اردو نثر کی ادبی اصناف پر دو روزہ قومی اردو سیمینار ۔ از۔ ڈاکٹر شیخ فاروق باشاہ

Share

IMG_20141121_123354254

ڈاکٹر شیخ فاروق باشاہ

اردو نثر کی ادبی اصناف پر دو روزہ قومی اردو سیمینار کا کامیاب انعقاد

یس۔ ٹی ۔یس۔ ین ۔گورنمنٹ ڈگری کالج،کدری ‘ ضلع اننت پور ‘ آندھرا پردیش

شعبۂ اردو یس۔ ٹی ۔یس۔ ین ۔گورنمنٹ ڈگری کالج کدری (ضلع اننت پور م ‘ آندھرا پردیش) کے زیرِ اہتمام ۲۱؍اور ۲۲؍نومبر ۲۰۱۴ء ؁ کو دو روزہ قومی سمینار بعنوان ’’اردو نثر کی ادبی اصناف‘‘عظیم الشان پیمانے پر منعقد کیا گیا۔ جس میں ملک کے مختلف جامعات سے پروفیسرس،ناقدین ادب،ریسرچ اسکالر س اور طلبہ اور اساتذہء فن شریک رہے۔
۲۱؍ نومبر کی صبح سمینار کا افتتاحی اجلاس منعقد کیا گیاجس کی صدار ت کالج کے پرنسپل ڈاکٹر پی.سرینیواسا نائیڈو نے کی۔انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں اردو نثر کے آغازا ارتقا پر مجملا روشنی ڈالی ۔صدرِ شعبۂ اردو اور اِس سمینار کے کنوینر وڈائرکٹر ڈاکٹرشیخ فاروق باشا نے سمینار کے اغراض و مقاصد پیش کئے اور مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ شعبہ اردو کی لکچرار محترمہ جمشید بیگم نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ افتتاحی اجلاس میں پروفیسر م.ن. سعید صاحب ‘ سابق چیرمین کرناٹک اردو اکیڈمی و سابق صدر شعبۂ اردو ‘ بنگلور یونیورسٹی نے ابتدائی خطاب کیا، جس میں آپ نے اردو نثر کی ادبی اصناف پر اظہار خیال کرنے ہوئے کالج کی سطح پر بنیادی اصناف کی تدریس پر زور دیا۔ ۔ اِس موقعہ پر پروفیسر محمد انورالدین ‘ سابق صدرِ شعبۂ اردو ‘ حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی نے سمینار کے کنوینر وڈائرکٹر ڈاکٹر فاروق باشا ہ صاحب کو’’ اردو نثر کی ادبی اصناف‘‘ جیسے ایک اہم اور بنیادی موضوع پرکامیاب سمینار کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔آپ نے فرمایا کہ بیک وقت رائل سیماکے اِس دور افتادہ علاقہ کدری میں جنوبی ہند کی بیشتر یونیورسٹیوں کے پروفیسرحضرات کا یکجا ہوناایک تاریخی اور خوشگوار روایت کا حسنِ آغاز ہے۔ کدری کے سید شاہ میر قادری ‘ سجادہ نشین آستانۂ شہہ میریہ نے کدری شہر کی تاریخ پر روشنی ڈالی ۔ آپ نے فرمایا کہ کدری کانام عادل شاہی عہد کی تاریخی کتب میں بھی ملتا ہے۔ یہ شہر زمانۂ قدیم ہی سے اردو زبان وادب کا گہوارہ رہاہے۔ یہاں اردو کے بہت سے اسکول اور کالج موجود ہیں۔ علاقۂ رائل سیما کا یہ ایک اردو مرکز ہے۔

پروفیسر مظفر علی شہہ میری ‘ صدرِ شعبۂ اردو ‘ یونیورسٹی آف حیدرآباد نے سمینار میں ایک جامع اور پُر مغزکلیدی خطبہ پیش کیا، جس میں آپ نے افسانہ، افسانچہ، ناول، ڈرامہ، داستان اور دیگر نثری اصناف پر مفصل گفتگو کی۔سمینار کے افتتاحی اجلاس میں پروفیسر مجید بیدار ‘ سابق صدرِ شعبۂ اردو ، عثمانیہ یونیورسٹی،پروفیسر حمید اکبر، صدرِ شعبۂ اردو ، گلبرگہ یونیورسٹی،پروفیسرمسعود سراج ادیبی، صدرِ شعبۂ اردو و ڈین فیکلٹی آف آرٹس، میسوریونیورسٹی، پروفیسر فاطمہ پروین‘ سابق صدرِ شعبۂ اردو ، عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد، ڈاکٹر محمد نسیم الدین فریسؔ ‘ سابق صدرِ شعبۂ اردو ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد ،ڈاکٹر اقبال النساء بیگم ‘ صدرِ شعبۂ اردو ،بنگلوریونیورسٹی،پروفیس ستارساحر ،صدر شعبہء اردو یس وی یونیورسٹی ،تروپتی۔ٰپروفیسر بشیراحمد ،سابق صدر شعبہء اردو یس وی یونیورسٹی ،تروپتی وغیرہ شریک رہے۔
سمینار کا پہلا سیشن مجلسِ صدارت میں پروفیسر محمد انور الدین صاحب ،پروفیسر مجید بیدار صاحب اورپروفیسر مسعود سراج صاحب تھے۔ اس اجلاس میں پانچ مقالے پیش کئے گئے۔ پہلا مقالہ ڈاکٹر محمد نشاط احمد عمری نے پیش کیا، آپ کے مقالہ کا عنوان تھا:’اردو نثر کی صنف ۔ داستان اور دکنی داستانیں‘۔ یہ ایک مبسوط ، جامع اور مفصل مقالہ تھا۔ دوسرا مقالہ ڈاکٹر محمد نسیم الدین فریس نے پیش کیاجس کا موضوع’ اردو نثر کی صنف ۔ سفرنامہ ‘تھا۔ اس مقالہ میں آپ نے اِس صنف کے خد وخال واضح کیے اور اردو میں سفرنامہ نگاری کے ارتقاء کا جائزہ بھی پیش کیا۔ تیسرا مقالہ ڈاکٹر اقبال النساء بیگم نے پیش کیا، آپ کا موضوع ’صنفِ افسانہ‘ تھا۔ چوتھا مقالہ ڈاکٹر محمد نثار احمد نے پیش کیا‘ آپ کے مقالے کا عنوان اردو ادب میں بچوں کے ڈرامے تھا۔ اس نشست کا پانچواں مقالہ سمینار کے کنوینر و ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد فاروق باشا نے پیش کیا۔ آپ کا مقالہ صحافت کے موضوع پر تھا۔مقالات کے اختتام پر تینوں صدور صاحبا ن نے محاکمے پیش کئے۔
سمینار کادوسرا سیشن ۲۱؍ نومبر کی سہ پہر منعقد ہوا،جس کی صدارت پروفیسر قاسم علی خاں صاحب اور پروفیسر حمید اکبر صاحب نے فرمائی۔ اس نشست میں چار مقالے پیش کئے گئے۔ ڈاکٹر قاضی حبیب احمد صاحب نے ’’انشائیہ‘‘ پر ، ڈاکٹر منظور دکنی صاحب نے ’’اردو ڈرامہ کل آج ارو کل‘‘ پر،ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری نے’’ اردو نثر کی صنف :مکتوب نگاری‘‘ پر، ڈاکٹر کے.ایچ.کلیم اللہ صاحب نے ’’خاکہ نگاری ایک جائزہ‘‘ پر اور جناب مولاناحافظ انور حسین صاحب نے’’تحقیق نگاری‘‘ کے موضوع پر اپنے مقالات پیش کئے۔ سیشن کے اختتام پر صدور صاحبان نے تجزیہ اور محاکمہ پیش کیا۔اِس نشست کے مقالات اور صدارتی تبصروں میں اختصارکو ملحوظ رکھاگیا ۔
سمینار کے دوسرے دن ‘پہلی نشست کی مجلسِ صدارت میں پروفیسر پروین فاطمہ ، پروفیسر بشیر احمد اور پروفیسر ستار ساحرؔ شامل تھے۔ اس نشست میں ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے ’’اداریہ نویسی‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ڈاکٹر فضل اللہ مکرم کا اختصاص ‘ اداریہ نویسی رہاہے، اس موضوع پر آپ کی ایک کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔ پروفیسر مجید بیدار نے ’’رپورتاژ‘‘ کے فن اور ماہیت‘اسالیب اور اس کی خصوصیات کے موضوع پر اپناجامع مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر طیب خرادی نے ’’صنفِ سفر نامہ۔ حج کے سفر نامے‘‘ اور جناب منیب آفاق نے صحافت سے متعلق اپنا مقالہ بعنوان ’’خبر اور اس کی تعریفات ‘‘ پیش کیا۔
سمینار کے دوسرے دن کی دوسری نشست کی صدارت ڈاکٹر نسیم الدین فریس نے انجام دی جس میں کل پانچ مقالے تھے ۔ڈاکٹر رئیس فاطمہ نے اردو ناولٹ کے موضوع پر پر مغز مقالہ پیش کیاڈاکٹر امین اللہ کا موضوع’’ اردو خودنوشت کا سفر ‘‘تھا جو نہایت مبسوط اور وقیع رہا جناب شہمیری صاحب نے اردو کی ایک اہم صنف سیرت نگاری کے موضوع پر تحقیقی مقالہ پیش کیا ۔ڈاکٹر محمد محبوب نے اردو تذکرہ نگاری پر مقالہ پیش کیاآخر میں ریسرچ اسکالر عبد الخالق نے اردو خطوط نگاری پر ایک ایک نظر کے عنوان سے مقالہ پیش کیا ۔صدارتی خطاب میں ڈاکٹر نسیم الدین فریس نے تمام مقالات پر تجزیہ و محاکمہ پیش کیا۔
دوسرے دن تین بجے اختتامی اجلاس منعقد ہوا ، جس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جناب سید شہہ میر قادری صاحب شریک رہے۔ اس نشست میں پروفیسر محمد انورالدین ، پروفیسر نسیم الدین فریسؔ ، پروفیسر مجید بیدار ، پروفیسر فاطمہ پروین، پروفیسر ستار ساحرؔ اور سمینار کے ڈائرکٹر و کنوینر ڈاکٹر فاروق باشا کے علاوہ محترمہ جمشید بیگم بھی شریک رہے۔ سمینار کے بیشتر شرکاء نے اپنے خیالات اور تأثرات پیش کو کیا۔ سمینار کے مقالات کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کیا۔ بہ اعتبارِ مجموعی سبھی شرکائے سمینار ، طلبہ و ادب دوست احباب نے سمینار کو ہر اعتبار سے کامیاب قرار دیا۔ پروفیسر محمد انورالدین صاحب نے سمینار کے منتظمین کی کامیاب کوششوں کو سراہتے ہوئے انتظامات کی ستائش کی۔ مہمانِ خصوصی نے اِس نوع کے مزیدسمیناروں کے انعقاد پر زور دیا۔ آپ نے طلبہ اور شہر کدری کے لئے اس سمینار کو تاریخی اور یادگار قراردیا۔ پروفیسر ستار ساحر، ڈاکٹر محمد محبوبؔ اوردیگر شرکاء نے سمینار کے منتظمین ‘ بالخصوص ڈاکٹر فاروق باشا کی میزبانی ، استقبالیہ اور قیام وطعام اورخورونوش کے حسنِ انتظام اور سلیقہ کی ستائش کی اور ہدیۂ تبریک پیش کیا۔ آخر میں شعبۂ اردو کی لکچرار محترمہ جمشید بیگم نے ہدیۂ تشکر پیش کیا۔ بعد ازاں‘کالج کے وسیع میدان میں پرنسپل ، کنوینر ،اسٹاف ا ور دیگر شرکاء نے مہمانوں کو وداع کیا‘ اور یہ کامیاب سمینار اختتام پذیر ہوا۔

 

 

 

 

Share
Share
Share