آدمی لہو لہو۔ ۔ شاعر: مقبول احمد مقبول ۔ ۔ مبصر: شمیم احمد صدیقی

Share

aadmi لہو لہو

شعری مجموعہ” آدمی لہو لہو”

شاعر: ڈاکٹرمقبول احمد مقبول
شعبۂ اردو مہاراشٹرا اودے گیری کالج،اودگیر۴۱۳۵۷۱ ضلع لاتور (مہاراشٹرا)
ای میل :

مبصر:ڈاکٹر شمیم احمد صدیقی
نسیم منزل ۔مدح گنج پولس چوکی سیتا پور روڈ۔ لکھنؤ 226020

زیر نظر مجموعۂ کلام ادگیر ضلع لاتور(مہاراشٹرا) کے ڈاکٹر مقبول احمد مقبول کی ان غزلیات پر مشتمل ہے جو انھوں نے ۱۹۸۵ ؁ء اور ۱۹۹۸ ؁ء کے دوران تخلیق کی تھیں اور جن میں سے بیشتر ادبی جرائد میں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی غزلیں عام روا یتی عاشقا نہ رنگ سے ا لگ ہٹ کر نئے لباس فکریہ میں نظر آتی ہیں۔ انھوں نے زندگی کو نہ صرف قریب سے دیکھا ہے بلکہ آلامِ زندگی کو ایک حقیقت اور سچائی مانتے ہوئے ہر تقا ضائے حیات پرلبیک بھی کہا ہے۔ زندگی کو سمجھنے اور جاننے کے لئے انھوں نے جن جن زاویوں سے رشتہ قائم کیا وہ اُن کی نیکی اور راستی کے وسیلے ہیں۔انھوں نے کرب واذیت، مکروفریب، ذلّت ور سوائی کا مقابلہ امید و یقین اور اخلاق و شرافت کے ساتھ کس کا میابی سے کیا ہے ۔اس کو درجِ ذیل پانچ پانچ اشعار میں ملا حظہ فرمائیں :

اشعارِ غم و الم
اے غم! نہ ساتھ چھوڑ، کہ تو ہی تو ہے رفیق + تیرے بغیر کیسے گزارا کریں گے ہم
آرزوئے نشاط ہے تم کو + ہمیں سوزِ غمِ نہاں کی تلاش
دن بھی ہم کو آتشِ غم سے نہیں نجات کیا ذکر؟ گر چہ جلتا رہا رات بھر چراغ
غمِ دوست میری دولت یہی وجہِ کیف و لذّت + کوئی اور کیف و عشرت نہیں اب مجھے گوارا
عیش و نشا ط کی کوئی تو قیر ہی نہیں + جب زندگی میں غم کا شر ارہ نہیں رہا
اشعارِ امید اور فکر و عمل
شکست و ریخت کا ما تم کبھی نہیں کر تے + خودی ہو جن کی توانا ، وہ پھر ابھر تے ہیں
اے صاحبانِ حل و عقد! کیا یہ نہیں ہے سانحہ؟ + فکر و نظر ہے داغ داغ اور آگہی لہو لہو
گنتگو ہے لا حا صل گر عمل نہیں کچھ بھی + ہاتھ آئے گا مقصد کو ششوں کے موسم میں
غمِ حیات سے بز دل ہی خوف کھا تے ہیں + جو مر د ہیں ، وہ حوادث میں مسکراتے ہیں
شباب پر ہے کفِ پا کے آبلوں کا جمال + نکھر ہی جائے گا اب پھر سے راستوں کا جمال
درجِ بالا چند اشعار اس بات کے گواہ ہیں کہ مقبول صاحب نے ایقان و عمل اور امیدو یقین کے وہ چراغ روشن کئے ہیں جن سے
زندگی کا راستہ ہمیشہ منور رہتا ہے۔انھوں نے عزم وارادے اور حو صلے کی ایسی فصل اُگا ئی ہے جو ہر قسم کے غم و الم کا مداوا کر سکتی
ہے۔مقبول صاحب کی شاعری میں بلندیِ کر دار، حُسنِ اخلاق، اخلاص کی پاسداری ، ظلم و نا انصافی کی مخالفت، خدا شناسی
وغیرہ مو ضوعات کا احاطہ بھی بڑی خوبصورتی سے کیا گیاہے۔چند مثالیں ملا حظہ فرمائیں :

جن کی شنا خت پستیِ کر دار ہی رہی + گرد انتے ہیں خود کو ،کہ عزت مآب ہیں
کیسا نظامِ عدل و حکومت ہے دیکھیے؟ + سچ بات کہنے والا ہی مقہور ہو گیا
ٹٹو لتا ہوں ہر اک دل عمیق نظروں سے + خلوص و مہر و محبت تلاش کر تا ہوں
آؤ! کہ کریں سا منا اب ظلم و جفا کا + کب تک کریں گے اور بھلا صبر و تحمل
عصیاں کی سزا یاد ، نہ طاعت کی جزا یاد + افسوس ہے ، کس عمر میں آیا ہے خدا یاد
ہمیشہ نور بر ستا ہے اُن کے چہروں پر + جو اپنے دل میں دیے خیر کے جلا تے ہیں
پڑیں چھا لے زبان پر غیر کا جو نام بھی لے لیں + کہ ہم تو آپ کے ہیں، آپ ہی کی بات کر تے ہیں
نہ چھن سکے گا کبھی حسنِ زندگی ہم سے + اگر سنبھال کے رکھیں گے ضا بطوں کا جمال
مند رجہ بالا اشعار اس امر کے غمّا ز ہیں کہ مقبول صاحب کی غزلیا ت میں دور حاضر کے تمام موضوعات کی کشش و انجذاب کے دریچے کُھلے ہو ئے ہیں ۔ ان سب کے ساتھ ساتھ انھوں نے غزل کے روایتی عنوان یعنی وارداتِ حُسن و عشق سے ہر گز کوئی پہلوتہی نہیں کی۔ چنانچہ اُن کی غزلیات میں اس رنگ و آہنگ کی بھی مثا لیں جا بجا ملنی ہیں لیکن اُن کا کلام ابتذال سے قطعی مبّرا ہے۔ چند مثالیں د یکھیے:
چمن میں آپ گھڑی بھر بھی جو ٹھہر تے ہیں + تو رنگ آتا ہے کلیوں پہ گُل نکھر تے ہیں
بس یہی سوچ کے کر تے نہیں اظہا ر خیال + اُن پہ گزریں نہ کہیں اپنے خیالات گراں
شاید کہ جانتی نہ تھی آدابِ بزمِ حُسن + گستا خیِ نگا ہ سے دل شر مسا ر ہے
ویران کب سے محفلِ فکر و خیال تھی + آباد ہو گئی ہے تمھیں دیکھنے کے بعد
لُطف تو یہ ہے کہ بے گا نۂ لذت ہی رہا + یہ مرا عشق ، تر ے جورو جفا سے پہلے
مندر جہ بالا تمام مثالوں سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ ڈاکٹر مقبول نے بڑ ے سلیقے اور ہُنر مندی سے الفاظ کو شعری جامہ پہنا یا ہے اور بہت مہذب طریق سے احساسِ فکر یہ کی مصوری کی ہے۔اُن کی غزلوں کی ایک اور خوبی نرم و سلیس اسلوب اور کلا سیکی رکھ رکھاؤ کا پاس و لحاظ ہے۔ہم انھیں کے ایک شعر پر اپنے تاثرات کی تکمیل کر تے ہیں سوز و گداز و فکر و بصیرت مآب ہیں – – میرے تمام شعر حقیقت مآب ہیں۔

Share
Share
Share