آسرے ٹوٹے تو جینے کا وسیلہ ہوگئے ۔ از ۔ سفینہ عرفات فاطمہ

Share

’آسرے ٹوٹے تو جینے کا وسیلہ ہوگئے‘

۔۔۔ سفینہ عرفات فاطمہ

کسی شئے پر ضرب لگائی جائے تو اسکی افزائش شدید طورپرمتاثر ہوجاتی ہے‘ لیکن درختوں کا معاملہ عجیب ہے‘انہیں جہاں جہاں ضرب لگائی جائے وہاں وہاں وہ شاخوں کی صورت پھیلنے لگتے ہیں‘ گویا ضرب کا عمل ان میں ایک تحریک پیداکردیتا ہے اور وہ سرگرم ہوجاتے ہیں ۔ دیکھاجائے تو انسانوں کا معاملہ درختوں سے کچھ مختلف نہیں‘بظاہر وہ زندگی کے حوادث سے متاثر تو ہوتے ہیں لیکن انہی حوادث کی بدولت ان کی پوشیدہ صلاحیتیں منظرِ عام پر آتی ہیں۔

خالق و مالک نے انسانوں کو بے شمار صلاحیتیں عطاء کی ہیں‘ وہ اپنی طویل زندگی میں ان کا نصف استعمال بھی نہیں کرپاتے ‘انہیں خود اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ان کے اندرکیا کیاقوتیں پنہاں ہیں؟ یہ زندگی ہی ہے جو‘ ان پربتدریج یہ منکشف کرتی جاتی ہے کہ وہ کیا کیا کرسکتے ہیں۔ کبھی راستے بہت ہموار اور نشیب وفراز سے مبرا ہوتے ہیں‘ انسان ان سہل راستوں پر دوڑا جاتا ہے کہ یکایک راہیں کٹھن ہوجاتی ہیں ‘ اور انسان کے لیے اپنا سفرجاری رکھنا دشوارہوجاتا ہے ‘ وہ راہوں کی زینت بن کر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ جب مشکلات پیش آتی ہیں تو وہ جستجو کرتا ہے ‘ ادھرادھر نظردوڑاتا ہے کہ کہیں کوئی راستہ ضرور ہوگا۔
انسانی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کی شخصیت ایک معجزے سے کم نہیں وہ اپنے اندر ایک منفی کو مثبت میں بدلنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے ‘ اس کی یہی خوبی اسے زندہ رکھتی ہے۔
زندگی کبھی کبھی اس درجہ سفاک ہوجاتی ہے کہ انسان اس کا تصوربھی نہیں کرسکتا‘لیکن زندگی کی یہی ستم ظریفی اس کی شخصیت کو نکھار بخشتی ہے۔ جب وہ کسی حادثے سے سنبھل جاتا ہے تو ایک ننھی سی آس ‘ ایک ذرا سے امکان کا ہاتھ تھام کر پھر زندگی کی جانب پیش قدمی کرتا ہے۔
انسانوں کے اسی رویہ کو شاعر نے یوں پیش کیا ہے ؂
زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پرلگا زندگی کی طرف ایک دریچہ کھلا
ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں چوٹ کھاتے رہے گنگناتے رہے
غیر ذمہ دار اور لاپرواہ نظر آنے والے وہ نوجوان‘ جو اپنے سرپرست کی موجودگی میں گھریلو ذمہ داریوں کا کوئی احساس نہیں رکھتے ‘ جب اپنے سرپرست سے محروم ہوتے ہیں تو تمام تر شوخی بھول کر یکایک سنجیدہ ہوجاتے ہیں ‘ کسی اپنے سے بچھڑنے کا صدمہ انہیں زندگی کے تئیں سنجیدگی اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ عام حالات میں وہ کسی کی نہیں سنتے‘ ان کے نزدیک وقت کوئی معنی نہیں رکھتا ‘ فرائض و ذمہ داریوں سے وہ خود کو مستثنیٰ خیال کرتے ہیں ‘لیکن جب گھر کے سربراہ کی رفاقت چھن جاتی ہے تو وہ ارکانِ خاندان کے کفیل ‘نگہبان و نگران بن جاتے ہیں۔ زندگی اچانک کروٹ لے کر ان کے معمولات‘ان کے رول کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔
کیا ہم پیروں سے لکھنے کے علاوہ دیگر روزمرہ کے کام انجام دے سکتے ہیں؟ کیا ہم آنکھیں بند کرکے فون ریسیو کرسکتے ہیں ‘ کسی کا نمبر ڈائیل کرسکتے ہیں ؟گھر سے دفتر پہنچ سکتے ہیں ؟قعطی نہیں‘ عام آدمی ایسا نہیں کرسکتا ‘ لیکن ان نابینا افراد کا مشاہدہ کیجئے‘ جو بسوں میں سوار ہوتے ہیں اور کہاں اترنا ہے‘ وہ بھی انہیں بخوبی پتہ ہوتا ہے ‘ دراصل ان کا اندرون آنکھوں کی جگہ لے لیتا ہے‘ یہ مخفی قوت سرگرم اس لیے ہے کہ ان میں کچھ کمی ہے ‘ یا وہ کسی حادثے سے گزرے ہیں۔ ایک عام انسان ہاتھوں کے استعمال کے بغیر کسی کام کی انجام دہی سے قاصر ہوتا ہے لیکن وہ لوگ جو ہاتھوں سے محروم ہوتے ہیں‘ اپنے پیروں سے کام کرتے ہیں۔کسی اخباری اسپیشل رپورٹ میں ہم پڑھتے ہیں کہ کسی معذور شخص نے پیر نہ ہونے کے باوجود یہ کارنامہ انجام دیا‘ ہاتھ نہ ہونے کے باوجود اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ہم اس کی پذیرائی ضرور کرتے ہیں ‘ اس سے متاثر بھی ہوتے ہیں ‘ لیکن اس کے آگے بہت کم سوچتے ہیں۔ حالاں کہ یہ غور وفکر کا مقام ہوتا ہے۔
اکثرلوگ ذراسی تکالیف سے دل برداشتہ ہوجاتے ہیں‘ اورمعمولی سی بیماری سے خوف زدہ۔ان کے آرام و آسائش میں خلل پڑے یا ذراسی تنگدستی کا سامنا کرنا پڑے تو اپنے نصیب کو روتے ہیں‘ یوں جتاتے ہیں گویا وہ دنیا میں سب سے زیادہ پریشان حال ہیں۔ ان کی نظریں اپنے سے زیادہ خوشحال و مالدار لوگوں پرمرکوز رہتی ہیں ‘ وہ اپنے سے زیادہ غریب اور تنگدست افراد کو نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان پر یہ منکشف ہی نہیں ہوتا کہ زندگی کیا ہے اور اس کا تقاضہ کیا ہے ؟ ان کی بصارت ایک محدودعلاقے کا ہی احاطہ کرتی ہے ‘ وہ اگر ان لوگوں کو دیکھیں جن کی زندگی قدم قدم پر حوادث کا شکار ہوتی ہے‘ سنگلاخ راہوں پر لیے پھرتی ہے ‘ تب انہیں پتہ چلے کہ زندگی کیا ہے؟
مختلف میدانوں میں جن لوگوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا‘ جن کے کارنامے سنہری حروف سے لکھے گئے ‘انہیں زندگی نے قدم قدم پر ایک اذیت سے دوچار کیا‘ان کا بچپن کلفتوں کے درمیاں گزرا‘ ان کی روح مجروح ہوئی ‘ ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی‘ ان کے ذہن ودل پر ضرب لگائی گئی‘اور یہ چوٹیں ‘ یہ ضربیں ‘ ان کے لیے محرک ثابت ہوئیں‘ ان کی شخصیت نکھر گئی‘ اپنی تمام تر محرومیوں کو انہوں نے اپنی صلاحیتوں میں جذب کر دیا اور ایسے کارنامے انجام دےئے جو عام انسانوں کو حیرت زدہ کردیتے ہیں۔
زندگی اپنے اندر بے شمار امکانات رکھتی ہے ‘ امید کے جگنو اڑتے پھرتے ہیں‘ انہیں اپنی مٹھی میں قید کرلیں ‘اوریقین کی روشنی پالیں‘جنہیں راہوں کی جستجو ہے ان کے لیے رکاوٹیں کوئی معنی نہیں رکھتیں‘ حادثوں سے متاثر ہونا فطری ہے اور ان سے ابھرنا زندگی کے لیے ازحد ضروری ۔
By- Safina Arfat Fatima

Share
Share
Share