چین میں اسلام اورمسلمان ۔ ۔ ۔ ۔ تنویرآفاقی

Share
Tanveer Afaqui
تنویر آفاقی

چین میں اسلام اور مسلمان

تنویرآفاقی
E-7، ابو الفضل انکلیو ،جامعہ نگرنئی دہلی ۔۲۵
09811912549

۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ سمجھنا غلط ہے کہ چین اورعرب ممالک کے درمیان تعلقات کا آغازحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد سے ہوا ہے۔ بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تاریخ بہت قدیم ہے۔یہ تعلقات صدیوں پہلے قائم ہو چکے تھے۔البتہ ان میں استحکام اور مضبوطی اس کے بعد ہی آئی۔مورخین کا خیال ہے کہ جس وقت اللہ کے رسولﷺ نے عرب میں کارِ نبوت کا آغاز کیا ، اس وقت بھی عرب کے لوگ چین کے نام سے ناواقف نہیں تھے،البتہ اسلام سے اہلِ چین ساتویں صدی عیسوی کے درمیان متعارف ہوئے۔ یعنی اسلام سے ان کی واقفیت ۱۴۰۰ سال قبل سے ہے۔
اسلام کی آمد

تیسرے خلیفۂ راشد حضرت عثمان بن عفانؓ نے ۶۵۱ء میں چانگ آن میں ایک وفد بھیجا تھا۔ ’چانگ آن‘ اس زمانے میں چین کا دارلحکومت تھا اورتانگ قاؤ تسنگ کے زیرمملکت تھا، جس کا تعلق تانگ کے شاہی خاندان سے تھا۔ اس وفد نے چینی شہنشاہ سے ملاقات کی ۔ اسے خلافت اسلامیہ اوراسلام کے احوال نیز مسلمانوں کے رہن سہن سے واقف کرایا۔مورخین اسی واقعے کو چین میں اسلام کی آمد کا آغاز مانتے ہیں۔البتہ عملی طورپرچین میں اسلام کی نشرواشاعت عرب اورایران سے آنے والے مسلمان تاجروں کے ذریعے ہوئی جووہاں خشکی اوربحری دونوں راستوں سے پہنچے تھے۔چین کے مغربی سرحدی علاقوں میں اسلام خشکی کے راستے ترکستان کے توسط سے پہنچا تھا۔ ترکستان میں اسلام اموی دورخلافت میں ہی پہنچ چکا تھا، کیوں کہ اسے اسی زمانے میں فتح کر لیا گیا تھا۔اس راستے سے اسلام کے چین میں داخلے میں اہم کردار اس شاہراہ کا بھی رہا ہے جسے شاہراہِ ریشم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قافلے مغربی ایشیا اور چین کے درمیان آمد و رفت کے لیے اسی شاہراہ کا استعمال کرتے تھے۔مشرقی چین میں اسلام بحری راستے سے داخل ہوا۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کے زمانۂ خلافت میں (۲۱ ہجری ) مسلمانوں کا ایک وفد اسی راستے سے چین میں آیا تھا۔
اس کے بعد لگاتار کئی وفد چین گئے یہاں تک کہ ۳۱ ہجری/۶۵۱ عیسوی سے ۱۸۴ ہجری /۸۰۰ عیسوی کے دوران چین جانے والے وفود کی تعداد اٹھائیس ( ۲۸) تک پہنچ گئی۔ان تمام تفصیلات کا ذکر تاریخِ تانگ میں بھی ملتا ہے بلکہ اس میں ۶۱۸ء سے ۹۰۷ء تک چین میں جانے والے عرب وفود کی تعداد تیس ( ۳۰) بتائی گئی ہے۔اسی زمانے میں باہر سے آنے والے مسلمان داعیوں نے کچھ مسجدیں بھی تعمیرکی تھیں، جن میں سے ایک گوانگ زاو (Guang Zhou)کے مقام پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا نام’ مسجد گوانگ تا‘ تھا۔اس کے علاوہ ایک مسجد قوان زاو(Quan Zhou) شہر میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا نام مسجد قِنگ زین (Qing Zhen) تھا۔اسی شہر کو ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں شہر زیتون کہا ہے۔ یہ دونوں مسجدیں آج بھی موجود ہیں۔
چین میں اسلام کی اتنی قدیم تاریخ ہونے کے باوجود چینی مسلمان ایک عرصے تک دنیا کی نظروں سے اس طرح اوجھل رہے کہ شاید ہی کوئی ان کے بارے میں کچھ جانتا رہا ہو۔امیر شکیب ارسلان نے اپنی کتاب حاضر العالم الاسلامی میں چینی مسلمانوں کی قدیم تاریخ کے تعلق سے لکھا ہے : ’’گویا چین کے مسلمان اس دنیا میں تھے ہی نہیں۔‘‘ معروف مصری صحافی نے ۱۹۸۰ء میں اپنے سفر چین کے بعد وہاں کے مسلمانوں کے حالات لکھتے ہوئے کہا: ’’چین کے مسلمان عالم اسلام کی ’’ایک گم شدہ فائل‘‘ کی طرح تھے۔‘‘
آغاز میں عرب اورایران سے چین جاکر اسلام کی دعوت دینے والے مسلمانوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ چین میں کنفیوشزم، تاؤزم اور بدھ مت کا غلبہ تھا۔ وہاں کے مسلمانوں میں قرآن کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے انھوں نے چینی زبان سیکھی اور چینیوں کوعربی کی تعلیم دی تاکہ لوگ عربی زبان میں قرآن کو پڑھ سکیں۔
تہذیبی و ثقافتی ارتقا
تاریخ چین کے عہد وسطی میں چین کی مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے اسلامی تہذیب کو جنم دیا، جس کی بنیاد دین کے اصولوں پر قائم تھی۔اس تہذیب نے انسانی زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ اسلام ان کے لیے ایک خدائی پیغام و نصیحت ہے۔ لیکن اسلام سے مسلمانوں کے اس تعلق میں بتدریج کمی آتی چلی گئی، جس کے اسباب بہت واضح تھے۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اسلامی تعلیمات سے متعلق جو بھی کتابیں میسر تھیں وہ عربی اور فارسی زبان میں تھیں۔ جب تک ان دونوں زبان سے راست استفادہ کرنے والے مسلمان موجود رہے، ان کا رشتہ اسلام کی تعلیمات سے قائم رہا۔ لیکن جب یہ لوگ دنیا سے رخصت ہونے لگے تو ان کا متبادل تیار کرنے کی کوئی کوشش مسلمانوں نے نہیں کی۔ انجام کار ان کتابوں سے استفادہ کرنے والے کم ہوتے ہوتے آخر کار ختم ہو گئے۔ ان کتابوں کو چینی زبان میں منتقل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ چنانچہ اب چین کے غیر مسلموں کے لیے اسلام کے بارے میں جاننے کا واحد ذریعہ اس کے سوا کوئی نہیں بچا کہ وہ مسلمانوں کی عملی زندگی پر نظر ڈالیں۔اس بات کی تائید تاریخی دستاویزوں سے بھی ہوتی ہے، جن میں اس جانب اشارہ ملتا ہے کہ اس وقت کا غیر مسلم تعلیم یافتہ طبقہ اسے بدھ مت کا ہی حصہ تصور کرتا تھا۔اسی صورت حال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ملیشیا کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹر یونس عبداللہ ماچنگ بین ، جن کا تعلق چین سے ہی ہے، لکھتے ہیں:
’’چینی آمر کانگ ژی (Kang Xi)کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ مسلمانوں کی علمی حالت کی عکاسی کرتا ہے۔ ۱۶۷۹ء میں راجا کان شی نے اسلام کے بارے میں سنا تو اس نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ قرآن میں کیا تعلیمات دی گئی ہیں۔اس نے معلوم کیا کہ کیا چینی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ موجود ہے ؟ تاکہ وہ اسے پڑھ اور سمجھ سکے؟؟لیکن افسوس کہ اسے ایک بھی مسلمان ایسا نہیں مل سکا جو اس آرزو کو پوری کر سکتا۔ اسی طرح ۱۶۸۳ء میں جب ایک عربی وفد اس کے پاس آیا اور اس نے راجا کو قرآن تحفے میں پیش کیا تو اس نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا کوئی ایسا شخص اس کی سلطنت میں موجود ہے جو اس کے لیے اس کا ترجمہ کر سکے۔ لیکن اس بار بھی اسے ایسا کوئی شخص نہیں مل سکا۔‘‘ (الرابطہ: فروری ۲۱۰۵ء)
آگے وہ لکھتے ہیں کہ چینی زبان میں اسلامی لٹریچر کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسلام ایک مخصوص گروہ کا مذہب بن کر رہ گیا۔البتہ بعد کے دور میں اس پر توجہ دی جانے لگی۔ اور قرآن کے ترجمے کے علاوہ دیگر اسلامی لٹریچر چینی زبان میں تیار کیا جانے لگا ہے۔
مسلمانوں کی موجودہ تعداد
برّصغیر ایشیا میں ہندستان کے بعد چین دوسرا ملک ہے جہاں مسلمان اپنے ملک کی سب سے بڑی اقلیت شمار کیے جاتے ہیں۔چین میں چھپّن (۵۶) قومیتیں آباد ہیں ، جن میں سے دس قومیتیں مسلمانوں کی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی مسلم قومیت ’’ہوی‘‘ ہے۔یہ وہ مسلمان ہیں جو وسطی ایشیا اور بلاد فارس سے ہجرت کرکے چین میں آباد ہوگئے تھے۔باقی مسلم قومیتیں اس طرح ہیں: ایگور، قازق، قرغیز، اوزبک، تاتار، دونگسیانگ، باؤ آلان، سالار اور تاجک۔ان سب پر اسلام کے اثرات بہت واضح اور نمایاں ہیں جوزندگی کے تمام پہلوؤں میں اسلامی تعلیمات سے ان کی وابستگی، کھانے، پینے ،لباس اور گھروں کی ہیئت اور مذہبی اجتماعات اور تہواروں سے ظاہرہیں۔
چینی قومیت والے ہان قبیلے کی آبادی چورانوے ( ۹۴) فی صد ہے، جب کہ باقی دوسری قومیتیں، جو اقلیتی قومیتیں کہلاتی ہیں، ان کی آبادی کل چھ (۶ )فی صد ہے۔چین میں مسلمانوں کی تعداد صحیح طور پر معلوم نہیں ہے ۔چین کے مسلمانوں کے حالات پر تحقیق کرنے والوں نے اگرچہ اس سلسلے میں ممکنہ حد تک اعداد و شمار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بھی صحیح تعداد معلوم نہیں کر سکے۔اس کا بنیادی سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ چین میں آبادی کے اعداد وشمار مذہب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ صرف قومیت کی بنیاد پر تیار کیے گئے ہیں۔ مسلم قومیتوں کے سلسلے میں بھی جو اعداد وشمار دیے جاتے ہیں وہ محض اندازے ہی ہیں۔ اکثر محققین کی نظر سے یہ بات چوک گئی کہ وہاں کے مسلمانوں کی اکثریت ان دس مسلم قومیتوں کے علاوہ دوسری قومیتوں سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ان لوگوں نے اسلام قبول کرنے کے باوجود اپنی قومی شناخت کو باقی رکھا، جو شاید ان کی مجبوری بھی تھی، کیوں کہ چین میں مردم شماری مذہب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ قومیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔اسی لیے مردم شماری کے دوران انھیں مسلمان قومیت شمار نہیں کیاجاتا۔
کثیرآبادی والے علاقے
چین میں مسلمان پورے ملک کے اندر پھیلے ہوئے ہیں اوراپنے مخصوص محلوں یا علاقوں میں سب جمع ہوتے ہیں جو ان کا خاص امتیاز ہے۔گویا وہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہونے کے باوجود یکجا اور متحد ہیں۔زیادہ تر مسلمان شمال مغربی چین میں آباد ہیں۔ شمال مغربی چین کا علاقہ پانچ صوبوں پر مشتمل ہے: فانسو، شنگھائی، شینکیانگ، شانسی اور نینگشیا۔ جنوبی چین کے علاقے میں مسلمان بہت کم ہیں، حالاں کہ تجارتی راستے سے چین میں داخل ہونے کے لیے مسلمانوں کا پہلا پڑاؤ یہی علاقہ تھا،کیوں کہ اس علاقے کی طرف برّی اور بحری دونوں راستے پہنچتے تھے۔
مختلف ادورا میں حکومت کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات
منگولی عہد:منگولی حکومت کے تحت مسلمانوں نے بہت سی رعایتیں حاصل کیں اور بہت تیزی سے اوپر اٹھے۔ان کے اندر پائے جانے والے اوصاف: مساوات، امانت داری، حسن اخلاق اور انتظامی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے حکمراں قبلائی خاندان نے عام ریاستوں میں ان کی خدمات حاصل کیں اور انھیں بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ مشرقی اور مغربی ترکستان سے آنے والے مسلمانوں سے بھی خدمات لیا کرتے تھا۔بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ چین کی اصلاًبارہ ( ۱۲) ریاستوں میں سے آٹھ ( ۸) پر مسلمان قائدین کی حکم رانی رہی۔اس دور کے مشہور ترین اور سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھنے والے مسلمانوں میں سے ایک شمس الدین عمر تھے جو منگول حکم راں کے فوجی افسر سے ترقی کر کے تائی یوان شہر اور پھر بعد میں بنیانگ کے فوجی گورنرکے عہدے پر فائز ہوئے۔اس کے بعد بکین شہر کے قاضی مقرر ہوئے، پھر اسی شہر کے گورنر بھی بنائے گئے جو کہ چین کا دارالحکومت تھا۔اس مسلم گورنر نے چین میں بڑی تعداد میں مدارس اور دینی ادارے قائم کرنے کا اہتمام کیا۔ اور شاید اس وقت چین میں موجود مساجد میں سے بیش تر مساجد وہ ہیں جو عہد منگولیہ میں ہی تعمیر کی گئیں۔یہ سب اس باعزت مقام ومرتبے کے طفیل ہوا جو اس زمانے میں مسلمانوں کو حاصل تھا۔
خاندان مِِنگ کا عہد: منگولی عہد کے خاتمے کے بعد چین اورمشرقی ترکستان کے اندر مسلمانوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور مسلمان گزشتہ عہد حکومت میں جن سہولتوں سے فیض یاب ہو رہے تھے وہ سب انھیں اس دوران حاصل رہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی نیا حکم راں خاندان یعنی مِنگ بھی اسی منگولی قبلائی خاندان کے طرز پر حکومت کر رہا تھا۔ اس خاندان کے حکم رانوں نے بھی علمی، ثقافتی اور معاشی اعتبار سے نمایاں مسلمانوں کو حکومت کے اعلیٰ مناصب پر فائز کیا۔ ۱۰۵۲ھ / ۱۴۶۲ء تک یہ صورت حال برقرار رہی۔
عہد مانشوری:یہ دور مسلمانوں پر انتہائی ظلم وبربریت کا رہا ہے۔دراصل مانشوری حکم راں مسلمانوں کے اثرونفوذ سے گھبرانے لگے تھے۔چنانچہ انھوں نے مسلمانوں پر ظلم کا ایک سلسلہ شروع کیا اور انھیں ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کی وجہ سے مانشوری خاندان کوترقی کا موقع ملا۔اس نے پانچ ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا اور مشرقی ترکستان میں ان کا خاتمہ کرنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر کارروائیاں کیں۔ یہ دور ۱۹۱۱ء میں مانشوری عہد کے خاتمے تک جاری رہا۔
جمہوری نظام حکومت: مانشوری عہد کے خاتمے کے بعد ملک میں جمہوری نظام کا دور آیا۔ اس زمانے میں اگر چہ انھیں کھلے ظلم کی پالیسی سے نجات مل چکی تھی اور اب ان کے لیے ملک کے اندر سکون اور اطلینان کی سانس لینا قدرے آسان ہو گیا ہے، تاہم یہ کوئی عام صورت حال نہیں ہے۔ موجودہ وقت کا کمیونسٹ نظام آج بھی ان مسلمانوں سے خائف ہے۔ چنانچہ مشرقی ترکستان کے مسلمان آج بھی چین کے کمیونسٹ نظام کے مظالم جھیل رہے ہیں ۔ یہ وہ علاقہ ہے جوچین کے قبضے میں ہے اوروہاں کی جمہوریت پسند کمیونسٹ حکومت کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر ترکستان کو آزادی کو موقع دیا گیا تو وہاں کے باشندے چینی حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔اسی وجہ سے چین میں مذہبی آزادی بھی صرف ہوی قبیلے کے مسلمانوں یا مہاجرین کو ہی حاصل ہے، لیکن ترکستان کے ترک ایگور قبیلے کو اس حق سے محروم کر دیا گیاہے ۔اہلِ ترکستان کا قافیہ تنگ کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ علاقہ مسلم اکثریتی ہونے کے باوجود چین کے لیے کئی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ترکستان پٹرول اور معدنی ذخائر سے مالا مال ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس طبیعی گیس کے ذخائر بھی موجود ہیں، اسی طرح اس علاقے میں سونا بھی بہت ہے۔ عمدہ ترین قسم کا یورینیم ترکستان ہی میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہاں بے شمار معدنی ذخائر موجود ہیں۔اس لیے چین اپنے لیے بہتر یہی سمجھتا ہے کہ مشرقی ترکستان اس کے تابع رہے۔نیز یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ قرغیزستان اور مرکزی ایشیا میں پائے جانے والے تیل اور گیس کے میدانوں تک براہ خشکی ترکستان سے گزر کر ہی پہنچا جا سکتا ہے۔اسی طرح بین الاقوامی تجارت کے فروغ میں ترکستان کا کردار بنیادی اور کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے کیوں کہ مشہورشاہ راہِ ریشم ترکستان ہی سے ہو کر گزرتی ہے۔ مشرقی ترکستان کا رقبہ اتنا بڑا ہے کہ تنہا یہ ملک چین کے پانچویں حصے پر مشتمل ہے۔اس کا اپنا رقبہ فرانس کے رقبے سے پانچ گنا زیا دہ ہے، جو کہ یوروپی ممالک میں سب سے زیادہ رقبہ والا ملک ہے۔ رقبے کے اعتبار سے دنیا میں اس کا نمبر انیسواں ہے۔اس کی آبادی تقریباً دو کروڑ پچاس لاکھ ہے جس کی اکثریت مسلمان ہے۔اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر ترکستان نہ ہوتا تو چین معاشی اعتبار سے رو بہ زوال ہو گیا ہوتا۔
چین میں اسلام اور مسلمانوں کی صورت حال
چین میں اسلام کی جڑیں دیگر مذاہب مثلاً عیسائیت کے برعکس بہت گہری ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسلام یہاں بہت پہلے پہنچ چکا تھا اور اس وقت سے آج تک موجود چلا آ رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ملک کی حیثیت سے چین کی سیاست و معیشت کی ترقی میں استطاعت بھر اپنا حق دیا کیا ہے۔اس کے باوجود اسلام وہاں زیادہ نہ پھیل پانے کی ایک وجہ تو یہ رہی کہ مسلمانوں نے اس جانب بہت بعد میں توجہ دی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دعوتی مشن کو وہاں اس طرح مادی تقویت حاصل نہیں ہو سکی جس طرح عیسائیت کو حاصل ہے۔ مغربی چرچوں بالخصوص ویٹی کن سے عیسائی مشنریوں کو وہاں ہر طرح کی کمک فراہم کی جاتی ہے۔
اس وقت چینی مسلمانوں میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں: ایک وہ جو دوسرے مسلم ممالک کے ربط میں رہ کر یا وہاں کی اسلامی یونیورسٹیوں سے فیض یاب ہو کر آئے ہیں اور چین میں اسلام کی ایک معتدل تصویر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔چین کے سیاسی ، معاشرتی اور اقتصادی میدان میں جس حد تک گنجائش ہے، اس حد تک مسلم اقلیت کو ملنے والے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اسلام کے تئیں والہانہ جذبہ تو رکھتے ہیں لیکن اپنی اسلامی شناخت کو کھو چکے ہیں۔ ان کے اندر اسلام کا دفاع کرنے کا جذبہ تو موجود ہے، لیکن وہ اسلام کی تعلیمات او راس کے بنیادی ارکان تک سے ناواقف ہیں۔اگر کوئی شخص ان کے سامنے یہ کہہ دے کہ اسلام اچھا مذہب نہیں ہے تو انھیں غصہ آ جائے گا اور اس کا دفاع کرنے کے لیے آستینیں چڑھا لیں گے، لیکن اگر آپ ان سے پوچھ لیں کہ اسلام ہے کیا؟ تو وہ آپ کو کوئی جواب نہیں دے پائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے چین کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے جہاں تعلیم ابتدائی، ثانوی اور یونیورسٹی مراحل سے گزرنے کے دوران کمیونزم کو ان ذہنوں میں اچھی طرح نچوڑ دیا گیا ہے۔
مسلمانان چین کی دینی و علمی کوششیں
چینی عوام کے درمیان اسلام کو متعارف کرانے کے لیے علمی کام کرنے اوردینی لٹریچر کو چینی زبان میں منتقل کرنے کی ضرورت تو پہلے بھی تھی، لیکن برسوں تک اس ضرورت کی تکمیل نہ ہوپانے کی وجہ سے اسلام کی اشاعت اور ارتقا میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو ئی تھی۔لیکن بعد میں مسلمان علماء نے چینی تہذیب وثقافت کو سامنے رکھتے ہوئے تعارف اسلام کی غرض سے لٹریچر تیار کرنا شروع کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسلام ،جو محض ایک عقائد اورچند مخصوص عبادات کا مجموعہ سمجھا جاتا تھا ، اب دین اور نظام حیات کے طور پر جانا جانے لگا۔ اسلام کی اخلاقی قدروں سے بھی لوگ واقف ہونے لگے ۔انیسویں صدی کے آغاز تک قرآن کا مکمل ترجمہ نہیں کیا جا سکا تھا، البتہ انیسویں صدی کے اواخر میں قرآن کے بعض انگریزی تراجم چین پہنچے تو ان سے چین کے مسلمانوں کو بھی تحریک ملی اورانھوں نے ترجمے کا کام شروع کیا۔چینی زبان میں قرآن کا قدیم ترین ترجمہ جاپانی زبان سے کیا گیا تھا۔ یہ ترجمہ ایک غیرمسلم نے کیا تھا جو ۱۹۲۷ء میں بیکین سے شائع ہوا تھا۔ایک اور ترجمہ ۱۹۳۱ء میں ہوا تھا۔ اسے بھی ایک غیر مسلم جی جیو می (Ji Jue Mi)نے کیا تھا۔یہ سب ترجمے چوں کہ براہ راست عربی زبان کے بجائے انگریزی سے کیے گئے تھے، اس لیے ان میں بہت سی غلطیاں در آئی تھیں۔ چنانچہ ان کی اشاعت کو زیادہ فروغ نہیں دیا گیا۔بیسیویں صدی میں بیجنگ، تیان جن اور شنگھائی میں براہ راست عربی زبان سے قرآن کا ترجمے کے کام کا آغاز ہوا۔چنانچہ ۱۹۱۴ء میں ایک مسلم عالم شیخ یعقوب وانگ جینگ چائی نے اس کام کو شروع کیا اور یہ ۱۹۴۶ء میں شنگھائی سے شائع ہوا۔لیو جین بیاؤ کا ترجمہ بھی اسی سال بیجنگ سے شائع ہوا۔بانگ چنگ مینگ نے بھی ایک ترجمہ کیا جو ۱۹۴۷ء میں شائع ہو۔ آخری ترجمہ محمد مکین ما جیان نے کیا جو ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا۔ یہ ترجمہ عربی زبان کے اصل مفہوم سے زیادہ قریب تر سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح حدیث کے میدان بھی علمی و تحقیقی کام کیا گیا۔ احادیث کے مجموعوں کے تراجم تو نہیں ہو سکے البتہ منتحب احادیث کے بعض مجموعے چینی زبان میں شائع ہو چکے ہیں۔ان میں مشکوۃ المصابیح کے علاوہ بخاری کا خلاصہ بھی شامل ہے۔اسلام کے ان بنیادی مآخذ، بالخصوص قرآن کے تراجم مہیا ہونے کی وجہ سے اہلِ چین کے لیے اسلام کا تعارف حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔
مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت
مسلم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے چین میں مدارس بھی قائم ہیں، جن میں ابتدائی، ثانوی اور اعلی، تین مرحلوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ان مراحل میں ناظرقرآن سے لے عربی زبان، تفسیر، علم حدیث و فقہ وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔البتہ اسلامی کتب اب بھی اس معیار اور مقدار میں نہیں ہیں کہ ان کے ذریعے بچوں کی مکمل تربیت کا کام انجام دیا جا سکے۔ جو کتابیں ہیں ان پر بھی نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔لیکن ابھی اس میدان میں چین کے مسلمانوں کو بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام کے بارے میں غیر مسلموں کے تصورات
ایک سروے کے ذریعے ملیشا میں موجود غیر مسلم چینیوں سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ اسلام کے بارے میں ان کے تصورات کیا ہیں؟ اس کے نتیجے میں تین الگ الگ تصورات سامنے آئے۔ ایک تصور تو یہ سامنے آیا کہ اسلام ملاؤں اور عربوں کا دین ہے۔ وہ عورتوں کے ساتھ عدل نہیں کرتا ہے، تشدد اور غیر مسلموں سے نفرت کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ اسلام کا یہ تصور انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ رہ کر اخذ کیا ہے یا پھر میڈیا نے انھیں یہ معلومات فراہم کی ہیں۔ یہ تصور عام طور پر ان غیر مسلم چینیوں کے ذہنوں میں پایا جاتا ہے جو تعلیم یافتہ ہیں۔ ایک دوسرا طبقہ عام چینی باشندوں کا ہے۔ ان کے ذہنوں میں اسلام کا جو تصور پایا جاتا ہے وہ بھی تقریباً وہی ہے جو تعلیم یافتہ طبقے کا ہے۔وہ اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اسلام کا عقیدہ کیا ہے؟ معاشرے سے برائی کے خاتمے کے لیے اس نے کیا احکام دیے ہیں؟ وہ ان سب چیزوں سے بے خبر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو اسلام کے بارے میں کافی معلومات رکھتا ہے، لیکن ان کی معلومات کا ذریعہ مسلمان نہیں بلکہ ان کا شوقِ مطالعہ و تحقیق ہے۔ انھوں نے اسلام کے بارے میں یہ ساری معلومات کتابوں کے ذریعے حاصل کی ہیں۔
اس جائزے سے ایک خاص بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ اسلام سے غیر مسلموں کی عدم واقفیت کا سبب خود مسلمان ہیں اور جو غلط فہمیاں اسلام کے تعلق سے ان کے ذہنوں میں ہیں اس کاسبب بھی خود مسلمان ہی ہیں۔ مسلمان اگر اپنے عمل کو اسلام کی تعلیمات سے ہم آہنگ کر لیں تو اسلام کے تعلق سے بیش تر غلط فہمیاں خود بہ خود ختم ہو جائیں گی۔

[اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل عربی مضامین سے مدد لی گئی ہے:
۱۔ العالم الاسلامی ۳/فروری ۲۱۰۵ء المسلمون فی الصین: آمال و تطلعات از علاء المہدی
۲۔ الرابطہ فروری ۲۰۱۵ئاثر القرآن الکریم فی نشر الدعوۃ الاسلامیۃ فی الصین از ڈاکٹر یونس عبد اللہ ماچنگ بین
۳۔ الرابطۃ دسمبر ۲۰۱۴ئالاسلام فی عیون الصینیین: لالیزیا نموذجا از ڈاکٹر یونس عبد اللہ ماچنگ بین]
Article: Islam and Muslim in China
Writer : Tanveer Afaqui
E-7, Abul Fazl Enclave,
Jamia Nagar, NEW DELHI-110025
Phone: (011)-26971627
Mobile: 9811912549

Share
Share
Share