نئی نسل کی تربیت :۔ سب سے بڑا مسئلہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

mohsin osmani تربیت

نئی نسل کی تربیت
مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
ای میل :

بلا شبہ مسلمان اس ملک میں مختلف مشکلات سے دو چار ہیں اور ہر ایک مشکل ان کے راستہ کی رکاوٹ ہے ۔ زندہ قوموں کے لئے خطرہ کی چیز راستہ کی رکاوٹ نہییں ہوتی خطرہ کی بات ایک زندہ انسان کے لئے یہ ہے کہ وہ مقصد اور منزل کو بھول جائے اور مادیت اور آرام پسندی ہی کو مقصد بنالے ۔ اہل ہمت کبھی ہمت نہیں ہارتے ہیں ۔ ان کا عزم راسخ ہر مشکل کو آسان بناتا ہے ۔ اہل یقین کا فیصلہ اور اصحاب عمل کا حوصلہ تاریخ کے دھارے کو بدل دیتا ہے ۔

وہ با شعور مسلمان جن کے ہاتھ زمانہ کی تبض پر ہیں ان کے نزدیک موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل کے ایمان کی اور ان کی تہذیب وزبان کی حفاظت کس طرح کی جائے مسلمانوں کو شریعت سے واقف کیسے کیا جائے اور کیسے ان کو شریعت سے وابستہ اور پیوستہ رکھا جائے ۔ یہ جان کی حفاظت سے بھی زیادہ ضروری ہے ۔یہ وہ ایمانی حس ہے جس کا سر رشتہ حضرت یعقوب کے جذبہ پیغمبرانہ سے جاکر ملتا ہے کہ انہوں نے بوقت دم واپسیں اپنی اولاد سے پوچھاتھا ما تعبدوں من بعدی ؟ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے ؟ یعنی آئندہ اور موجودہ نسلوں کی اسلامیت کا غیر مشکوک اطمنان حاصل کرنابھی ضروری ہے اور یہ بالکل کافی نہیں ہے کہ ہم صرف گجرات اور آسام اور مظفر نگر کے فسادات کے مسئلہ پر غور کریں یا صرف بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے بارے میں سوچیں یا صرف ان کے معاشی مسئلہ کے حل کی تدبیر کریں اور ان کے لئے ملازمتوں میں کامیابی یا تجارت میں فروغ پر مطمئن ہو جائیں مسلمان کسی حیوان کا نام نہیں ہے جس کے لئے راتب کا مل جانا کافی ہو ۔ مسلمان وہ ہے جو اپنی تمام ملی ددینی خصوصیات کے ساتھ جینے کا عزم کرتا ہے اور شریعت کو رگ جاں اور سیم وزر سے بھی زیادہ اہمیت دیتا ہے اور دینی تعلیم اور شریعت سے واقفیت کو غذا اور دوا سے بھی زیادہ اہم سمجھتا ہے ۔اس امت کا شیرازہ اور گلدستہ شریعت کے دھا گے سے بندھا ہوا ہے ۔ شریعت کو نکال دینے کے بعد شیرازہ منتشر ہو جائے گا اس امت کے جسم سے جان نکل جائے گی اور صرف ایک ڈھانچہ باقی رہ جائے گا اور ہ ڈھانچہ بھی کتنی دن باقی رہے گا ۔ بے دینی اور الحاد کی باد صرصر اس ڈھانچہ کو اڑالے جائے گی ۔ اسی لئے مسلمانوں کو توحید سے ہٹانے اور سوریا نمسکار کرانے کی کوشش ہورہی ہے ، یہ بات ذہن میں رہے کہ اعلی دینی تعلیم کے لئے تو بڑے مدارس موجود ہیں جو دین اسلام کے قلعے ہیں لیکن یہ بڑے مدارس بھی سود مند نہ ہوں گے اگر بنیادی سطح Grass rout level پر نئی نسل کی دینی تربیت کا انتظام نہ ہوا ۔اور صرف سرکاری اسکولوں میں بچوں کو داخل کرادینے کے بعد مطمئن ہو کر بیٹھ جانا تو خطرہ کا الارم ہے اور بے شعوری کی علامت ہے ۔بچوں کی دینی تعلیم کے لئے ہر مسجد میں ابتدائی دینی تعلیم کا انتظام ہونا چاہئے۔
شرعی اعتبار سے کسی ایسے ماحول میں مسلمانوں کو رہنے کی اجازت نہیں ہے جہان وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے دینی ماحول فراہم نہ کرسکتے ہوں اور جہاں اسلام سے وابستہ رہنا نا ممکن ہو جائے ۔ اسلام میں ہجرت کا فلسفہ یہی ہے ۔ اس لئے اس بارے میں متفکر رہنا اور مسلمانوں کو باشعور بنانے کے بارے میں فکر مند ہونا اور بچوں کی دینی تعلیم اور تربیت اور اردو زبان سکھانے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے ۔ ظاہر ہے کہ اسکولوں سے بچوں کو ہٹایا نہیں جا سکتا ہے انہیں اسکولوں میں تعلیم دلانا بھی ضروری ہے اور یہ کوشش بھی ضروری ہے کہ وہ امتیازی نمبروں سے پاس ہوں لیکن یہ کام بنیادی دینی تعلیم اور مادری زبان کی قیمت پر ہرگز نہیں ہونا چا ہئے ۔ ورنہ یہ اسکولی تعلیم روحانی اور ایمانی نسل کشی کے مرادف ہوگی اس لئے والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کی دینی تعلیم کیلئے فکر مند ہوں اگر بچہ اسکول میں پڑھ رہا ہے تو گھر پر استاد مقرر کریں جو بچوں کو قرآ ن پڑھنا سکھائے اردو پڑھنا اور لکھنا سکھائے اور اردو میں دینیات کی کتابیں پڑھائے اورماں باپ کو چاہیے کہ جہاں دینی تقریروں کا پروگرام ہو وہاں بچوں کو اپنے ساتھ لے جائیں ۔
ریاست اتر پردیش میں جہاں اردو کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا وہاں مسلمانوں کی قیادت نے دینی تعلیمی کونسل قائم کی تھی اور قریہ بقریہ مکاتب کا جال بچھا دیاتھا جہان بچوں کو اردو زبان قرآن کی ناظرہ تعلیم اور دینیات کی ابتدائی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ۔ حساب انگریزی اور ہندی کو بھی نصاب میں رکھا گیا ۔ ان مکاتب کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ان کے اخراجات کی کفالت مقامی باشندے کرتے ہیں ۔ جن لوگوں نے اپنے نونہالوں کو ان مکاتب میں داخل کیا انہیں اطمنان حاصل ہوا ان کے بچوں نے اردو زبان بھی سیکھی اور ابتدائی دینی تعلیم بھی حاصل کی ۔ جو بچے ان مکاتب میں اسکول کی تعلیم کی وجہ سے داخل نہیں ہو سکتے تھے ان کے لئے صباحی اور شبینہ مکاتب قائم کئے گئے تھے ۔ نقصان ان مسلمانوں کا ہوا جو ان مکاتب سے بے نیاز رہے اور انہوں نے گھر پر بھی اپنے بچوں کی دینی تعلیم کا اور اردو زبان سیکھنے کا انتظام نہیں کیا ۔ بنیادی مذہبی تعلیم کے بغیر وہ تعلیم جو انسان سے اس کی خودی چھین لے اور مذہب اور تہذیب سے بیگانہ بنادے اور صرف معیشت سے سروکار رکھے وہ حقیقی تعلیم نہیں ۔ اکبر الہ بادی نے اس خطرہ کو محسوس کر لیا تھا اور کہا تھا کہ ’’ دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے ‘‘ اور اقبال نے عصری تعلیم کے پروردہ نوجونوں کو ’’ کم نگاہ و بے یقین ونا امید ‘اور آشفتہ رو تاریک جاں روشن دماغ ‘‘ قرار دیا ہے ۔ایک سیکولر ملک میں بچوں کے مذہب اور تہذیب کی حفاظت کی ذمہ داری کا کام والدین کو ہی اٹھاناہے ۔ اس کے بغیر زندگی موت کے مانند ہے ۔ اور اہل ضمیر، اہل شعور او اہل غیرت کے نزدیک زندگی نما موت موت نما زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہوتی ہے ۔وسائل کی کمی کا بہانہ ، نقصان کا اندیشہ ،وقت کی کمی کا شکوہ مریض قوموں اور ضعیف دلوں کی بیماری ہے ۔
ہندوستانی مسلمانوں کے لئے شریعت سے واقفیت اور شریعت سے واستگی حصار بھی ہے ہتھیار بھی ہے تلوار بھی ہے اور آہنی دیوار بھی ہے ۔ہندوستانی مسلمان ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہوئے ہیں ۔ ایک راستہ مذہبی اور تہذیبی ارتداد کی طرف جاتا ہے دوسرا راستہ عزت وسربلندی کی طرف ۔عزت اور سربلندی شریعت سے اور تہذیب سے وابستگی میں مضمر ہے ۔مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ایک زندہ قوم ہے تاریخ میں انہوں نے پوری دنیا کو اور اس ملک کو فیض پہونچایا ہے اور وہ اب بھی ذہنی اور اخلاقی حیثیت سے کوئی دیوالیہ قوم نہیں ۔
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں
مسلمانوں کی عصری تعلیم بے حد ضروری ہے اسکولوں میں پڑھانا بھی ضروری ہے ۔ ان کو اقتصادی اعتبار سے مضبوط اور مستحکم بنانابھی نہ صرف دنیاوی اعتبار سے بلکہ دینی اعتبار سے بھی اہمیت رکھتا ہے ۔ لیکن اگر مسلمان عقیدہ وعمل کے اعتبار سے مسلمان ہی نہ رہیں تو پھر ان کوششوں کا کیا حاصل اور ان کا کیا فائدہ ؟ اس لئے نئی نسل کے ایمان اور اسلام کی حفاظت کا کام بالکل بنیادی کام ہے اور اس سے غفلت وہ جرم ہے جسے تاریخ معاف نہیں کرے گی ۔ سرکاری نصاب تعلیم کے اندر اور اسکول کے ماحول میں جو زہر ہوتا ہے اس کا تریاق مہیا کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے ۔ببول کے سائے میں بیٹھنا ایک مجبوری ہے لیکن بچوں کو اس کے کانٹوں سے بچانا بھی ضروری ہے ۔ ہمارے آباء واجداد نے تہذیب وروایات کو ایمان داری کی ساتھ ہم تک پہوچایا تھا اب ہماری باری ہے کہ ان روایات کو نئی نسل تک پہنچائیں ۔ ایمانی کیفیات پیدا کرنے کئے لئے گھر کے اندر تھوڑی دیر کے لئے ترجمہ قرآن و حدیث اور سیرت رسول اور سیرت صحابہ اور سیرت مصلحین امت کا اجتماعی مطالعہ بہت مفید ہے ۔ پندرہ منٹ کے لئے سرشام یا سونے سے پہلے ہر گھر میں اس طرح کا حلقہ قائم کیا جاسکتا ہے ٹی وی اور انٹرنٹ پر کنٹرول رکھنا بچوں کی تربیت کے لئے ضروری ہے ۔ کبھی کبھی گھر کے بچوں اور نوجوانوں کو دینی کا موں اور پروگراموں میں شرکت کے لئے لے جانا چاہئے ، محلوں میں ایسی مسجدوں کی تعمیر ہونی چاہئے جو صرف نماز گا ہ نہ ہوں بلکہ وہ تعلیم وتربیت کے بھی مراکز ہوں، اس لئے کہ قرون اولی میں مسجدیں صرف نماز پڑھنے کے لئے نہیں ہوتی تھیں بلکہ وہ مدرسہ اور دانشکدہ بھی ہوتی تھیں ۔مسلمانوں کی نئی نسل کے لئے دینی تعلیم اور تربیت کی بڑی اہمیت ہے ۔سارا مسئلہ فکر مندی اور جذب دروں کا ہے ۔ یہ اگر موجود ہے تو اس ملک میں دینی تعلیم وتربیت اور اردو زبان وادب کے چراغ کو بہت زیادہ تیل بتی کے بغیر بھی فروزاں رکھا جاسکتا ہے ۔اگر جذب دروں اور سوز فزوں نہیں ہے اگر دل بے تاب اور چشم پر آب نا پید ہے تو پھر ہزاروں حیلے اور بہانے ہیں ۔
ع ۔ تو ہی اگر نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں ۔

Share
Share
Share