میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 5۔ میرحسن ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

mohsin osmani
شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 5
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
میرحسن

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
ای میل :

میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 4 ۔ کے لیے کلک کریں

میر حسن (۱۷۲۷ء۔۱۷۸۶ء )

میرغلام حسن نام تھا اور میرحسن کے نام سے مشہور ہوئے، پیدائش دہلی میں ہوئی، ان کے والد کا نام ظاہر تھا، جو مرزا محمد رفیع سودا کے ہم عصر اور حریف تھے، میر حسن کی عمرکا ایک بڑا حصہ فیض آباد میں گذرا، جب اودھ کے نوابوں کا پایہ تخت فیض آباد سے لکھنؤ منتقل ہوا تو میرحسن کا آنا جانا لکھنؤ بہت زیادہ ہوگیا، میر حسن نے کئی مثنویاں لکھی ہیں ، لیکن ان کی اصلی شہرت مثنوی سحرالبیان کی وجہ سے ہے جو اردو زبان کی مثنویوں میں سرتاج کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس مثنوی میں شہزادہ بے نظیر اور اس کی محبوبہ بدرمنیر کی داستان بہت خوبصورت اورروانی کے ساتھ بیان کی گئی ہے، اور تقریباً ڈھائی سو برس گذر جانے کے بعد بھی اس زبان کا لطف باقی ہے،۔۔ بڑی شاعری کے بارے میں ناقدین نے کہا ہے کہ یہ وہ شاعری ہے جو کئی دور تک اپنی تاثیر اور دل کشی کو باقی رکھتی ہے، میرحسن کی مثنوی آج بھی اپنی دلکشی اور خوبصورتی میں ممتاز ہے، زبان صاف اور محاورے فصیح ہیں اور بیان ایسا ہے کہ واقعہ کا نقشہ آنکھوں میں کھنچ جاتا ہے، چاندنی رات کا ایک منظر ملاحظہ ہو:
وہ سنسان جنگل وہ نور قمر
وہ براق سا ہرطرف دشت ودر
وہ اجلا میداں چمکتی سے ریت
اگا نور سے چاند تاروں کا کھیت
درختوں کے پتے چمکتے ہوئے
خس وخار سارے جھمکتے ہوئے
درختوں کے سایہ سے مہہ کا ظہور
گرے جیسے چھلنی سے چھن چھن کے نور
مثنوی سحر البیان کا قصہ مختصر یہ ہے، ایک جگہ کا بادشاہ بوڑھا اور لاولد تھا ، مگراس عالم پیری میں ایک نجومی نے یہ خوش خبری دی کہ اس کے تخت کا وارث پیدا ہوگا، شہزادہ کی پیدائش ہوئی ، اس کی عمر کا بارہواں سال نہایت نازک تھا ، اس پر ایک پری کا سایہ ہوگیا اور وہ پری اس سے محبت کرنے لگی، ایک بار جب وہ پری کے دئے ہوئے طلسمی گھوڑے پر سوار ہوکر کہیں جا رہا تھا، تو اس نے شہزادی بدر منیر کو دیکھا اور وہ اس کے عشق میں گرفتار ہوگیا، شیاطین نے اسے دھوکا دیکر کوہ قاف میں واقع ایک کنویں میں قید کرلیا، سلطنت کے وزیر کی بیٹی نجم النساء کو جب یہ اطلاع ملتی ہے تو وہ جوگن کے بھیس میں جنوں کے بادشاہ کے بیٹوں کو موسیقی سے مسحور کرلیتی ہے، اور شہزادہ بے نظیر کو چھڑا لاتی ہے، بے نظیر اور بدرمنیر کی شادی ہوجاتی ہے، اور نجم النساء کی شادی جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ سے ہو جاتی ہے، اور خوب خوب خوشیاں منائی جاتی ہیں، یہ ایک سادہ سا قصہ ہے ، جو چار ہزار چارسو بیالیس اشعار میں بیان کیا گیا ہے، ہندوستان میں لوک کتھاؤں کا رواج پہلے ہی سے تھا، لیکن میرحسن نے ادب کے صنم خانہ میں ایک حسین پیکرکا اضافہ کیا، انھوں نے الفاظ میں صورت گری کی ہے، اس میں حقیقت او افسانہ کا بہترین امتزاج ملتا ہے، سارا قصہ اگرچہ خیالی اور من گھڑت ہے لیکن حقیقت کی رعنائیوں سے معمور ہے، اس میں انسانی محسوسات اور واردات قلبی کے ساتھ پند ونصائح کا بیان بھی موجود ہے، اور یہ کہانی حقیقت کی طرح معلوم ہوتی ہے، جب ضعیف اور لا ولد بادشاہ اپنے وزیروں سے کہتا ہے کہ وہ فقیری اختیار کرلیگا اور اولاد نہ ہونے کے غم میں تخت وتاج سے دست بردار ہوجائے گا، تو وزیر بادشاہ سے کہتے ہیں :
وزیروں نے کی عرض اے آفتاب
نہ ہو ذرہ تجھ کو کبھی اضطراب
یہ دنیا جو ہے مزرع آخرت
فقیر ی میں ضائع کرو اس کو مت
رکھو یاد عدل وسخاوت کی بات
کہ اس فیض سے ہے تمہاری نجات
عجب کیا جو ہووے تمہارے خلف
کرو تم نہ اوقات اپنی تلف
اسے فضل کرتے نہیں لگتی بار
نہ ہو اس سے مایوس امید وار
مثنوی میں مناظر قدرت سرسبز سبزہ زار آسمان ، تہ دل تہہ بادل ، چاند کی چاندنی ، فصل بہار کے رنگ، زیورات اور سجاوٹ کے سامان ، شاہانہ لباس ، اور کنیزوں کی بول چال وغیرہ اس قدر جاندار ہیں کہ میر حسن کے ذوق مشاہدہ اور باریک بینی کی داد دینی پڑتی ہے۔ مثنوی کے علاوہ دیگر اصناف سخن میں بھی میر حسن نے طبع آزمائی کی ہے، لکھنؤ کے شستہ اردو محاورے میں چند اشعار یہ ہیں:
برس پندرہ کا یا سولہ کا سن
جوانی کی راتیں مرادوں کے دن
صدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
لکھنؤ کی آرائش وزیبائش ، شائستگی اور تہذیب ،ظرافت طبع اور شگفتہ مزاجی یہ سب میر حسن کے یہاں موجود تھی، سر پر بانکی ٹوپی ہوتی تھی، انگرکھا زیب تن کرتے تھے، خاندانی شریفانہ وضع داری کے پابند تھے۔

Share
Share
Share