ساحرلدھیانوی کی شاعری میں طنزیہ عناصر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹراسمٰعیل خان

Share

sahir ludhianvi ساحر
ساحرلدھیانوی کی شاعری میں طنزیہ عناصر

ڈاکٹراسمٰعیل خان
شعبہ اردو انوار العلوم ڈگری کالج ، ملے پلی، حیدرآباد

طنز سے مراد سماج کی کسی برائی، نامعقول بات، ناہموار صورتِ حال پر غم و غصہ کے اظہار کا نام ہے۔چونکہ طنز نگار سماج کا ایک ذمہ دار فرد ہوتا ہے اس لئے وہ سماج کی خامیوں کی اصلاح کے لیے انسانی زندگی کی ناہمواریوں اور معاشرتی بے اعتدالیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ در اصل طنز نگار افراد کی بے راہ رویوں اور سماجی و سیاسی ، انتشار کی طرف عوام کو متوجہ کرنے کے لئے طنز کا سہارا لیتا ہے ، اس طنز میں وہ کبھی کبھی نشتریت سے بھی کام لیتا ہے، لیکن وہ جس فرد یا شئے کا مذاق اڑاتا ہے اس کے پیچھے اصلاح کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی بے بھی سماج کے ایک ذمہ دار فرد کی طرح سماج کی برائیوں کو اور معاشرے کی بعض ناہموار صورتِ حال پر اپنے کلام میں جا بجا غم و غصہ کا اظہار کیا ہے اور سماج کی خامیوں کی اصلاح کے لئے انسانی زندگی کی ناہمواریوں و بے اعتدالیوں کو بے نقاب کیا ہے۔

ساحرؔ کی شاعری در اصل اپنے عہد کی مرقع ہے جس میں سیاسی، سماجی و معاشرتی زندگی کی جھلک ہر قدم پر دکھائی دیتی ہے ۔ غریبوں کا دکھ درد ماحول کی کشمکش کی پرچھائیاں ان کے سارے کلام پر رواں دواں نظر آتی ہیں، چاہے وہ داستانِ عشق ہو یا ملک کی ابتری و سماجی مفلسی کا ذکر ہو، ساحرؔ کا سارا کلام اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے اندر ایک درد مند ر دل رکھتے تھے ۔ انہیں انسانیت سے ہمدردی تھی اس لیے سماج میں جب کبھی انسانیت کا استحصال ہوتے ہوئے دیکھتے تھے تو بے چین ہوجاتے ،تب ان کا لب و لہجہ تلخ ہوجاتا ہے۔ یوں تو انہوں نے اپنی شاعری میں دنیا کے بے شمار مسائل اور سماج کی کئی بے اعتدالیوں کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے یہاں چند نمائندہ موضوعات جیسے، انسان کی قدر و قیمت، انسانیت، جمہوریت کا استحصال، مشرقی تہذیب کی پامالی، مذہب و عقائد ، سیاسی لیڈروں کی چال بازیاں، دہشت، فساد، غریبی، مفلسی، سماج میں عورت کا مقام وغیرہ کا ذکر کیا جارہا ہے جس سے ان کے طنزیہ کلام کی خصوصیت پر روشنی پڑتی ہے۔
ساحرؔ نے اپنے کلام میں جابجا دنیا کے مختلف رنگوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے ناہموار صورتِحال پر طنز کیا ہے ۔ ان کے مطابق اس دنیا میں راتیں قاتل ہیں تو صبحیں مجرم ہیں یہاں کوئی کسی کا حال نہیں پوچھتا کسی کا درد کوئی نہیں بانٹتا، اس دنیا میں انسانی قدریں اب ختم ہونے لگی ہیں ایک عام انسان کی ہستی ایک کھلونے کی مانند ہوگئی ہے، یہ دنیا صرف ان ہی کی ہے جن کے پاس دولت ہو تخت و تاج ہو۔ چنانچہ دنیا کی اس حقیقت کو اپنے طنز کا ہدف بناتے ہوئے ساحرؔ کہتے ہیں:
’’ یہ محلوں یہ تختیوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انسان کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے راجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیاہے
(کلیات ساحرؔ ، ص:450 )
ساحر کی شاعری کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ غیر ملکی سامراجی حکمرانوں سے ملک کی نجات کو خواب اور عالمی سطح پر ایک انسانیت دوست، امن پسند اور مساوات پر مبنی غیر طبقاتی سماج کے قیام کا تصور ان کے دل میں ہمیشہ اُمنگیں جگاتا رہا ہے۔ لیکن آزادی کے بعد ملکی سیاست نے دھیرے دھیرے غیر اخلاقی رُخ اختیار کیا ، قومی رہ نما خود اپنی عوام کا بے شرمی سے استحصال کرنے لگے اور خود عام آدمی قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے لگا تو ساحرؔ نے اس کی سخت مذمت کی اور ملک کی اس صورت حال پر خوب غم و غصہ کا اظہار کیا، جیسے اپنی ایک نظم ’’26جنوری ‘‘ میں وہ کہتے ہیں:
کیا مول لگ رہا ہے شہیدوں کے خون کا
مرتے تھے جن پہ ہم وہ سزایاب کیا ہوئے
جمہوریت نواز، بشر دوست ، امن خواہ
خود کو جو خود دیئے تھے وہ القاب کیا ہوئے
ہر کوچۂ شعلہ زار ہے ، ہر شہر قتل گاہ
یکجہتی حیات کے آداب کیا ہوئے
مجرم ہوں میں اگر، تو گنہگار تم بھی ہو
اے رہبرانِ قوم خطا کار تم بھی ہو‘‘ ۔
(کلیات ساحرؔ ، صفحہ: 217 )
ساحرؔ نے مشرقی تہذیب کی پامالی پر بھی طنز کے تیر چلائے ہیں مشرقی تہذب جو ساری دنیا میں اعلیٰ انسانی، اخلاقی و مذہبی قدروں کے لئے جانی جاتی ہے ، لیکن ساحرؔ نے اپنی ایک نظم ’’ چکلے‘‘ کے ذریعہ اس نام نہاد مشرقیت کو بے نقاب کیا ہے اور ایسے افراد پر طنز کے تیر چلائے ہیں جو مشرقی تہذی و ثقافت کی بات کرتے ہیں یا مشرقی اقدار، مشرقی رویوں اور مشرقی آداب و اطوار پر سینہ پھلائے پھرتے ہیں۔ ’’ چکلہ‘‘ در اصل وہ جگہ ہے جہاں بیٹا بھی آتا ہے اور باپ بھی، ایک ہی عورت بیوی بھی ہے اور ماں بھی، وہی عورت محبوبہ بھی ہے اور بہن بھی گویا ساحرؔ نے اس نظم میں مشرق کی کھوکھلی تہذیب اور یہاں کے مجروح اقدار کی عکاسی کرتے ہوئے اس طرح طنز کا ہدف بنایا ہے ، کہتے ہیں:
’’ یہ پُر پیچ گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سکوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں !
یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی
تنومند بیٹے بھی ، ابا میاں بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں بھی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں!
کلیات ساحرؔ ، صفحہ: ۵۶
انسانی تہذیب کا انتشار اور اس کا کھوکھلا پن ساحرؔ کی فکر کو ہمیشہ مضطرب رکھا اور انہوں نے جابجا اپنی شاعری میں تہذیب کے اس کھوکھلے پن کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ ساحرؔ اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں، کہ ظلم و جبر اب ہماری تہذیب کا حصہ بن گیا ہے اس لیے ان کا کہنا ہے کہ ہم نے جنگل کو شہروں میں بدل دئے مگر ہم سے جنگل کی تہذیب نہیں چھوٹی ۔ اپنے اس خیال کا اظہار انہوں نے اپنی ایک نظم میں اس طرح کرتے ہیں کہتے ہیں:
’’جبر سے نسل بڑھے ظلم سے تن میل کریں
یہ عمل ہم میں ہے بے علم پرندوں میں نہیں
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں ‘‘
(کلیات ساحرؔ ، صفحہ: 448)
اسی طرح ایک دوسری نظم میں ساحرؔ نے ہمارے اس کھوکھلی تہذیب پر اس طرح طنز کے تیر چلائے ہیں کہتے ہیں:
’’ گاندھی ہو یا غالبؔ ہو
ختم ہوا دونوں کا جشن
آؤ انہیں اب کردیں دفن
ختم کرو تہذیب کی بات بند کرو کلچر کا شور
ستیہ اہنسا سب بکواس
ہم بھی قاتل ، تم بھی چور
(کلیات ساحرؔ ، صفحہ:221)
ساحرؔ نسلِ آدم کی بقا اور انسانی تہذیب کے تحفظ کے لیے امنِ عالم ضروری قرار دیتے ہیں، چنانچہ انہوں نے سماج و معاشرے میں موجود اُن تمام عناصر کو طنز کا نشانہ بنایا ہے جن سے تہذیب و امن ختم ہوتا جارہا ہے اس سلسلے میں ساحرؔ کی ایک نظم ’’ آج‘‘ قابل ذکر ہے ۔ یوں تو اس نظم کا پس منظر 1947ء کا انتشار ہے۔ جس میں غم و کرب کی فضا ہے اور شاعر اپنے سماج کے ٹھیکے داروں سے دامن پسارے ہوئے امن و تہذیب کی بھیک مانگ رہا ہے۔ ساحرؔ کی اس نظم کا مطالعہ اگر ہم آج کے پس منظر میں بھی کریں تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ آج بھی ہمارے معاشرے کے ہر عام آدمی کی کیفیت ایسی ہی ہے جیسی اس نظم میں شاعر کی ہے شاعر کی طرح آج کے معاشرے کا ہر عام آدمی اپنے رہنماؤں اور سماجی ٹھیکداروں سے امن و تہذیب کی بھیک مانگ رہا ہے۔ چنانچہ اس نظم سے ایک بند ملاحظہ کیجئے جس میں ساحرؔ نے ہمارے سماج کے ٹھیکے داروں کو کس طرح طنز کا نشانہ بنایا ہے کہتے ہیں:
’’ بچے ماؤں کی گودوں میں سہمے ہوئے ہیں
عصمتیں سر برہنہ پریشان ہیں
ہر طرف شورِآہ بکا ہے
اور میں اس تباہی کے طوفان میں آگ اور خون کے ہیجان میں
سرنگوں اور شکستہ مکانوں کے ملبے سے پُر راستوں پر
اپنے نغموں کی جھولی پسارے
در بدر پھر رہا ہوں
مجھ کو امن اور تہذیب کی بھیک دو
(کلیات ساحرؔ ، صفحہ:122 )
ساحر کی یہ نظم ہماری ٹوٹتی پھوٹتی تہذیب اور انسان کی حیوانی جبلت کا آئینہ ہے۔ اس نظم کے ذریعہ ساحرؔ نے انسانی قدروں ہمدردی، اور ہمہ گیر محبت و اخوت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
ساحرؔ انسانی تہذیب اور آفاقی محبت کے علم بردار تھے ان کے نزدیک انسانیت کی معراج کا انحصار کسی فرقے پر نہیں، کسی ذات یا معاشرے کے معاشی شناخت یا ذاتی تفاخر پر نہیں ہے۔ اسی لیے انہوں نے انسانی فرقوں کی تقسیم اور ان فرقوں کے درمیان تصادم کو اپنے کلام میں جابجا طنز کا ہدف بنایا ہے جیسے ایک نظم میں ساحرؔ کہتے ہیں:
’’ نوع انساں میں یہ سر مایہ و محنت کا تضاد
امن و تہذیب کے پرچم تلے قوموں کا فساد
ہر طرف آتش و آہن کا یہ سیلاب عظیم
نت نئے طرز پہ ہوتی ہوئی دنیا تقسیم
(کلیات ساحرؔ ، صفحہ:53 )
ساحر نے غریب عوام اور مزدوروں کے استحصال کو بھی اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ اس سلسلہ میں ان کی ایک نظم ’’ بنگال‘‘ قابل ذکر ہے ۔ جس میں وہ ہمارے نظام کے ٹھیکہ داروں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہیں غریب مزدوروں کے حالاتِ زار سے واقف کروایا ہے کہتے ہیں:
’’ جہانِ کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو !
نظام نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا؟
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے
زمین نے کیا اسی کارن اناج اُگلا تھا
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے
ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
دخترانِ وطن تار تار کوترسیں
(کلیات ساحرؔ ، صفحہ:82)
ساحر نے سرمایہ دار طبقہ کو بھی اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے ان کے مطابق سرمایہ دار طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ تہذین و تمدن کو جلا صرف انہی سے ملتی ہے۔ ساحر سرمایہ دار طبقہ کی اس سونچ پر گہری ضرب لگائی ہے، اور کہا ہے کہ مفلسی و بھوک کے سامنے تہذیب و تمدن کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اپنے اس خیال کا اظہار کرتے ہوئے ساحرؔ اپنے ایک نظم میں کہتے ہیں:
نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جِلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حسِّ لطافت کو مٹادیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
(کلیات ساحرؔ ، صفحہ:117)
سرمایہ دار طبقہ کی جاہ وحشمت کو ساحرؔ نے نظم ’’ تاج محل‘‘ میں بھی طنز کا ہدف بنایا ہے یوں تو ’’ تاج محل ‘‘ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی علامت ہے، لیکن اس کے ذریعہ بادشاہ نے اپنے جاہ و حشمت جو احساس دلایا ہے ، اس کو ساحرؔ نے طنز کا نشانہ بنایا ہے نظم کا یہ حصہ ملاحظہ ہو:
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
ان گنت لوگوں نے دنیا محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
میری محبوب ! انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی کسی نے قندیل
(کلیات ساحرؔ ، صفحہ: 68 )
ساحرؔ نے عورتوں پر صدیوں سے چلے آرہے ظلم و ستم اور جبر و زیادتی کو بھی طنز کا ہدف بنایا ہے ۔ مرد کی ہوسناکی اور عورت کی پامالی کے خلاف ساحر کو سخت شکایت ہے۔ چنانچہ سماج کی اس بد عنوانی پر ضر ب لگاتے ہوئے ایک جگہ وہ عورت پر ہونے والے ظلم کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں
کتنی صدیوں سے وحشت کا چلن جاری ہے
کتنی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج
لوگ عورت کی ہر ایک چیخ کو نغمہ سمجھے
وہ قبیلوں کا زمانہ ہو کہ شہروں کا رواج
(کلیات ساحرؔ ، صفحہ:447)
ساحر نے جہاں مشرقی تہذیب،جمہوریت کی پامالی، معیار انسانیت وغیرہ کو ہدف طنز بنایا وہیں ہندوستان کی سیاست اور سیاسی لیڈروں کے ڈھونگ کو بھی نشانہ بنایا ہے، اس سلسلہ میں ان کی ایک نظم ’’ جشن غالبؔ ‘‘ قابل ذکر ہے ، جس میں انہوں نے اردو کے تعلق سے ہمارے سیاسی لیڈروں کے ڈھونگ کو ’’ جشن غالبؔ ‘‘ کے حوالے سے طنز کا نشانہ بنایا ہے، کہتے ہیں:
سوسال سے جو تربت چادر کو ترستی تھی
اب اس پر عقیدت کے پھولوں کی نمائش ہے
اردو کے تعلق سے کچھ بھید نہیں کھلتا
یہ جشن یہ ہنگامہ، خدمت ہے کہ سازش ہے۔
جس عہدِ سیاست نے یہ زندہ زباں کچلی
اس عہد سیاست کو مرحوموں کا غم کیوں ہے
غالبؔ جسے کہتے ہیں ، اردو ہی کا شاعر تھا
اردو پہ ستم ڈھاکر غالب پہ کرم کیوں ہے
(کلیات ساحرؔ ، صفحہ:220)
الغرض ساحرؔ نے اپنی زندگی میں حوصلہ شکن تلخ حقیقتوں کا سامنا کرتے ہوئے ہمیشہ ایک روشن مستقبل کے خواب دیکھے، اپنے لیے بھی اور پوری بنی نوع انسان کے لیے بھی، دراصل ساحر ایک صحت مند معاشرے کے خواہاں تھے۔ سماج کی بد عنوانیوں کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی تھی اس میں ہر طرف بے اطمنان بے چینی ذہنی خلفشار تھا۔ اس لیے معاشرے کا زہر ان کے رگ رگ میں سرایت کر گیا تھا۔ جس کا اظہار انہوں شاعری کے ذریعہ کیا اور اس طرح سے اپنے حساس ذہن کے اس بوجھ کو ہلکا کرتے رہے۔ ان کی شاعری میں جذبات اور احساسات کی ایک دنیا موجود ہے جو زندگی کے چہرے کے بدنما داغوں کو نمایاں کرتی ہے ، اسی لیے و سماج پر طنز کا زہر یلا نشتر چلاتے ہیں۔
***
Article : Sahir Ludhianvi
Writer : Dr.Ismail Khan

ismail khan

Share
Share
Share