مسجد قوت الاسلام، دہلی – – -ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی- ورنگل

Share

قوت الاسلام مسجد

مسجد قوت الاسلام، دہلی
Masjid Quwwat ul Islam, Delhi

ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی- ورنگل
09866971375

مسجد قوت الاسلام دہلی کی ایک عظیم الشان مسجد ہے، اس مسجد کو ہم شمالی ہند کی پہلی مسجد بھی کہہ سکتے ہیں ،فی زمانہ اس مسجد میں نماز ادا نہیں کی جاتی لیکن بحیثیت مسجد اس کی عظمت آج بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ چونکہ قطب مینار کو دیکھنے کے لئے کثیر تعداد میں سیاح دہلی پہنچتے ہیں اسی لئے یہ مسجد سیاحوں کا مرکز بن کر رہ گئی ہے ایک اندازے کے مطابق سال بھر میں قطب مینار دیکھنے کے لئے تاج محل سے زیادہ تعداد میں سیاح آتے ہیں اور چاہتے نہ چاہتے ہوئے یہ مسجد بھی دیکھ لیتے ہیں اور مسجد کی تقدیس کا خیال کئے بغیر ان ستونوں کی تراش خراش میں کھو جاتے ہیں جن کے متعلق یہ احساس ہے کہ یہ کسی جین مندر کو منہدم کرکے اس مسجد میں لگائے گئے ہیں۔مسلمانوں کے ہاں اس مسجد کی اہمیت ان ستونوں کی وجہہ سے نہیں ہے کیونکہ مسجد میں لگائے گئے ستونوں کی تراش خراش سے مسجد کی اہمیت میں نہ کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی کمی ہوتی اسی لئے ان تمام ستونوں کے بغیر بھی یہ مسجد مسلمانوں کے لئے مقدس ہے اور شمالی ہند کی پہلی مسجد کی حیثیت سے تاریخی اہمیت رکھتی

ہے،اس مسجد کے ساتھ ایک پر شکوہ مینار لگا ہوا ہے جو کبھی دلّی کی فضاؤں میں اذان نشر کرنے کا ذریعہ تھا،قطب مینار بیشتر مورخین کے مطابق مسجد قوت الاسلام کا ایک مینار ہے جو محض موذن کو اذان دینے کے لئے بنایا گیاتھا ،اسی لئے اس مسجد یعنی مسجد قوت الاسلام کو اس مینار کی مناسبت سے’’ مسجد قطب ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔اس مینار میں ہندی طرز تعمیر کی جھلکیاں جابجا دکھائی دیتی ہیں قطب مینار 72.5میٹر اونچا ہے ، لیکن اس مینار کو مکمل طور پر قطب الدین ایبکؔ نے نہیں بنایا بلکہ ایبک ؔ کے انتقال کے بعد 1368ء میں ایبک کے داماد التمش ؔ نے اس کی تین منزلیں تعمیر کیں اور اس مینارکی پانچویں اور آخری منزل کی تعمیر فیروز شاہ ؔ تغلق نے کی، علاوہ ازیں سکندر لودؔ ھی نے بھی اس مینار کی تعمیر و ترمیم کا کام پندرھویں صدی عیسوی کے اواخر میں انجام دیا،اس طرح قطب مینار کو مختلف اوقات میں تین علیحدہ علیحدہ بادشاہوں نے تعمیر کیا۔ تین مختلف ادوار میں تعمیر کے باوجود اس کا تعمیری ڈھانچہ ایک جیسا ہے ۔ یہ مینار ایک منفرد ساخت ضرور رکھتا ہے لیکن اس مینار پر یہ الزام عائد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کسی جین یا ہندو مندر کو منہدم کرکے بنایا گیا ہے کیونکہ یہ مینار آیات قرآنی سے مزین ہے۔ مسجد قوت الاسلام کی تعمیر محمد غوری ؔ کے دور حکومت میں شروع ہوئی لیکن اس کی تکمیل قطب الدین ایبک ؔ کے دور میں ہوئی،قطب الدین ایبک خاندان غلامان کا بانی تھا۔مسجد قوت الاسلام کی تعمیر کا آغاز 1193 ء میں ہوا اور 1197ء میں اس کی تکمیل ہوئی۔آثار سے پتہ چلتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر مرحلہ وار ہوئی، ایبک کے دور میں یہ مسجد صرف ستائیس کھمبوں پر بنائی گئی تھی جو وضع قطع میں جین طرز تراش رکھتے تھے بلکہ رکھتے ہیں۔ چونکہ قطب الدین ایبک کے ساتھ مسلم تہذیبی نقوش کو تراشنے والے فنکار نہیں تھے اسی لئے یہ عین ممکن ہے کہ قطب الدین ایبک نے وہاں موجود سنگ تراشوں سے خدمات حاصل کی ہوں، یہ فنکار وہ تھے جن کے دل و دماغ پر ایک خاص طرز کی تعمیری روایات کی تہہ چڑھی ہوئی تھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان ستونوں کو اس مقام پر موجود منہدم شدہ ہندو اور جین منادر سے حاصل کیا گیاہو جن کی تعداد 27تھی،ان ستونوں کے منادر سے حاصل کرنے کا اظہار اس دور کے کسی کتبے سے ہوتا ہے، اس کے علاوہ ان ستونوں کی اس مقام پر موجودگی سے متعلق ایک قیاس یہ بھی ممکن ہے کہ ان سنگ تراشوں نے قطب الدین ایبک کو جین منادر کی سنگ تراشی دکھلائی تاکہ اسی انداز کے ستون تراشے جاسکیں جس کو ایبکؔ نے پسند کیااور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض منہدم منادر سے بطور نمونہ ان سنگ تراشوں نے یہ ستون اٹھوالئے تاکہ ان ستونوں جیسے ستون تراشے جاسکیں،لیکن حالات کے پیش نظر ان ستونوں کو تراشنے کے بجائے ان ہی ستونوں کو مسجد کی تعمیر میں لگوادیا۔ غیر جانب دار مورخین نے یہ نہیں لکھا کہ قطب الدین ایبک نے محض مسجد کی تعمیر کے لئے منادر تڑوادئے،ویسے جب تہذیبی تصادم واقع ہوتا ہے تو بہت ساری انہونی باتیں بھی ممکن ہوجاتی ہے ۔بھلے ہی کتبے پر لکھا ہو لیکن ایک عام سیاح جب ان ستونوں کو دیکھتا ہے تو قطعی یہ محسوس نہیں کرتا کہ اس ایک مسجد کی تعمیر کے لئے 27منادر کو منہدم کیا گیا ہوگا ۔ کیونکہ عام طور پر منادر وسیع رقبے پر سینکڑوں ستونوں کے ساتھ بنائے جاتے ہیں، مسجد میں ستونوں کی تعداد صرف اسی قدر ہے کہ ایک ہی مندر کو توڑا جاتا تو درکارستونوں کی تعداد حاصل کی جاسکتی تھی اور ایک ہی جیسی وضع قطع کے ستون بہ آسانی حاصل کئے جاسکتے تھے لیکن مسجد میں ستونوں کی ہیت جدا گانہ ساخت رکھتی ہے اسی لئے اہل دانش و بینش کو 27منادر کے توڑنے کا ذکر کسی قدر تردد میں ڈال دیتا ہے۔ اور سونچنے کی بات یہ ہے کہ جس بادشاہ نے اپنی نوعیت کے شہکار اور پائیدار ہند اسلامی تہذیب کے علمبردار قطب مینار کو مقامی اور بیرونی معماروں سے بنوانے کی جرء ات کی ہے تو وہ محض مسجد کی تعمیر کی غرض سے کیوں ان عظیم منادر کو تڑوانے لگا، جس کی عظمت کی گواہی آج بھی یہ ستون دے رہے ہیں۔اگر یہ ستون واقعی جین منادر کے ہیں تو وہ مندر یقیناً لاجواب رہی ہوگی ،آج کوئی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ مسجد کے ستون جین طرز تراش نہیں رکھتے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایبک ؔ نے ان ستونوں کو جیتی جاگتی مندروں سے اٹھوالیا تھا ،علاوہ ازین کیا یہ ستون جین منادر کے ستونوں کا Replicaنہیں ہوسکتے کیونکہ اس دور میں ویسے فنکار اور سنگ تراش موجود تھے، ممکن ہے میرا خیال غلط ہو لیکن میرا احساس ہے کہ اس دور کے بعض سنگ تراشوں نے کچھ ستون بطور نمونہ منہدم شدہ منادر سے اٹھوالئے تھے تاکہ ان ستونوں جیسے ستون تراشے جائیں جو ممکن ہے تراش خراش کے کام سے بچنے کی خاطر یا غلط فہمی کی وجہہ سے یا معماروں اور سنگ تراشوں کی غلطی کے باعث مسجد کی تعمیر کے دوران کھڑا کردئے گئے ورنہ اسلام وہ مذہب ہے جو دوسرے مذاہب کی تعمیری روایات کی کسی قدر نقل کرسکتا ہے لیکن ایسی نقل جو اسلامی اصولوں سے ٹکرائے اسلام میں حرام ہے اسی لئے ہم احمد آباد کی جامع مسجد اور دوسری کئی مساجد میں جینی طرز تراش دیکھ سکتے ہیں ، جینی طرز تعمیر سنگ تراشوں کے ذہن پر چھایا ہوا تھا اس کے باوجود ان معماروں نے ایسی کوئی غلطی نہیں کی جو اسلامی شریعت کی رو سے قابل گرفت ہوا یا جس کو حرام قرار دیا گیا ہو۔جیسے رقاصاؤں کو تراشنا یا تصویر بنانا وغیرہ۔ ویسے بھی ہم آج کے دور میں بیٹھ کر اس دور کے حالات کا اندازہ نہیں لگا سکتے لیکن میری نظر میںیہ بات طے ہے کہ کسی بھی دور میں کوئی بھی مسلم حکمراں یا عام مسلمان مسجد کی تعمیرکے لئے ایسے پتھروں کا انتخاب نہیں کرسکتا جس میں جانور یا انسانی شکل منقوش ہو،اس کی مثال ہم جامع مسجد شمبر (چمپانیر)اور گجرات وغیرہ کی دوسری مساجد میں دیکھ سکتے ہیں، ان مساجد میں ستون بطور خاص مسجد کے لئے تراشے گئے لیکن یہ ستون وضع قطع کے اعتبار سے مکمل جینی اور ہندو طرز تراش رکھتے ہیں ۔ اس لئے مسجد قوت الاسلام دہلی میں استعمال شدہ ستونوں کے متعلق یہ اظہار خیال کہ یہ ستون 27 جین اور ہندو منادر کو توڑ کر لائے گئے ہیں، نا مناسب ہے اگر سونچنے کے انداز میں ہلکی سی وسعت پیدا ہوجائے تو یہ بات صاف واضح ہوجائے گی کہ ایسا عمل نہ کوئی مسلمان چاہتا ہے اور نہ ہی اس کی اجازت اسلام دیتا ہے ،قیاس پر مبنی اس دور کے حالات کا شوہدات کی روشنی میں اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قطب مینار اور مسجد قوت اسلام کی تعمیر کا زمانہ مسلمانوں کے ہندوستان میں آمد کے بعد کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا اور شاید اس دور کے حکمراں ہندوستانی ریت رواج اور تہذیب سے کما حقہ واقف بھی نہیں تھے اسی لئے مقامی افراد پر انحصار کر بیٹھے جس کا اظہار ان دو تعمیرات یعنی قطب مینار اور مسجد قوت الاسلام کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اس زمانے کے رواج اور حکومت کی روایت کے مطابق کسی بھی مقام کا بادشاہ اپنی فتح کی علامت مفتوح ملک یا فاتح کے علاقے میں تعمیر کروایا کرتا تھا ۔ غوریؔ اور ایبکؔ نے بھی اسی روایت کے مطابق مسجد قوت الاسلام کی تعمیر کا ارادہ کیا تاکہ اپنی فتح کی یادگار بنائی جاسکے، جب اپنے منصوبے پر عمل آوری کا مرحلہ آیا تو اس نے اسلامی طرز کی تعمیر کے لئے معماروں اور فنکاروں کی کمی محسوس کی لیکن اس نے اس کمی کو مقامی معماروں اور فنکاروں کی بھرتی کے ذریعہ پورا کیا۔ اس طرح قطب الدین ایبک ؔ نے مقامی معماروں سے مسجد اور قطب مینار بنانے کا بیڑہ اٹھایا۔کیونکہ ان تعمیرات کے لئے آناً فاناً افغانستان اور ایران سے معماروں8 کو طلب کرنا آسان نہ تھا اور مقامی معماروں کا دل توڑنا مناسب نہ تھا اسی لئے مقامی معماروں کو اس کام کے لئے منتخب کیا گیا جنہوں نے مقامی تعمیری اشیاء کو اپنے ذہن میں منقوش سانچے میں ڈھال کر ایسی چیزیں بناڈالیں جو تعمیری اعتبار سے اسلامی کم اور ہندوستانی زیادہ لگتی تھیں اور اس طرز تعمیر کو ایبک ؔ نے پسند بھی کیا، اس طرح مسجد قوت الاسلام کا وجود عمل میں آیا ۔
ہم سہولت کی خاطر مسجد قوت الاسلام کی تعمیر کے تین مرحلے مقرر کر سکتے ہیں ، پہلا مرحلہ قطب الدین ایبک ؔ کا ہے اس مرحلے میں مکمل تعمیر پر ہندو تعمیری روایت کا غلبہ رہا۔ اس تعمیری روایت کے غلبے کی وجہہ ممکن ہے قوت کے نشہ میں چور ایبک ؔ کی بشری کوتاہیاں تھیں جس نے ممکن ہے مسجد کی تعمیر میں منادر کے ستونوں کو استعمال کروا ڈالا، دوسرا مرحلہ التمش ؔ کی توسیع کا ہے جس میں ہمیں ہندوروایات کا غلبہ قطعی نہیں ملتا بلکہ ان تعمیرات میں اسلامی طرز کی جانب جھکاؤ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے حالانکہ ستونوں کی تراش خراش میں ہمیں سنگ تراشی کے بنیادی اصولوں کے مطابق جینی تعمیری فطرت ضرور نظر آتی ہے لیکن اسلامی طرز تعمیر کی جھلکیاں بھی جا بجا نظر آتی ہیں اور تیسرا مرحلہ علاؤالدین خلجی کی تعمیرات جیسے علائی دروازہ وغیرہ جس میں قال قال ہی ہندو تہذیبی روایات کا اظہار ہوتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ مرحلہ یعنی علاؤالدین کے دور تعمیر کا مرحلہ ہندوستانی تعمیری روایات میں ایک اہم موڑ ہے کیونکہ اس کے بعد کے دور میں ہندوستان میں تقریباً تمام بادشاہوں نے اپنی تعمیرات کو بنیادی طور پر اسلامی تعمیری اصولوں کے سانچے میں ڈھال کر بنایا اور اسلامی تعمیری طرز کو اپناتے ہوئے کہیں کہیں ہندو تعمیری تہذیب کے عناصر بھی اس میں شامل کر دیا تاکہ اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوسکے۔اگر ان مسلم بادشاہوں کو صرف منادر ہی توڑنا ہوتا تو نہ ہندوستان میں منادر کی کمی تھی اور نہ مسلم بادشاہوں کی تعمیرات کا سلسلہ کبھی رکا تھا۔اسی لئے جب ہم مسلم تعمیرات کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب حملہ آور بادشاہوں نے ہندوستان میں کچھ وقت گزار لیا اور یہاں کی تہذیب اور تعمیری روایات سے واقف ہوگئے تو ہندوستان کو ایسی ایسی تعمیرات دیں جس کا جواب ملنا ساری دنیا میں مشکل ہے، ان بادشاہوں کی بنائی ہوئی تعمیرات میں سر فہرست تاج محل ہے جو اسلامی تعمیری اقدار کے مطابق بنایا گیا ہے لیکن اس میں شامل ہندو تعمیری گل کاری نے اس کی خوبصورتی کو لازوال بنا دیا ہے۔ تاج محل کے علاوہ کئی مقبرے، قلعے اور مساجد وغیرہ بھی ہم اس فہرست میں شامل کرسکتے ہیں جن کا حسن آج بھی ہندوستان کے ماتھے کا سندور بنا ہوا ہے اور میرا احساس ہے کہ ان تمام تعمیرات میں کوئی ایسا تہذیبی عنصر دکھائی نہیں دیتا جس پر آج کے مورخین کو اعتراض ہو کہ فلاں گنبد کو بنانے کے لئے فلاں استوپا کو توڑا گیاتھا۔مسلمان حکمرانوں نے تقریباً آٹھ سو برس تک اس ملک میں حکومت کی لیکن اس اثنا میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی جو قابل اعتراض ہو ، سوائے دو چار معاملات کے جو اورنگ ؔ زیب سے منسوب ہیں لیکن ۔ موجودہ تحقیق ان واقعات سے بھی حقیقت کا پردہ اٹھاتی جارہی ہے جس سے خودبخود اورنگ زیبؔ براء ت کا تاج پہنے ہندوستان کے افق پر جگمگاتا نظر آرہا ہے ، اگر ہم ٹھنڈے دل سے ان آٹھ سو برسوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس دور میں مسلم حکمراں نہایت طاقت ور تھے اورکسی علاقے کے راجہ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ انہیں مکمل طور پر زیر کرسکیں ۔ دہلی کے یہ بادشاہ جنوب کی طاقتور کاکتیہ سلطنت(ورنگل) کو شکست دے کر ’’کوہ نور‘‘ ہیرا حاصل کرسکتے تھے تو بھلا وہ کمزور سلطنتوں کی بیشتر تعمیرات کو توڑنے میں کیا تردد کرتے ، ان بادشاہوں نے اپنی سلطنت کو تقریباً سارے ہندوستان تک وسعت دی تو سونچنے کی بات یہ ہے کہ اس دور میں ان بادشاہوں نے آخر کتنے منادر کو منہدم کیا اور ان منادر کے ستونوں سے کتنی مساجد بنوائیں، حالانکہ اس دور میں ان کے کسی فیصلے کو رد کرنے کی نہ کسی میں طاقت تھی اور نہ ہی کوئی حکومت ان سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتی تھی ۔اس تناظر میں ایک مورخ یہ بتائے کہ آخر مسلمان حکمرانوں کی بنائی کتنی تعمیرات یا مساجد ایسی ہیں جنہیں جین یا ہندو منادر کو توڑکر بنایا گیا ہے،پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان اپنی عبادت گاہ میں ایسی کسی شئے کو لگانا پسند نہیں کرتا جو کسی دوسرے مذہب سے منسوب ہوچکی ہے۔ لیکن مسجد قوت الاسلام کی تعمیر کے وقت کیا حالات تھے یہ کہنا مشکل ہے کہ وقت کا ایک لمبا عرصہ گذر چکا ہے ، اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوا ہوگا جس کابار بار اظہار کیا جاتا ہے، بالفرض محال اگر ان بادشاہوں نے ایسا کیا تھاتب بھی لمحوں کی خطاؤں کی سزا صدیوں کو نہیں دی جاتی، اس لئے 27 عبادت گاہوں کے انہدام کاعلی الاعلان تذکرہ قطعی مناسب نہیں کیونکہ اس سے تذکرے سے موجودہ دور کا ذہن بگڑسکتا ہے،تاریخ کے اس باب کا بار بار اظہار ایسا محسوس کرواتا ہے کہ اس دور کے بادشاہ کسی مخصوص مذہب کو ختم کرنا چاہتے تھے ، حالانکہ اس میں قطعی سچائی نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمان حکمراں صرف بادشاہ تھے کوئی مبلغ اسلام نہیں۔ اگر مان لیا جائے کہ وہ مبلغ اسلام تھے تویہ مبلغین یا صوفیائے اکرام کوئی ایسی اوچھی حرکت نہ کرتے جس سے اسلام کا نام بدنام ہو۔ کیونکہ اسلام از ابتدا اس قسم کی تخریب کی اجازت نہیں دیتا۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھار حکمرانوں کو اقتدار کا نشہ لے ڈوبتا ہے،لیکن اس مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں مجھے اقتدار کا نشہ بھی محسوس نہیں ہوتا ۔سونچنے کا یہ نہج دراصل میرا احساس ہے جو بار بار میرے ذہن میں ابھرتا رہتا ہے تاکہ میرے جنت نشان ملک میں امن و آشتی قائم و دائم رہے۔میں دوسرے زاویہ سے اپنی بات کو بیان کروں کہ قطب کامپلکس میں ہمیں التمش ؔ کا مقبرہ بھی نظر آتا ہے جس میں ہندو طرز کی جھلکیاں زیادہ دکھائی دیتی ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بھی کسی ہندو عبادت گاہ کو مسمار کرکے بنایا گیا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ اس دور کے معماروں اور مہندسوں کے دل و دماغ پر ہندوستانی طرز تعمیر سوار تھی اور ان کی سونچ پر محض اسی تعمیری تہذیب کا غلبہ تھا،ا سی لئے اس زمانے کی بیشتر تعمیرات جو ہندوستانی معماروں کے ذریعہ انجام پائیں ہندوستانی تعمیری جھلکیوں کا مسلسل اظہار کرتی رہتی ہیں ۔
قطب الدین ایبک کے زمانے میں مسجد قوت الاسلام کا صحن مستطیل نما تھا ، اس مسجد کی لمبائی اور چوڑائی 141 فٹ اور 105 فٹ تھی ۔اسی صحن کے اطراف دالان بنا ہوا تھا۔ ایبک کے بعد التمش نے اس مسجد کی توسیع کی،چونکہ التمشؔ کے دور میں سنگتراشوں کی ہنر مندی میں تبدیلی واقع ہوچکی تھی اسی لئے اس دور میں بنائے گئے ستونون میں ہندو اور جینی طرز تراش کی بجائے اسلامی طرز تعمیر کا غلبہ قدرے زیادہ دکھائی دیتا ہے ،التمش ؔ ہی کے دور میں مشرقی جانب خواتین کے لئے مصلی بھی بنایا گیا، 1300ء میں علاؤالدین خلجی نے بھی اس مسجد کی توسیع کی اور علائی دروازہ بنایا اور اسی دور میں مسجد کے مشرقی جانب صحن میں اضافہ کیا گیا،اسی دور میں قبلہ کی جانب بڑے اونچے دیواری اسکرین بنائے گئے جن پر جلال کا پردہ پڑا رہتا ہے۔ ان دنوں مسجد کی حالت زیادہ بہتر نہیں ہے حکومت کی توجہہ اور بہتر نگہداشت کے باوجود مسجد کے بعض حصے منہدم ہو تے جارہے ہیں۔کچھ حصے مخدوش ہوچلے ہیں اور بقیہ مسجد وقت کے گذرتے ہر لمحے کے ساتھ اپنی پائیداری کھوتی جارہی ہے۔ اسمسجد میں کئی ایک خوبیاں ہیں لیکن اس کی اصل خوبی اسلامی اور ہندوستانی طرز تعمیر کا خوبصورت اور انوکھا انداز ہے، اسی لئے اس مسجد میں جہاں آیات قرآنی لکھے ہوئے ہیں وہیں ہندوطرز تعمیر کے نقوش بھی ستونوں پر دکھائی دیتے ہیں۔خستہ حالی کے باوجود شاید یہی وجہہ ہے کہ اس مسجد کا شمار آج بھی ہندوستان کی خوبصورت مساجد میں ہوتاہے، جہاں نہ نماز ہوتی ہے اور نہ ہی نماز ادا کرنے کا موقعہ ہے لیکن محسوس کرنے والا محسوس کر لیتا ہے کہ اس مسجد میں ایک ابدی سکون ہے جو اس کی بنیادوں سے نکل کر انسان کے وجود پر مسلط ہوتا جاتا ہے۔اور اس کے دل سے انسان کی ذات اور دنیا کی محبت کو نکال باہرپھینکتا ہوا زائر کے دل میں صرف اسی کی ذات کے جلوؤں کو بسا دیتا ہے جو اس دنیا کا خالق و مالک ہے۔ کیونکہ اگر ہم اسے نہیں دیکھ پارہے ہیں تو کم از کم ہمیشہ خیال یہ تو رہے کہ وہ تو ہمیں دیکھ رہا ہے۔’’واللہ یدعو الی دار السلام ویھدہ من یشاء الیٰ صراط مستقیم ۔سورہ یونس ۔ ۲۵)’’اللہ ہر ایک کو سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا اور جسے چاہتا ہے سیدے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔
Masjid-e-Quwatul Islam-New Delhi
by : Dr Aziz Ahmed Ursi
ڈاکٹر-عزیزاحمدعرسی

Share
Share
Share