مولانا آزاد کی ادبی نثر کے تخلیقی وفکری ابعاد
ڈاکٹرقطب سرشار
موظف لکچرر، محبوب نگر، تلنگانہ
موبائل : 09703771012
– – – – –
اظہارایک وہبی توانائی ہے اس کے مختلف وسائل ہیں۔ آنکھیں، چہرہ ، زبان وبیان، حرکات وسکنات مصوری موسیقی وغیرہ سب سے زیادہ طاقتور وسائل اظہاردو ہیں ایک شعری اظہاردوسرا نثری اظہار۔ اردو ادب کی دنیا میں ان دونوں کے حوالے سے دو نام سب سے زیادہ بلندی پر معتبر اور روشن نظر آتے ہیں۔ ان عبقری ہستیوں نے علمی ادبی حکیمانہ ، فلسفیانہ اعتبارات کو عمودی فاصلے طے کروائے۔ دیوان غالبؔ کا تخلیقی، فنی، حکیمانہ اور فلسفیانہ شعری اظہار ایک آفاقی تجربہ ہے۔ نثری ادب کے باب میں خطوطِ غالب مکتوب نگاری ، انشاپردازی، عام فہم جدید نثری اظہار کی ایسی انوکھی اور اچھوتی دریافت ہے جو گذشتہ دو صدیوں سے تا حال بھر پور توانائی کے ساتھ قو تِ تاثر کی حامل رہی۔ علامہ اقبال نے دین اسلام کی متنی توانائی کو شعری اظہار میں سموکرانفرادی واجتماعی ذہن سازی کا بیش قیمت مواد فراہم کیا ہے۔ اردوادب کی تاریخ میں دواوربھی عہد سازشخصیتیں ہوئی ہیں۔
سرسید اورمولانا ابوالکلام آزاد جنھوں نے بیک وقت معاشرتی ، ادبی ، سیاسی اورمذہبی موضوعات کی سوغات اردو نثری اظہارکودی ہیں۔ خصوصاً دین اسلام کی تفہیم وتشریح کے مرحلے میں متنوع وجدید ابعاد فکرکی راہیں استوارکی ہیں۔ سرسید احمد خاں نے علی گڑھ تحریک کے حوالے سے اپنی چونکادینی والی تحریروں کے ذریعہ ذہن سازی اور رجحان سازی کا وہ کارنامہ انجام دیا کہ بے سمت نسلوں کے ذہن کے دریچے کھل گئے تازہ ہوا نے فکر ودانش کے پیکروں میں نئی روح پھونک دی۔ فکر ودانش کے اضطراب آسا پیکروں کی صفوں میں مولانا ابوالکلام آزاد بہت ہی نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ مولانا نے جب آنکھ کھولی تو ان کے پیش نظر ایک ایسی رہگذر تھی جس کے دائیں جانب علی گڑھ تحریک چل رہی تھی اور بائیں جانب ترقی پسند تحریک ۔ صنعتی انقلاب اور اشتراکی نظریات کے باوصف تغیر پذیر سیاسی، معاشی اور تہذیبی اقدار کے تناظر میں تعلیم یافتہ روشن خیال دماغ تعقل پسندی اور مادہ پرستی کی بے پناہ کشش کو محسوس کرنے لگے تھے۔ مذہبی دبستان کے بعض روشن خیال علماء ومشائخین کی نئی نسل انحرافی نفسیات کے شکار ہو کر الحاد کے سرخ نشان تک پہنچ گئی تھی۔ مولانا آزاد، علامہ اقبالؔ ، حسرت موہانی، اکبر الہ آبادی، اورجوش ملیح آبادی نے علی گڑھ تحریک کے چراغ سے اپنا چراغ تو جلالیا مگر تحریک کے مذہبی نظریات سے جزوی اختلاف بھی کیا۔ ادھر ترقی پسند تحریک نے اپنے معاشی وسماجی نظریات کو شعری ونثری اظہار پر حاوی کردیا تھا اس طرح دونوں سمتوں سے جدید نظریات اور متنوع زوایہ ہائے فکر کی تازہ ہوا ایسی چلنے لگی کہ حریت فکر کا اک روح افزا ماحول بن گیا۔ نتیجتاً سیاست، معاشی فلسفہ، تعقل پسندی، عصری حسیت اور تخلیقی ورومانی اظہار ادب کے اہم موضوعات کی حیثیت اختیار کرگئے۔ اس تناظر میں تیرہ چودہ کی برس کی سن میں مولانا آزاد کا روشن ہیولیٰ ادب، سیاست، صحافت اور مذہب کے منظر ناموں میں بھر پور توانائی کے ساتھ اس طرح ابھر آیا کہ چشم بصیرت دیدۂ حیراں ہوگئی۔ مولانا نے اپنے ادبی سفر کا آغاز شعری اظہار سے کیا۔ جب کہ ان کا میدان فکر اساسی طورپر شاعرانہ نہیں تھا۔ فکر وعمل کی اک برق تپاں جومولانا کے اندر تڑپ رہی تھی اس کو منصہ شہود پر لانے کے لئے نثری اظہار ناگزیر تھا۔ اس کے برعکس مولانا نے اگر فکر وفلسفہ ، مذہبی افکار ، سیاسی نظریات اور جمہور کی ذہن سازی جیسے موضوعات کے لئے شاعری کو وسیلہ بنایا ہوتا تو اردو ادب میں آزاد کی بجائے ایک اور اقبال کا اضافہ ہوجاتا۔ جبکہ مولانا آزاد کی پہلو دار شخصیت کے پردے سے بلند پایہ انشا پرداز ، سیاسی مدبر مفکر، فلسفی، مترجم قرآن اوراک سنجیدہ صحافی کا ظہور ہونا تھا۔ نیرنگ عالم، احسن الاخبار ، خدنگ نظر ، وکیل، دارالسلطنت ، ریویو، پیام الجامعہ، الہلال، البلاغ، لسان الصدق، ترجمان القرآن، غبار خاطر اور انڈیا ونس فری ڈم مولانا آزاد کی علمی ، فکری ، مذہبی ، سیاسی ، صحافتی ، علمی اور ادبی بصیرت کی گراں قدر دستاویز ہیں۔ نثر آزاد کی دو اساسی جہتیں ہیں۔ ایک تخلیقی اور دوسری فکری۔ فکری جہت کو سمجھنے کے لئے ہم تین عنوانات مقرر کرتے ہیں۔ (۱) ادبی وفلسفیانہ نظریات، (۲) مذہبی نظریات (۳) سیاسی وسماجی نظریات، ادبی نظریات کا اظہار تخلیقی ہے اور فلسفیانہ نظریات کا اظہار بڑی شرح وبسط کے ساتھ گفتگو کا آغاز ادبی فلسفیانہ نظریات سے کرتے ہیں۔ اور ہم مولانا کی شاہکار تصنیف غبار خاطر کے حوالے سے آگے بڑھتے ہیں۔ غالبؔ نے مکتوب نگاری کو فنی معیار پر لا کر ادب عالیہ کا درجہ عطا کیا ہے۔ غالب کے بعد مولانا آماد نے بھی مکتوب نگاری کو تخلیقی وفلسفیانہ رنگوں سے آراستہ کیا۔ غبار خاطر اگرچہ کہ خطوط کا مجموعہ ہے لیکن اس میں شامل کسی بھی خط کے سر نامے میں مکتوب اِلیہ کا نام نظر نہیں آتا۔ ممتاز نقاد مالک رام نے اس کا جواب کھوجنے کی کوشش کی ہے۔ مالک رام غالبیات کے حوالے سے معتبر شناخت رکھتے ہیں انھوں نے بڑی عرق ریزی سے متنی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’غبار خاطر‘‘ کا جدید ایڈیشن مرتب کیا ہے جسے ساہتیہ اکیڈیمی دہلی نے پہلی بار ۱۹۶۷ء میں شائع کیا۔ اس ایڈیشن کا مقدمہ بھی مالک رام نے تحریر کیا۔ اس میں انہوں نے غبار خاطر کے مکتوبات کے مخاطب یعنی ’’صدیق مکرم ‘‘ کی گتھی کو ان الفاظ میں سلجھایا ہے۔
ان کے حلقۂ احباب میں صرف ایک ہی ایسی ہستی تھی جو علم کی مختلف اصناف میں یکساں طور پر دلچسپی لے سکتی تھی۔ یہ نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی مرحوم کی ذات تھی۔ انھوں نے عالم خیال میں انھیں مخاطب تصور کرلیا اور پھر جب کبھی جو کچھ بھی ان کے خیال میں آتا گیا اسے بے تکلف حوالۂ قلم کرتے گئے انھیں مضامین یا خطوط کا مجموعہ یہ کتاب ہے ۔ (غبار خاطر مقدمہ ص ۔ ۸)
’’غبارخاطر ‘‘میں ہر خط ’’ صدیق مکرم ‘‘ کے القاب سے شروع ہوتا ہے صدیق مکرم کون ؟ اس سوال کا امکانی جواب مندرجہ بالا اقتباس ہے۔ غبار خاطر کے مکتوبات میں احوال، استدلال مذہبی اور فلسفیانہ موضوعات پر بحث اور ایک مستحکم نظرئیے اور فکر کے نئے زاوئیے کا اظہار موجود ہے۔ اکثر خطوط تکنیکی اعتبار سے مقالوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ ابتدائی پانچ خطوط کو چھوڑ کر باقی خطوط کے عنوانات اور موضوعات کا تعین متنی اساس پر خود قاری کرسکتا ہے۔ مثلا مکتوب ۶ میں مولانا نے مذہب جیسے حساس موضوع پر نہایت احتیاط اور توازن اظہار کے ساتھ بحث کی ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ کریں۔
’’ہمیں مذہب کی طرف دیکھنا پڑتا ہے یہی وہ دیوار ہے جس سے ایک دکھتی ہوئی پیٹھ ٹیک لگا سکتی ہے۔۔۔ بلاشبہ مذہب کی وہ پرانی دنیا جس کی مافوق الفطرت کارفرمائیوں کا یقین ہمارے دل ودماغ پر چھایا رہتا تھا۔۔۔ اب ہمارے سامنے آتا ہے عقلیت اور منطق کی ایک سادہ اور بے رنگ چادر اوڑھ کر جو ہمارے دلوں سے زیادہ دماغوں کو مخاطب کرنا چاہتا ہے۔ عام حالت میں مذہب انسان کو اس کے خاندانی ورثے کے ساتھ ملتا ہے مجھے بھی ملا۔ لیکن میں موروثی عقائد پر قانع نہ رہ سکا۔ میری پیاس اس سے زیادہ نکلی مجھے پرانی راہوں سے نکل کر نئی راہیں ڈھونڈنی پڑیں ۔۔۔ جو عقیدہ کھویا وہ تقلیدی تھا۔ جو پایا وہ تحقیقی تھا۔ جب تک موروثی عقائد کے جمود اور تقلیدی ایمان کی چشم بندیوں کی پٹیاں ہماری آنکھوں پر بندھی رہتی ہیں ہم اس کا سراغ نہیں پاسکتے اب معلوم ہوا کہ جسے مذہب سمجھتے آئے تھے وہ مذہب کہاں تھا وہ تو خود ہماری وہم پرستیوں اور غلط اندیشوں کی ایک صورت گری تھی ۔۔۔ ایک مذہب موروثی ہے باپ دادا جو کچھ مانتے آئے ہیں مانتے رہیں۔ ایک جغرافیائی مذہب کہ زمین کے ایک خاص ٹکڑے میں ایک شاہ راہ بن گئی سب اسی پر چلتے ہیں۔ ایک مردم شماری کا مذہب ہے مردم شماری کے خانے میں اسلام کا نام درج کرادیجئے۔ ایک رسمی مذہب ہے کہ رسموں کا اک سانچہ ڈھل گیا ہے اسی میں ڈھلتے رہیں۔ ان تمام مذاہب کے علاوہ ایک حقیقت باقی رہ جاتی ہے۔۔۔ زندگی دشواریوں میں مذہب کی تسکین ایک سلبی تسکین ہی نہیں ہوتی بلکہ ایجابی تسکین بھی ہوتی ہے۔ وہ (مذہب) ہمیں اعمال کے اخلاقی اقدار کا یقین دلاتا ہے کہ زندگی اک فریضہ ہے جسے انجام دینا چاہئے ایک بوجھ ہے جسے اٹھانا چاہئے ۔ (غبار خاطر ۔ ص ۔ ۳۸۔۳۹۔۴۰۔۴۱)
مولانا آزاد ایمان وایقان ، خیر وشر ، سزا وجزا اور امر ونہی جیسی اصطلاحی زبان سے گریز کرتے ہوئے بیسویں صدی کے ایک بیدار مغز انسان کے ذہن سے تقلید اور تحقیق کی اصطلاحتوں میں سوچتے ہیں۔ مذہب کے حوالے سے انھوں نے ذہن کی جو گرہیں کھولی ہیں اس سے حریت فکر اور متوازن مزاجی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسلاف کی اندھی تقلید کے تئیں ان کا رویہ انحرافی ہے۔ انھوں نے تحقیقی رجحان کی تحریک کے ذریعہ مذہبی حسیت کو بیدار کیا ہے ساتھ ہی رد وقبول کے وسیع تر امکانات کے اشارے بھی دےئے ہیں۔ تقلیدی رجحان کے مقابل رد وقبول کا صحت مند رویہ ذہنوں پر جمی کائی کو صاف کرنے میں معاون ہوتا ہے حریت فکر کے نور سے ادراک حق روشن ہوتا ہے۔ مکتوب کے اختتام پر مولانا مذہب اور زندگی کے بہتر تامل میل کے ذریعہ ایک جامع نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہتے ہیں اخلاقی اقدار کے ایقان کے ساتھ زندگی کو فریضہ مان کر جئیں، زندگی بوجھ بھی ہے اسے اٹھائے چلنے میں تامل نہ کریں۔ مولانا ’’زندگی ‘‘ جیسے دلچسپ موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں۔
زندگی کی جن حالتوں کو ہم راحت والم سے تعبیر کرتے ہیں نہ مطلق راحت ہے نہ مطلق الم۔ ہمارے تمام تر احساسات سر تا سر ضافی ہیں۔۔۔ ہمارا احساس جو کبھی زخم لگاتا ہے کبھی مرہم بن جاتا ہے۔ زندگی بغیر کسی مقصد کے بسر نہیں کی جاسکتی، کوئی اٹکاؤ ، کوئی لگاؤ، کوئی بندھن ہونا چاہئے۔ کچھ طبیعتیں ایسی بھی ہوتی ہیں۔ جن کے لئے صرف مشغولیت ہی کافی نہیں ہوتی وہ زندگی کا اضطراب بھی چاہتی ہیں۔ زندگی حرکت واضطراب کے ایک تسلسل کے سوا اور کیا ہے جس حالت کو ہم سکون سے تعبیر کرتے ہیں اس کو موت سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ موج جب تک مضطرب ہے زندہ ہے آسودہ ہوئی اور معدوم ہوئی ۔ (غبار خاطر۔ ۴۴،۴۳،۴۵)‘‘
مولانا رنج وراحت کو اضطراب اور حرکت کو عناصر حیات سے تعبیر کرتے ہیں۔ رنج وراحت ذہن کی پیداوار ہونے کے سبب سے اضافی حیثیت رکھتے ہیں۔ زندگی حرکت واضطراب کا اک تسلسل ہے۔ جب کہ سکون اور آسودہ حالی، معنوی موت ہے۔ علامہ اقبال بھی حرکت واضطراب کو زندگی کی روح مانتے ہیں۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تنہائی، زندگی کی ایک ناگزیر پہلو دار حقیقت ہے ایک وسیع المعنی احساس ہے جس سے کسی کو مفر نہیں انسانی احساسات فکر وایقان اور نظریات کی اساس ہوتے ہیں۔ تنہائی قید ہے نہ آزادی ، نعمت ہے نہ زحمت بلکہ ایسی صورت حال کو کہتے ہیں جس میں آدمی خود اپنی معیت میں جیتا ہے۔ مولانا کا ماننا ہے کہ خلوت پسندی کے ذریعہ احساس زحمت کو احساس رحمت میں تبدیل کیاجاسکتا ہے۔
’’یہ سطریں لکھ رہا ہوں عالم تنہائی کی خلوت اور اندوزیوں کا بھر پور لطف اٹھارہا ہوں گویا ساری دنیا میں اس وقت میرے سوا کوئی نہیں ہے تنہائی کا یہ احساس میری طبع خلوت پسند کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا کرتا ہے۔ (غبار خاطر ۔ ۵۰)
احساس تنہائی گوناگوں معنوی ابعاد کا حامل ہوتا ہے مثلا نظریاتی تنہائی، جذباتی تنہائی، فکری تنہائی، سماجی بے اعتنائی یا بے نیازی کے سبب پیدا شدہ سماجی تنہائی اور قید خانے کی تنہائی ، کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی سبب سے انسان تنہائی کا ذائقہ لازماً چکھتا ہی رہتا ہے۔ تنہائی کا موضوع نثر کی بہ نسبت شاعری پر زیادہ غالب نظر آتا ہے۔ جہاں تک سماجی رشتوں کی بے گانگی وبے نیازی سے پیدا تنہائی کی بات ہے آج عالمی سطح پر یہ تنہائی ہر انسان کا مقدر بن چکی ہے۔ غبار خاطر ۱۹۴۲ء کی تصنیف ہے۔ سنیسٹھ برس قبل کی یہ تحریر اکیسویں صدی کے انسان کو اس کی ناگزیر تنہائی کے حوالے سے غبار خاطر کے مطالعہ کی دعوت دیتی ہے تا کہ وہ تنہائی کے احساس کی خود ساختہ توجیہات پر نظر ثانی کرلے۔ ۱۹۴۲ء میں مولانا کی گرفتاری عمل میں آئی اور احمد نگر قلعہ میں قید کردےئے گئے۔ احمد نگر کا قلعہ غبار خاطر کی جنم بھومی ہے یعنی قید خانے کی تنہائی کے حوالے سے مولانا نے تنہائی کی جو تعبیر کی ہے وہ فلسفیانہ کم اور منطقی زیادہ ہے۔ تنہائی کے رواقیہ احساس کو لذتیہ احساس سے بدل دینے کا یہ نسخہ بے شک حکیمانہ ہے۔
’’میں نے قید خانے کی زندگی کو دو متضاد فلسفوں سے ترکیب دی ہے۔ اس میں ایک جز رواقیہ کا ہے اور ایک لذتیہ کا، جہاں تک حالات کی ناگواریوں کا تعلق ہے رواقیت سے ان کے زخموں پرمرہم لگاتا ہوں۔ جہاں تک خوشگواریوں کا تعلق ہے لذتیہ کا زاویہ نگاہ کام میں لاتا ہوں۔ آپ کہیں گے قید خانے میں لذتیہ کی عشرت اندوزیوں کا کیا موقع ؟ میں آپ کو یاد دلاؤں کہ انسان کا اصلی عیش دماغ کا عیش ہے۔ جسم کا نہیں میں لذتیہ سے ان کا دماغ لیتا ہوں جسم میں ان کیلئے چھوڑدیتا ہوں ۔۔۔ (غبار خاطر۔ ۶۶،۶۷،۶۸)
احساس الم کو احساسِ راحت میں بدل لینا محض تصوراتی نہیں ہوتااحساسِ الم باطنی کیفیت ہے اوراحساسِ راحت بھی قرآن مجید کے بموجب ’’ وہ تمہارے انفس کے اندر موجود ہے تم دیکھتے نہیں ہو ‘‘۔ اپنے مکتوب میں مولانا نے درونِ ذات مخفی راحتوں کی بازیافت کے ضمن میں ایک اور مثال دی ہے۔
’’۔۔۔جنگل کے مور کو کبھی باغ وچمن کی جستجو نہیں ہوتی اس کا چمن خود اس کی بغل میں موجود رہتا ہے جہاں کہیں اپنے پر کھول دے گا ایک چمنستان بو قلموں کھل جائے گا ۔۔۔ مصیبت ساری یہ ہے کہ ہمارا دل ودماغ ہی گم ہوجاتا ہے ہم اپنے سے باہر ساری چیزیں ڈھونڈتے رہیں گے مگر اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے۔۔۔ (غبار خاطر ۔ ۶۹)
یقیناًتنہائی کا وجود اس جگہ کہاں ہوسکتا ہے جہاں فرد کی ذاتِ واحد خود انجمن بن جاتی ہے مولانا نے ماضی اور مستقبل سے بے علاقہ ہو کر لمحۂ موجود کو لذت آگیں کا گیان پالیا تھا۔ انھوں نے قید خانے کے اندر نہیں بلکہ درون ذات رواقیہ ( صبر اور زہد ) اور لذتیہ کے امتزاج سے اک نیا اور خوشگوار ماحول بنانے کا ہنر جان لیا ہے۔ درون ذات کے اس ماحول سے باہر نہ کبھی وہ جاتے ہیں اور نہ ہی کوئی غیر اندر آسکتا ہے۔ قلعہ احمد نگر میں مولانا سیاسی قیدی رہے ہیں۔ قید جیسی ہو بہرحال قید ہوتی ہے قید خانے کی عسرت وحشت اپنی جگہ ہے۔ مولانا کی قوت ارادی اور قوت متخیلہ اس قدر طاقتور تھی کہ یاسیت کبھی ان پر غالب نہ آسکی۔ ان کے قدم زمین پرجمے رہتے اور ذہن اوج فکرکے آسمانوں کی وسعتیں طے کرتا رہتا۔ خود کو زندہ رکھنے کی یہ صفت بلا شبہ بڑے آدمی ہونے کے دلیل ہے۔
’’۔۔۔ میں آپ کو بتلاؤں کہ اس (زندگی کی ) راہ میں میری کامرانیوں کا راز کیا ہے کہ میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا ۔ کوئی حالت ہو کوئی جگہ ہو اس کی تڑپ کبھی دھیمی نہیں پڑے گی۔ میں جانتا ہوں زندگی کی ساری رونقیں اسی میکدہ خلوت کے دم سے ہیں یہ اجڑا ساری دنیا اجڑگئی ۔۔۔ لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لئے کام میں لائیں لیکن نہیں جانتے کہ سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہیں۔ جس نے یہ مشکل حل کرلی اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دیا ہے۔ (غبار خاطر ۔ ۷۰ ، ۷۳)
یاسیت ، فکر واحساس کا وہ زہر ہے جو انسان کو اقساط میں قتل کرتا ہے۔ اس طرح موت کو انسان کی تدریجی ناکامیوں اور شکستگیوں کا تسلسل کہتے ہیں۔ مولانا کا یہ استدلال کہ میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا کہ یہی میری کامرانیوں کا راز ہے خوب ہے لیکن ۔۔۔ دل کو زندہ رکھنا کیا ہوتا ہے یہ سمجھنے کے لئے حقیقت دل کا ادراک ضروری ہے دل جسے کہتے ہیں دراصل فکر واحساس کی محرکات کی آماجگاہ ہے۔ تمام تر اعمال کا صدور اسی آماجگاہ سے ہوتا ہے۔ فکر واحساس کی آماجگاہ یعنی دل کی تربیت وتہذیب صحت مند ہو تو صحت اعمال کے امکانات بھی یقینی ہوجاتے ہیں۔ صحت اعمال کے خوشگوار نتائج فکر واحساس کی آماجگاہ کو بھی خوشگوار رکھتے ہیں۔ ظفر یاب زندگی کی یہی تعبیر ہے۔ غبار خاطر میں زیادہ تر ایسے موضوعات کو چھیڑا گیا ہے جو کم وبیش ہر خاص وعام کے ذہنوں میں سوالات کی صورت ابھرتے رہتے ہیں۔ غبار خاطر میں زیادہ تر ایسے موضوعات کو چھیڑا گیا ہے جو کم وبیش ہر خاص وعام کے ذہنوں میں سوالات کی صورت ابھرتے رہتے ہیں۔ مذہب ، فلسفہ، اخلاق، سماجی رویے، نفسیات، سیاست اور وجود کائنات کے نفسیاتی اسرار کی توجیہ دیکھئے۔
حوالہ ۔۔۔اس وقت سناٹے میں کوئی آواز مخل ہو رہی ہے تو وہ صرف جواہر لال کے ہلکے خراٹوں کی آواز ہے وہ ہمسائے میں سورہے ہیں صرف لکڑی کا ایک پردہ حائل ہے خراٹے جب بھی تھمتے ہیں حسب معمول نیند میں بڑبڑانے لگتے ہیں یہ بڑبڑانا ہمیشہ انگریزی میں ہوتا ہے ۔۔۔ نیند میں بڑبڑانے کی حالت بھی عجیب ہے یہ عموماً انھیں طبیعتوں پر حاوی ہوتی ہے جن میں دماغ سے زیادہ جذبات کام کرتے ہیں۔ جواہر لال کی طبیعت کی سرتا سر جذباتی واقع ہوئی ہے اس لئے خواب اور بیداری دونوں حالتوں میں جذبات کام کرتے ہیں۔۔۔۔ (غبار خاطر ۔ ۵۱)
اس اقتباس میں دو نکات مضمر ہیں۔ ایک نیند میں بڑبڑانے کی نفسیاتی توجیہ دوسرا آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم کی نفسیات کا جائزہ کا وہ سرتا سر جذباتی واقع ہوئے تھے۔ ان کے اعمال کا منبع دماغ نہیں دل ہے۔ ظاہر ہے جذباتی محرکات کے تابع اعمال جوش کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ہوش کا نہیں۔ مولانا آزاد کی یہ تحلیل نفسی ہندوستان کی سیاسی تاریخ کے تغیرات کی گرہیں بھی کھولتی ہیں۔ غبار خاطرکے خطوط نما مضامین مولانا کی قوت مشاہدہ ، تبصرہ وتجزیہ اور عمیق فلسفیانہ اظہار کے ترجمان ہیں۔ وہ انفرادی اور اجتماعی دونوں وارداتوں کو الگ الگ تناظر میں نہیں دیکھتے۔ ان کا ماننا ہے کہ سماجی تناظر میں انفرادی اعمال کو اجتماع سے الگ کر کے دیکھا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ فرد اجتماع کے بدن کا ایک عضو ہے۔ اس نظریہ کو مولانا نہایت فلسفیانہ زبان میں بیان کرتے ہیں۔
حوالہ ۔۔۔ ہماری زندگی اک آئینہ خانہ ہے یہاں ہر چہرے کا عکس بیک وقت سیکڑوں آئینوں میں پڑتا ہے۔ اگر ایک چہرے پر غبار آجائیگا تو سینکڑوں چہرے غبار آلود ہوجائیں گے۔ ہم میں سے ہر فرد کی زندگی محض اک انفرادی واقعہ نہیں وہ پورے مجموع کا حادثہ ہے۔ دریا کی سطح پر ایک لہر تنہا اٹھتی ہے لیکن اس ایک لہر سے بے شمار لہریں بنتی چلی جاتی ہیں۔ (غبار خاطر۔ ۸۴)
زندگی آئینہ، عکس اور انعکاس ، فرد کی زندگی اجتماعی حادثہ، ایک لہر سے سیکڑوں لہروں کا پیدا ہونا ہے۔ جیسے الفاظ کے وسیلے سے ان کا نثری اظہار ، شاعری میں پیکر تراشی کے ہنر سے مماثلت رکھتا ہے۔ یقے4129نفرادی عمل اجتماع پر اثر انداز ہوتا ہے اور یہ سماجی نیٹ ورک کی فطرت ہے۔ تمام تر طبیعی بیماریاں متعدی نہیں ہوتیں جبکہ فکر وعمل سے متعلق ہرمرض متعدی ہوتا ہے۔ بلکہ طبعی بیماری کی بہ نسبت زیادہ سریع الاثر اور خطرناک بھی ۔۔۔ مولانا کی مادری زبان عربی تھی، مترجم ومفسر ومفکر قرآن مشائخ خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ دین اسلام کو انھوں نے اسلاف کے ورثے کے بطور قبول نہیں کیا۔ خود کو تحقیقی مسلمان کہتے اور زاہدان خشک کے تئیں بیزارگی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بیزارگی شخصی تاثر نہیں بلکہ اسلام کے مزاج کے دانشورانہ حمایت ہے۔ غبار خاطر کے مکتوب کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو ۔
حوالہ ۔۔۔عجیب بات ہے کہ مذہب ، فلسفہ اور اخلاق تینوں نے زندگی کا مسئلہ حل کرنا چاہا اور تینوں میں خود زندگی کے خلاف رجحان پیدا ہوگیا۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ایک آدمی جتنا زیادہ بجھا دل اور سوکھا چہرہ لے کر پھرے گا اتنا ہی زیادہ مذہبی، فلسفی اور اخلاقی قسم کا ہوگا گویا علم اور تقدس دونوں کے لئے یہاں ماتمی زندگی ضروری ہے ۔۔۔ مذہب اور روحانیت کی دنیا میں زہد خشک اور طبع خنک کی اتنی گرم بازاری ہوئی کہ اب زھد مزاجی اور حق آگاہی کے ساتھ اب ہنستے ہوئے چہرے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ دین داری اور ثقالت طبع تقریبا مرادف بن گئے ہیں۔ (غبار خاطر ۔ ۷۴، ۷۵)
مذہب فلسفہ اور اخلاق کا جوہر ہے تمیز رد وقبول ۔۔۔ جو کم کم ہی انسانیت کا مقدر بن سکا ہے اور یہ المیہ صدیوں کی پیٹھ پر پیر تسمہ پاکی کی طرح سوار ہے۔ جب کہ مذہب اور اخلاق کی منشا ایسے پیکروں کو ڈھالنا ہے جن کی خاک میں قلب کا گداز اور’’ طرحِ شگفتہ‘‘ کا رس شامل ہو۔
اس سے پہلے کہ ہم اس مقالے کے اختتامی کلمات پر آجائیں غبار خاطر کے ایک اور اہم موضوع ’’انانیت ‘‘ (Ego) کے حوالے سے تھوڑی سی گفتگو ہوجائے۔ عالمی سطح پر ادیب وشاعر کی انا بڑے وقار سے کہتی ہے ’’قلم گوید کہ من شاہِ جہانم ‘‘ ۔ اس درجہ پر تمکنت لہجے کے آگے شہنشاہوں کا غرور بھی خاک چاٹنے لگتا ہے اب انانیت کے ضمن میں مولانا آزاد کا زاوےۂ نظر بھی دیکھئے۔
حوالہ ۔۔۔ ایک ادیب ایک شاعر ایک مصور ، ایک قلم کار کی انانیت (Egostism) کیاہے ؟ ابھی نہ تو فلسفۂ اخلاق کے مذہب انا کا رخ کیجئے نہ خودی (lamness) مصطلحۂ تصوف میں جائیے۔ صرف ایک عام تحلیلی زاوےۂ نگاہ سے معاملے کو دیکھئے یہ انانیت دراصل اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس کی فکری انفرادیت کا ایک قدرتی سرجوش ہے۔ جسے وہ دبا نہیں سکتا اگر دبانا چاہتا ہے تو اور زیادہ ابھرنے لگتی ہے اور اپنی ہستی کا اثبات کرتی ہے۔ ہر انفرادی انانیت اپنے اندرونی آئینہ میں جو عکس ڈالتی ہے بیرونی آئینوں میں اس سے بالکل ایک چھوٹی سی چھوٹی شکل ابھرنے لگتی ہے ۔۔۔ اکثروں کی انفرادیت بولتی ہے مگر دھیمے سروں میں بولتی ہے۔ بعضوں کی انفرادیت اتنی پر جوش ہوتی ہے کہ جب کبھی بولے گی سارا گرد وپیش گونج اٹھے گا۔ ایسے افراد جب ’’ میں ‘‘ بولتے ہیں تو اس میں قصد بناوٹ اور نمائش کو کوئی دخل نہیں ہوتا وہ سرتا سر حقیقت حال کی ایک بے اختیارانہ چیخ ہوتی ہے ۔۔۔ ‘‘ (غبار خاطر۔ ص ۔ ۱۸۰۔۱۸۴)
مندرجہ بالا اقتباس غبار خاطر کے مکتوب نمبر ۱۷ سے ماخوذ ہے جس میں انانیت ادبیات یا انانیتی ادب کی بحث چھیڑی گئی ہے۔ عالمانہ لب ولہجے اور فلسفیانہ اصطلاحوں میں شاعروں کی انانیت کے ظہور اور محرکات کی توجیہ وتشریح کی گئی ہے۔ یہ بحث مکتوب کے دس صفحات پرمحیط ہے موضوع انانیت کی دلچسپی اور اہمیت کے سبب سے تسوید صفحات یقیناًطول کھینچتی ہے خصوصاً انانیتی موضوعات ہیں لیکن نفسیات کو ادب سے الگ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ شعری ونثری اظہارات میں نفسیاتی محرکات اساسی حیثیت رکھتے ہیں جہاں تک انانیتی ادب کی بات ہے یہ ایک ضمنی موضوع ہے۔مولانا نے اپنے مکتوب میں دورانِ بحث صرف فارسی اشعار کے حوالے درج کئے ہیں۔ ایسے اشعار جن میں شعرا تعلّی کرتے ہیں۔ لگ بھگ نوے فیصد شعرا تعلّی کرتے ہیں۔ تعلّی کو اردو ادب میں معیوب نہیں سمجھا گیا جبکہ نثر میں یہ صفت خوش فہمی اور حماقت160اباور کی جاتی ہے۔ کیونکہ بات جو شاعری کی زبان میں جائز اور اچھی لگتی ہے نثر میں نہیں۔ اور جہاں تک اظہار انانیت کے ادبی رویے کی بات ہے اس میں نفس مضمون کی سچائی کی بنیاد پر رد وقبول کا تعین کیاجاتا ہے۔ شاعر دانشوری کے سبب سے بھی معتبر مانا جاتا ہے۔ انانیت کے اظہار کو خود شناسی کا اظہار مان لیا جائے تو شاعر بے شک بہت زیادہ خود شناس ہوتا ہے اس طرح تعلّی غیر فطری عمل اور اظہار خوش فہمی نہیں ہوسکتا۔ مولانا کا استدلال کہ وہ صرف ایک عام تحلیلی زاویہ نگاہ سے انانیت کا تجزیہ کر رہے ہیں نہ کہ فلسفے ، مذہب اور تصوف کے نقطۂ نگاہ سے۔ شعرا کی تحلیل نفسی سے پہلے انھوں نے تحلیل نفسی کا عام نظریہ پیش کیا پھر اس کو شاعر کی انا سے جوڑ کر دکھادیا ہے۔ مولانا انا کی آواز کو انفرادیت کی چیخ سے تعبیر کرتے ہیں۔ انفرادیت کی چیخ یہ فنی اصطلاح نہیں ، تخلیقی زبان ہے۔ اس طرح کی زبان ابتدا سے آخر تک تمام مکتوبات پر حاوی ہے۔ گویا نثری اظہار کے پردے سے مولانا کے اندر کا شاعر بے نقاب ہوگیا ہے۔ غبار خاطر کی زبان میں دلی کی زبان کا رچاؤ ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ مولانا کے انفرادی لب ولہجے اور فکری ابعاد کو متاثر کرسکے۔ ہرمکتوب ایک مستقل موضوع کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور غیر افسانوی اظہار بیان فکر وفلسفے اور تخلیقی حسن کا اثر آفریں امتزاج ہے۔ غبار خاطر صوری اعتبار سے مکتوبات کا مجموعہ لگتا ہے انہیں معنوی اعتبار سے گونا گوں عنوانات پر مختصر مختصر مقالہ جات کہا جاسکتا ہے۔ مکتوبات میں مضمون آرائی یا مولانا کی علمی فطرت کے سبب سے بیچ بیچ میں عربی اور فارسی اشعار کا چسپاں کرنا (Pasting) آج کے قاری کے لئے الجھن پیدا کرتا ہے۔ انگریزی اور علاقائی زبانوں کے تسلط کے اس دور میں عربی وفارسی زبانوں کے آگے اردو قاری کی سماعت اور فہم بے بسی محسوس کرے گی۔ تغیرات زمانہ کے باعث ماضی کا ہنر آج عیب لگتا ہے۔ البتہ جہاں جہاں اردو اشعار چست ہوئے ہیں ان کے شدت تاثر نے کوئی کسر نہیں چھوڑی بہر حال مولانا آزاد کے نثری اظہار کے تخلیقی اور فکری ابعاد کے موضوع پر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں۔
مولانا آزاد کی نثر سچ پوچھو تو ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئی ۔۔۔۔۔۔ اس قسم کی نثر کو پروان چڑھانے کی فضا بھی مولانا کے عہد کے ساتھ ختم ہوگئی ۔۔۔۔۔۔ (مولانا آزاد شخصیت اور فن ، مرتبہ خلق انجم مطبوعہ انجمن ترقی اردو ہند دہلی ص، ۳۲۹)
Dr.Qutub Sarshar
Mahboob Nagar
Telengana – India
One thought on “مولانا آزاد کی ادبی نثرکے تخلیقی وفکری ابعاد ۔ ۔ ڈاکٹرقطب سرشار”
بہت اچھا مضمون ہے۔گیارہ نومبر کے حوالے سے ۔ جہان اردو کا شکریہ