پیڑ سائے کا کرایہ نہیں مانگا کرتے ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ

Share
sir ali imam
سر علی امام
Hyderabad
علامہ اعجازفرخ

پیڑ سائے کا کرایہ نہیں مانگا کرتے 
حیدرآباد کی وضعداری 

علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نوٹ :’’جہانِ اردو” کی باقاعدہ اشاعت کو ایک سال ہوا چاہتا ہے ۔ اس مختصر سے وقفہ میں اس ویب سائٹ نے کئی سنگ میل عبورکئے ہیں اوراب دُنیا بھرمیں اس کے قارئین کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔گزشتہ 25؍ ہفتوں سے جمعہ کی شام علامہ اعجاز فرخ کے نام ہی رہی ہے۔انہوں نے بے تکان کئی موضوعات پر خامہ فرسائی کی اور ہر موضوع کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے۔ جو لوگ علامہ کی عوامی خطابت سُن چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ لفظ کس طرح اُن کے آگے صف باندھے کھڑے ہوتے ہیں ، لیکن علامہ صاحب کی تحریر کا حُسن یہ ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ لفظ کے گھر کی کونسی کنواری کس سُرسے پیار کرتی ہے اور اس طرح نئی تراکیب تراش کر وہ نہ صرف ادب کے پاٹ کو وسیع کردیتے ہیں بلکہ قاری کو نئے جہانوں کی سیر کرواتے ہیں،جہاں حیرت کے کئی باب کھلتے ہیں۔

حیدر آباد سےعلامہ اعجازفرخ کو بے پناہ محبت ہےاُنہوں نے حیدرآباد کی تہذیبی تاریخ کونہ صرف گہری نظرسے دیکھا ہے بلکہ بعض تحریروں میں وہ یوں صدیوں کے فرزند نظرآتے ہیں گویا وہ اُس دورکا حصہ رہے ہوں۔اُن کی بیش بہا کتا ب” مُرقع حیدرآباد” جلد منظرعام پرآیا چاہتی ہے۔ جہانِ اردو میں” مُرقع حیدرآباد” کا کوئی مضمون شائع نہیں ہواہے ۔ضرورت اس بات کی ہےعلامہ کے تجربات اوراُن کے دیدہ و شنیدہ کو محفوظ کیا جائے ۔ وہ عمر کے 73؍ بہاروخزاں دیکھ چکے ہیں لیکن شائد وہ کئی صدیوں سے اپنی آنکھیں طاق میں رکھے گزرتے وقت کو دیکھ رہے ہیں۔ زیر نظر مضمون ” ُ ٰپیڑ سائے کا کرایہ نہیں مانگا کرتے” شاید آپ کو ماضی کے ایک پل کو زندہ کرتا دکھائی دے!!(یحییٰ خان)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں جس شہرحیدر آباد کا تذکرہ کرتا ہوں وہ کچھ اور تھا۔اب نام تو شہر کا وہی ہے،مگر نہیں معلوم شہر بدل گیا یا دہر بدل گیا۔ وہ مروت و اخلاص ، محبت و ہم آہنگی،اپنائیت و یگانگت سب مفقود ہو گئے۔اُس زمانے میں تو اس شہر میں انسان بسا کرتے تھے،اور انسان بھی کیسے! نہیں معلوم فرشتہ صفت تھے یا فرشتہ صورت،لیکن مجھے لگتا ہے اُن کے کان فرشتوں کی سر گوشیاں ضرور سُن لیتے تھے۔دل کا آنگن اتنا وسیع تھا کہ اس میں محلے کا ہر گھر سمایا ہوتا۔غربت و افلاس کب نہیں رہے اور کہاں نہیں رہے۔امارت اپنے ہم نشینوں میں مگن تو غربت نے بھی بوریہ نشینی میں ایسے ایسے محبتوں کے پھول نچھاور کئے کہ چٹائی قالین کو مات دے گئی۔نفس بے ریا اور دل منور،بھلا دعاوں میں تاثیر کیوں نہ ہوتی۔ادھر دعاء کے لئے ہاتھ اُٹھے نہیں کہ اُدھر قبو لیت کا در کُھلا اور ساتھ ہی تاثیر کے دریچوں کے وا ہونے کی نوید ملی۔ویسے اُ س زمانے میں دعاء کے لئے بلند ہاتھوں میں زنجیریں ڈال دینے کی رسم بھی نہیں شروع ہوئی تھی، شاید اسکی یہ بھی وجہ رہی ہو کہ اس شہر میں نہ مصلحت دمشق تھی نہ مُنافقت کوفہ۔آپ کو شاید حیرت ہوگی کہ اُس زمانے میں راہ کے پتھر کو راہگیر پیر سے پرے کر دیا کرتے تھے کہ کسی اور کو ٹھوکر نہ لگے اور اسی سے پتھر پرے بھی ہٹ جایا کرتے تھے۔شاید اس لئے بھی کہ اُس وقت تک ٹھوکر میں پڑے پتھروں کوخدا بننے کا شوق بھی نہیں ہوا تھااور نہ انسانوں کو فرعون ہونے کا خبط تھا۔ہر شخص خود کو لائق پرسش سمجھتا تھا،آج کی طرح قابل پرستش نہیں سمجھتا تھا۔حاکم محکوم سے باز پرس کرتا تو رعایا کی فلاح و بہبود کے لئے،لیکن تنہائی میں اپنے رب کے آگے یوں گڑگڑاتاجیسے اس سے زیادہ کوئی حقیر و ذلیل نہ ہو۔رات سونے سے پہلے کوئی توبہ کرتا تو کوئی چھما مانگتا اور صبح کی پہلی کرن سب کو اُجلا نکھرا کر دیتی ،گویا تن بھی اُجلا من بھی اُجلا۔
اپنی تخت نشینی کے تین سال تک آصف سابع نے سالارجنگ کو ریاست کا وزیر آعظم برقرار رکھا،لیکن ان کی سبکدوشی کے بعد اُنھوں نے عنان حکومت خود اپنے ہاتھ میں رکھی۔ پہلی جنگ عظیم میں نظام نے برطانوی افواج کی ہر طرح سے مدد کی اور اسی کے صلے میں وہ ہز ہائی نس سے ہز اگزالٹیڈ ہائی نس قرار پائے۔1919ء میں نظام نے اپنی مطلق العنانی کو ختم کرکے 9؍ افراد پر مشتمل مجلس عاملہ ترتیب دی جس میں ایک صدر اور آٹھ اراکین تھے۔سات اراکین کے ذمہ مختلف محکمہ جات کا نظم و نسق تھااور ایک رکن بے قلمدان ہوا کرتا تھا۔اس کونسل کے پہلے صدر نشین بیرسٹر،سرعلی امام قرارپائے،وہ صدر آعظم کہلائے۔اس طرح ان کا عہدہ وزیرآعظم کے مماثل ہو گیا۔ سرعلی امام کا تعلق بہار سے تھااوروہ وائسرائے کی مجلس عملہ کے رُکن بھی رہ چکے تھے۔سرعلی امام کے مطابق وہ ایک ترقی پذیرریاست کوفروغ دیکر ایک مثالی ریاست کی تشکیل میں اپنا حصہ ادا کرناچاہتے تھے۔ اس تقرر سے پہلے بھی اُنھیں ریاست حیدرآباد آنے کاموقع ملاتھا۔وہ دراصل ان کے کسی موکل کے مقدمے کے سلسلے میں حیدرآبادآئے تھے۔پہلی مرتبہ حیدر آباد کے سفر کے دوران اُن کی چُنو نواب سے ملاقات بھی حیدرآباد کی تہذیب،انتظامیہ،رکھ رکھا ؤ،اپنائیت، یگانگت اور مسافر نوازی کا ایک دلچسپ واقعہ ہے۔
1918ء میں اُن کے پہلے سفر کے دوران ریل ایک اسٹیشن پر رکی۔نریندر لوتھر کے مطابق وہ اسٹیشن ویجا پور تھا۔ ایسے میں انھوں نے دیکھا کہ اسٹیشن پر سینکڑوں لوگ موجود ہیں اورکسی اہم شخصیت کو گھیرے ہوے ہیں۔یکایک فرسٹ کلاس کے اس ڈبے کا دروازہ کُھلا جس میں وہ سفر کر رہے تھے ، ملازمین کی ایک فوج اندر در آئی۔ کئی سوٹ کیس،ٹرنک،بستر بند،پھلوں اور مٹھائیوں کے ٹوکرے، پھولوں کے گجرے،اسٹینڈ میں لگی صراحی،باسکٹ میں دو تین بڑے توشہ دان،جائے نماز، پاندان، اُگالدان،بگلوس لگائے ملازم دروازے پر چو بند ۔ علی امام کی نگاہ پلیٹ فارم پر موجود اُس مرکزی شخصیت پر رُکی تو دیکھا، خوش قامت،مردانہ وجاہت کا نمونہ،سُرخ وسفید رنگ،خاندانی نجابت چہرے سے آشکار،پُر رعب نُقوش، ٹوئیڈ کی شیروانی زیب تن،جواہرات سے مزین سونے کی گُھنڈیاں،داہنے ہاتھ کی اُ نگلی میں زمرد کی انگشتری،چوڑی دار پاجامہ ا ور پیروں میں فلیکس کمپنی کا جوتا۔ اُن کی نگاہیں ابھی اس سراپا کا جائزہ لے ہی رہی تھیں کہ ان کی نگاہ شانے سے کلائی تک داہنے ہاتھ پر پڑی ،جس پر ایک پر ایک اتنے امام ضامن بندھے تھے کہ مزید کوئی گنجائش ہی نہیں تھی اور لوگ تھے کہ کوئی مجر ا ، کوئی کورنش،کوئی آداب ،کوئی نمسکار، کوئی تعظیم میں کمر خمیدہ،دست بستہ۔ بارے کشاں کشاں جب وہ ڈبے میں سوار ہوئے تب گارڈنے سیٹی بجا کر ہری جھنڈی دکھلائی ،گویا اذنِ سفران کی سواری پر موقوف تھا۔موصوف سوار ہوئے توعلی امام ہی کے روبرو برتھ پر تشریف فرما ہوئے۔یوں بھی ریل کے مُسافرین چند گھنٹوں کا سفر ہی سہی، ایک دوسرے سے گفتگو کا بہانہ ڈھونڈھ لیتے ہیں۔گویا گھنٹے دو گھنٹے کا سفر نہیں عمر بھر کا ساتھ نبھانا ہو۔پھر حیدرآبادیوں کا تو کہنا کیا ! ادھر ریل چھک چھک کرتی آؤٹر سگنل سے گُزری نہیں کہ آنے والے نو وارد نے مقابل میں علی امام کے سنجیدہ اور مہذب چہرے کو دیکھ کر تعارف چاہا۔اُنھوں نے اپنا نام بتلایا تو مصروفیت دریافت کی ۔
علی امام نے انکسار سے کہا ،،جی! بیرسٹر ہوں ،وکالت کرتا ہوں،،
علی امام نے اُن سے پوچھا ،،جناب والا کی تعریف ؟ ،،
فرمایا ،، نام تومیرا زین العابدین ہے، لیکن عرفیت چنو نواب ہے اور میں یہاں تحصیلدار ہوں۔وکیل تو ہمارے اجلاس پر بھی مقدمات کے ضمن میں پیش ہوتے ہیں اورخوب بحث کرتے ہیں اور اپنے موکلین سے خاصہ مال بٹورتے ہیں،لیکن تاحال ہمارے اجلاس پر کوئی بیرسٹر پیش نہیں ہوا۔بھلا بتلائیے تو کہ آپ کس عدالت میں وکالت فرماتے ہیں ؟ ،،اور پھر قدرے توقف کے بعد دریافت کیا،، اس بیرسٹری سے آپ کو کتنی آمدنی ہو جاتی ہے ؟،،
علی امام نے کہا،، حضور ،بس دال روٹی کاانتظام ہو جاتا ہے۔،،
چنو نواب نے کہا،،دال روٹی! بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ آپ ہمارے اجلاس پر وکالت فرمائیں،،
علی امام نے عذر پیش کیا،، اس وقت تو ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ کی پیروی کے سلسلے میں حاضر ہوا ہوں،اگر مقدر نے یاوری کی تو ایک دن میں آپ کے اجلاس پر بھی پیش ہوجاؤں گا۔ دیکھئے میری خوش بختی کب مجھے وہاں پہنچائے،،
ریل آہستہ آہستہ ایک اسٹیشن پر رُکی تو ایک بیراکھانے کا آرڈر لینے کے لئے مؤدب آکھڑا ہوا۔ اُس زمانے میں درجہ اول کے مسافرین کے لئے برانڈن کمپنی کھانا سربراہ کیا کرتی تھی۔علی امام ابھی کچھ کہنے ہی والے تھے کہ چنو نواب نے ٹوکا ،، یہ کیا کر رہے ہیں آپ،بھلا ہماری مو جودگی میں آپ یہ روکھا پھیکا برطانوی ریستوران کا کھاناتناول فرمائیں گے۔ اب اتنا سب تو نہیں جو ہم آ پ کو دستر خوان پر پیش کر سکتے ہیں ،بہر حال ماحضر ہے ملا حظہ فرمائیں۔،، البتہ ریستوران کے بیرے سے کہاکہ نصف درجن یخ بستہ لیمونڈ کی بوتلیں لے آئے۔
علی امام نے کہا،، اتنی ساری بوتلیں کس لئے؟،،۔
چنو نواب نے کہا،،جناب خاندانی نواب ہوں،روپے پیسے کی کمی نہیں،تحصیلداری اس لئے کرتا ہوں کہ یہ بے ایمان مالی پٹیل اور پولیس پٹیل جو نہایت بدمعاش ہوتے ہیں،اُن کے نا مناسب رویہ سے رعایا کو تکلیف نہ پہنچے اور حکومت کے انتظامی اُمور کا فائدہ راست رعایا کو ہو۔رہی میری تین سو روپے تنخواہ، سو یہ میرے پاندان اور جیب خرچ کے لئے کافی ہو جاتی ہے۔اوپر والے کی مہر بانی سے گُزر رہی ہے۔ آپ ہی بتلائیے اگر میں دو بوتلیں لیمونڈ کی منگواؤں تو میری کیا وقعت رہ جائیگی۔جو بچ جائینگی تو نوکر چاکر پی لیں گے اور یاد کریں گے کہ چنو نواب تحصیلدار کے دور میں دو دن سکھ چین کے دیکھ لئے،،۔
جب گاڑی نامپلی اسٹیشن پر رُکی تو کئی لوگ چنو نواب کے استقبال کیلئے آئے تھے اور گلے مل کر استقبال کر رہے تھے ،جب کہ سرعلی امام کے لئے صرف انکا موکل آیا تھا۔ اس تنہائی کو دیکھ کر چنو نواب آگے بڑھے اورعلی امام کو گلے لگا کر کہا،، خدارا اس شہر میں خود کو تنہاء نہ جانئے گا۔کوئی ضرورت ہویا شب وروز کا کوئی لمحہ ہو، میں آپ کے لئے حاضر ہوں۔کسی سے بھی چنو نواب کا نام لے لیجئے گا،وہ آپ کو ہم تک پہنچا دے گا،، اور یوں رخصت ہوئے جیسے برسوں کے دوست ہوں۔
ایک سال بعد 1919ء میں جب سرعلی امام مجلس عاملہ کے صدر مقرر ہوئے تو اپنے جائزے کے بعد اُنہوں نے چنو نواب کے تعلق سے دریافت کیا۔ہرکارہ چنو نواب کی ڈیوڑھی تک دؤڑا دؤڑا پہنچا اور اطلاع دی کہ سرعلی امام نے یاد فرمایا ہے۔چنو نواب جس وقت سرعلی امام کے دفتر پہنچے توصدور محکمہ جات کا اجلاس ہورہاتھااورعلی امام سب کو ہدایات جاری کر رہے تھے۔چنو نواب ایک خالی کرسی پر بیٹھ گئے کہ بارے طلب کیاجائے تو حاضر ہوں۔جب اجلاس برخواست ہواتو سرعلی امام خودآگے بڑھ کرچنو نواب تک پہنچے۔چنو نواب نے تعظیم میں خمیدہ ہوکرسلام کیااوردست بستہ کھڑے رہے۔سرعلی امام نے نرم لہجے مگر پاٹ دار آواز میں مزاج پرسی کے بعد دریافت کیاکہ کیا اُنھیں یاد ہے کہ اُن کی پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی۔
چنو نواب نے جواب دیا،،حضور والا کا اقبال بلند ہو، اس بندۂ ناچیز کو پہلی مرتبہ یہ عزت و سعادت نصیب ہو رہی ہے کہ حضور کے رُخ انور کو دیکھ پاؤں۔حضور والاکے فیض بے پایاں کا اثر ہے کہ مع اہل وعیا ل و متعلقین بخیر وعافیت ہوں اور تادم زیست میں اس ذرہ نوازی پر نازکرتا رہوں گا کہ حضور والا نے اس خاکسار کو یہ عزت بخشی کہہ کر وہ حضور کے خطا ب بے بہا سے بہرہ ورہو۔ اس بندۂ عاجزکی عزت افزائی کے لئے یہی کافی ہے اور فدوی تمام عمراس پر افتخار کرتا رہے تب بھی کم ہے،،۔
سر علی امام لائق تھے،قابل تھے،تعلیم یافتہ تھے اور امور جہانبانی کا ملکہ رکھتے تھے۔تاڑ گئے کہ جس شخص نے امور مملکت کی عمل آوری ، قانون کی پاس داری اور رعایا کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ جہانبانی میں تیس سال گزارے ہوں ،وہ تجربے میں ان سے زیادہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک نو وارد وزیراعظم سے کیسے نمٹا جائے۔جس شخص نے بد معاش عہدیداران مال و مواضعات کو قابو میں رکھا ہو ، اُس سے سے اسی رویہ کی توقع کی جانی چاہئے۔ان کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔اُنہوں نے چنو نواب کو مخاطب کر کے کہا ،،نواب زین العابدین خان صاحب! ہم آپ کے شہر میں نو وارد ہیں ،یہ شہر آپ کا ہے،آپ جیسے ذی وقار لوگوں کی وجہ سے پُر وقار ہے۔اگر آپکو کسی بات کی شکایت ہو یاکوئی ضرورت ، آپ کے لئے علی امام کے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے،،۔
چنو نواب نے جُھک کر سلام کیا اور اجازت لیکر رُخصت ہوگئے۔ سرعلی امام سوچتے رہ گئے کہ گردش ایام نے ایک انقلاب تو دکھلایا لیکن وہ چاہتے تھے کہ ایک مسافرنوازشخص کے ساتھ کچھ سلوک کر جائیں ،تاکہ اُس چٹکی بھر نمک کا حق ادا کر سکیں جو سفر کے دوران چنو نواب کی ضیافت میں ان کا جزوبدن بن چکا تھا۔اُنھیں خوشی تھی کہ وزارت نے اُ نھیں یہ موقع فراہم کر دیا تھا۔
دوسرے دن وزیر اعظم کی ڈاک اُن کی مہا گنی کی بڑی میزپرنہایت سلیقے سے رکھی تھی۔ اُنہوں نے لفافوں کے درمیان ایک لفافے پر نواب زین العابدین خاں کا نام دیکھ کراسے کھولا۔متن تو جو تھا سو تھا، مختصر یہ کہ چنو نواب نے اپنی صحت کا عذر پیش کر کے استعفیٰ پیش کردیا تھا۔ سرعلی امام کا تعلق بہار سے تھا اور چنو نواب چٹکی بھر نمک کی قیمت نہیں لینا چاہتے تھے۔ آخر کو حیدر آبادی تھے نا۔۔۔!
اُن کے خمیر میں یہ بات بسی تھی کہ:
اپنے احسان کا بدلہ نہیں مانگا کرتے 
پیڑ سائے کا کرایہ نہیں مانگا کرتے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مضمون بہ زبانِ مضمون نگار

Share

۵ thoughts on “پیڑ سائے کا کرایہ نہیں مانگا کرتے ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ”

Comments are closed.

Share
Share