشاہ حقیقی محبت کا نشان یعنی مسجد بنا دیتا ہے، بالفرض محال اگر مان لیا جائے کہ یہ کوئی حقیقی کردار ہے تو طبیعت میں جوش رکھنے والا سلطان اس لڑکی کی محبت میں سرشار ہوکر چارمیناروں والی مسجد بنانے کی منت نہیں مانگتا بلکہ اپنی نا پختہ خواہش کی تکمیل میں ایک ’’رنگ محل ‘‘ بنا ڈالتا اور مذہب کے ہاتھوں ذلیل ہوتا۔میرا خیال ہے کہ یہ سب کہانیاں ہیں ہم ان مذہبی فطرت رکھنے والے نیک دل بادشاہوں سے یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ وہ عشق مجازی کی خاطر اپنی مذہبیت کو داؤ ں پر لگادیتے ،جس بادشاہ نے چارمینار کی چار میناروں کو چار خلفائے راشدین کی جانب اشارہ قرار دیا ہو اور جس نے مسلکی رواداری کا اعلیٰ ثبوت دیتے ہوئے چارمینار کی تعمیر کے ساتھ ہی بادشاہی عاشور خانے کی بنیاد ڈالی ہو اور حیدرآباد کو حیدر کرارؓ کے نام پر بسایاہو، ہم ان جیسے بادشاہوں سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ ایسی اوچھی خواہشات میں مبتلا ہوسکتے تھے کہ اپنی بے جا خواہشات کی تکمیل کی خاطراپنے مذہب کو تک بدنام کرڈالتے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ قطب شاہی بادشاہوں کی مذہبی اور لسانی رواداری تھی کہ انہوں نے شہر بسانے سے قبل خوش بختی کے اظہار کے طور پر’’ بھاگ نگر‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔کیونکہ اس دور میں حکومتی معاملات میں بھی مقامی زبان کے کچھ الفاظ داخل ہوگئے تھے ، جس کے ثبوت کے طور پر ہم خود قلی قطب شاہ کے دیوان میں موجود کچھ مقامی الفاظ کو پیش کر سکتے ہیں،ممکن ہے سلطان نے شہر بسانے سے قبل شہر کی قسمت کی درخشانی کی دعا کا اظہار لفظ ’’بھاگ ‘‘ سے کیا ہو، جس کے مفہومی معنی درخشاں مستقبل کے ہیں تو اندازہ قائم کرنے والوں نے اس کو ایک کہانی بنا کر پیش کردیا ، وہ نیک دل بادشاہ جو ہاتھ اٹھا کر شہر بساتے ہوئے دعا کر رہا ہو کہ میرا شہر لوگوں سے معمور کر، اس ’’نگر ‘‘کو روشن بنا اس کے بھاگ کو درخشاں بنا،اس کی بنیاد کو فرخندہ کر اور اس شہر میں لوگوں کو اس قدر کثرت سے آباد کر جیسے پانی میں مچھلیاں بڑھتی ہیں تو ہم کیسے یقین کرلیں کہ اس جیسا استقامت کا پیکر بادشاہ ایک گھٹیا محبت کی کہانی میں گرفتار ہوسکتا ہے، بھاگ متی دراصل محبت کا ایک ’’ سمبل‘‘ (Symbol) ہے کسی لڑکی کا نام نہیں ، یہ سمبل اس بادشاہ کا ایک خواب تھا جس کو اس نے پورا کر دکھایا۔آج ہم اس بادشاہ کی دعا کی تاثیر دیکھ رہے ہیں کہ مچھلیاں پانی کی مقدارسے زیادہ ہوتی جارہی ہیں تو خدائے تعالیٰ اس دعا کے مفہوم میں وسعت پیدا کرتے ہوئے پانی کی مقدار میں بھی اضافہ کرتا چلاجارہا ہے کہ آج دنیا کی کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یہاں ڈیرا ڈال رکھا ہے اور شہریوں کے ذرائع روزگار میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
حیدرآباد کو بسائے جانے سے متعلق اظہار خیال کے بعد ہم پھرسے مسجد حیات بخشی بیگم کی وجہہ تعمیر کی طرف لوٹتے ہیں کہ اس ماں یعنی حیات بخشی بیگم نے اللہ کے حضور اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے اس مسجد کو تعمیر کیا وہ وعدہ جو اس کے بیٹے کی جان بخشی کے بعد اللہ کے حضور کیا گیا تھا، حیات نگر حیدرآباد کے مشرقی حصے میں واقع ہے جہاں عبداللہ قطب شاہ کے ساتھ ہاتھی والا واقعہ پیش آیا تھا ،منت کے مطابق حیات بخشی بیگم نے اسی مقام پر مسجد بنائی جہاں آج بھی یہ مسجد اپنے مکمل آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہے گذشتہ برسوں میں اس کی آن بان کسی قدر ماند پڑ گئی تھی لیکن دو ایک برسوں سے کثیر سرمایہ خرچ کیا جاکر اس کی خوبصورتی اور وجاہت کو بحال کیا جارہا ہے،یہ مسجد تقریباً 5 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اس مسجد کو حیات بخشی بیگم نے عبداللہ قطب شاہ کے دور میں 1672ء میں بنایا ۔یہ مسجد قطب شاہی طرز تعمیر کا عظیم الشان مرقع اور ان کی تعمیری عظمت کا بہترین نمونہ ہے اس مسجد کو ایک اونچے چبوترے پر بنایا گیا ہے جو ہندوستانی طرز تعمیر سے مستعار تعمیری انداز ہے۔یہ مسجد زیادہ بڑی نہیں ہے لیکن اس کا صحن کافی بڑا ہے، اسکا صحن 150میٹر لمبا اور 130میٹر چوڑا ہے، مسجد کے صحن کے اطراف تقریباً 130سے زائد کمرہ جات بنے ہوئے ہیں جو اپنے دور میں سرائے کی حیثیت رکھتے تھے اس سرائے خانے میں مسافرین کے قیام کا انتظام کیا جاتا تھا ۔مسجد چبوترے کے نچلے حصے میں بجانب مشرق وضو خانہ بنا ہوا ہیں اسی مسجد کے احاطے میں شمال مشرقی جانب ’’ اپنی وسعت کے اعتبار سے مشہور ’’ہاتھی باؤلی‘‘ بھی موجود ہے، اسی باؤلی سے پائپ کے ذریعہ وضو خانے میں پانی کا انتظام کیا جاتا تھا،اصل مسجد کے مشرقی حصے میں پانچ کمانیں بنی ہوئی ہیں جس کی خوبصورتی لاجواب ہے پانچوں کمانیں ایک ہی وضع قطع کی ہیں درمیانی کمان میں بھی کوئی فرق نہیں ہے حالانکہ عموماً درمیانی کمان کو بڑا بنایا جاتا ہے ،اس مسجد کے مینار بڑے خوبصورت ہیں ، جو اونچائی تک پہنچ کر ’’رب ‘‘کی کبریائی کا اعلان کرتے رہتے ہیں مینار کی تعمیر اچھوتی ہے پہلے درجے پر موجود منزل ایسا محسوس کرواتی ہے جیسے کسی نے پھولوں سے بھرے گلدستے کو الٹ دیا ہے، سامنے کی جانب کی حفاظتی دیوار (Parapet wall) اعلیٰ تعمیری ذوق کا مظاہرہ کرتی ہے اس میں چھ Cupolas بنے ہوئے ہیں جو اس کے تعمیری حسن کو چار چاند لگاتیہیں۔ اس طرح یہ مسجد حیدرآباد کی قطب شاہی طرز تعمیر اور ہندوستانی روایات کا
انمول نقش ہے۔

Share

۲ thoughts on “مسجد حیات بخشی بیگم، حیدرآباد – – ڈاکٹرعزیزاحمدعرسی”

Comments are closed.

Share
Share