عادل لکھنوی : طنزومزاح کا چلبلا شاعر

Share

adil-lakhnavi عادل

عادل لکھنوی : طنزومزاح کا چلبلا شاعر

اردو ادب میں طنزومزاح کو خواہ آپ کسی درجہ میں رکھ لیں مگر زندگی میں ذہنی دباو اور ڈپریشن سے چھٹکارا پانے کے لیے طنز و مزاح ضروری سا لگتا ہے ۔ طنز ومزاح نے اردو ادب کے لیے نامور ادیب و شعرا دیے جن میں بعض کلاسیکل ادب کے زمرہ میں شامل ہیں۔
عادل لکھنوی ‘ مزاحیہ شاعری کا ایک بڑا نام ہے ۔ ان کے یہاں مزاح کے ساتھ ساتھ طنز کی گہری کاٹ بھی ملتی ہے ۔ ’’نوے سال‘‘ کی عمر میں ’’انیس سالہ ‘‘نوجوان کی سی شاعری کرنا کوئی ان ہی سے سیکھے ۔ اگر یقین نہ آے تو یہ ویڈیو دیکھیں اور مزے لوٹیں ۔

عادل لکھنوی کی ایک نظم : دُم

وفا کے جذبے کا اظہار دُم ہلانا ہے
جو دُم کھڑی ہے وہ نفرت کا تازیانہ ہے
جو لمبی دُم ہے وہ عالی صفات ہوتی ہے
جو مُختصر ہے بڑی واہیات ہوتی ہے
وہ جاندار مکمل نہیں ادھورا ہے
وہ جِس کے دُم نہیں ہوتی ہے ، وہ لنڈورا ہے
جہاں میں یوں تو ہے اونچا مقام اِنساں کا
مگر لنڈوروں میں آتا ہے نام اِنساں کا
میں سوچتا ہوں جو انساں کے دُم لگی ہوتی
کَسر جو باقی ہے وہ بھی نہ رہ گئی ہوتی
وہ اپنی جان بچانے کو یہ سِپر لیتا
جو ہاتھ سے نہیں کر پاتا دُم سے کر لیتا
کچھ اِس طریقے سے ردِ عمل ہوا کرتا
گزرتی دِل پہ تو دُم پہ اثر مِلا کرتا
خوشی کا جذبہ اُبھرتا تو دُم اُچک جاتی
کوئی اُداس جو ہوتا تو دُم لٹک جاتی
کِسی پہ دھونس جماتا تو دُم اُٹھا لیتا
کِسی سے دھونس جو کھاتا تو دُم دبا لیتا
بزرگ لوگ جوانوں سے جب خفا ہوتے
زُباں پہ اُن کی یہ الفاظ بَر ملا ہوتے
تمہیں خبر نہیں تھی کیسی آن بان کی دُم
کٹا کے بَیچ لی تُم نے تو خاندان کی دُم
کہیں جو فاتحِ آدم کوئی کھڑا ہوتا
میرے خیال میں یوں پَوز دے رہا ہوتا
بڑے غرور سے لہرا رہا ہے دُم اپنی
بجائے مونچھوں کے سہلا رہا ہے دُم اپنی
سبھا میں جب کوئی دستورِ نو بنا کرتا
شمارِ رائے کُچھ اِس طرح سے ہوا کرتا
جو لوگ اِس کے موافق ہیں دُم اُٹھا دیں وہ
جو لوگ اِس کے مُخالف ہیں دُم گِرادیں وہ
امیر لوگوں کی دُم میں انگوٹھیاں ہوتیں
انگوٹھیوں میں نگینوں کی بُوٹیاں ہوتیں
گھمنڈ اور بھی بڑھ جاتا اور اِتراتے
یہ لوگ جَیب گھڑی اپنی دُم میں لٹکاتے
غریب لوگ کِسی طرح سے نِبھا لیتے
نہ مِلتا کُچھ تو دُموں کو فقط رنگا لیتے
جو مفلسی سے کبھی کوئی اپنی جھنلاتا
تو اسپتال میں لے جا کے دُم کٹا آتا
وزیر لوگ یہ کہتے عوام دُم کو کٹائیں
ہماری دُم کے برابر اپنی دُم کو نہ لائیں
عوام سارے اسی ضِد پہ دُم اُٹھا دیتے
وہ انقلاب کا پرچم اِسے بنا لیتے
حَسین لوگوں کی پھولوں سے دُم ڈھکی ہوتی
کہ پھلجھڑی سی فضائوں میں چُھٹ رہی ہوتی
دُموں سے یہ قَدِ زیبا کُچھ اور سَج جاتے
کہاں کی زُلف کہ دُم ہی میں دِل اُلجھ جاتے
یہ افتخار جو ہم عاشقوں کو مِل جاتا
ہر ایک غنچہءِ اُمید دِل کا کِھل جاتا
کِسی کی بزم میں ہم اپنا یوں پَتا دیتے
بجائے پائوں دبانے کے دُم دبا دیتے
کبھی کمند کا جو کام دُم سے ہو جاتا
ہم عاشقوں کا بڑا نام دُم سے ہو جاتا
اشارہ کر کے ہمیں دُم وہ اپنی لٹکاتے
ہم اُن کے کوٹھے پہ دُم کو پکڑ کے چڑھ جاتے
ہماری راہ کا ہر کانٹا پھول ہو جائے
اگر دعا یہ ہماری قبول ہو جائے
کہ آدمی کے لئے دُم بہت ضروری ہے
بغیر دُم کے ہر اِک آرزو لنڈوری ہے

Share
Share
Share