پان : قدرت کا ایک عظیم عطیہ ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم

Share

paan

محمد رضی الدین معظم

پان : قدرت کا ایک عظیم عطیہ

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340

ہمارے دیس یعنی ہندوستان کے لوگ کب سے پان کا استعمال کررہے ہیں اس کا صحیح علم نہیں لیکن اس بر صغیر میں ہر مذہب کے امیر وغریب سب ہی پان کا استعمال کرتے ہیں۔ پچھلی شاہی حکومتوں کے دربار میں پان اور عطر تقسیم کیا جاتا تھا ۔ بعد ازاں وائسراؤں کی لاج میں مہمان کی پان اورعطر سے ضیافت کی جاتی تھی ۔ جس سے اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ انگریزوں نے بھی مسلمان بادشاہوں کی اس قدیم روایات کو باقی رکھا ۔ گوطرز معاشرت کی تبدیلی نے اس کے بجائے چائے یا کافی اور سگریٹ کو رواج دے دیا ہے مگر پھر بھی پان جز لاینفک قرار پاتا ہے ۔ چنانچہ بعض اصحاب چائے پینے کے بعد جب تک پان نہ کھائیں ایک قسم کی بے چینی سی محسوس کرتے رہتے ہیں عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ پہلے زمانے میں پرتکلف ضیافت میں پان کی تقسیم کے بغیر کوئی ضیافت یا دعوت مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ نہ صرف دعوتوں اور ضیافتوں میں بلکہ عام طور پر لوگ آج بھی ہر کھانے کے بعد پان کو ضرور استعمال کرتے ہیں ہندوستان کاکوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں پاندان اور اس کے لوازمات موجود نہ ہوں۔ اسی لئے شادی بیاہ میں جہاں جہیز کا سامان سجایا جاتا ہے وہیں پاندان ‘ اگالدان کو بھی اولین اہمیت دی جاتی ہے ۔ ا س کے علاوہ اکثر شوہر اپنی شریک زندگی کو مختلف اخراجات کے ساتھ ’’ خرچہ پاندان ‘‘ کے عنوان سے ایک علحدہ رقم بھی دیا کرتے تھے ۔ غرض کئی عرصہ سے اچھا پان بنانا خصوصاً عورتوں کے لئے ایک بہترین ہنر سمجھا جانے لگا ہے ۔لیکن گھروں کے بجائے جگہ جگہ پان کے ڈبے ہوا کرتے ہیں جہاں سے شوقین اپنے ذوق کی تکمیل کرتے ہیں ۔

پان کا بیڑا یعنی گلوری کے اجزائے ترکیبی کی بناء پر گمان ہوتا ہے کہ پہلے پہل کسی وید نے اس نسخہ کو منھ کی بعض شکایات کو رفع کرنے کے لئے ترتیب دیا تھا اور چونکہ اس کے چبانے سے بوقی کہفہ(Buccal Carilty) اور ہونٹ ( Lips) سرخ ہو کر اچھے معلوم ہوتے ہیں اس لئے عوام نے عموماً اور خواتین نے خصوصاً حسن وجمال کو دو بالا کر نے کے لئے پان استعمال کرنا شروع کئے کہتے ہیں کہ اولین ترکیب میں پان ک ے اجزاء میں چونا داخل نہ تھا ۔ اورنگ زیب کی دختر زیب النساء بیگم نے اس جز کا اضافہ کیا جس سے اس کی حسن افروزی کو چار چاند لگ گئے ۔ تمباکو بھی اسی طرح بعد کا اضافہ ہے ۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ہمہ اقسام کے مصالحہ جات اس کثرت سے استعمال کئے جاتے ہیں کہ اس کا بیان کرنا مشکل ہے ۔ یہ اضافہ محض حسن و جمال میں اضافہ کے خاطر نہ تھا بلکہ دانتوں مسوڑہوں کی تکلیف‘ دلی فرحت وغیرہ کا سبب بنا ۔ یہ دیکھا گیا کہ پان سے دانتوں اور مسوڑہوں کی تکلیف وغیرہ میں نمایاں فائدہ ہونے لگا ۔ چونکہ اس میں مختلف اجزاء کے اضافہ خود نمائی سے مغلوب ہوجانے والوں نے اس تلخ زہر کو قبول کرلیا۔ پان اور اس کے مروجہ ضروری اجزاء کے خواص وافعال کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ منہ کے امراض کے لئے نہایت مفید ہے ۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ اس میں استعمال ہونے والی اشیاء‘ اس قدر نفع بخش ہیں کہ کیونکر مضر کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن یاد رہے کہ اللہ نے ادویات حالت مرض کے لئے پیدا کی ہیں تندرستی کے زمانہ میں یقینی طور پر ان کا استعمال مضر ہوسکتاہے ۔
پان کی ایک گلوری کے لئے ضروری اشیاء حسب ذیل ہیں :(۱) پان(۲)چونا (۳)کتھا(۴) چھالیا۔ اسی ترکیب کو کسی شاعر نے یوں بیان کیا ہے ؂
کھالیا غم نے مجھے ورنہ میں ایسا کہ تھا
جاؤ بس چوں نہ کرو پان سو گالی دیدو
لونگ اور الائچی بھی عام طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ بعض حضرات تمبا کو کے بغیر تو پان کھاتے ہی نہیں دوسری اشیاء جو پان کے مصالحہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے یہ ہیں۔ جوز‘جوتری‘ کیوڑہ‘ ورق نقرہ اجوائن اور سفوف وغیرہ اس کے علاوہ آج کل کے شوقین اور فیشن کے دلدادہ حضرات بہت سی اشیاء بطور مصالحہ استعمال کرتے ہیں۔ جس کا شمار کرنا ہی مشکل ہے ۔ اس موقع پر اصل بحث چونکہ پان سے ہے اس لئے پان (یعنی پان کے پتے ) کے خواص اور افعال کی تفصیل کے علاوہ ان مندرجہ ذیل مصالحہ جات کے خواص اور افعال بھی مختصراً بیان کئے جاتے ہیں:
چونا ‘ کتھا ‘ چھالیا ‘ الائچی ‘ لونگ ‘ تمبا کو( زردہ )
پان ( یعنی پان کا پتا): ہندوستانی زبان ‘ اردو اور مرہٹی میں اسکو پان کہتے ہیں۔ عربی میں اسے فان ‘ فارسی میں تمبول انگریزی میں بیٹل‘ تلنگی میں Tammala Paku کہتے ہیں۔
یہ ایک بیل دار درخت کا پتا ہے جو مختلف اقسام کا ہوتا ہے مگر دو قسمیں عام ہیں ایک ہلکا سبزی مائل سفید اور نہایت ہی خوش ذائقہ ہوتا ہے ۔ لکھنو اور بنارس کی طرف پان اسی قسم کا بہت ہی نازک ہوتا ہے ۔ اور اتر پردیش کے تمام علاقوں میں بھیجا جاتا ہے ۔ دوسری قسم کا پان سیاہی مائل گہرے سبزرنگ کا ہوتا ہے ۔ اس کی نسیں موٹی اور سخت ہوتی ہیں اور ذائقہ بھی اچھا نہیں ہوتا اس میں ایک قسم کی کڑواہٹ پائی جاتی ہے ۔ پان کو اگر خصوصی احتیاط کے ساتھ رکھیں تو سال بھر تک شاخ یس علحدہ ترو تازہ رہتا ہے ۔ چناچہ پان جتنا پرانا ہو اتنا ہی اچھا ذائقہ دار ہوتا ہے ۔ کیونکہ کل اجزاء پختہ ہو کر مکمل ہوجاتے ہیں عام بول چال میں پان کی مندرجہ ذیل مشہور اقسام ہیں ۔منگھی پان ‘ دساری پان ‘ بنگلہ پان اور وڑم پان وغیرہ
امراض بارد‘ کے لئے پان کا استعمال۔ پان کا بیرونی استعمال :۔ یونانی اور آیورویدک طریقہ علاج میں پان کی بہت اہمیت ہے ۔ بچوں کے مختلف امراض میں یہ بہت مفید ثابت ہوا ہے کسی متورم حصہ پر پان کو گرم کرکے باندھنے سے ورم زائل ہوجاتا ہے ۔ کھانسی میں لوگ سینے پر گھی مل کر پان سے سینکتے ہیں تو بہت فائدہ ہوتا ہے ۔کھانسی بشرطیکہ سردی کی وجہ سے ہو۔ پان میں ایک قسم کا روغن ہوتا ہے ۔ جو ایک قسم کا تریاقی مادہ ہے اور کاربالک ایسڈ (Carbolic Acid) سے پانچ گونہ زیادہ قوی ہے ۔ ( ڈاکٹروں کے ہاں اس کی خوراک ۲۔۴ اونس ہے )ڈاکٹری رائے میں پان میں دوقسم کے خوشبودار روغن پائے جاتے ہیں۔ ایک ہلکا اور دوسرا وزنی ۔ ان روغنوں میں (Caustic Potash) ملانے سے ایک قسم کی چیز پیدا ہوتی ہے ۔ جسے کافور تنبول کہتے ہیں اور یہ (Carbolic Asid) کی طرح دافع جرائم ہے اس میں ایک جوہر پایا جاتا ہے ۔ جسے اریپیگن(Arepegam)کہتے ہیں۔ جو اپنی خاصیت میں کوکین کے مشابہ ہے۔ خشک پان کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا البتہ تازے ہرے پان کا جلد اثر ہوتا ہے اور ورم کو تحلیل کرتا ہے اور دوران خون کو تیز کرتا ہے یہ اثر اس لطیف روغن کی وجہ سے ہے جو کہ اس میں موجود ہے ۔ چونا یا تیل لگا کر گرم کرکے کنپٹی کی طرف باندھنے سے درد سر کے لئے سود مند ہے ۔ گلے کے درد میں گردن کے پیچھے باندھتے ہیں۔ اگر زخم پر اس کی پٹی باندھی جائے تو زخم بہت جلد اچھا ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ اب بھی بعض جراح اور قدیم زمانے میں سب ہی پان کے پتوں سے پٹی باندھا کرتے تھے۔ آب برگ پان ‘ یعنی پان کا عرق‘ آشوب چشم اور اس کا نیم گرم پانی درد کان کے لئے فائدہ بخش ہے ۔
اندرونی اثرات و استعمال : خشکی دہن اور پیاس کو دور کرتا ہے پان اگر اس کے مصلحات کے ساتھ استعمال کیا جائے تو قرج لشہ گندہ دھنی ‘ اور سو ہضمی وغیرہ کے لئے مفید ہے ۔ منہ کے خراب ذائقہ کو دور کرتا ہے ۔ ذیابطیس اور گردہ کی سوزش کے لئے بھی مفید ہے ۔ پان معدہ کی اصلاح کرتا ہے ۔ بھوک بڑھا تا ہے ۔ زبان کے ذائقہ کو درست کرتا ہے ۔ دانتوں کو مضبوط کرتا ہے ۔ معدہ سے فاسد مادہ کو نکالتا ہے ۔ منہ اور مسوڑہوں کی رطوبت کو دفع کرتا ہے آیورویدک اطباء کی رائے میں پان دل کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے پان ( بیڑہ) کے جو کچھ بھی نقصانات کا شبہ کیا جاسکتا ہے وہ تمباکو یا دوسری مضیر چیزوں کی آمیزش سے ہوتے ہیں نہ کہ پان سے سادہ پان صحت کے لئے ہر حال میں مفید ہے ۔ دل ‘ دماغ‘ معدہ ‘ جگر‘ حافظہ اور فہم کو قوی کرتا ہے ۔
چونا(LIME) :
ڈاکٹری رائے : ہوا کے زہریلے اثر کو دور کرنے اور بدبو کو رفع کرنے کے لئے نہایتمفید ہے ۔ مقوی قلب ہے ۔ ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے ۔ خون کے بہنے کو روکتا ہے ۔ مسوڑہوں کا ورم اور مسوڑھوں اور زبان کے آبلہ کو نفع بخش ہے ۔ چونہ معدہ میں دودھ پھٹنے نہیں دیتا ۔ جلد ناخن اور بال ‘ دانت کو مضبوط رکھتا ہے ۔ چونے کے پانی سے غرارہ کرنے سے زبان‘ حلق اور مسوڑھوں کے چھالوں اور ان کے زخموں کو بہت جلد نفع بخش ہے ۔ چونا ‘ متلی ‘ بدھضمی ‘ درد شکم کی حالت میں انہضام غذا کے لئے نہایت کار آمد ہے ۔ میعادی بخار میں دودھ کے ہمراہ دینے سے فائدہ ہوتا ہے ۔ چونا طاعونی جراثیم (Plague) کو بھی ہلاک کرتا ہے ۔
یونانی رائے : اورام کے تحلیل کرنے میں بے مثل ہے آگ سے جلنے پر اس کا لیپ روغن کنجد یا روغن کتال میں خوب ملاکر لگانا بہت مفید ہے ۔
آیورویدک رائے : خون میں قوت پیدا کرتا ہے ۔ صحت کی برقراری کے لئے چونا ( کیلسیم) ایک ضروری جز ہے ۔ اس کی کمی سے انسان سیکڑوں امراض کا شکار ہوجاتا ہے ۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پان کے ساتھ جو چونا کھایا جاتا ہے وہ بھی (Calcium) کی کمی کو پورا کرتا ہے۔
نقصانات: خشکی اور خراش پیدا کرنے کے علاوہ نفوذ کرنے کی بڑی زبردست قوت رکھتا ہے ۔ مسوڑہوں اور دانتوں کے درمیان جم جاتا ہے اور مسوڑہوں کے بالائی حصے نیچے کی طرف دبتے چلے جاتے ہیں جب تہوں کا حجم زیادہ ہوجاتا ہے ۔ تو غذا یا مسواک وغیرہ سے رگڑا کھا کر الگ ہوجاتی ہے ۔ اور اس طرح دانتوں کی جڑیں کھل کر کمزور ہوجاتی ہیں ۔ دانت ہلنے لگتے ہیں۔ اور وقت سے پہلے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ دانتوں کے کمزور ہوجانے سے حاضمہ میں جو فتور پیدا ہوتا ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔
چھالیہ (NUT) :
ڈاکٹری رائے : مندمل زخم ہے ۔ خون کے بہنے کو روکتی ہے ۔ اعضاء تشیج کو روکتی ہے ۔ دانتوں کو صاف اور مضبوط کرتی ہے ۔ مگر زیادہ استعمال ان کی جڑوں کو کمزور کرتی ہے۔ منہ کی تمام بیماریوں کے لئے مفید ہے ۔ اس میں ایک جوہر پایا جاتا ہے ۔ جس کو اریکولین Arecoline کہتے ہیں یہ جو ہر معدہ اور آنتوں کی حرکت میں اضافہ کرتا ہے ۔دل کی حرکت کو سست کرتا ہے ۔ آنکھ کی پتلی کو سکیڑتا ہے ۔ دست آویز ہے ۔ چھالیہ کا برادہ آنتوں کے کیڑوں کو مارتا ہے ۔ چھالیہ کا برادہ اگر زیادہ مقدار میں کھالیا جائے تو اس کے اثر سے سانس کی نالی کی سطح سے میونس(MUCIN) ایک قسم کا چکنا مادہ بہت زیادہ خارج ہوتا ہے ۔ اور دم گھٹنے لگتا ہے چھالیہ کا زیادہ استعمال اختلاج بڑھادیتا ہے ۔ جس سے آنکھوں میں اندھیری چھا جاتی ہے ۔ چکر محسوس ہونے لگتا ہے ۔ اس لئے استعمال میں اعتدال ضروری ہے۔
یونانی رائے : قابض ہے مواد کو پختہ کرتی ہے ۔ دل ‘ باہ اور ڈھیلے اعضاء کو قوت بخشتی ہے ۔ دماغ پر بخارات چڑھنے کی سانع ہے ۔ منجن میں استعمال کرنا مقوی دندان ہے ۔
آیورویدک رائے :۔ ٹھنڈی ‘ خشک اور نشہ آور ہے ۔ ہاضمہ کی حرارت کو بڑھاتی ہے کف اور منہ کے خراب ذائقہ کو دور کرتی ہے ۔
لونگ :
ڈاکٹری رائے : دافع جراثیم ہے ۔ درد کو دور کرتی ہے ۔ زبان اور مسوڑوں کے زخموں اور چھالوں کو نفع بخشتی ہے دانتوں کے درد اور ان کے کیڑوں کو مارتا ہے ۔ ریاح کا اخراج کرتا ہے ۔معدہ‘ دل اور دماغ کو قوت بخشتا ہے ۔ اور سستی کو دور کرتا ہے ۔ فرحت اور چستی لاتا ہے ۔ کھانسی گلے کی خراش اور بیٹھی ہوئی آواز کو فائدہ پہنچا تا ہے ۔
یونانی رائے : باطنی اعضاء نکسیر و دماغ کو قوت بخشتی ہے ۔ درد سر کو جو سردی کی وجہ سے ہو دفع کرتی ہے ۔ فالج ‘ لقوہ اور سکتہ کو مفید ہے ۔ نزلہ اور کل دماغی امراض میں مفید ہے ۔ معدے کو کھولتا ہے ورم کو تحلیل کرتا ہے ۔
آیوروید ک رائے : ہاضم ہے ۔ شہتی ۔پت‘ فساد خون‘ پیاس‘ قئے ‘ دردشکم کھانسی دمہ اور ہچکی کو دور کرتا ہے ۔
کتھا: قابض ہے ۔ زخموں کو مندمل کرتا ہے خصوصاً ان زخموں کو جو چونے سے ہوتے ہیں۔خون کے بہنے کو روکتا ہے ۔ مسوڑھوں اور دانتوں کی کمزوری کو دور کرتا ہے ۔ اجابتوں کو روکتا ہے ۔ مسوڑھوں کے زخموں ‘ زبان چِھل جانے یا اس پر زخم یا آبلے کو دور کرتا ہے ۔
یونانی رائے : ورم کے مواد کو پختہ کرتا ہے ۔ آنتوں کی خراش اور زخم کے لئے مفید ہے ۔ اس کا کثرت استعمال‘ سنگ مثانہ ‘ اور ضعف باہ پیدا کرتی ہے ۔ اجابتوں کو روکتا ہے ۔ مسوڑھوں کو مضبوط کرتا ہے ۔ منہ کی بدبو کو دور کرتا ہے ۔
آیورویدک رائے : منھ کے تمام بیماریوں مثلاً آبلے اور قلاع وغیرہ کو مفید ہے ۔
الائچی: تیز اور خوشبو دار ہونے کی وجہ سے گندہ دھنی کو دور کرتی ہے ۔ منھ کی بیماریوں کے لئے مفید ہے ۔ بھوک بڑھا تی ہے اور ہاضم ہے معدئی رس کو بڑھاتی ہے مخرج ریاح ہے ۔
یونانی رائے : روح کو فرحت بخشتی ہے تحلیل ریاح کرتی ہے ۔ اور زخموں کو جلا دیتی ہے ۔ مقوی قلب اور معدہ ہے ۔ قئے اور متلی وغیرہ کے لئے مفید ہے ۔ گندہ دھنی کو دور کرتی ہے ۔ ہوا کو خوشبودار کرتی ہے ۔ گردہ اور مثانہ کی پتھری کو نکال دیتی ہے ۔
آیورویدک : دمہ‘ کھانسی ‘ بواسیر‘ وغیرہ کی تکالیف کی دافع ہے ۔
تمباکو(Tobaco): معدہ اور آنتوں وغیرہ کے کیڑوں کو ہلاک کرتا ہے ۔ اس میں ایک جوہر نکوٹین ہوتا ہے جو قاتل کرم ہے ۔ایک اور روغن جس کو نکو ٹائین کہتے ہیں یہ بھی قاتل کرم ہے جراثیم کو مارتا ہے ۔ نکوٹین پہلے پہل جسم میں ایک قسم کی چستی پیدا کرتا ہے ۔ اور اس کے بعد طبعت میں ایک زوال پیدا ہوتا ہے ۔ دل کی حرکت کو پہلے تیز کردیتا ہے ۔ اور بعد میں سست کردیتا ہے ۔ خون کا دباؤ بعد کی کیفیت میں کم ہوجاتا ہے ۔ آنتوں کی حرکت کو روک دیتا ہے ۔
زہریلے اثرات: نکو ٹین نہایت ہی طاقتور زہر ہے ۔ تمباکو معدہ اور آنتوں میں خراش پیدا کرتا ہے جبکہ اس کا استعمال زیادہ مقدار میں ہو ا کے زہریلے اثرات قئے ‘ دست اور اعضاء کی کمزوری سے ظاہر ہوتے ہیں ۔نبض پہلے سست اور بعد میں تیز ہوجاتی ہے ۔ تیز اور ہلکے قسم کی سانس پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ جسم کی حرارت گر جاتی ہے اور منہ کا کینسر اسی کا سبب ہے ۔ آخر کار موت واقع ہے ۔ البتہ مسوڑھوں کے ورم اور درد وغیرہ کے لئے بعض صورتوں میں مفید ہے ۔
تمباکو کے تیز جوشاندہ کی معتبدہ مقدار انسان کو ہلاک کرسکتی ہے ۔ اور اس کی تھوڑی مقدار بھی پھیپھڑے ‘ دل‘ دماغ اور اعصاب کو سخت نقصان پہنچاتی ہے جو اصحاب شب و روز تمبا کو پھانکتے رہتے ہیں انہیں یاد ہوگا جبکہ اول اول انہو ں نے اسکو نہایت تھوڑی مقدار میں کھایا توہچکیاں آنے لگی تھیں دل دھڑکنے اور سرچکرانے لگا تھا ۔ سارے جسم میں سخت کمزروی اور سستی پیدا ہوگئی تھی ۔ اور اگر فوراً گلاس بھر پانی نہ مل جاتا تو خدا جانے طبیعت کا اور کیا حال ہوجاتا ۔ اب ہم خود سوچ سکتے ہیں کہ آیا ایسی چیزیں اس قابل ہیں کہ انسان شب و روز پھانکتا رہے ۔لیکن کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ’’ تلخی میں بہت مزہ ہے ‘‘ افیوں خور دنیا کی ساری چیزیں چھوڑ سکتا ہے لیکن افیون نہیں چھوڑ سکتا یہی حال تمبا کو کھانے والوں کا ہے ۔
خلاصہ : پان اور اس کے مروجہ ضروری مصالحہ جات کے خواص اور افعال کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر تمباکو کے پان کا استعمال منہ کے امراض کے لئے نہایت مفید ہے ۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ جو چیزیں نفع بخش ہوں ان کو مضر کیو نکر کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ادویات کا استعمال مخصوص اوقات میں ہوتا ہے غیر اوقات میں ان کا استعمال کچھ ٹھیک نہیں ۔ بالا خر ہم اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ اگر پان کو درجہ اعتدال پر استعمال کیا جائے تو انسان بہت سے امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے ۔ اور اسکا استعمال نہایت ہی فائدہ بخش ہے ۔ بالخصوص قروم لثہ ‘ درد داندان‘ گندہ دہنی اور مسوڑہوں کے لئے نہایت نافع ہے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے فوائد ہیں مثلاً ذائقہ کا درست ہونا ‘ زبان اور مسوڑھوں کے زخم مندمل ہونا ‘ حلق کی خرابی سے محفوظ رہنا ‘ کھانا کھانے کے بعد منھ کو صاف کرنے اور اس کی تمام کثافت کو دور کرنا وغیرہ پان کے بیڑے کے استعمال سے طبعت کو فرحت ملتی ہے اور خصوصاًموسم سرما میں گرمی پہنچاتا ہے ۔ نامرغوب چیز کے استعمال کے بعد کھانے سے کراہت دفع ہوجاتی ہے اور منھ صاف ہوجاتا ہے۔ کھانے کے بعد پان کا استعمال ایک ٹانک کی حیثیت رکھتا ہے ۔کھانے کے ساتھ ہم اکثر نامعلوم طورپر جراثیم پیٹ میں چلے جاتے ہیں ۔ پان کا عرق اور دوسرے اجزاء ان جراثیم کو مار ڈالتے ہیں اور اس طرح ہم بہت سی بیماریوں سے بچ جاتے ہیں۔ پان کے کھانے کے بعد پیدا ہونے والی سرخی کی وجہ سے چہرہ پر خوبصورت بڑھ جاتی ہے ۔ اسلئے لوگ ( خصوصاً صنف نازک) اس کو افزائش جمال کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہندوستان میں پان ہی ایک ایسی مہذب اور کم خرچ تواضح ہے جسے غریب سے غریب پیش کرکے اپنے جذبات محبت ایک دوسرے پر آشکار کرسکتے ہیں ۔
اوپر بیان کی ہوئی خصوصیات کے پیش نظر پان اعتدال حدود میں نہ صرف استعمال کیاجاسکتا ہے بلکہ دوسروں کو اس کے استعمال کرنے کی ترغیب بھی دی جاسکتی ہے ۔ ہاں البتہ وہ کثرت پان استعمال کرنے والوں کو حق بجانب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ کیونکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ ہر ایک چیز خواہ وہ اپنے فوائد میں کتنی ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو حد اعتدال سے تجاوز کرکے استعمال کرنا اس کے مفید اثر کو خاک میں ملا دیتا ہے ۔اورپان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ زمانہ حال میں بعض لوگوں نے پان کو بہت بدنام کیا ہے ۔ لیکن ان نکتہ چینیوں نے اس بات کو پیش نظر نہیں رکھا کہ یہ نقصانات صرف اس وقت پیدا ہوتے ہیں جبکہ اس کے استعمال میں اعتدال کا لحاظ نہ رکھا جائے ۔ خصوصاً جب اس کے ساتھ تمبا کو یا دوسری مضر چیزوں کا استعمال کیا جائے ۔
پان کے کثرت استعمال سے نقصانات: جس وقت لقمہ منہ کے اندر پہنچتا ہے ۔ تو دانت اسے کچلتے ہیں اور لعاب دہن( تھوک ) پیدا کرنے والی گلٹیاں رطوبت زیادہ خارج کرنے لگتی ہیں جس میں جس میں ہضم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ اس طرح ہضم غذا کا پہلا درجہ منھ کے اندر ہی شروع ہوجاتا ہے ۔ اور اس کی وجہ سے معدہ کے ہضمی عمل میں مدد ملتی ہے جب پان کثرت سے استعمال کرتے ہیں تو یہ گلٹیاں زیادہ مقدار میں لعاب دھن خارج کرتی ہیں کیونکہ پان کے زیادہ کثرت استعمال سے یہ گلٹیاں بہت زیادہ متحرک ہوجاتی ہیں چنانچہ ہر پان کھانے والا کثرت سے پیک تھوکنے پر مجبور رہتا ہے ۔ اس طرح سے ایک کارآمد شئے کو مسلسل برباد کرتے رہتا ہے ایسا عمل مسلسل اور ایک عرصہ تک جاری رہنے سے آخر گلٹیاں کمزور ہوجاتی ہے چنانچہ کھانا کھاتے وقت یا دوسرے اور اوقات میں جبکہ پان نہیں کھاتے لعاب دھن کم پیدا ہوتا ہے اس کی کمی کی وجہ سے ہضم(Digestion) کا فعل بخوبی انجام نہیں پاتا ۔ مسوڑھے کمزور ہوجاتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ دانت قبل ازوقت گرجائیں۔بعض لوگ چوبیس گھنٹے پان چباتے رہتے ہیں حتی کے راتوں کو سونے سے اٹھ کر پان کھا تے ہیں اور منہ میں پان رکھ کر سوجاتے ہیں ۔ صبح کو بغیر منھ دھوئے پان کھالیتے ہیں اور ایسے ہی لوگ پان میں بکثرت تمبا کو استعمال کرتے ہیں۔ اس سے بجائے فائدہ کے نقصان کا احتمال زیادہ رہتا ہے ۔ پان کے کثرت استعمال سے بھوک میں کمی آجاتی ہے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے ۔ اختلاج کا ڈر رہتا ہے ۔ دماغ کمزور اور اعصاب ضعیف ہوجاتے ہیں۔پھیپھڑے خشک اور کمزور ہوجاتے ہیں نیند کم ہوجاتی ہے اور رفتہ رفتہ صحت گرنے لگتی ہے اور مرض سل پیدا ہونے کی استعداد بڑھ جاتی ہے اس کے علاوہ پان کے زیادہ استعمال سے انسان کے مالیہ پر بھی اثر پڑتا ہے ۔
نتیجہ : پان ہر حالت میں بہت ساری خوبیوں کا حامل ہے اور پان کے بیڑہ کا استعمال واقعی صحت کے لئے ٹھیک ہے ۔ مگر استعمال میں اعتدال شرط ہے ۔ لہٰذا پان کے استعمال کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دن میں دو ایک مرتبہ کھانا کھانے کے بعد چونا ‘ کتھا ہم وزن بطریق معروف پان پر لگا کر تھوڑی سی چھالیہ اور الائچی شامل کرکے کھالیا کریں ۔
Article : Paan a god gift leaf
Writer: Razi Uddin Moazzam

Share

۲ thoughts on “پان : قدرت کا ایک عظیم عطیہ ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم”

Comments are closed.

Share
Share