خاکہ : سلیمان دہلوی ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر فیصل حنیف ۔ دوحہ، قطر

Share
faisal
ڈاکٹر فیصل حنیف
suleman
سلیمان دہلوی

خاکہ : سلیمان دہلوی

ڈاکٹر فیصل حنیف ۔ دوحہ، قطر
Mobile: +974 55225482

دھرے ہیں سینے پہ ہاتھ دونوں یہ حفظِ عفت کا جوش دیکھو
یہ جان دیکھو، یہ عمر دیکھو، یہ عقل دیکھو، یہ ہوش دیکھو
بیس برس اُدھر ٹی وی پر قوت بخش شربت کا ایک اشتہار چلتا تھا جس میں ایک خوش شکل نوجوان لڑکا اور اس کے ہمراہ ایک ماہ لِقا چلتی بس کے دروازے پر کھڑے ہوتے ہیں کہ ایک بزرگ بجلی کی سی سرعت سے دوڑتے ہوئے، فراٹے بھرتی بس میں لپک کر سوار ہو جاتے ہیں، دو شیزہ اس حیرت انگیز چستی و پھرتی کا مظاہرہ دیکھ کر انگشت بدنداں ہو جاتی ہے اور بڑے میاں کی طرف ہوش ربا انداز اور خود سپردگی کی نظر سےدیکھتے ہوئے کہتی ہے "ساٹھ سال کے بوڑھے یا ساٹھ سال کے جوان”- بڑے میاں کے ہونٹوں پر معنی خیز فاتحانہ مسکراہٹ بکھر جاتی ہے اور دوشیزہ کے ساتھ موجود نوجوان عرقِ ندامت میں غوطے کھاتا دکھائی دیتا ہے، اور ٹی وی کے سامنے بیٹھے نوجوان لڑکوں کا دل کباب ہوا جاتا ہے-

میرے عزیز دوست، مشفق بزرگ، ادبی نشستوں کے میرِ محفل، انتظامی صلاحیتوں میں کامل، اردو کی نسبت سے نجم الدولہ کہلائے جانے کے قابل، اہل نظر کے لیے دوحہ کی صحبتوں کا حاصل، بذلہ سنجی کے لیے ناگزیر ، زندہ دلی و بشاشت کی تصویر، ملنسار پر انا کے اسیر، بری شاعری سے بیزار، شاعر فہم اور فرومایہ شاعروں کے لیے برہنہ تلوار، کل سے بے نیاز، ہمہ وقت ماضی کی رتھ میں سوار، دہلوی تہذیب و ثقافت کے علمبردار، دشمن شناس، دوست نا شناس جناب سلیمان دہلوی کی شخصیت ایسی ہے جس پر مجھ کو رشک آتا ہے- وہ مجھ سے عمر میں دگنے اور چستی اور پھرتی میں بھی دگنے ہیں- اگر ٧٠ برس میں آدمی یوں ہو جاتا ہے تو میں آج بوڑھا ہونے کو تیار ہوں- جوانوں کے تیور اور صحت اور بزرگوں کا تجربہ اور متانت، کہیں اور یکجا ہوتے میں نے نہیں دیکھے-بہر کیف، سلیمان صاحب سے مل کر جہاں اگلے وقتوں کی وضع داری کے نمونے دیکھ کر دل باغ باغ ہوتا ہے وہاں کبھی کبھار حال اوپر بیان کیے ہوئے ٹی وی اشتہار دیکھنے والے نوجوانوں کا سا ہو جاتا ہے-
دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اس کی روبکاری ہے
خاکہ نگاری فن کے زمرے میں آتا ہے، تاہم کسی زندہ شخص کا خاکہ نہ لکھنا زیادہ قابلِ قدر کارنامہ ہے- خاکہ نگاری کا اصول یہ ہے کہ جس کے بارے میں لکھا جائے اس کی شخصیت کے منفی پہلو بھی سامنے لائے جائیں اور جسے مشقِ ستم بنایا جائے اسے کوئی تکلیف بھی نہ ہو- زندہ لوگوں کے معاملے میں یہ کیونکر ممکن ہے؟ دوسرا، اور مروج طریقہ یہ ہے کہ خاکے میں تعریف و توصیف کی ایسی بھرمار ہو اور جھوٹ کے ایسے پل باندھےجائیں کہ ممدوح خود شرمندہ ہو جائے، مولانا آزادؔ کی طرح اپنے استاد کے ہاتھ سے استرا چھین کر تلوار تھما دی جائے- یا پھر مولانا حالیؔ کی ‘حیاتِ جاوید’ کی طرح ‘مدلل مداحی’ لکھ دی جائے- سب سے آسان تو یہ ہے کہ یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا جائے کیونکہ دستر خوان بچھانے میں سو عیب پر نہ بچھانے میں صرف ایک عیب ہے-
میری کج روی دیکھیے کہ مجھ کو فن کی روایت سے چمٹے رہنے کی عادت ہے، اور حقیقت بھی یہ ہے کہ سچی خاکہ نگاری کثافتِ طبع نہیں بلکہ شوخیِ طبع کا بیان ہوتی ہے- اور ویسے بھی قصیدوں میں کیا لطف ہے- طبیعت الگ بیزار ہوتی ہے- بقول یوسفی، استاد ذوقؔ ہر قصیدے کے بعد منہ بھر بھر کے کلیاں کیا کرتے تھے- میری کوشش ہے کہ میں خاکہ نگاری میں ان مخصوص مضامین سے کچھ پاک اور کسی حد تک معرّا ہو جاؤں جو ہر ‘بوالہوس’ کا شعار ہے- یعنی سچ (حسبِ ذائقہ) ، جومیں سمجھتا ہوں، لکھوں-
کارِ مغاں یہ قند کا شربت بیچنے والے کیا جانیں
تلخی و مستی بھی ہے غزل میں، خالی رس کی بات نہیں
سلیمان صاحب عمدہ مضمون نگار ہیں، میں نے ایک بار کہا کہ حضرت مضمون چھوڑئیے، خاکہ لکھیے اور ایسا کہ جس کا خاکہ لکھیں اس کی دھجیاں اڑ جائیں، حیران ہو کر فرمانے لگے کہ زندوں میں ایسا خاکہ کس کا لکھوں؟ میں نے کہا: آپ میرا خاکہ لکھیے، میں آپ کا خاکہ لکھتا ہوں- بالکل ایسے جیسے بحوالہ آبِ حیات، ایک عمر رسیدہ شاعر مرزا رفیع سوداؔ سے ملاقات کو آئے-” بعد رسوم معمولی کے آپ نے پوچھا کہ فرمائیے میاں صاحب آج کل کیا شغل رہتا ہے، انھوں نے کہا افکارِ دنیا فرصت نہیں دیتے، طبیعت کو ایک مرض یاوہ گوئی کا لگا ہوا ہے، گاہے بگاہے غزل کا اتفاق ہو جاتا ہے، مرزا ہنس کر بولے کہ غزل کا کیا کہنا، کوئی ہجو کہا کیجیے، بیچارے نے حیران ہو کر کہا ہجو کس کی کہوں ؟ آپ نے کہا، ہجو کو کیا چاہے ، تم میری ہجو کہو، میں تمھاری ہجو کہوں۔”
تو یہ ہے اس خاکے کی وجہِ تسمیہ- انگریز کی قید میں مولانا محمد علی جوہر ؔپر ایک موقع وہ بھی آیا کہ جب مولانا کی خط و کتابت پر پابندی لگا دی گئی اور اُن کے اہل و عیال کے خطوط بھی سنسر ہونے لگے- مولانا نے اس موقع پر کہا
شرطِ تحریر پہلے سن لے پھر
خامے کو ہاتھ میں دلا لینا
نامۂ شوق اُن کو شوق سے لکھ
غیر کو بھی مگر دکھا لینا
میں نے کہا زبان کے آگے خندق نہیں،میں خاکہ لکھوں گا اور آپ کو دکھا دونگا ، شرطِ تحریر بھی یہی تھی، اگر پسند نہ آیا تو کہہ دوں گا کہ
گر نازنیں کہے سے بُرا مانتے ہو تم
میری طرف تو دیکھئے میں نازنیں سہی
اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو اپنی مرضی سے کاٹ کوٹ کر کے خاکے کا دف مار لیجیے- آہ! یوں کھینچی تصویر آدھی رہ گئی، اب یہی نامۂ شوق پیشِ نمایش ہے-
میرے لیے سلیمان دہلوی کا خاکہ لکھنا ایسا ہی ہے جیسے غالبؔ کے لیے ذوقؔ کا قصیدہ کہنا، یعنی اس مضمون میں جو بات سلیمان دہلوی کی خوبی بیان کرے، پڑھنے والوں کو اسے سچ ماننے میں ذرا بھر تردد نہیں ہونا چاہیے کیونکہ "صادق ہوں اپنے قول میں” اور جہاں کسی خامی کا ذکر ہو تو اسے میرے رشک اور بدگمانی "ہوا ہے شہ کا مصاحب” پر محمول کیا جائے اور درست نہ مانا جائے کیونکہ درست ماننے کی ایک وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ آپ نے بھی میری طرح ٹی وی پر جواں سال بوڑھے کا اشتہار دیکھا ہے – ا س خاکے میں اچھائیوں کے معاملے میں غایت درجہ مبالغہ آرائی کی ذمہ داری میرے منہ زور قلم پر ہے- اس کے علاوہ، ستائش ممدوح کو بھی مرغوب ہے- خامیوں کے باب میں نکتہ رس انصاف پرور دلِ سلیمان کی اس بندۂ نا چیز سے مخفی گزارش ہے کہ
لکھ دیجیو فیصلؔ اسے حصّے میں عدو کے
یعنی سلیمان دہلوی کا خاکہ دوسروں کے خاکے میں دکھائی دینے کا سامان پیدا ہو گیا –
ایک مشکل اور آن پڑی- اردو میں خاکہ لکھنے والے کو ‘خاکہ نگار’ کہتے ہیں- جس کا خاکہ لکھا جائے اس کے لیے کوئی لفظ کوئی ترکیب موجود نہیں- ‘ممدوح’ کہہ نہیں سکتے کیونکہ فقط مدح مقصود نہیں- ‘مخوک’ کھردرا سا لگا- اسپِ تخیل کو ہزار بار دوڑایا اور ہر بار وہ اِس گلی میں گیا اور سو گیا- پھرایک اچھے دن، گزرگاہِ خیال فورم کے پروگرام ‘ جناب افتخار راغبؔ کے شعری مجموعے ‘غزل درخت’ کی رونمائی’ میں میری، بحرِظرافت و لطافت، بذلہ سنج، فنِ ندیمی میں طاق، شگفتہ مزاج جناب مرزا اطہر بیگ سے ملاقات ہو گئی- فرمانے لگے کہ ‘خاکہ نشیں’ کہہ لیجیے- کہا، یہ تو اسم کے بعد آکر اسے اسمِ فاعل ترکیبی بنا دیتا ہے اس لیے ہو ہی نہیں سکتا- وہ خاموش ہو گئے- میری اختراع پسند طبیعت کو اس مضمون کے باب میں اور بطورِ حفِ نظر، یہ ترکیب بھا گئی- اور یوں سلیمان صاحب ‘خاکہ نشیں’ ٹھہرے-
سلیمان دہلوی کی عمر ستر کے قریب ہے -گرم و سرد زمانہ چشیدہ ہیں- تاہم اپنی بزرگی اور تجربے کا لوہا منوانے کی خاطر اپنی عمر، اصلی عمر سے زیادہ بتاتے ہیں- تجربے کے اعتبار سے اس عجب مرحلۂعمر میں ہیں جہاں ہر اچھی بات (دوسروں کی) بری بات نظر آتی ہے- اور ہر بری بات (اپنی) اچھی نہیں بلکہ بہت اچھی بات نظر آتی ہے- قد میانہ اور ہا ڑ بھی میانہ، یعنی زیادہ چوڑا نہ تنگ، اونچی خوبصورت ناک، رنگ ایسا سانولا جو سانولا نہ لگے، سر کے بال سفید لیکن سر کے سامنے کی طرف سے بالوں کی شدید کمی کے باعث سفیدی مشاہدے میں نہیں آتی- کھنچی ہوئی بھنویں جو پرانی وضع کی عینک کے پیچھے سے کچھ کچھ دکھائی دیتی ہیں، لباس کے معاملہ میں سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود ہیں، یعنی ہمیشہ پاجامہ کرتا زیب تن کرتے ہیں- سردی ہو یا گرمی کرتے کی آستینیں چڑھائے رکھتے ہیں- بظاھر لاابالی پر اندر سے سنجیدہ- اور خوبی بقول آپ "سب سے بہترین گالی دینا جانتا ہوں”-
سلیمان دہلوی عاشق مزاج، رنگین طبع، لطیفہ سنج، ذکرِ شباب پر مچل جانے والے شاہد باز ہیں- زندہ دل ایسے کہ بزرگ اِن کی صحبت میں بدحواس ہو جائیں اور جوان اپنا زانوئےتلمذ تہ کر کے اِن کی کیفِ شبانہ کی یاد سے نو جوانی کا سبق لینے لگیں – ستر برس کی عمر میں یہاں خواہشمندانِ تجدیدِ تمنائے نو قافلے کے سالار ہیں-
کمر باندھے قطر میں آج بھی کچھ یار بیٹھے ہیں
جو بیاہے جا چکے اک بار پھر تیار بیٹھے ہیں
پیری میں وصالِ یار کسی صورت نہ پوری ہونے والی آرزو بن جاتا ہے- کہتے ہیں کہ آخری عمر میں فقط ‘خیالِ حسن’ سے بزرگوں کو پھریری آجاتی ہے، اور ‘حسنِ عمل’ کی خواہش میں کوچۂ دلدار میں جا کر عاشق شکن تجربہ ہوتا ہے کہ
ہم جن پر ہر دم مرتے ہیں
وہ ہم کو دیکھ کے ڈرتے ہیں
دِلّی، جس کی خاک سے ایسی نابغہٴ روزگار ہستیاں اٹھیں جنہوں نے اپنے کمال سے اردو کے دامن کو مرصّع و زر نگار بنا دیا، قالبِ گل میں ڈھلے سلیمان دہلوی اسی مردم خیزسر زمین کے گوہرِ گراں مایہ ہیں- دوحہ میں دِلّی کی ایسی یادگار اور کوئی نہیں- سلیمان صاحب اپنے علاوہ کسی دوسرے کو دل سے دِلّی کا نہیں مانتے- اگر دِلّی کے کسی صاحب سے ٹکراؤ ہو جائے تو بیخود دہلوی اور سائل دہلوی کا مشہور لطیفہ کارِعمل لے آتے ہیں- ایک محفل میں دِلّی کےایک صاحب سے اِن کی ملاقات ہوئی- دورانِ گفتگو اُن صاحب نے پوچھا کہ یہاں پر دِلّی سے اور کون کون لوگ موجود ہیں – سلیمان صاحب نے جواب دیا کہ "ایک آپ ، ایک میں ، اور آپ بھی کیا”- دوسرے صاحب بوجوہ "آپ بھی کیا” کا لطف نہ اٹھا سکے- اگر اٹھا سکیں تو آپ اٹھائیے-
سلیمان دہلوی، مرزا نوشہ کے محلہ دار ہیں، یعنی بَلّی ماران کے ہیں- نخوت سے مرزا کو اپنا محلہ دار بتاتے ہیں- مرزا کے خاص عقیدت مند ہیں،لیکن اس سے ذرا بھی مرعوب نہیں- مرزا کو کمترنہیں سمجھتے اگرچہ میری طرح اسے کم سمجھتے ہیں – غالب کا شعر ہر کس و ناکس کو نہیں سناتے- کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص کو غالب کا شعر سنا کر مجھے بہت دکھ ہوا- میں نے پوچھا کیوں؟ تو بولے کہ "وہ اس قابل نہیں تھا-” غالب کے اکثر فارسی زدہ مشکل اشعار انھیں ازبر ہیں جو وقتاً فوقتاً احباب کو مرعوب کرنے کی خاطر سناتے رہتے ہیں- سننے والا اپنی کم فہمی پر شرمندہ ہوتا ہے- یہ راز اب راز نہیں رہا کہ اکثر اس شعر کے معنی سے شعر سنانے والا اتنا ہی بے خبر ہوتا ہے جنتا سننے والا- غالب کا مصرع "شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے” اِن پر صادق آتا ہے- ہر وہ شعر جس میں لفظ ‘سلیمان’ استعمال ہو، اسے اپنی فتراک کا نخچیر بنا لیتے ہیں، یعنی ہمیشہ کے لیےمحفوظ کر لیتے ہیں اور با اہتمام و انصرام اکثر بے موقع پڑھ دیتے ہیں-
شعر کا انتخاب ایک بار وجہِ محرومیت بن گیا- اپنی طالب علمی کی دور میں کالج کے ہر ہونہار طالب علم کی طرح تمنائی اور طالبِ مہر و وفا بھی تھے- ایک بت خود اِن پر دل و جان سے فریفتہ اور مائل بہ کرم بھی تھا- اس صورتِ مہرِ نیمروز نے پہلی ملاقات میں شعر کی فرمایش کر دی- ایک آنچ کی کسر رہ گئی تھی کہ غالبؔ کی مشکل پسندی کی پسندیدگی لے ڈوبی اور انھوں نے اپنی ‘گویم مشکل’ زنبیل سے، مرعوب کرنے کی خاطر، مرزا کا یہ شعر سنا دیا-
تھیں بنات النعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں
بد قسمتی سے یہ عقدۂ مشکل، مرغوبِ بتِ سہل، پسند نہ آیا- محبوب تھا تو غالبؔ کا طرفدار، پر شومئی قسمت نا سخن فہم تھا – شعر اور شعر سنانے والے کو ‘فحش’ سمجھ کر ، یہ کہہ "ہائے اتنا گندہ "بھاگ کھڑا ہوا- تھوڑی دیر قبل کا سماں، جو خمارِ شوقِ محبوب، رستخیز اندازہ تھا، عاشق کو سپندِ بزمِ وصلِ غیر بنا کر گریے سے پنبۂ بالش کو کفِ سیلاب بننے کے لیے چھوڑ گیا-
سلیمان دہلوی کو مشاعروں سے خاص لگاؤ ہے- قطر میں مشاعرے کی روایت کو قائم کرنے اور اسے پروان چڑھانے والے پہلے شخص ہیں – مشاعرے کو فائیو اسٹار ہوٹل تک لے جانے کا سہرا بھی سلیمان دہلوی کے سر ہے- قطر کے ادبی منظر نامے پر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اِن کی تنظیم انڈو قطر اردو مرکز کے مشاعرے، مشاعروں کا معیارجانچنے کا پیمانہ بن چکے ہیں- اپنی خاص طرز کے روایتی مشاعروں کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی- البتہ منصفی ایسی کہ دوسروں کے مشاعروں کو ‘شعری نشست’ کہتے ہیں- داد رسی، جس کو شاعر دادِ سخن کہتے ہیں، میں انھوں نے وہ مہارت بہم پہنچائی ہے کہ مشاعروں میں اکثر اپنے ‘من پسند’ شعراء کو داد اپنی کرسی پر سو کر پیش کرتے ہیں- داد کا یہ طریقہ پرانا اور مستند ہے جس کی ایک مثال جارج برنارڈ شا بھی پیش کر چکے ہیں – کہتے ہیں کہ برنارڈ شا کے ایک دوست ڈارمہ نگار اور اداکار تھے- انھوں نے برنارڈشا کو اپنے ڈرامے کا پاس بھیج کر ڈارمہ دیکھنے کی دعوت دی- برنارڈ شاتھیٹر پہنچ گئے اور کچھ دیر کھیل دیکھنے کے بعد اپنی نشست پر سو گئے- جب ڈارمہ اختتام کو پہنچا تو دوست بہت خفا ہوئے اور برنارڈشا سے کہنے لگے کہ آپ نے ہمارے ڈرامے کے بارے میں اپنی رائے نہیں دی اور سوتے رہے- برنارڈشا نے کہا کہ "سونا بھی تو ایک رائے ہے”- برنارڈشا کے دوست کو اُن کی رائے سے کچھ ‘افاقہ’ ہوا یانہیں، اس کا ذکر کہیں نہیں ہے، تاہم سلیمان صاحب کے ممدوح شاعر اِن کے ‘سونے’ کو داد سمجھتے ہیں – اسی واسطے اِن شعراء کی شاعری کا تنزل عروج پر ہے-
شعری نشستوں کا ذکر آیا، لیجیے بات میں بات نکل آئی- سلیمان صاحب احساسِ برتری کا شکار ہیں- ادبی نشستوں میں تصویر کھنچوانے سے احتراز کرتے ہیں مبادا اِن کی شہرت کو دوسروں کی وجہ سے نقصان نہ پہنچ جائے یا اِن کی وجہ سے دوسروں کو شہرت حاصل نہ ہو جائے- کسی بھی موضوع پر بحث کے لیے ہمہ وقت تیار اور ہر گفتگو کا ربط روایتی بزرگوں کی طرح اپنے تجربے سے جوڑ دینے ہیں- اپنے تجربہ کو مستند ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو ناتجربہ کار گردانتے ہیں- اپنے وہ تجربات جو زیادہ تر مشاعروں کے ضمن میں ہیں، کا اطلاق ہر چیز پر کرتے ہیں- اِن کے تجربات کی آفاقیت کا قائل نہ ہونے کو بھی دوسرے کی نا تجربہ کاری بتاتے ہیں- مجھ سے اکثر ‘شیرشاہ کی ڈاڑھی بڑی یا سلیم شاہ کی’ کی طرح کے موضوعات پر بے تکان دلچسپ بحث ہوتی ہے، لیکن جب اِن کو اندازہ ہوتا ہے کہ میں اِن کے تجربے کے باب میں ‘وہ اِک نگہ کہ ، بظاہر نگاہ سے کم ہے’ کا قائل ہوں تو چیں بجبیں ہو جاتے ہیں- میں دل سے تو اِن کی تجربہ کاری، کار سنجی اور فراست کا قائل ہوں لیکن ‘چھیڑتا ہوں کہ اُن کو غصہ آئے” اور اس کا لطف لوں- جس طرح بسا اوقات لا علمی بھی ایک نعمت ہوتی ہے اسی طرح کئی تجربات کا نہ ہونا بھی کسی نعمت سے کم نہیں- ١٩٩٢ کے امریکی صدارتی انتخابات کے دوران صدارتی امیدواروں کی آپسی بحث میں صدر سنئیر بش نے خود کو دوسرے امیدواروں، جن میں بل کلنٹن اور راس پیرٹ شامل تھے، سے تجربے کی بنیاد پر منفرد قرار دیا- راس پیرٹ، جو آزاد امیدوار تھے اور کسی پبلک آفس کا تجربہ نہ رکھتے تھے، نے کیا خوبصورت جواب دیا کہ "میں نا تجربہ کار ہوں- ہاں مجھے کئی کھرب ڈالر کی اکانومی کو ڈوبونے کا تجربہ نہیں ہے-” سلیمان صاحب میری اس بات کو اسی انداز سے سنتے ہیں جیسے پیرٹ کی بات کو بش نے سنا تھا- یعنی سن کرنہیں سنتے-
دِلّی کی ٹکسالی / کرخنداری زبان، اس پر بے ساختگی اور روانی، پختہ اور شیریں لہجہ، تیز اور قابلِ حسد حسِ مزاح، ہر فقرہ سجا اور سنورا ہوا ، اور خالص دہلوی محاوروں کا عام گفتگو میں چابکدستی سے استعمال ، اِن کی گفتگو میں ستارے بھر دیتا ہے- ا پنی زباندانی اور دِلّی کی زبان پر مغرور ہیں اور کیوں نہ ہوں، اِن کی زبان ہے ہی اس قابل- البتہ کبھی کبھار، خاص طور پر جب کسی کے تلفظ کی درستگی فرماتے ہیں تو تلفظ کی غلطی کر بیٹھتے ہیں- لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مجھ سمیت یہاں بہت سے لوگوں کی زبان کی اصلاح اِن کے ٹوکنے سے ہوئی ہے، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے- دِلّی والوں کی غلطی کو سند مانتے ہیں اور سند منوانا چاہتے ہیں – دِلّی کے اس طبقہ سے معلوم ہوتے ہیں جو مولانا الطاف حسین حالیؔ کے نام کے ساتھ ‘پانی پتی’ کا اضافہ اُن کو ‘نا اہلِ زبان’ ثابت کرنے کے لیے کرتا تھا-
اپنی رائے کے بارے میں پختگی کے سب سے اونچے درجے پر فائز ہیں- اِن کی رائے کے خلاف، حق بات مع دلیل و ثبوت اِن سے منوانا جنّ شیشے میں اتارنے اور سنگدل محبوبہ کے رام کرنے سے زیادہ مشکل ہے- اگر سورج کو سورج مان بھی لیں تو اپنی دلجوئی کی خاطر اس کی کوئی ‘مناسب’ تاویل تراش لیتے ہیں- بالکل ہمارے ایک دوسرے بزرگ دوست کی طرح جنھوں نے اپنی ایک تحریر میں املا کی غلطی کرتے ہوئے ‘بد زن’ لکھ دیا- جب اُن کو بتایا کہ درست ‘بد ظن’ ہے تومجھ سے بد ظن ہوگئے- گہرے فکر کے بعد جب ‘بد’ اور ‘زن’ کو الگ کر کے دیکھا اور پوری ترکیب کا مطلب سمجھ میں آیا تو مزید ‘بد ظن’ ہو گئے اور بولے "میری ترکیب بہتر اور زیادہ پر لطف تھی- تمہاری اصلاح سے زبان کا مزہ دب گیا اور اس کی تاثیر جاتی رہی-”
تمھیں انصاف سے اے حضرتِ ناصح کہہ دو
لطف اِن باتوں میں آتا ہے کہ اُن باتوں میں
اِن کے سامنے دوسرے کی خوبی بیان ہو تو خاموشی اختیار کرتے ہیں- خود پسند واقع ہوئے ہیں- اپنی تعریف سن کر نہال ہوئے جاتے ہیں- کوئی سنے یا نہ سنے، کوئی مانے یا نہ مانے اس سے ان کو کچھ بحث نہیں، بے کھٹکے بے جھجکے اپنی خوب تعریف کرتے جاتے ہیں- یہ طریقہ اسقدر برا بھی نہیں کیونکہ عام روش ہے کہ کسی کی اچھی بات کو اہتمام سے چھپا لیا جاتا ہے اور بری بات کی خوب تشہیر کی جاتا ہے – ایسا اگلے زمانے میں بھی ہوتا تھا، نظیرؔ اکبر آبادی نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ
یہ ستم دیکھو ذرا منہ سے نکلتے ہی نظیرؔ
اِس نے اُس سے اُس نے اُس سے اُس نے اُس سے کہدیا
طبیعت میں ردِ عمل کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے- اِن کی سعیِ رد ِعمل سے کسی کو نقصان ہو یا نہ ہو اس سے انھیں کوئی علاقہ نہیں- ‘لطف کن لطف کہ بیگانہ شود حلقہ بگوش’ کا سبق سن کر جز بز ہو جاتے ہیں- ایک گاؤں میں ایک صاحب نے اپنے اکلوتے فرزند کے ولیمے کی دعوت کھلے میدان میں رکھی، ایک تو موسم خوشگوار تھا اور دوسرے اتنے سارے لوگوں کی دعوت ایسی کھلی جگہ پر ہی ہو سکتی تھی- دعوت سے کچھ دیر پہلے، اُن صاحب کو یاد آیا کہ گاؤں کے مولوی صاحب کو تو دعوت دی ہی نہیں- فوراً دوڑے اور مولوی صاحب کے گھر پر جا کر کہا کہ "بہت معذرت، میں آپ کو بلانا بھول گیا تھا- اب دعوت دینے آیا ہوں، تشریف لے چلیے -” مولوی صاحب نے ناراضگی سے پہلو بدل کرفرمایا "اب کوئی فائدہ نہیں، میں بارش کی دعا مانگ چکا ہوں-"عموماً سلیمان دہلوی صاحب کے شدید ردِ عمل کا نتیجہ بھی ، ان مولوی صاحب کے ردِ عمل کی طرح تباہ کن نہیں ہوتا- سر آئزک نیوٹن کے تیسرے قانونِ حرکت "ہر عمل کا ایک مساوی اور مخالف ردِ عمل ہوتا ہے” کی آدھی تصدیق کرتے ہیں- یعنی صرف وہ چیز جو اِن کی طبیعت کے خلاف ہو، کے جواب میں غیر مساوی ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں- مجھ سے فرمانے لگے "تم میرا خاکہ لکھو میں ‘جوابی خاکہ’ لکھوں گا-” اِن کی یہی عادت دوستدارِ دشمن ہے- اگر کہیں سو لوگ ہوں تو پچاس کے یہ دشمن ہیں اوربقیہ پچاس اِن کے دشمن – حیف اس عجوبہٴ روزگاربلغمی مزاج کو یہی راس ہے-
گر یوں ہوا تو کیا ہوا، اور ووں ہوا تو کیا ہوا
جہاں حق گوئی اِن کی عادت ہے وہاں طبیعت میں بدگمانی نے بھی گھر کر لیا ہے، لیکن اس کے باوجود خوش مزاجی ایسی کہ ہر وقت ایک دل موہ لینے والا تبسم چہرے پر کھیل رہا ہوتا ہے- میں نے اِن کو کبھی بھی رونکھی صورت بنائے نہیں دیکھا- فنِ گفتگو میں طاق ہیں- ایسے منجھے ہوئے جادو بیاں مقرر اور خطیب ہیں کہ جس محفل میں ہوں سماں حکیم مومن خان مومنؔ کے اس شعر کا سا بن جاتا ہے
مومنؔ بخدا سحر بیانی کا جبھی تک
ہر ایک کو دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
اِن کے حظ بھرے اقوال و اعمال کی ایک طویل فہرست ہے- کچھ نقل کیے دیتا ہوں- آپ بھی لطف اٹھائیے :
– فارسی کی مثل ‘کار از دست رفتہ، تیر از کمان جستہ باز نمی عاید’ میں یوں اضافہ کیا ہے کہ لڑائی ختم ہو جانے کے بعد جو مُکّا یاد آئے، اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہئیے-
– وہ آدمی اچھا نہیں اور شکل بھی اچھی نہیں-
– یہ دیوار کی بلی ہے، دونوں طرف آنکھیں ہیں، جس طرف مطلب کی چیز دیکھتی ہے کود جاتی ہے-
– یہ شخص عذابِ جاریہ ہے-
– آدمی تو اچھا ہے پر شاعر بھی تو ہے-
– شاعر وہی اچھا ہے جو شاعری نہ کرتا ہو-
– دور کی کوڑی لاتے ہیں- بس سننے والا سمجھنے والا ہو- ان کے ایک دوست نے پوچھا کہ "جناب سلیمان صاحب، آپ کی اہلیہ پنجابی ہیں، پلی بڑھی بھی پنجابی ماحول میں ہیں، لیکن ہم نے ان کو ریڈیو پر سنا تو حیران ہو گئے- اہل زبان کا سا لہجہ، بالکل خالص دلی کی ٹکسالی زبان بولتی ہیں- یہ کیونکر ہوا؟ فرمانے لگے "میاں صحبت کا اثر ہے-” تہہ داری کیا صرف شاعری کا خاصہ ہے؟
– چند برس ادھر ان کو سودا ہو گیا- پرانی وضع قطع ترک کر درویشی اختیار کی اور مسجدوں کی رونق بڑھانے لگے- میں ان کے ماضی سے واقف، حیران ہو گیا- پوچھا "سدھر گئے؟” کہنے لگے "نہیں، بوڑھا ہو گیا ہوں”
– غالبؔ کے شعروں کو سمجھنے سے زیادہ ان کی تشریح سمجھنا مشکل ہے-
– ایک مشاعرے میں ایک شاعر سے کئی غزلیں سننے کے بعد اس سے پوچھا کہ "کیا تم چاہتے ہو کہ لوگ تم کو خوب داد دیں اور تمھارے لیے واہ واہ کریں؟ شاعر نے کہا "جی ضرور ضرور”- "تو پھر شاعری شروع کر دو” انہوں نے سنجیدگی سے نصیحت آموز لہجے میں بلند آواز سے سرگوشی کی-
– دوسری دفعہ کا ذکر ہے، ایک دوسرے مشاعرے میں ایک دوسرے شاعر کو بھرپور سننے کے بعد پوچھا کہ "تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہاری عزت کریں؟” اس نے کہاں "بالکل حضور، یہ کون نہیں چاہتا”- تو فرمایا "پھر شاعری کو چھوڑ دو-”
– اردو کی خدمت کرنےکے بہانے لوگ اردو سے خدمت لے رہے ہیں –
– جس کی دُم اٹھاؤ، خصّی نظر آتا ہے-
– ان کے ایک دوست کو ذیا بیطس کی تشخیص ہوئی تو ان سے کہنے لگے ” میاں مبارک ہو، لمبی عمر پاؤ گے-”
– ان کے یہی دوست جو پچاس کے پیٹے میں ہیں، کے دو دیرینہ دوست یکے بعد دیگرے جہاں سے گزر گئے – ان کو اداس دیکھ کر کہنے لگے "میاں اب عادت ڈال لو-”
– سنا ہے کہ ایک صاحب نے اِن پر بہتان لگایا، اِن کا ناریل چٹک گیا، اُن کو ڈھونڈ کر سامنے کھڑے ہو گالیوں کا جھاڑ باندھ دیا ، دلی کی خالص زبان میں٢٢ گالیاں انگلیوں پر گن کرعطا کیں اور پوچھا کہ "ابے، اب بتا اس سے پہلے بھی کوئی ایسی گالی سنی ہے-”
– سگرٹ نوشی کے بارے میں راسخ العقیدہ ہیں کہ مرنے والوں میں سگرٹ نوشی نہ کرنے والوں کی تعداد سگرٹ نوشی کرنے والوں سے زیادہ ہے- یعنی طویل عمری کا راز سگرٹ نوشی ہے-
– نا اہل لوگوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں کہ ان ہی کی بدولت ہم ایسے اہلِ کمال کی قدر ہے اور غالبؔ کا یہ مصرع دوہرا دیتے ہیں- ‘لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی’
– میں نے یہ خاکہ سنا کر زبان کی تعریف سننا چاہی تو بولے ” میاں صحبت کا بھی تو کچھ اثر ہوتا ہے-”
– ایک شاعر نے اِن کا گھر دیکھ لیا اور بلا ناغہ ہر روز اپنا کلام سنانے آنے لگے- مارے مروت کے کئی روز تک صبر کی سل چھاتی پر رکھ کر صبرِ ایوبی کا مظاہرہ کرتے رہے کہ ایک دن صبرکا پیمانہ لبریزہوگیا اور اُن کو صحن میں لے جا کرایک موٹا سا ڈنڈا دکھایا اور شفقت سے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ "میاں یہ ڈنڈا میں نے شاعروں اور بلیوں کے لیے رکھا ہوا ہے-”
– ان کے تعارف میں غالب کا شعر
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
کہیں لکھا تو طفلانہ ضد کرنے لگے کہ ‘ غالبؔ’ بغیر ‘ڈوئی’ کے لکھو، یعنی ‘غالب’ لکھو – کسی کو ایسا نہ لگے کہ بات غالبؔ کی ہورہی ہے-
– برسبیلِ تذکرہ مرزا ہادی رسواؔ (امراؤ جان ادا والے) میں نے کہا کہ مرزا صاحب ایک بار بازار گئے اور دیکھا کہ پنساری اُن کی تحریر کے مسودےکے صفحوں میں لوگوں کو سودا سلف لپیٹ کر دے رہا ہے- دکاندار سے استفسار پر معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کے لائق فرزند نے اُن کی غیر مطبوعہ تحریروں کے مسودے ردّی کے مول پنساری کو فروخت کر دیے ہیں – یہ سن کر سلیمان صاحب گویا ہوئے کہ "کیا اُس زمانے کی اولاد بھی ایسی ہوتی تھی جیسی آج کل کی ہے- چلو نوجوان ماضی سے رشتہ جوڑے ہوئے تو ہیں؟”
کچھ زندہ دلی ، ردِّ عمل ، جوش ، بے باکی
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے سلیمان
فحش لطیفہ گوئی میں یدِّ طولیٰ رکھتے ہیں لیکن اپنی اس صلاحیت کو صرف نجی محفلوں میں بروئے کار لاتے ہیں- باتیں ہزار ہیں شدّتِ ابتذال کے سبب سے قلم انداز کرنے کے سوا چارہ نہیں-
نام نہاد شاعروں کے سخت دشمن ہیں- بضد ہیں کہ غالب کا شعر یوں ہے –
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
شاعر کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
میں نے عرض کیا کہ "غالب نے کہا تھا کہ
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا”
کہنے لگے "غلط کہا”- میں نے پوچھا "غالب نے غلط کہا؟” فرمانے لگے "ارے نہیں تم نے غلط کہا، کہ غالب نے ‘شاعر ‘ لکھا تھا – کیا غالب ایسے ذہین آدمی کو معلوم نہیں تھا کہ آدمی کو انسان ہونا میسر ہو سکتا ہے، شاعر کو نہیں- یہ یقیناً کسی کمبخت شاعر نے بعد میں ترمیم کی ہے- ورنہ آدمی تو غالب خود بھی تھا- ”
میں تاریخ اور شعر دونوں میں ٹھوٹھ ہوں، آدمی کی پہچان اور شاعروں سے واقفیت کی بنیاد پر سلیمان صاحب کی بات دل کو لگتی ہے- ویسے مدلل بھی ہے- کوئی نہ مانے کسی کو فرق نہیں پڑتا- سلیمان صاحب کی طبعیت ایسی ہے کہ کسی کے نہ ماننے کو تو چھوڑیے، ماننے کو بھی درخور اعتنا نہیں جانتے، مجھے ان باتوں سے کوئی علاقہ نہیں- اور غالب کو اس دنیائے بے ثبات سے اٹھے زمانہ ہوا-
دلی کی زبان اور اس پر تیز حس مزاح، یعنی ایک تو شیر، دوسرے بکتر پہنے- سلیمان دہلوی، اردو زبان اور دِلّی ایسے لازم و ملزوم ہیں جیسے منصور الحلاّج اور دار و رسن- دوحہ میں جب دِلّی کا ذکر ہوتا ہے تو علامہ اقبال کی طرح سوادِ رومتہ الکبریٰ میں دِلّی یاد آئی تھی، وہی عظمت وہی عبرت وہی شانِ دلاویزی کی تفسیر بن جاتے ہیں- سچ بھی یہی ہے کہ دوحہ میں یادگارِ بزمِ دِلّی ایک سلیمان ہی تو ہے- دِلّی کی تہذیب اور تاریخ سے اِن کو اسقدر لگاؤ اور واقفیت ہے کہ بسا اوقات وحشت ہونے لگتی ہے- ہمہ گیر مشاہدہ، زبان و بیان پر قدرت، ذہانت، تفکر، تدبر، زبان کا چٹخارہ، اسلوب کی دلکشی، فقروں کی لطافت اور حسن، اور بے تکلفی سے اپنی نثری تحریروں میں آسمان کے تارے توڑ لاتے ہیں- سلیمان دہلوی کے مضامین پیرو مہترانی، میر صاحب اور دیگر کئی منفرد اسلوب اور طرزِ خاص کی بدولت اس دور میں اردو ادب کے شاہکار کہلانے کے مستحق ہیں- صاحبِ زبان اور شکر گفتار ہیں، اس لیے تحریر میں جو چاشنی ہے وہی گفتگو میں ہے- یا پھرگفتگو کی چاشنی تحریر میں در آئی ہے- اِن کی صحبت میں وقت رک جاتا ہے- نواب مرزا خان داغؔ کا یہ شعر صرف داغؔ پر نہیں، سلیمان دہلوی کی معجز بیانی پر بھی اسی طرح صادق آتا ہے
نثار اس طرزِ گفتگو پر نہیں کہیں داغؔ سا سخنور
ہنسا دیا ہے رلا رلا کر، رلا دیا ہے ہنسا ہنسا کر
سلیمان صاحب کی شدید خواہش ہے کہ ان کا تعزیتی جلسہ ان کی زندگی میں منعقد کیا جائے- عمرِ خضر کی دعا مانگتے جاتے ہیں اور تعزیتی جلسے کی رٹ لگائے جاتے ہیں کہ اس کو مذاق نہ جانو، تعزیتی تقریب کا اصل لطف تو جب ہے کہ وہ مرنے والے کے مرنے سے پہلے اس کی موجودگی میں کی جائے- جنونِ خود ساختہ میں کہتے پھرتے ہیں کہ دنیا سے راہ و رسمِ یاری اٹھ گئی- کوئی زندہ آدمی کی تعزیت کرنے کو آمادہ نہیں- ہے کوئی حریفِ مئے مرد افگنِ عشق؟ میں نے ہامی بھر لی- اب دیکھیے ان کی زندگی وفا کرے تعزیتی تقریب کا انتظام بھی ہو جائے گا- بشرط زندگی (ان کی) جلسہ ہو گا اور عنوان ہو گا "ہزار خامیاں تھیں مرنے والے میں”
اس خام خیالی کا کیا کیا جائے کہ مرنے کے بعد لوگ اچھا ہی کہتے ہیں اورمرنے والی کی خوبیاں بھی سامنے آجاتی ہیں- ایک صاحب کا انتقال ہو گیا- مرحوم چڑ چڑ ے اور انتہائی بد مزاج تھے- محلے کا ہر شخص ان کو لعن طعن کرتا تھا اور ان سے شدید نفرت کرتا تھا- ماتم پرسی کے لیے اہل محلہ مرحوم کے گھر میں جمع ہو گئے اور شرمسار ہونے لگے- کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا – کوئی خوبی بتلانے کو نہ تھی- ایک دوسرے کو تکتے خجل ہوئے جا رہے تھے کہ محلے کا حجام کچھ کہنے کے لیے کھڑا ہو گیا- سب کی جان میں جان آئی- حجام گویا ہوا کہ "مرحوم حجامت بنوانے میری دکان پر آتے تھے- مرحوم میں ایک خوبی تھی ” سب لوگ دم بخود ہو گئے- حجام بولا ” ان کی داڑھی کے بال خوب نرم تھے، شیو کرنے میں دقت نہیں ہوتی تھی- ”
بعد مرنے کے کھلی سب پہ ظفر کی خوبی!
مرنے کے بعد دنیا کا لہو سفید ہو جاتا ہے- ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ مرنے کے بعد کچھ بھی نہیں کہتے (مرنے والے کے بارے میں زندہ لوگ کچھ نہیں کہتے ورنہ کیا بات کر نہیں آتی)، خوبی اور خامی دور کی بات ہے- غالب کی خواہش تھی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے دوست غلام علی خان وحشت اور نواب مصطفیٰ خان شیفتہ ان کا مرثیہ کہتے- اسی لیے یہ کہہ گئے-
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبؔ آشفتہ نوا، کہتے ہیں
غالب، جن کے بارے میں مجھے سلیمان صاحب سے معلوم ہوا ہے کہ ذہین تھے اور اندیشہ ہائے دور دراز پر نگہ رکھتے تھے ، کو شک تھا کہ وحشت و شیفتہ مرثیہ نہ کہویں گے، اس لیے ‘شاید’ کہہ کر اپنی بیکسی کی شرم رکھ لی- وحشت و شیفتہ نے بھی غالب کے ‘شاید’ کی لاج رکھ لی اور مرثیہ نہ کہا-
سلیمان صاحب کی شخصیت کا ایک پہلو اس قدر تابناک ہے کہ جس کی توصیف کے لیے الفاظ نہیں ملتے- اِن کی بیگم مرحومہ ہاجرہ بانو، دوحہ کی مشہور علمی اور ادبی شخصیت تھیں- قطر ریڈیو اور انڈو قطر اردو مرکز کے تعلق سے اردو کے لیے قطر میں اُن کی خدمات بیش بہا ہیں، جن کے تذکرے کے لیے ایک باقاعدہ کتاب لکھنے کی ضرورت ہے- ہاجرہ بانو صاحبہ ایک طویل عرصے سے علیل تھیں، جس محبت، صبر، ذمہ داری اور اپنی جان کو جان نہ سمجھتے ہوئے سلیمان صاحب نے قریباً پچیس برس اُن کی تیمارداری اور دلجوئی کی اور ہر لمحہ، اپنی ہر مصروفیت کو پس پشت ڈال کر، اُن کے ساتھ رہے، کی مثال میں نے آج تک سنی نہ دیکھی- کہتے ہیں کہ آخری عمر میں میاں بیوی میں سے ایک گزر جائے تو دوسرا خود بخود مر جاتا ہے- پچھلے برس بانو صاحبہ عدم کو آباد کرنے کی خاطر اپنے پیاروں کو تنہا چھوڑ گئیں- یہ عمر اور یہ غم، لیکن سلیمان دہلوی یہاں بھی منفرد نکلے- میاں بیوی کا آپس میں تعلق ایسا تھا کہ جس پر دنیا رشک کرے، اس کے باوجود سلیمان صاحب نے جس مضبوط اعصاب کے ساتھ یہ صدمہ سہا، اس کی مثال بھی ڈھونڈے نہیں ملتی- سنا ہے کہ ممتاز محل کے مرنے کے بعد غم کے مارے شاہجہاں کے سر کے بال چند ہفتوں میں سفید ہو گئے تھے- جبکہ سلیمان صاحب کے بال بانو صاحبہ کے انتقال کے چند دن بعد ہی سفید ہو گئے- شاہجہاں میں اور اِن میں فرق یہ ہے کہ شاہجہاں کی ‘سیاہ کاری’ کا تعلق ممتاز محل کی زندگی میں بھی شباب سے تھا، خضاب سے نہیں-
سلیمان دہلوی، بسا اوقات نا قابلِ برداشت، پر مجموعی طور پر انتہائی قابلِ محبت انسان ہیں- میں اِن کو کم کم "بشر ہے کیا کہیے” کے زمرے میں رکھتا ہوں، زیادہ تروہ مجھے "تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو” کی تصویر نظر آتے ہیں- میری خوش نصیبی ہے کہ مجھ پر خاص شفقت فرماتے ہیں- میں بلا خوفِ ابطال یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ سلیمان دہلوی کی ہفت رنگ شخصیت ایسی ہے کہ قطر میں رہتے ہوئے یا قطر آ کر اِن سے نہ ملنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی آگرہ گیا اور تاج محل دیکھے بغیر لوٹ آیا-
Dr.Faisal Haneef
ڈاکٹر فیصل حنیف
بانی و صدر – گزرگاہِ خیال فورم
بانی و چئیرمین – اقبال اکیڈمی مڈل ایسٹ
چئیرمین – بزم اردو قطر

Share

۶ thoughts on “خاکہ : سلیمان دہلوی ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر فیصل حنیف ۔ دوحہ، قطر”

Comments are closed.

Share
Share