ادارہ الانصارحیدرآباد کا سہ روزہ جشن ادب – ’گنج شائگاں‘ کی رسم اجراء

Share

jashn e adab ٹیپو

ٹیپوسلطان کے دورحکومت کے ادبی کارناموں پرمزید تحقیق کی ضرورت

محمد علی مہکری کے کلیات قصائد ’’گنج شائگاں‘‘ کی رسم اجراء
الحاج قمر الاسلام اور ممتاز دانشوروں کا خطاب

حیدرآباد ؍مئی (پریس ریلیز) ادارہ الانصار کے ایک پریس ریلیز کے مطابق اردو مسکن خواجہ شوق ہال میں سہ روزہ جشن ادب کے دوسرے دن 8؍مئی کی شام حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ کے گورنر فلک شکوہ محمد علی مہکری آصف خانہ زاد کے کلیات قصائد ’’گنج شائگاں‘‘ کی رسم اجراء ڈاکٹر قمرالاسلام وزیر بلدی نظم و نسق واقلیتی بہبود کرناٹک اور جناب سید عمر جلیل پرنسپل سکریٹری حکومت تلنگانہ نے مشترکہ طور پر انجام دی۔ الحاج قمر الاسلام نے حضرت محمد علی مہکری کے کلیات قصائد کے مرتب ڈاکٹر راہی فدائی اور ناشر الانصار پبلی کیشنزجناب اسد ثنائی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ٹیپو سلطان کے دور حکومت کی سماجی اور ادبی تاریخ اور دکنی زبان کے شہ پاروں پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

حکومت کرناٹک نے اس مقصد کے لئے ٹیپو سلطان ریسرچ سنٹر قائم کیا ہے اور بیجاپور کی ایک طالبہ کے ریسرچ پراجکٹ کے لئے (12)لاکھ روپئے منظور کئے ہیں۔ انھوں نے بیدر کے تاریخ مدرسہ محمود گاواں کو اس زمانے کی دکن کی ایک عظیم یونیورسٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں دنیا کے مختلف ممالک کے طلباء حصول تعلیم کے لئے آتے تھے۔ انھوں نے کرناٹک میں فروغ تعلیم کے لئے سرسید احمد خان ایجوکیشن سنٹر اور گلبرگہ یونیورسٹی میں لسانی اقلیتوں کے لئے خصوصی چےئر کے قیام کی منظوری کا بھی ذکر کیا۔ قمر الاسلام نے مہکری خاندان کے موجودہ وارث جناب فضل اللہ مہکری کو اپنے جد اعلیٰ محمد علی مہکری کے کلیات اور حالات زندگی کی تدوین و اشاعت کے لئے زرکثیر خرچ کرنے پر بھی مبارکباد دی۔ اور اردو کی ادبی سرگرمیوں میں حیدرآباد کی مرکزی کردار کو قابل فخر قرار دیا۔ جناب عمر جلیل پرنسپل سکریٹری حکومت تلنگانہ نے کہا کہ انتظامی مصروفیات کے سبب ادبی مطالعہ کا سلسلہ ایک عرصہ سے مسدود ہے۔ آج ایک اہم کتاب کی رسم اجراء میں شرکت کے بعد انھیں یہ احساس ہورہا ہے کہ اردو ادب کے مطالعہ کے بغیر ہم اپنے مذہب اور تہذیب و تمدن سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ادب کا مطالعہ اور ادبی محفلیں خیالات کو معراج عطا کرتی ہیں۔ انھوں نے گنج شائگاں کی اشاعت پر مرتب‘ مہکری خاندان اور ناشر کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے ایک عظیم کارنامہ قرار دیا۔
جلسہ کا آغاز قاری انیس احمد قادری کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔ جناب اسد ثنائی نے اپنی خیر مقدمی تقریر میں گنج شائگاں کے متن کی خواندگی کے اشکال کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر راہی فدائی کی تحقیقی بصیرت کو خراج تحسین پیش کیا۔ مولوی جناب بشارت علی اختر نے مہکری صاحب کی حمد‘ نعت اور منقبتوں کو مخصوص ترنم میں پیش کرکے سماں باندھ دیا۔
نئی نسل کے نقاد و محقق ڈاکٹر اقبال خسرو قادری مدیر سہ ماہی دبستان (کڑپہ) نے گنج شائگاں پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دکنی متون کی تدوین بے حد مشکل کام ہے۔ ڈاکٹر راہی فدائی نے بے حد دقت نظر سے کام لیتے ہوئے اس کی تدوین کی ہے۔ یہ ایک بنیادی کام ہے اس کتاب کی بنیاد پر اس موضوع پر ایک اور تحقیقی کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ کتاب میں بظاہر جو اسقام نظر آتے ہیں وہ زیادہ تر سہو نظر یا سہو کاتب کی وجہ سے ہیں۔ ویسے بھی قدیم مخطوطوں کا مطالعہ آسان نہیں ہے۔ قدم املا‘ بوسیدہ دیمک زدہ کاغذ جگہ جگہ مٹے مٹے الفاظ کی وجہ سے قرأت ممکن نہیں ہوپاتی۔ ایک ایک لفظ کی صحت کے لئے بڑی مغزماری کرنی پڑتی ہے۔ تب جاکر قدیم متنوں خصوصاً دکنی متنوں کی تدوین ہوپاتی ہے۔ صرف یہ ایک بات ہزار داد و تحسین کے قابل ہے۔ ممتاز ادیب و صحافی جناب حامد اکمل (ایڈیٹر روزنامہ ایقان ایکسپریس‘ گلبرگہ) نے گنج شائگاں پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دکن میں بہمنی عادل شاہی اور قطب شاہی حکومتوں کے دور میں خصوصاً حضرت خواجہ بندہ نوازؒ اور ان کے سلسلہ کے بزرگوں ‘نثر نگاروں اور شعراء نے دکنی اردو کو ارتقا کی منزلیں طے کروائیں اور جس تخلیقیت کا مظاہرہ کیا وہ اس دور کی فارسی زبان کے ادبی مزاج اور معیار سے کسی طرح کم نہیں تھا۔ دکنی شعراء نے ہندومسلم تہذیب‘ مقامی روایات ‘ تہوار ‘ تلمیحات‘ استعارے اور تشبیہات کو فروغ دیا جس سے آنے والی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کی بنیاد پڑی۔ محمد علی مہکری آصف خانہ زاد کے کلیات گنج شائگاں کی تخلیق کو کوئی ڈھائی سو سال گذرچکے ہیں ‘ اس میں دکنی تہذیب کی ؁خوبیاں جھلکتی ہیں۔ حمدیہ ‘ نعتیہ‘ منقبتی قصائد میں انھوں نے اپنے جذبات و احساسات عقیدت و ارادت کا نہ صرف فنکارانہ اظہار کیا ہے بلکہ مسلک اہل سنت کو شعری پیکر عطا کیا ہے۔ جناب حامد اکمل نے سودا اور دکنی شعرا کی قصیدہ گوئی کے محمد علی مہکری کے خصوصی حوالے کے ساتھ تقابل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نوجوان طلباء کو اس پر تحقیق کا مشورہ دیا۔
ممتاز محقق و ماہر دکنیات پروفیسر نسیم الدین فریس (مولانا آزاد یونیورسٹی) نے کہا کہ سید محمود حسین نے کہا تھا کہ محمد علی مہکری کی غزلیں قصائد کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ لیکن وہ یہ بات محسوس نہیں کرسکے کہ مہکری کی غزلوں میں قصائد کی شان و شوکت پائی جاتی ہے‘ جو اردو غزلوں کے لئے منفرد چیز ہے۔ انہوں نے کیا کہ محمد علی مہکری کا لہجہ گجری دکنی سے متاثر ہے بعض گجری الفاظ کا بے تکلف استعمال ملتا ہے۔ یہ خانوادۂ مہکری کے گجرات سے نسبی تعلق کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد رحمت یوسف زئی نے کہا کہ محمد علی مہکری کے قصائد ‘ قصیدہ کی بنیادی روایت سے ہٹ کر ہیں۔ ان میں تشبیب‘ گریز‘ عرض مدعا وغیرہ نہیں ہیں۔ سب سے حیرتناک بات یہ ہے کہ انھو ں نے طویل طویل تر قصیدہ میں کسی قافیہ کا استعمال دوبار نہیں کیا ہے اس سے زبانپر ان کی قدرت اور گرفت کا احساس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر راہیؔ فدائی نے اس مخطوطہ کی زبان فہمی میں جو محنت کی ہے اس کا ہم اندازہ نہیں لگاسکتے۔ ان کا مقدمہ بھی ہر طرح سے مکمل ہے۔
گنج شائگاں کے مرتب ڈاکٹر راہی فدائی نے ‘مہکری خاندان کے بزرگوں کے مدفن‘ ان کے حالات اور واقعات کی تلاش میں اپنے طویل اسفار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرمتھا کہ ہر مقام پر اچانک کوئی نہ کوئی شخص آجاتا تھا جو مہکری خاندان کے بزرگوں کی مزارات تک ان کے گروپ کی رہنمائی کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گنج شائگاں کا مسودہ (250) سال تک پوشیدہ رہا۔ انھوں نے ایک مرتبہ کتب خانہ لطیفیہ ویلور کا معائنہ اس نیت سے کیا کہ کوئی نادر مخطوطہ ان کے ہاتھ آجائے‘ جب انھوں نے بسم اللہ کہہ کر ایک مخطوطہ اٹھایا تو وہ گنج شائگاں تھا۔ کتب خانے کے منتظم کی اجازت سے انھو ں نے اس کی زیراکس نقول حاصل کیں۔ اس کے کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ اصل مخطوطہ اب کتب خانہ لطیفیہ میں موجود نہیں ہے۔ مہکری خاندان کے موجودہ سربراہ فضل اللہ مہکری سے انھوں نے ربط پیدا کرے گنج شائگاں اور مہکری خاندان کی تاریخ کی ترتیب کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے اسے قبل کیا اور تحقیق و اشاعت پر زر کثیر صرف کیا‘ تحقیق سے متعلق اسفار میں حضرت مولانا مصطفےٰ جیلانی رفاعی کی رہنمائی نے اہم کردار ادا کیا اور اسد ثنائی کی نگرانی میں اس کی اشاعت عمل میں آئی۔ راہی فدائی نے قصیدہ نگاری میں محمد علی مہکری کے مقام و مرتبہ کے تعین کے لئے ریسرچ کروانے کی حامد اکمل کی تجویز کی حمایت کی اور دکنی محققین اور جامعات کے اساتذہ کو اس پر توجہ دینے کا مشورہ دیا۔ رسم اجراء میں حضرت مولانا مصطفےٰ جیلانی رفاعی اور حضرت سید حیدرپاشاہ قادری (سجادہ نشین نیلنگہ) نے بہ حیثیت مہمان خصوصی شرکت فرمائی۔ دیگر مہمانوں میں کرناٹک کے کانگریسی قائدین جناب عادل سلیمان سیٹھ‘ جناب لعل احمد بمبئی سیٹھ شامل تھے۔ اساتذہ ‘محققین اور شائقین ادب کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ جناب اسد ثنائی نے نہایت بصیرت افروز اور دلچسپ انداز میں نظامت کے فرائض انجام دئے ۔ انہی کے شکریہ پر یہ یادگارتقریب کامیابی سے اختتام پذیر ہوئی۔

رپورٹ : ذکی الدین لیاقت

Share
Share
Share