عصر حاضر کے تقاضے اور مسلمان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

Share

mohiuddin habibi  تقاضے
عصر حاضر کے تقاضے اور مسلمان

ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985

’’عصر‘‘ کے لغوی معنی زمانہ کے ہیں۔ یہ اتنا اہم لفظ ہے کہ ربِّ کریم نے ایک پوری سورہ اسی نام ’’و العصر‘‘ سے قرآن حکیم میں نازل فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں دو اور لفظ ’’دہر‘‘ اور ’’سرمد‘‘ زمانہ کی پیمائش کے لیے آئے ہیں، لیکن ’’عصر‘‘ ، ’’دہر‘‘ اور ’’سرمد‘‘ ان تینوں لفظوں کے مفاہیم میں اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو فرق نظر آئے گا۔ حکمتِ خداوندی دیکھئے کہ ’’الدہر‘‘ بھی قرآن کی ایک عظیم سورۃ ہے۔ لفظِ عصر‘‘ میں زمانہ اور اس کی تیزروی کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں زمانِ جاریہ یا زمانِ مسلسل (Serial Times) کی تفہیم ہوتی ہے، جب کہ دہر میں زمان و مکان کی وسعتوں کا لحاظ ہے، یعنی زبانِ مطلق (Absolute Time) کی طرف اشارہ ہے اور سرمد کو دائمیت (Eternity) حاصل ہے۔

موضوع سے قریب ہوتے ہوئے ہم ’’عصر حاضر‘‘ سے آگہی حاصل کریں گے اور یہ دیکھیں گے کہ اس کے تقاضے کیا ہیں۔ جہاں تک تقاضوں کا معاملہ ہے، دوسرے لفظوں میں یہ ایک قسم کے ’’مطالبات ہوتے ہیں، جو ’’عصر حاضر‘‘ یا ’’موجودہ عہد‘‘ ہم سے چاہتا ہے۔ اس طرح یہ عنوان عصر حاضر کے تناظر میں کئی مطالبات یا تقاضوں کو پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس کی نہ کوئی حد ہوگی اور نہ کوئی انتہا! ہر جائزہ لامحدود اور ہر مطالعہ لامحدود ہوگا، مطالبات کثیر ہوں گے، تقاضے بھی بے شمار ہوں گے، پھر مطالبات اور تقاضوں کی یہ کثرت کسی عملی صورت گری یا ’’عملیت‘‘ پر بھی اثرانداز ہوگی۔ اس طرح صورتِ حال ایسی ہوگی کہ نہ تو عصر حاضر کا پس منظر فہم میں آئے گا اور نہ ہی تقاضوں کی تکمیل کی کوئی صورت سامنے آئے گی، اس لیے جب ایسی پیچیدہ فکری و عملی صورتِ حال سامنے آئے تو بہتر ہوگا کہ ہم اس عنوان سے انصاف کرنے کے لیے ایک وسیع تناظر کے ساتھ مندرجہ ذیل دو عنوانات کے تحت آگے گفتگو کریں:
(۱) عصر حاضر کے روحانی تقاضے (۲) عصر حاضر کے مادّی تقاضے
ویسے بھی ایک مسلمان کی زندگی روحانی اور مادّی مقاصد کے گرد ہی گھومتی ہے۔ دینی و دنیوی معاملات کے اطراف ہی مرکوز رہتی ہے۔ قرآن حکیم نے ’’حسنات دنیا‘‘ اور حسنات آخرۃ‘‘ اور ’’ثواب الدنیا‘‘ اور ’’ثواب الدین‘‘ طلب کرنے کی واضح ہدایات بھی دی ہیں۔ دنیا کے حسنات کو مقدم فرمایا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ’’دنیا‘‘ ، ’’دین‘‘ سے بہتر ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جس کی ’’دنیا‘‘ اچھی اس کا ’’دین‘‘ بھی اچھا۔
عصر حاضر کے روحانی تقاضے
اس کے لیے سب سے بہتر اور احسن ترین بات یہ ہوگی کہ ہم صرف سورہ و العصر کی تفسیر پر ایک نظر ڈال لیں۔ اس مختصر سی سورۃ میں ’’ہدایت و موعظت‘‘ کا ایک دریا کمالِ معنویت کے ساتھ کوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔ اختصار کے ساتھ جامعیت کو پیش کیا گیا ہے۔ ایک تخم میں کئی درختوں کی شجرکاری ہے۔ خلاصہ کے ساتھ تفصیل دی گئی ہے۔ چند کلمات ، کئی عنوانات کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ تین آیتوں میں دنیا جہاں کی معنویت کو رکھ دیا گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب آپس میں ملاقات کرتے اور جدا ہوتے تو سورۃ ’’و العصر‘‘ ایک دوسرے کو ضرور سناتے، جس کا مقصد اس کی نظری و عملی وسعتوں کو اُجاگر کرنا ہوتا۔ اسی کی اساسی و بنیادی تعلیمات کی توضیح و تشریح ہوتی۔ اس کے علاوہ امام شافعیؒ نے اس سورۃ کے بارے میں فرمایا:
لَوْ لَمْ یُنَزِّلْ مِنَ الْقُرْاٰنِ بِسَوٰہَا لِکَفَتِ النَّاس
(اگر قرآن کریم میں سوائے اس سورہ مبارکہ کے کچھ بھی نازل نہ ہوتا تو صرف یہ سورۃ ہی لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی۔)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ الْعَصْرِ o اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْ بِالصَّبْرِ o
ترجمہ: (قسم ہے زمانہ کی بے شک تمام انسان خسارے میں ہیں، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے عمل کیے اور آپس میں ایک دوسرے کو حق کی تلقین کی اور باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔)
اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھائے، لیکن بندہ کو صرف اللہ کی قسم کھانے کا حکم ہے۔ نقصان اور خسارہ کی بظاہر عمومیت جتلائی گئی ہے، لیکن یہ مشروط ہے، صرف وہی لوگ خسارہ سے محفوظ و مامون رہیں گے جنہوں نے نیک اعمال کیے، بلکہ حق بات کو چھپایا بھی نہیں اور اس کی خوب تبلیغ کی اور دوسری شرط ’’صبر‘‘ کی ہے۔ صبر تمام نامساعد حالات پر ہے، تمام مصائب پر ہے، نہ خود صبر و شکیب کی تاب لائیں ، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تاکید کریں۔ تاکید کا مطلب ’’نیک اعمال‘‘ اور ’’صبر‘‘ کے فوائد کی ترسیل و ابلاغ عمل میں لائیں، تاکہ اللہ کی تخلیق کے منشاء کی اکملیت کے تقاضے پورے ہوں۔ دوسرے الفاظ میں کامیابی اور ناکامی کا معیار ہمارے ساتھ رکھے دیا گیا۔ یہاں دونوں قسم کی کامیابیاں شامل ہیں۔ دونوں نوعیت کے تقاضے شمار کیے جائیں گے۔ دینی و دنیوی، روحانی و مادّی ، کیوں کہ روحانی کامیابی ہی مادّی کامیابی کی کلید ہے، کنجی ہے، باب الفتح ہے، کامیابی کا دروازہ ہے، جس کے کھٹکھٹانے پر کوئی پابندی عائد نہیں۔ اگر آپ روحانی معیارات پر کامیاب ہیں، کامراں ہیں تو خودبخود ، مادّی اعتبار سے دنیوی کامیابیاں بھی حاصل ہوجائیں گی۔ آخرت کے حسنات کا آرزومند دنیا کے حسنات کو تو لوٹے گا ہی اس سے مالامال ہوگا۔
لیکن عصر حاضر میں مادّی نقطۂ نظر سے کامیابی اور ناکامی کا اصل معیار کیا ہوگیا ہے؟ یہی کہ مال و دولت ، زر و زمین، حیثیت و اقتدار، جاہ و حشم، دبدبہ و جلالت اور شہرت و ناموری!! پھر ان جھوٹے معیارات کو تسلیم کرتے ہیں تو گویا ’’روحانی تقاضوں سے روگردانی ہی نہیں بغاوت کر بیٹھتے ہیں اور ساری توانائیاں ان ہی غیرمستقل مقاصد کو حاصل کرنے میں صرف ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سورۃ العصر میں کامیابی اور ناکامی کے معیار کو قائم کیا گیا ہے اور یہ بتلایا گیا ہے کہ وہی لوگ کامیاب ہیں ، بامراد ہیں جو ایمان و یقین کی دولت سے مالامال ہیں اور ’’اعمالِ صالحہ‘‘ کو اپناتے ہیں اور حق بات کی اور صبر کی ایک دوسرے کو تاکید اور وصیت کرتے ہیں، چنانچہ روحانی زندگی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ایمان اور عمل صالح ، حق بات اور صبر کی قدروں کو اپنائیں۔ یہ ایسی قدریں (Values) ہیں جو ہمارے روئیے (Attitude) کو بدل کر رکھ دیتی ہیں اور ہمیں کامیابی ، فلاح و بہبود اور نجات سے ہم آہنگ کرتی ہیں۔ جہاں تک ایمان کا معاملہ ہے ہم سب اقرار باللسان تو کرتے ہیں، لیکن روحانی ترقی (Spiritual Development) کا تقاضہ ہے کہ ہم زبانی اقرار کے ساتھ ساتھ تصدیق بالقلب بھی کریں۔ اس منزل سے گزرنا ازحد ضروری ہے کہ یہی ’’اعمالِ صالحہ‘‘ کا سرچشمہ ہے۔ دوسری جگہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ اُوْلٰءِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃُ
(بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے وہی بہترین خلائق (لوگ) ہیں۔
ابن ماجہ کی حدیث کے مطابق ایمان نام ہے دل سے تصدیق کرنے کا ، زبان سے اقرار کرنے کا اور اعضاء سے عمل کرنے کا اور ایمان برہنہ ہے اور اس کا لباس تقویٰ ہے۔ (حاکم)
سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ’’فتح ربانی‘‘ میں ارشاد فرمایا ہے کہ ایمان ، قول و عمل کا نام ہے، کوئی قول بغیر عمل اور کوئی عمل بغیر اخلاص اور بغیر طریقۂ سنت کے قابلقبول نہیں ہوتا۔
قرآن حکیم ’’ایمان‘‘ اور ’’عمل صالح‘‘ سے آراستہ لوگوں کے لیے ’’کبھی موقوف نہ ہونے کی ثواب کی خوش خبری‘‘ بھی دیتا ہے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ ۔‘‘ (سجدہ)
اللہ تعالیٰ نے کتنی محبت اور شفقت سے اس امت کا نام ’’امتِ مسلمہ‘‘ رکھا ہے یعنی ’’ہُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ فرماں برداروں کی امت، اتباع کرنے والوں کی امت، حق بات کو ماننے والوں کی امت، حق سبحانہ و تعالیٰ کی اس الطافِ بیکراں پر تو نیازمند بندوں کو سجدوں میں گرجانا چاہیے، اس کی عظمت اور بڑائی کے صدقے جانا چاہیے ۔ اس عنایتِ بے پایاں پر تو اطاعت و فرمانبرداری کا میدان مار ہی لیتے ۔ افسوس صورتِ حال کچھ اور ہے، معاملہ بالکل برعکس ہے، صرف زبانی جمع خرچ، لسانی اقرار ، دلوں سے اقرار نہیں، اقرار بالقلب ندارد ، ورنہ ’’اعمالِ صالحہ‘‘ ہی سے ہماری پہچان ہوتی، نیک اعمال ہی سے ہم پہچانے جاتے، اچھے اعمال سے ہی لوگ ہمیں یاد رکھتے، کیوں کہ ایمان کی کاملیت ہی کے نتیجہ میں اعمالِ صالحہ صادر ہوتے ہیں۔ جب ’’ایمان و یقین‘‘ کی دولت ہی نہ ہو تو اعمالِ صالحہ کے سودے کہاں نظر آئیں گے؟ اعمالِ صالحہ سے دونوں فائدے ہیں ، روحانی اور مادّی ۔ روحانی فائدہ یہ ہے کہ غفور و رحیم ہماری بخشش فرمادے گا اور مادّی فائدہ یہ ہے کہ خیرالرازقین ہمیں ’’رزق کریم‘‘ عزت کی روزی عطا فرمائیں گے، جیسا کہ ان ہی کا ارشاد ہے: ’’فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَ رِزْقٌ کَرِیْمٌ ‘‘ د یکھئے مولاکا فضل و کرم اور دین و دنیا کی بشارتیں! اس لیے عصر حاضر کا تقاضہ ہے کہ ہم ’’اعمالِ صالحہ‘‘ کو اپنائیں، جس کا ذکر قرآن میں ہمیشہ ایمان کے جزوِ لاینفک کے طور پر آیا ہے، لیکن ایمان و عمل صالحہ ’’لازم و ملزوم‘‘ ہیں، ایک کو ڈھونڈیں تو دوسرے کا پتہ ملتا ہے۔ ایک خوبی دوسری خوبی کی طرف لے جاتی ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن ہی کے مطابق تزکیۂ نفس اختیار کریں۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا (جس نے نفس کا تزکیہ کیا یا نفس کی پاکیزگی اختیار کی وہ کامیاب ہوا) قرآن نے نفس کی تین قسمیں بتلائی ہیں: امارہ ، لوّامہ اور مطمئنّہ۔ امارہ سے دور رہنے ، لوّامہ کو اختیار کرنے اور مطمئنّہ کی نعمتوں سے سرفراز ہونے کی دعوت دی گئی ہے: یَاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَءِنَّۃ o ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیْۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ کی بشارتیں دی گئی ہیں۔
ایک بات واضح ہوجائے کہ یہ جو تزکیۂ نفس ، تطہیر قلب ، تجلیۂ روح اور مجاہدات و ریاضیات کی بات ہے یہی تصوف ہے، طریقت کے اصول ہیں اور ’’احسان‘‘ کی منزلیں ہیں، اگرچہ کہ لفظِ تصوف دوسری صدی ہجری میں زبان زد خاص و عام ہوا۔ یہی اصحابِ نجوم الدین ، تابعین ، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، اولیاء کاملین اور صوفیائے کرام کا لائحۂ عمل اور مشن رہا ہے۔ یہ ’’حسنات‘‘ سے لبریز پیمانۂ عمل الوہیت کے جلووں کے مظاہر کو دیکھنے کی تب و تاب بخش سکتا ہے، مست و بے خود کرسکتا ہے۔ خشیتِ الٰہی سے انسانوں کو لرزہ براندام کرسکتا ہے کہ پھر کوئی خلیفۃ المسلمین امیر المومنین حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی طرح آہ و بکا کرے کہ کاش ! میں گھانس ہوتا، کاش میں پتھر ہوتا، شاید مجھ سے کوئی سوال نہ ہوتا! میں کیسے شہنشاہِ دوجہاں کا سامنا کروں قیامت کے دن! ؟
اگر یہ روحانی تقاضے پورے ہوگئے تو سمجھئے کہ ’’مادّی تقاضے‘‘ یعنی ’’دنیوی تقاضے‘‘ یا بشریت کے تقاضے بھی خود بہ خود پورے ہوجائیں گے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہم کامیابی اور ناکامی کے معیارات قائم کرنے کے لیے درکار ’’بصیرت‘‘ (Wisdom) سے عاری ہیں، کیوں کہ روحانی ہو یا مادّی دونوں تقاضوں کو پورے کرنے کے لیے ایک معیار ہونا ضروری ہے۔ تب ہی ہمارے ’’اعمالِ صالحہ‘‘ کی جدوجہد اس معیار کے تناظر میں رنگ لائے گی۔ پھر ایک بار یاد دلانا چاہوں گا کہ ’’روحانی ، پاکیزگی اور ریاضت ہی ہمارے لیے نتیجتاً دنیوی کامیابی کے دروازے بھی کھولتی ہے، اس لیے ’’دنیوی مقاصد‘‘ کی جدوجہد اور سعئ مسلسل ، روحانی تقاضوں کے تابع رہنا چاہیے، تب ہی آپ ’’ثواب الدنیا‘‘ اور ’’ثواب الآخرۃ‘‘ کے حقدار بنیں گے، ورنہ ’’خسارہمیں رہیں گے، جیسا کہ ’’لفی خسر‘‘ سے اس کی توضیح و تشریح ہوتی ہے۔
آئیے ! اب زمانہ کی بات پر ۔ زمانہ جاریہ یا زمانِ مسلسل ’’ازل‘‘ سے ’’ابد‘‘ تک پھیلا ہوا ہے۔ انسان کی تخلیق اوّل سے لے کر حیاتِ اخروی تک کے جملہ مراحل کا خلاق کائنات چشم دید گواہ ہے۔ انسان کے سامنے اس کی تاریخ اس کی محنت و مشقت کی زندگی اور رنج و الم سے بھرپور حیات کی داستانِ دلخراش بھی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کے تمام واقعات کا انسان کو علم ہے، اس لیے قرآن نے بھی بار بار اس طرف ہم کو متوجہ کیا ہے اور زمانہ بھی اس کا شاہد ہے:
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
زمانہ کی قسم، کھانا کچھ آسان مرحلہ نہ تھا۔ اللہ جل شانہ نے اس کی عظمت و افادیت کی خاطر ’’زمانہ‘‘ کی قسم کھائی ہے۔ خوابیدہ انسان کو بیدار کیا ہے۔ ’’ازل تا ابد‘‘ کے ایام کو گردش دی ہے۔ ہمارے لیل و نہار کے بارے میں سوال اٹھایا ہے۔ تمہارے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں، تمہارے دن و رات کا کیا عالم ہے؟ خالق کائنات کے آگے ہم سجدہ ریز ہوجائیں کہ اس نے ایک طرح کی بیداری پیدا کردی ہے، جھنجھوڑ دیا ہے۔ گویا کہا جارہا ہے کہ اے انسان ! اے اولادِ آدم! اے ابن آدم! تیرا اصل سرمایہ وقت ہے، جوتیزی سے گزر رہا ہے، ایک مہلت ہے کہ تیزی سے ختم ہورہی ہے، ایک مدت ہے کہ سکڑ رہی ہے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: یتقارب الزمان و یقل العمل و یلقی الشح و تکثر او قال تظہر الفتن۔ (زمانہ سکڑ جائے گا، عمل کم ہوجائے گا، بخل عام ہوجائے گا، فتنے زیادہ ہوں گے یا ظاہر ہوں گے۔) (بخاری شریف)
’’زمانہ سکڑ جائے گا‘‘ اگر اس کو سائنسی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے صدقے جائیں کہ پندرہ صدیوں پہلے آج کی سائنسی حقیقت کا اظہار فرمادیا۔ آج زمانہ سکڑ گیا ہے، وقت اور فاصلے یعنی زماں و مکاں لپیٹ دیئے گئے ہیں، کوئی سورج ڈوبنے کے وقت سفر شروع کرتا ہے تو پھر سورج نکلنے کے وقت پہنچ جاتا ہے، بعض مرتبہ تو دو دو مرتبہ طلوعِ آفتاب کے مناظر کا شاہد بنتا ہے، خلائی پروازوں نے تو روشنی کی رفتار کے مطابق سفر کرتے ہوئے زماں ، مکاں سب کچھ ایک ٹھہرا دیا۔ ادھر نئی دریافت نیوٹروینوس (Neutronos) جن کو ذیلی جوہری ذرّات (Sub Atomic Partide) کہا جاتا ہے روشنی سے زیادہ تیزرفتاری نے تو بیسویں صدی کے مشہور و مستند نظریہ زماں و مکاں ہی کو متزلزل ہی کردیا ہے، جس کو آئین سٹائین نے پیش کیا تھا۔ یہ ساری دریافتیں اشارہ کرتی ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زمانہ سکڑ رہا ہے‘‘ اس کی دوسری توجیہ جو اہم ہے یہ ہے کہ وقت بڑی تیزرفتاری سے گزر رہا ہے اس کی حتی المقدور قدر کرنی چاہیے کہ ہم ’’ایمان و یقین کی دولت‘‘ اور ’’اعمالِ صالحہ‘‘ سے سرشار اور مالامال ہوجائیں اور مولیٰ کی نعمتوں کو جی بھر کر سمیٹیں۔ ایسا اس لیے نہیں ہورہا ہے کہ ہم نے ایمان اور عمل صالح کو دو الگ الگ چیزیں سمجھ رکھا ہے۔ عصر حاضر کا یہ بنیادی تقاضہ ہے کہ اس خلیج کو پاٹ دیں اور ایمان و عمل کو لازم و ملزوم جانیں، ایک کو دوسرے کا نتیجہ جانیں، خود کو سنواریں، معاشرہ کی تہذیب کریں، زمانہ کی اصلاح کریں۔ ’’عصر حاضر‘‘ ہو کہ زمانہ مستقبل ‘‘ سب کو احکاماتِ الٰہی اور فرموداتِ رسولؐ کے مطابق کردیں اور فوز و فلاح اور رشد و سعادت سے ہم کنار ہوں، فیضیاب ہوں اور یہ بہرہ مندی جاری و ساری رہے۔ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ سمیع و بصیر، علیم و خبیر ، بلکہ ’’انہ سمیع قریب‘‘ ہے تو یہ بے خبری کیسی؟ آپ کی ہر حرکت، ہر گفتگو ، ہر عمل بلکہ دلوں کے ارادوں کا تک احاطہ کرلیا گیا ہے تو یہ غفلت چہ معنی دارد؟ حضرت والاؐ کا ارشاد ہے کہ گناہِ کبیرہ کرتے وقت ایمان معطل ہوجاتا ہے تو کیا ہم یہ معطلی گوارا کرسکتے ہیں؟ اور ایمان و یقین سے بے بہرہ ہونا پسند کریں گے؟ اس لیے ایمان تو الحمد للہ ہے ’’عمل‘‘ کرنا چاہیے۔ واضح ہو کہ ’’عمل اور فعل‘‘ قریب المفہوم الفاظ ہیں، باریک فرق ہے، ’’فعل‘‘ ہر حرکت کو کہتے ہیں، جب کہ ’’عمل‘‘ محنت طلب ہے۔ عمل صالح سے مراد روحانی ترقی کے لیے، تزکیۂ نفس کے لیے ، تصفیہ قلب کے لیے اور تجلیۂروح کے لیے ریاضت و عبادت ۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
سورۃ التین میں کہا گیا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں تخلیق کیا ہے۔) گویا ’’نقشہ ترا دلکش ہے صورت تری پیاری ہے‘‘ لیکن اس دلکش صورت کے ساتھ ہماری ’’اعمالِ صالحہ‘‘ کو لے کر کشمکش کہاں جاری ہے؟ یہاں ہم نے خالق کائنات کے ’’بھرم‘‘ کو قائم رکھ نہ سکے، جس نے حسنت خَلقی کہا تھا اس کو حسنت خُلقی کا جواب دے نہ سکے۔ فتنوں میں آزمائشوں میں پورا اُتر نہ سکے اور نعوذ باللہ ’’اسفل السافلین‘‘ کی قعرپستی میں گرے جارہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ’’ماحول، سازگار نہیں، آزمائش سخت ہے، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ’’فتنہ‘‘ استعمال فرمایا ، لیکن اس کا علاج یہی ہے کہ ماحول کو تبدیل کیا جائے، تبدیلی بھی مرحلہ واری لائی جائے، کیوں کہ کوئی بھی تبدیلی یا تغیر یکلخت نہیں ہوتا، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: من رایٰ منکم منکرا فلیغیّرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ و ذٰلک اضعف الایمان
(تم میں جو کوئی غلط بات دیکھے تو اس کو ہاتھ سے روک دینا چاہیے، اگر ایسا نہ ہوسکے تو زبان سے روکنا چاہیے ، اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل میں اس خرابی کو برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور درجہ ہے۔)
زمانہ با تو نہ سازد تو با زمانہ بہ ساز کا معاملہ ہوگیا ہے۔ زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے یہ رخصت تو نہیں دی جاسکتی کہ آپ زمانہ کے رنگ ہی میں رنگے جائیں۔
’’زمانہ‘‘ کے تعلق سے ارشادِ نبویؐ یہ بھی ہے کہ : ’’و لا یأتی علی الناس زمان الا و الذی بعدہ شر منہ حتی تلقوا ربّکم۔‘‘
لوگوں پر آنے والا ہر زمانہ، سابقہ زمانہ سے بدتر ہوگا، حتیٰ کہ تم اپنے رب سے آملوگے۔
عصر حاضر تو ایک ’’دورِ پرفتن‘‘ ہے ، جس کا سلامت روی اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا جانا چاہیے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری تربیت کے لیے یہ بھی فرمایا کہ کسی بھی چیز میں رفق اور نرمی اس کی زینت کا باعث ہے اور کسی بھی چیز سے رفق اور نرمی کا چھن جانا اس کے لیے عیب کا باعث ہے۔ و ما کان الرفق فی شئ الا زانہ و ما نزع شئ الا شانہ‘‘
عصر حاضر کا تقاضہ ہے کہ معاملات میں نرم روی اختیار کریں، ہر کام میں صبر و شکیب کی روش اپنائی جائے، نہ تو غیظ و غضب کا شکار ہوں اور نہ ہی نرم روی کو خیرباد کہہ دیں، آراستہ و پیراستہ چیزوں کو لیں، اچھی و احسن باتوں کو اپنائیں، ناشائستہ اور معیوب باتوں سے اجتناب کریں، دینی اور دنیوی فلاح اس بات کا بھی تقاضہ کرتی ہے کہ معاملات میں عدل و انصاف اور اعتدال کو ملحوظ رکھیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاِعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَاقُرْبٰی (اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو گو وہ شخص قرابت دار ہی کیوں نہ ہو۔) پھر یہ بھی کہا گیا کہ کسی قوم کی عداوت بھی ہمیں ناانصافی پر آمادہ نہ کرے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ کسی قوم کی عداوت تمہیں خلافِ عدل (باتوں) پر آمادہ نہ کردے ، تم انصاف کرو کہ وہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے۔) فتنہ و آزمائش میں اتحاد و اتفاق کی پاسداری اور اختلاف و انتشار سے دوری بھی عصر حاضر کا ایک ضروری مطالبہ ہے، جیسا کہ قرآنی احکامات ہیں:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَ لَا تَفَرَّقُوْا
اور حدیث نبویؐ بھی ہے: الجماعۃ رحمۃ و الفرقۃ عذاب ۔ (مسند احمد)
مسالک اور مناہج کی کثرت کے باوجود بنیادی اسلامی قدروں میں اتحاد و اتفاق کی کافی وسعتیں موجود ہیں، اسی وسعت و گنجائش کو اشتراک و تعاون کے لییاستعمال کیا جاسکتا ہے۔
اکیسویں صدی معلومات کی صدی ہے، اطلاعات و ٹکنالوجی نے ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ عالمیت (Globalization) نے ساری دنیا کو ایک عالمی دیہات میں تبدیل کردیا ہے۔ مسلمان بھی اس تحریک کی اچھی قدروں کو اپناسکتے ہیں، جو دنیی اقدار سے متصادم نہ ہوں۔ جہاں تک مسابقت کا معاملہ ہے ہم عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ہر شعبہ میں علم نافع حاصل کرسکتے ہیں، کیوں کہ علم و ہنر اور اہلیت و صلاحیت ہمارے مقابلہ و مرتبہ کو اتنا بلند کرسکتی ہے کہ ہم اس بلندی سے دین و دنیا کے حسنات حاصل کرسکتے ہیں، ترقی کے امکانات اور مواقع پیدا کرسکتے ہیں، تحصیل علم تو فرضیت کے درجہ میں ہے، علمِ نافع کی خاطر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر کے اسیروں کو علم سکھانے پر مامور کیا؟ تو کیا ان قیدیوں نے دینی علم سکھایا تھا؟ نہیں وہ ’’علم نافع تھا جو اس زمانہ سے متعلق تھا۔ ہوسکتا ہے وہ بنیادی حساب کتاب ہی ہو؟ لسانی قاعدہ ہی ہو؟ یعنی ’’نفع بخش علم حاصل کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے اور ہم کو اس عظیم تقاضے کو پوری محنت اور جستجو کے ساتھ پورا کرنا چاہیے۔
کیا ہم اس عصر حاضر کو انسانی ترقی کے اعتبار سے ایک ترقی یافتہ دور کہہ سکتے ہیں، کیوں نہیں؟ انسان چاند پر قدم رکھ چکا ہے، مریخ پر کمند پھینک رہا ہے، سمندروں کے سینوں کو چیر کر رکھ دیا ہے، نئی نئی دنیاؤں کی تلاش میں ہے، کلوننگ کے ذریعہ ’’تمثیلی تولید‘‘ میں کامیابی حاصل کرلی ہے، لیکن اس کے باوجود انسان خوفزدہ بھی ہے کہ آن کی آن میں جوہری جنگ سے وہ تباہ بھی ہوسکتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے وہ ’’اجتماعی موت‘‘ کے دہشت سے لرزہ براندام ہے۔ انسان مادّی طور پر تو ترقی یافتہ ہے ، لیکن روحانی ارتقا مفقود ہے، چاند ستاروں کو شکار کرنے کے باوجود انسان کی آستین پر خود انسان کے خون کے چھینٹے ہیں۔ ان داغوں کو بہرحال اس کو مٹانا ہوگا۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب وہ راہِ مستقیم پر گامزن ہوگا!

Article : Modern Demands and Muslims
Writer : Dr. Mohiuddin Habibi

Share

One thought on “عصر حاضر کے تقاضے اور مسلمان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحی الدین حبیبی”

Comments are closed.

Share
Share