مصرمیری نگاہوں سے ۔ ۔ قاری محمد نصیرالدین ۔ ۔ ۔ مبصر: ضامن علی حسرتؔ

Share

قاری

مصر میری نگاہوں سے
مصنف: قاری محمد نصیرالدین المنشاوی

موبائل : 09393072196

مبصر: ڈاکٹرضامن علی حسرتؔ
احمد پورہ، کالونی ،نظام آباد، تلنگانہ
موبائل نمبر:9440882330

کتاب ملنے کا پتہ:ھدیٰ پبلشرز ‘ پرانی حویلی ‘ حیدرآباد
قاری محمد نصیرالدین المنشاوی ایک باغ و بہار و زندہ دل شخصیت کے مالک ہیں ، اکثر مذہبی لوگ سنجیدہ اور کم گوہ واقع ہوتے ہیں،لیکن نصیر صاحب کی شخصیت قدرے مختلف ہے، دینی علوم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیاوی علوم سے بھی مالا مال کیا ہے، یہ قاری ، حافظ، خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی کے ریسرچ اسکالر بھی ہیں، اُردو یونیورسیٹی حیدرآباد میں موصوف راقم کے ایم فل کے ساتھی رہے ہیں،مجھے انہیں قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا انکے دو ہی کام ہیں ایک قرآن مجید کو اپنی مسحور کن آواز میں لوگوں تک پہنچانا اور بیرونی ممالک کی سیر و سیاحت کرنا انہوں نے اب تک ایران ،ملیشیاء ، تھائی لینڈ، دبائی، سعودی عرب، مالدیپ، مصر، اورترکی جیسے ممالک کا تفصیلی دورہ کیا ہے-

قاری محمد نصیر الدین جس ملک کو بھی جاتے ہیں وہاں کے تہذیبی ، ثقافتی اور تاریخٰ چیزوں کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کر کے اسے اپنی مضبوط یاداشت کی مدد سے ایک سفر نامہ کا پیراہن دیکر ادبی دنیا میں پیش کردیتے ہیں، انکا پہلا سفر نامہ حج کے مسافر تھا، جسے ادبی دنیا میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی ،زیرِ نظر تصنیف ’’ مصر میری نگاہوں سے ‘‘ انکی دوسری اہم تصنیف ہے، اس تصنیف میں نصیر صاحب نے سارے مصر کو دو سو چھتیس صفحات میں سمیٹ لیا ہے، مصر کا شائد ہی کوئی ایسا پہلو لو گا جو انکی عقابی نگاہوں سے پوشیدہ رہا ہے، سرزمین مصر کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے، مصرقدرت کی کاریگری کا ایک خوبصورت نمونہ ہے مصر نے اپنی نگاہوں سے تاریخ کو بنتے اور بگڑتے ہوئے دیکھا ہے، مصر جس کا فرعوں سے گہرا رشتہ رہا ہے ، مصر نبیوں او ر بزرگانِ دین کی سرزمین ہے، مصر میں کہیں عجائیبات و طلسمات کی دنیا آباد ہے تو کہیں قلوپطرہ کے حسن کے چرچے سنائی دیتے ہیں تو کہیں حسن یوسف ؑ اور عشق زلیقا کی داستانوں کی گونج کو بھی محسوس کیا جاسکتا ہے، کہیں دریائے نیل کی سرکش موجیں اپنے تاریخی وجود کا احساس دلاتی ہیں تو کہیں فراعنہ کی ہزاروں سال پرانی ممّیس سیاحوں کے اشتیاق و تجسس کو جنون کی حد تک بڑھادیتی ہیں ،ان ساری اہم باتوں کاذکر مصنف نے اپنی تصنیف میں کیا ہے،اسے ہم ایک معلوماتی و تاریخی دستاویز بھی کہہ سکتے ہیں جسے مصنف نے بڑی مہارت اور چابکدستی کے ساتھ قلمبند کیا ہے،اس خوبصورت کتاب کے تعلق سے نامور شاعر جناب رحمان جامی رقم طراز ہیں ’’ قاری محمد نصیر الدین نے اپنی کتاب میں اپنے سفر کی تفصیل اس دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا بلا شبہ اس میں کھو جاتا ہے، مصر تاریخ و تمدن کے ساتھ مصر کے فراعنہ انکے اہرام و آثارِ قدیمہ مساجد کے تذکرے ، موجودہ رہن سہن ،کھانے پنے کے آداب وہاں کے لوگوں کی ملنساری اور ساتھ ہی انکی بے رخی اور دھوکہ دہی کے بعض تلخ تجربات کو بھی شامل کر لیا ہے ‘‘ ۔ ( ص۔۱۲)۔
رحمان جامی صاحب نے اپنی مختصر سی تحریر میں بہت سی اہم چیزوں پر روشنی ڈالی ہے، انہوں نے دھوکہ دہی کے تلخ تجربات کا بھی ذکر کیا ہے،جب سے دنیا وجود میں آئی ہے ، ایک انسان دوسرے انسان کو دھوکہ دیتا چلا آرہا ہے، خلوص ومحبت کے ساتھ بے رخی اور دھوکہ دہی کا بھی جنم ہوا ہے، اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہیگا ، جب برائی اور ابن الوقتی سے لوگوں کا سامنہ نہ ہو گا تو اچھائی اور نیکی کی قدر کون کریگا ،یہ سفر نامہ قاری محمد نصیرالدین کے دل کے بہت قریب ہے ایک عرسہ سے ان کے دل میں مصر کے سفر کی تڑپ کروٹیں لے رہی تھی، اسکی وجہ انکے روحانی استاذ ’’ الشیخ محمد صدیق المنشاوی‘‘ ہیں جنکا تعلق سرزمین مصر سے ہے، الشیخ محمد صدیق المنشاوی کا شمار دنیا کے چند جید ، معتبر، مستند و مقبول قاریوں میں ہوتا ہے، اپنے سفر کے تعلق سے قاری محمد نصیر الدین لکھتے ہیں ’’ مصر جانے کی دوسری وجہہ یہ بھی تھی کے ہماری دنیا ئے قرت کے دونوں اما م الشیخ صدیق المنشاوی اورالشیخ عبدالباسط عبدالصمد، کا تعلق مصر ہی سے تھااور ہم اس بات کی شدید خواہش رکھتے تھے کے بزرگوں سے ملاقات انکی زندگی میں ہو سکے ، یہ ممکن نہ ہوا اس لئے کہ دونوں حضرات کو دنیا سے گزر کر ربیع صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے پھر بھی مصر جانے کی خواہش دل میں زندہ ہی رہی‘‘ (ص ۔۴)
اللہ تعالیٰ نے قاری نصیر الدین کی دلی خواہش کو پورا کردیا اور موصوف ۴ دسمبر ۲۰۱۱ ء کو مصر پہنچ گئے اور اپنے روحانی استاذ شیخ محمد صدیق المنشاوی سے ملاقات کی اس موقع پر الشیخ محمد صدیق نے قاری محمد نصیر الدین کو اپنے دستِ مبارک سے ’’ المنشاوی کا خطاب عطاء کیا اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا‘‘ ایسے یادگار پل انسان کی زندگی میں بہت کم آتے ہیں زیرِ نظر تصنیف میں جہاں دو سوتیس صفحات پر مصر کی تقریباً ساری تفصیل بیان کی گئی ہے وہیں قریب سترا ، اٹھارا صفحات پر قریب چھتیس سے زائد رکنگین تصاویروں کو شائع کرتے ہوئے مصنف نے اس تصنیف کی توقیر میں اضافہ کیا ہے ان تصاویرؤں میں قاہر کا خوبصورت بین الاقوامی ائیر پورٹ ، مشہور جامعہ ازہرجدید کی حسین عمارت ، قاہرہ کا تاریخٰ میوزیم،( جس کے صحن میں ابوالہول کا سنگی مجسمہ) قاہرہ کے تاریخی میوزیم کے تابوط میں رکھی تقریباً چار ہزار سال پرانی فرعون کی ممّی، دریائے نیل کا حسین منظر، قاہرہ ٹاور مسجد ، امام شافعی کا مزار،الشیخ محمد صدیق المنشاویؒ کا آبائی مکان، جامعہ ازہر کی دو شاخی تاریخی مناریں ،اسکندریہ کی تاریخی کتب خانہ کا منظر، عالمگیر شہرت کے حامل اہرام مصر ،فرعون خوفو کے ہرم کے اندر کی سنگی خبر، اسکندریہ جامعہ کی تصویر کے علاوہ بیسویں صدی کے عالمگیر شہرت یافتہ نابینہ قاری، شیخ محمد رفعت کی تصویر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، جو لوگ مصر کو دیکھنے کی اور مصر کی تاریخ کو جاننے کی خواہش رکھتے ہیں انکے لئے قاری محمد نصیر الدین کی یہ تصنیف ایک ایسا نادر تحفہ ہے جسے وہ نہ صرف مدتوں یاد رکھینگے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کئے لئے اپنے پاس محفوظ بھی رکھینگے۔
سفر نامہ اُردونثر کی ایک اہم خوبصورت صنف ہے، اس صنف میں قلمکار کو کافی مشکل اور صبر آزما مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑھتا ہے کہ وہ سفر نامہ کے بنیادی تقاضوں کو پورا کر رہا ہے یا نہیں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سفر نامہ نگار اپنے عنوا ن اور مقصد سے بھٹک جاتے ہیں اور غیر اہم واقعات کو قلم بند کر کے سفر نامہ طویل اور پیچیدہ بنا دیتے ہیں جو قاری کو لطف کے بجائے ازیت دینے دلگتا ہے، قاری محمد نصیر الدین سفر نامے کے بنیادی تقاضوں اور تکنک سے واقف ہیں اُنکا یہ سفر نامہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے، انہوں نے مصر کے اہم اور تاریخی واقعات کو بڑے ہی نپے تلے انداز سے قلم بند کیا ہے، انکا مطالعہ انکی تحقیقی بصیرت قابل ستائش ہے خاص طور پر فرعون کی نعش سے متعلق بہت سارے الجھے ہوئے سوالات کے جوابات کو نصیر صاحب نے مختلف علماء و محققین کے مستند دلائل و حوالوں کے ذریعے قارئین تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے، آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں یہ تجسس اور سوال جنون کی حد تک موجود ہے کہ قاہرہ میوزیم کے تابوط میں رکھی فرعون کی نعش حقیقت میں کتنے ہزار سال پرانی ہے، کیا یہ وہی فرعون ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پیچھا کرتے ہوئے دریائے نیل می غرقاب ہوا تھا ،فرعون کا صیح نام کیا ہے، ایسے ہی بے شمار سوالات کے اطمنا ن بخش سوالات کے جوابات قاری محمد نصیر الدین کی تصنیف ’’ مصر میری نگاہوں سے ‘‘ میں موجود ہے۔آج مصر کی حالت کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ، آج مصر میں ہر طرف قتل و خون کا بازار گرم ہے،بے گناہ اور معصوم لوگ مسلسل قتل کئے جا رہے ہیں، شدّاد، فرعون اور نمرود کا تسلّط پھر سے سارے مصر کو اپنے گرفت میں لے چکا ہے، آج بھی شائد مصر کو حضرت صلاح الدین ایوبی ؒ جیسے دمردِ مجاہد کی ضرورت ہے جو مصر کو جابر و فرعون جیسے حکمرانوں سے آزاد کرواسکے۔
قاری محمد نصیر الدین نے مصر میں صرف دس ایام تک قیام اور اتنے سارے واقعات اور حالات کو ایک کتابی شکل میں ہمارے سامنے لا کر رکھ دیا ،راقم اُنکی ادبی صلاحیتوں سے پہلے بھی واقف تھا اور مستقبل میں بھی ان سے ایسے ہی شئے پارؤں کی اُمید رکھتا ہے۔دو سو چھتیس صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کا سرِ ورق جازبِ نظر ہے اور کتاب کا کاغذ بھی عمدہ ہے قیمت صرف ۲۵۰ روپئے رکھی گئی جو واجبی ہے، یہ ایک مستند تاریخٰ و مذہبی ادبی تصنیف ہے اسکا مطالعہ ادب کے ہر قاری کو کرنا چاہئے، آخرمیں بس اتنا ہی کہنا چاہونگا اللہ کرے کہ زورِ قلم اور زیادہ(آمین)۔
Dr.Zamin Ali Hasrat
zamin

Share
Share
Share