شمس الحق عثمانی بہ حیثیت نقاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رافد اُویس بھٹ

Share
Shamsur-Haq-Usmani
شمس الحق عثمانی

شمس الحق عثمانی بہ حیثیت نقاد

رافد اُویس بھٹ
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو
یونی ورسٹی آف حیدرآباد، دکن
ای میل:
فون: 07730866990

پروفیسر شمس الحق عثمانی بیک وقت ایک افسانہ نگار، محقق اور دیدہ ور نقاد ہیں۔انہوں نے اپنی تحقیقی وتنقیدی تصانیف سے اردو تحقیق وتنقید میں قابل قدر اضافے کئے ہیں،خصوصاً تنقید نگاری میں انہوں نے ایک منفرد اور غیر معمولی انداز نقد اختیار کرکے اپنے مخصوص اسلوب اور زبان وبیان میں ادب پاروں کی تفہیم کی ہے۔انھوں نے ادب فہمی کا ایک ایسا نظریہ قائم کیا جس کے تحت اُنھوں نے اردو شعر وادب کو اُن کی اصل لطافتوں اور نزاکتوں کے ساتھ تجزیہ کیا۔اتنا ہی نہیں بلکہ اُنھوں نے جہاں کلاسیکی سرمائے ادب کا مطالعہ کیا وہیں جدید ادبی تخلیقات کی تفہیم بھی اُن کی اصل روح کے مطابق کی۔اُنھوں نے متعدد تنقیدی وتحقیقی تصانیف اور مضامین سے دُنیائے تنقید میں قابل اعتراف اور قابل ستائش کام انجام دئیے ہیں۔اُن کی تنقیدی تصانیف میں’’بیدی نامہ‘‘،’’دراصل‘‘، ’’درحقیقت‘‘،’’فسانہ شعر کا بلاو‘‘، ’’ادب کی تفہیم اور ’’غالب اور منٹو‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ تنقیدی وتحقیقی مضامین میں ’’ساتویں دہائی کا افسانہ‘‘،’’آٹھویں دہائی کا افسانہ ‘‘،’’ادب اور نشاۃ الثانیہ ‘‘ ،’’کفن کاایک مطالعہ‘‘ اور ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ خصوصیت سے اہمیت رکھتے ہیں۔

شمس الحق عثمانی دور حاضر کے ایک ایسے نقاد ہیں جنھوں نے دوران تنقید ادب پارے کو ادب کی ہی لاٹھی سے ہانکا ہے۔ایسا نہیں کہ کسی تحریک یا رجحان کے سائے عاطفت میں کسی فن پارے کا مطالعہ کرے۔وہ ادب کی اہمیت اور افادیت سے پوری طرح واقف ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ تنقید اور نقاد کے حقیقی منصب سے بھی پوری طرح آشنا ہیں۔ان کے یہاں ادب پہلے ادب ہے جوقاری کے لئے حصول مسرت کا ایک ذریعہ ہے۔ اپنی تنقیدی تصنیف ’’ادب کی تفہیم‘‘کے آغاز میں وہ لکھتے ہیں:
’’ ۔۔۔فن پارہ اولاً اک مخصوص حصول مسرت اور تطہیر نفس کا ذریعہ ہے۔‘‘ ۱؂
وہ ادب کا مطالعہ کسی مخصوص نظریہ کی عینک چڑھاتے ہوئے نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ کسی فن پارے کے وجود میں داخل ہوکے اس کی خلق شدہ فضاء وکیفیت میں تادیر رہ کر اور فنکار کی مجموعی تخلیقی ذہن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن اس عمل میں ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ قاری کو اپنا شریک کار بناتے ہیں اور ہر چیز قاری کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔عثمانی کی تنقید کا بنیادی وصف یہ ہے کہ اپنی تنقیدی تصانیف میں وہ متن، نقاد اورقاری کے ساتھ ہمکلام ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔یعنی وہ متن میں تادیر رہ کر اس کی مخفی بصیرتوں کو منکشف کرتے ہوئے ایک نقاد کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور غیر جانبداری و استدلال سے اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ساتھ ہی وہ قاری کو فن پارے سے حاصل ہوئے مخفی اور پوشیدہ پہلو ؤں کا بغور جائزہ لینے کی تلقین کرتے ہیں ان کے یہاں نقاد کا منصب یہی ہے کہ وہ قاری کا معاون ومددگار بنے اور جو قاری ادب پڑھنا جانتا ہو یا ادب فہمی کا ذوق رکھتا ہو، اسے فن پارہ کی مجموعی تخلیقی بصیرتوں اور اس کی فضاء وکیفیت سے واقف کرائے۔تنقید میں وہ اس نوع کے طریقہ نقد سے اختلاف کرتے ہیں جس میں تنقید کم اورنظریات کابَکھان زیادہ ہو۔انھوں نے خود کہا ہے کہ’’ جب فن پارہ تخلیق کے دوران کسی تھیوری یا ازم کو قبول نہیں کرتا ہے تو اس کا تجزیہ کسی تھیوری یا ازم کے پیش نظر کرنا تنقید کا منصب نہیں ہے‘‘۔ ان کے یہاں صحیح اور اعلیٰ تنقید وہی ہے جو فن پارے کی مکمل تفہیم کرے اور قاری کو ادب پارہ کی تفہیم میں مدد کرے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ذاتی اور ادبی تعصبات سے بالا ترہوکرادب کو بغیر قدیم وجدید ،اعلیٰ وادنیٰ جیسے خانوں میں بانٹے بغیر آزادانہ طور پر صرف ادب پاروں کی تفہیم کرکے حقیقی نقاد ہو نے کا فریضہ انجام دیا ہے۔خود بھی انہوں نے کہا ہے’’میں ادب میں قدیم وجدید وغیرہ کے فرق سے معذور ہوں‘‘۔ان کا ماننا ہے کہ ادب پارے اپنے طورپر آزاد ہیں اور جو تخصیص ہوئی ہے یا ہورہی ہے،یہ صرف او رصرف پیشہ ور نقادوں کی وجہ سے ہے۔انہوں نے اپنی عملی تنقید میں قدیم وجدید دونوں طرح کے تخلیق کاروں کی تخلیقات کا مطالعہ کیا۔
شمس الحق عثمانی کے مطابق فن پارہ ایک ہی نظر میں اپنی معنیاتی پرتوں کو نہیں کھولتاہے بلکہ فن پارہ کی تفہیم اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب کسی ادب پارہ کا گہرائی وگیرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے اور اسے اپنے آپ پر گزارنے یا اس میں جذب ہو نے کے بعد فن پارے کے اندر چھپے ہوئے جہان معنی تک پہنچاجاسکے ۔وہ باریکی اور انہماک کے ساتھ فن پارے کا مطالعہ کرتے ہیں۔عثمانی نے تنقید کا ایک ایسا طریقہ وضع کیا جس میں ایک نقاد کو اولاً ادب پارے کا مطالعہ بار بارکر نا پڑتا ہے اور دوم یہ کہ اسے پوری محنت کے ساتھ ادب پارے سے اپنا تعلق تب تک جوڑ ے رکھنا ہے جب تک فن پارہ اپنے مخفی پہلوؤں کو آشکار نہ کرے۔انہوں نے تنقید کا جو طرز اختیار کیا ہے وہ دوسرے نقادوں کے لئے قدرے مشکل ہے کیونکہ مروجہ تنقید میں صرف احکامات صادر کرنے اور سرسری طورپر مطالعہ کے بعد جانبدارانہ انداز میں دوسروں کی قصیدہ خوانی کی جاتی ہے۔اس سلسلے میں سید محمد اشرف لکھتے ہیں:
’’ آپ کے تجزیوں کا انداز سب سے مختلف ہے ۔آپ نے اس ہنر کو دوسروں کے لئے بہت مشکل بنا دیا ہے یعنی ان تمام نقادوں کے لئے جو ایک بار کے سرسری مطالعہ کے بعد تخلیق کے بخیے ادھیڑ نے یا تخلیق کار کی قصیدہ خوانی کرنے بیٹھ جاتے ہیں او رپھر دنیا و مافیہا سے اور اکثر تخلیق سے بھی بے نیاز ہوکر جو دل چاہتا ہے لکھ دیتے ہیں اور اس شان سے لکھتے ہیں گویا ع’مستند ہے میرا فر مایا ہوا‘‘ ۲؂
عثمانی تنقیدلکھتے وقت پہلے فن اور اس میں استعمال ہوئے فنی وسائل کا بغور مطالعہ کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک تنقید کا مقصد یہی ہے کہ دوران تفہیم فن پارے کی مخفی بصیرتوں سے فیض یاب ہو نے کی کوشش کی جائے۔اس لحاظ سے نقاد کا منصب یہ ٹھہرتا ہے کہ وہ فن پارے کی مخصوص بصیرت ومعنویت تک رسائی پانے کی کوشش کریں۔انہوں نے اپنی تنقید میں کسی مخصوص نقطہ نظر کو لاگو نہیں کیا اورنہ ہی کسی تحریک یا رجحان کے نظریہ کا مقلد ہو کے کسی فن پارے کی تفہیم کرنا چاہا بلکہ انہوں نے باریک بینی، گہرائی اور تفصیل سے ادب پاروں کا مطالعہ کیااور پھر ان کا تجزیہ کیا۔اس طرح کا تنقیدی طریقہ اختیار کرنے کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنی تنقید کو کسی مخصوص دور کے ادب یا کسی تحریک یا رجحان کے تحت تخلیق ہوئے ادب کے مطالعہ تک محدودنہیں رکھا بلکہ کسی بھی تخصیص کے بجائے کلی طور پر قدیم وجدید تخلیق کاروں اور مختلف ادبی یا تنقیدی نظریات رکھنے والوں کی تخلیقات سے اپنا نظریہ تنقید تشکیل دیا ہے۔حالانکہ تنقید میں انہوں نے محمد حسن عسکری، پروفیسر آل احمد سرور، پروفیسر گوپی چند نارنگ، محمود ہاشمی اور میرا جی کو پڑھا ہے۔اسی طرح مغربی نقادوں میں ایلن ٹیٹ، اور کلینتھ بروکس وغیرہ کو بھی پڑھا ہے جو کہ خود کسی مخصوص طبقہ فکر کی پیروی نہیں کرتے رہے بلکہ وقت کی تبدیلی و تغیر ان کی تنقید میں نظر آتا ہے۔
شمس الحق عثمانی ایک نقاد کے لئے صرف تنقیدی صلاحیت کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ تخلیقی بصیرت کا ہونا بھی ان کے نزدیک ضروری ہے۔کیو نکہ جب تک ایک نقاد میں تنقیدی صلاحیت کے دوش بدوش تخلیقی صلاحیت کارفرما نہ ہو تب تک فن پارے کی مکمل تفہیم نہیں ہوسکتی ہے۔کیونکہ فنکار کے تخلیقی ذہن تک رسائی پانا اور فن پارے کی تخلیقی بصیرتوں اور معنویت تک پہنچنا اسی وقت ممکن ہے جب تک نقاد تخلیق کار کی طرح نہ سوچے۔عثمانی نے ایسا ہی طریقہ نقد اپنا یا ہے جو تنقید ہوتے ہوئے بھی تخلیق کا مزہ دیتی ہے۔اس سلسلہ میں طارق چھتاری کی رائے ہے:
’’۔۔۔ نقاد کی حیثیت سے آپ کا اسلوب نہ صرف مخصوص ہے بلکہ ممتاز اور منفرد بھی،جو تنقید کو تخلیق سے قریب لاتا ہے۔۔۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی فن پارے پر کوئی نقاد اپنی رائے نہ دے رہا ہوبلکہ فن پارہ خود اپنا احتساب کررہا ہو،خود اپنی جہتیں اور اپنے معنی تلاش کررہاہو۔‘‘ ۳؂
اُن کی تنقیدی تصنیف ’’بیدی نامہ‘‘ پر رائے دیتے ہوئے محمود ایاز’’سوغات‘‘ کے اداریہ ’’نقش اول‘‘میں لکھتے ہیں:
’’بیدی نامہ‘کو محض تنقیدی جائزہ قرار دینا بد ذوقی بھی ہے اور بد توفیقی بھی۔یہ کتاب تو تخلیق کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘ ۴؂
اس طر ح عثمانی اپنی تنقید ی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تخلیقی صلاحیت کا بھی بھر پوراستعمال کرتے ہیں اور فن پارے کی ایسی تفہیم کرتے ہیں جو قاری کو تخلیق کا مزہ دیتی ہے۔
شمس الحق عثمانی مروجہ تنقید کو ایک رزم گاہ بتاتے ہیں جس میں قاری کا داخلہ دوبھر ہوگیا ہے جوکہ فن پارہ کی تفہیم کرنے کے بجائے اس میں نقاد اپنے نظریات کی نمائش اور بَکھان کرتا ہے جس سے فن پارے کی تفہیم تو دور اس کی اپنی شکل بھی مسخ ہوکے رہ جاتی ہے اور وہ فن پارہ قاری کے لئے مزید پیچیدہ بن جاتا ہے۔عثمانی نے صرف ان ادب پاروں پر قلم اُٹھایا ہے جو ان کے دماغ میں اتر گئیں اور جس کو وہ پوری طرح سمجھنے میں کامیاب ہوئے جس سے وہ دوران تفہیم قاری کو فن پارے کی چھوٹی سی چھوٹی چیز کو سمجھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔حالانکہ وہ خود کہتے ہیں کہ’’ میں وہ چیزیں پڑھتا ہوں جو میرے دل ودماغ میں اتریں اور جس سے مجھے مزہ آئے کیونکہ تب جاکے میں قاری کو اچھی طرح سے سمجھا سکتا ہوں ‘‘۔وہ اُن نقادوں سے اختلاف کرتے ہیں جو اپنے حقیقی فریضہ سے منہ موڑ کر ادبی تخلیقات کی تفہیم کے بجائے فن کار اور فن پارے کے لئے احکامات صادر کرتے رہتے ہیں۔ان نقادوں کو وہ کسی بورژ وائی طبقے کے ہمنوا ساتھی قرار دیتے ہیں۔عثمانی کا ماننا ہے کہ ادب تخلیق کار کی استاد طبع سے تخلیق ہوتا ہے لہٰذا دوران تفہیم بھی نقاد کو چاہیے کہ وہ فن پارے کی گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کرکے باریک سے باریک پہلوؤں کو نشان زد کرکے قاری کو سمجھائے تاکہ قاری تک وہ بات پہنچ جائے جو تخلیق کار پہنچانا چاہتا ہے۔
شمس الحق عثمانی نے پریم چند،بیدی ،منٹو، انتظار حسین ، قراۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی جیسے فکشن نگاروں کی تخلیقات کا تجزیہ کیا۔ اس دوران اُنھوں نے مذکورہ تخلیق کاروں کی تخلیقی بصیرت ، اسلوب، انداز بیان اور ان کے مخصوص نقطہ نظر سے آگہی حاصل کرکے ایک عام قاری تک ان کی تخلیقی معنویت تک رسائی حاصل کرائی۔اتنا ہی نہیں انہوں نے نظیرؔ ، غالبؔ ، مصحفیؔ ، فراقؔ ، ن۔م۔راشدؔ اور فانیؔ جیسے اہم شعرا ء کی شاعری اور ان کی مجموعی تخلیقی صلاحیتوں کا پتہ لگاکر ان کی شاعری کی اصلیت اور حقیقت کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔نئے لوگوں میں انھوں نے آصف فروخی،شجاع خاور، سید محمد اشرف، مشیر الحق، علی امام نقوی، سید رفیق حسین او ر خصوصاً محمود ایاز کے اداریوں کا تجزیہ کرکے نئے لکھنے والوں کے خیالات اور ان کی تخلیقی جہات سے روشناس کروایا ہے۔اس سلسلے میں میں عشرت ظفر لکھتے ہیں:
’’۔۔۔آپ نے فکشن کی تنقید کا نیاطرز ایجاد کیا۔آپ ہی اس کے موجد ہیں اور قائم بھی۔‘‘ ۵؂
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ شمس الحق نے ادب اور تنقید کا جو نظریہ اپنایا ہے اُس کا اطلاق انھوں نے اپنی عملی تنقید میں بھی کیا ہے۔جس کی مثالیں’’بیدی نامہ‘‘ ’’دراصل‘‘، ’’درحقیقت‘‘اور’’فسانہ شعر کا بلاوا‘‘وغیرہ جیسی تنقیدی تصانیف ہیں۔وہ ادب کو ادب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ادب میں بھی وہ فن کی تلاش کرتے ہیں۔وہ ادب میں خارجی زندگی کے مسائل یا انسان کی داخلی کیفیات کا پتہ نہیں لگاتے ہیں بلکہ ادب کو فن مانتے ہوئے فن کی تلاش کرتے ہیں۔وہ دوران تفہیم فن پارے کے کسی خارجی پہلو سے بحث کرنے کی بجائے متن کے داخلی پہلوؤں سے اپنا تعلق جوڑتے ہوئے اُس متن کے معانی اور مفاہیم کو تلاش کرتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ الفاظ ومعنی کے خاندانی رشتوں کا بھی پتہ لگاکر اُس فن پارے میں تمام فنی وسائل کا پتہ لگا تے ہیں جن کا استعمال فن کا رنے کیا ہے ۔اس عمل کے دوران وہ اُسی فن پارے میں جیتے ہیں اور اُسے جڑے رہتے ہیں،اس دوران وہ قاری کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہوتے ہیں بلکہ قاری کو شریک کار بناتے ہوئے قاری کو بھی اس فن پارے کے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے اقتباسات سے اُسے بڑے ہی احسن طریقے سے فن پارہ کو سمجھاتے ہیں۔
شمس الحق عثمانی نے نہ صرف تنقید کا ایک منفرد اندازقائم کیا ہے بلکہ ایک نقاد کے لئے پیغام بھی چھوڑا ہے اور وہ پیغام یہی ہے کہ نقاد کسی ادب پارے پر تنقید لکھنے سے قبل دیدہ ریزی سے اُس کا مطالعہ کرے اور اُس فن پارے کی تمام مخفی وپوشیدہ باتوں سے آگہی حاصل کرے اتنا ہی نہیں بلکہ اس فن پارے کی معنیاتی جہات کی پرتوں کو کھولنے کے لئے گہرائی سے اس کا فنی ولسانی جائزہ لے اور پھر اُس پر تنقید لکھے۔شمس الحق کے انداز نقد کی ستائش کرتے ہوئے اسلم پرویز نے بڑے انوکھے انداز میں ان کی تنقید نگاری کا اعتراف کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اگر تم(نقاد) نے کسی ادب پارے کا مطالعہ شمس الحق عثمانی کی طرح کر لیا تو بھائی پہلے تو اپنے ماتھے کا وہ پسینہ پوچھو جس میں کتاب کے مطالعہ نے تمہیں شرابور کردیا ہے اورپھر بیٹھ جا ؤکا غذ قلم لے کر تنقید کے ڈیسک پر اور ہوجاؤ ایک بار پھر پسینہ پسینہ ہو نے کے لئے تیار۔کئی بار یہ پسینہ کاغذ پر تمہارے لکھے کو بھی لے جائے گا لیکن تمہیں پسینہ پوچھے جانے اور لکھتے جانے کا عمل جاری رکھنا پڑے گا۔یہاں تک کے وارث علوی جیسوں کا کاغذ تو اڈیٹر کی میز پر بھی پسینے میں تربتر ہی پہنچتا ہے ۔اگر ایسی تنقید نہیں لکھ سکتے تو اور بھی بہت کام پڑے ہیں کرنے کو۔‘‘ ۶؂
شمس الحق عثمانی جب کسی ادب پارے کی تنقید کرتے ہیں تو اُن کی تنقید تخلیق کے درجہ رکھتی تک پہنچتی ہے۔یعنی وہ تنقید کے دوران نہ صرف اپنی تنقید ی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہیں بلکہ اپنی تخلیقی قوت کو بھی دوش بدوش کام میں لاتے ہیں۔اور ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے تخلیق کو ازسر نو تخلیق کیا ہے۔جس اسلوب اور جس انداز سے وہ تنقید لکھتے ہیں اُس سے ان کی خلاقانہ صلاحیت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔عثمانی کی اس خلاقانہ صلاحیت کے حوالے سے سید محمد اشرف لکھتے ہیں:
’’۔۔۔آپ کے اندر بیٹھا تخلیق کار صرف سوچنے کی حد تک نہیں، تحریر میں لانے کے بارے میں بھی گاہے گاہے تخلیق کار والا قلم ہی اُٹھاتاہے،جملوں کو ادھورا چھوڑنے، مشہور زمانہ مصرعوں کا ایک آدھ لفظ ادا کرکے باقی قاری کے سپرد کردینا،آپ کی خلاقانہ جبلت کا ہی نتیجہ ہیں۔۔۔آنے والے دور میں عملی تنقید کرنے والے نقادوں کو آپ کی کتاب اپنے ذاتی مطالعے کے نصاب میں داخل کرناغالباً لازمی ہوگا۔‘‘ ۷؂
شمس الحق تنقید لکھتے وقت ادب کے اصول وضوابط اور تقاضوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے نظر نہیںآتے ہیں۔یعنی دوران تنقید نہ وہ فن پا رے یا فن کار کے لئے کوئی حکم صادر کرتے ہیں اور نہ ہی کسی نظریے کو اس فن پارے پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ادب کی فنی وجمالیاتی قدروں اور اُس فن پارے کی تخلیقی وحدت کا خیال کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ اور منفرد اسلوب میں تنقید لکھتے ہیں جس سے اُس فن پارے کی مکمل تفہیم ہو جاتی ہے۔ندا فاضلی اس تناظر میں لکھتے ہیں:
’’ آپ اُن چند ناقدوں میں ہیں جو ادب ونقد کے توازن اور تہذیب سے پہچانے جاتے ہیں، آج تو تنقید میں ادب کم ہوتا ہے،ناقد کی علمی نمائش زیادہ نظر آتی ہے۔آپ نے ادب کو پڑھا ہی نہیں اسے جیا بھی ہے اور اپنے اسلوب میں لکھا بھی ہے۔‘‘ ۸؂
شمس الحق کی تنقیدی تصانیف کے مطالعہ اورعصرِ حاضر کے دانشوروں اور ناقدین کی آرا سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دورحاضر کے ان نقادوں میں سے ہیں جو اولاً کسی ادب پارے کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور ہر پہلو پر گرفت حاصل کرنے کے بعد تنقید کا حق ادا کرتے ہیں۔عثمانی بھی ادب پارے کی تفہیم کے لیے اس کاگہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں اور ایک سچے اور غیر جانبدار نقاد کی طرح کسی ادبی یا ذاتی تعصبات سے بالا تر ہو کر صرف فن پارے کی تفہیم پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں اور ممکنہ حد تک فن پارہ کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔حالاں کہ وہ کسی نظریہ یا رجحان سے وابستہ نہیں ہیں لیکن پھر بھی جب ہم اُن کے نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں یا اُن کی عملی تنقید پر نظر ڈالتے ہیں ، تو جو چیز واضح ہوتی ہے وہ اُن کا تاثراتی اور جمالیاتی اندازِ نقد ہے۔ انھوں نے فن پارے کے مطالعہ میں خصوصی اہمیت اسلوب کو دی ہے،وہ لفظ و معنی کے رشتے کی تلاش کے علاوہ معنیاتی جہات تک رسائی حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں اور پھر فن پارہ کی تخلیقی وجوہات اور معنی کی تفہیم میں مصنف کے معنی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔عصر حاضر میں اس طرح کے انداز کوا سلوبیاتی تنقید میں دیکھا جاتا ہے۔یعنی کسی فن پارے میں جملوں کی ساخت، لفطیات کی ترتیب ، روزمرہ محاورات کا استعمال اور لہجہ کے اتار چڑھاووغیرہ کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کر کے مصنف اور تصنیف کی قدروں کا تعئین کیا جاتا ہے۔ شمس الحق کی تنقید میں یہ خوبیاں اُن کی نظریاتی اور عملی تنقید دونوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اُن کا انداز تاثراتی ہے اور اُن کا نظریۂ نقد جمالیاتی ہے۔۔۔۔ وہ تنقید میں کسی یک رُخہ مطالعہ کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ سماجی، تہذیبی،تاریخی،مذہبی اور نفسیاتی و جمالیاتی مطالعہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر خالص تاثراتی و جمالیاتی نقاد ہیں۔ لیکن ادب کے مطالعہ کے وقت وہ اس کے مطالعہ کے دیگر گوشوں و پہلوؤں کا مطالعہ بھی ناگزیر سمجھتے ہیں۔حالاں کہ مابعد جدید ناقد بھی متن پر زیادہ توجہ دیتے ہیں،لیکن وہ مصنف کے عہد ،اس کی تہذیبی اقدار اور سماجی و تاریخی صورتحال اور اس کے عہد کے اثرات اور زبان کے مطالعہ پر بھی زور دیتے ہیں۔ غرض وہ عصر حاضر کے ایک دیانتدار اور محنتی نقاد ہیں اور ادب کے مطالعہ میں ہمہ گیر اور آفاقی نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
***
حوالہ جات
۱۔ ادب کی تفہیم، شمس الحق عثمانی، ص ۹
۲۔ خط بنام شمس الحق عثمانی بذریعہ سید محمد اشرف، یکم فروری، ۲۰۰۰ء
۳۔ خط بنام شمس الحق عثمانی بذریعہ طارق چھتاری، فروری ۲۰۰۰ء
۴۔ دراصل، شمس الحق عثمانی، ص ۱۲۔۱۱
۵۔ خط بنام شمس الحق عثمانی بذریعہ عشرت ظفر
۶۔ دراصل، مبصر اسلم پرویز، مشمولہ رسالہ اردو ادب
۷۔ خط بنام شمس الحق عثمانی بذریعہ،سید محمد اشرف
۸۔ خط بنام شمس الحق عثمانی بذریعہ ندافاضلی
– – – – –
Rafid Owais Bhatt
Rafed

Share
Share
Share