یوم عید الاضحی – – – – – محمد رضی الدین معظم

Share

محمد رضی الدین معظم
یوم عید الاضحی

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ،
شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2

مذہب دین اسلام میں عید خاص قسم کی خوشی فرحت و مسرت کا نام ہے۔ اس لئے کہ اللہ رب العزت نے عید کے دنوں میں مخصوص انعام بندوں کو عطا کرتے ہیں۔ اس لئے دونوں دنوں یعنی عید الفطر اور عید الاضحی میں دو دو رکعت مخصوص طریقہ سے مخصوص اوقات میں ادا کرنا بطور شکرانہ واجب ہوگیا۔ عید الاضحی میں عبادت اور قربانی کا ثواب بہت زیادہ ملتا ہے۔ اس لئے کہ عید الاضحی کا مقصد حیات ناپائیدار کے ہر موڑ پر قربانی جاں نثاری تسلیم ورضا اخلاص و تقویٰ کی روح پیدا کرنے کے ساتھ راہ للہ اپنا سب کچھ صدق دل سے لٹا کر قربان کردینے کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ جس کا نمونہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ الصلوٰۃ اجمعین کے کتاب زیست سے ہمیں حاصلہ وتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام جب کافی ضعیف ہوچکے ہے ‘ معاً ان میں احساس قلبی ہوا کہ دینی فرائض کی تکمیل کے لئے ان کے پاس کوئی اور نہیں ہے‘ لہٰذا ان کے نحیف و ناتواں دست مبارک ایک صالح عظیم لڑکے کی آرزو و تمنا میں بارگاہ رب العزت میں اٹھ گئے اور حضرت ابراہیم ؑ کی دعا رب ذوالجلال میں قبولیت حاصل کی اور حضرت ابراہیم ؑ کو فرزند ارجمند عطا کیا گیا۔ فرزند محترم حضرت اسماعیل ؑ شیر خواری ہی میں تھے کہ آزمائش سے گذرنا پڑا۔۔۔
جب حضرت اسماعیل ؑ کچھ بڑے ہوئے تو حضرت ابراہیمؑ خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے نور چشم کو راہ للہ قربان کررہے ہیں۔ نیند سے بیدار ہونے پر مہ نورچشم حضرت اسماعیل ؑ سے فرمایا یبنی الٰی اریٰ فی المنام انی اذ بحک فانظر ماذا تری ( آیت ۲۔۱ سورہ صٰفٰت، پ:۲۳) اے میرے بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) تم کو ذبح کررہا ہوں‘ تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ تو نور چشم فرزند محترم نے انتہائی سنجیدگی حلم و بردباری ایثار و قربانی کا مظاہرہ فرمایا اور یوں گویا ہوئے یا ابت افعل ما تو مر ستجد نی ان شاء اللّٰہ من الصابرین (آیت ۱۰۲ : سورہ صٰفٰت پ:۲۳)( انہوں نے کہا ابا جان جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجئے۔ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔۔۔) پس اس طرح حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ دونوں بحکم ربانی جسم و جاں سے راہ للہ قربانی کے لئے تیار ہوگئے اور چشم فلک نے ہر بار یہ فدا کا رانہ آزمائشی و امتحانی منظر دیکھا کہ ایک ضعیف باپ اپنے اکلوتے فرزند کو جو بڑھاپے کا سہارا بھی ہیں‘ اپنے ہی ہاتھوں محض خواب میں دیکھے ہوئے حالات کو عملی جامہ پہنارہا ہے ۔ اللہ ذوالجلال نے اس جذبہ فداکاری کو دیکھ کر آواز دی اے ابراہیم ؑ قد صدقت الرؤیا انا کذالک نجزی المحسنین۔ ان ھذا البلاء المبین ۔ و فدیناہ بدبح عظیم ۔ وترکنا علیہ فی الآخرین۔ (پ:۲۳ ۔ صٰفٰت) ’’تم (حضرت ابراہیم ؑ ) نے خواب کو سچا کردکھایا‘ ہم نیکو کا روں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا اور پیچھے آنے والوں میں ابراہیم ؑ کا (ذکر خیر باقی) چھوڑ دیا۔‘‘ یعنی اللہ رب العزت نے حضرت اسماعیل ؑ کے بدلے ایک جنتی دنبہ ذبحکروایا بس اللہ کو یہ قربانی اتنی پیاری ہوئی کہ ہر سال عیدالاضحی کے موقع پر لاکھوں جانور ذبح کرکے مسلمانان عالم اسی ذبح عظیم کی یاد تازۃ کرتے ہیں اور جانوروں کو ذبح کرکے راہ للہ سب کچھ قربان کردینے اور احکامات و قوانین کی بجاآوری کا عہد پیمان کرنے پر فخر و ناز محسوس کرتے ہیں۔
یوم عید الاضحی کو عبادت (نماز عید الاضحی) اور قربانی کا ثواب بہت زیادہ ملتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیک کام کے لئے بقر عید کے مقررہ دنوں سے زیادہ پسندیدہ خدا کے یہاں دوسرے دن نہیں۔ صحابہ اکرامؓ نے پوچھا یا رسول اللہؐ! جہاد فی سبیل اللہ بھی ۔ نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں لیکن ایسا شخص کہ اپنی جان و مال کو لے کر جہاد کے لئے نکلے اور پھر اپنی جان و مال سے کوئی چیز لے کر واپس نہ ہوا‘ ایسا شخص افضل و برتر ہے۔ (بخار ی شریف) ۔ حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ صحابہ کرامؓ نے رسول معظمؐ سے دریافت کیا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ تو حضور اکرمؓ نے فرمایا کہ تمہارے باپ حضرت ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا اس میں ہمارے لئے کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے (ابن ماجہ شریف) حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ حضور انورؐ نے فرمایا کہ جو اہل ثروت ہو یعنی اپنے مال سے قربانی کرسکتا ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو ہماری عید گاہ کے قریب قطعاً نہ آئے (ابن ماجہ شریف)۔ ایک بار حضور نبی ممتاز معظم المرسلین ؐ نے قربانی کے متعلق تاکیدی حکم فرمایا کہ اے لوگو! ہر گھر والوں کے ذمہ ہر سال قربانی کرنا ضروری ہے۔ (ابوداؤد) رسول معظم ؐ نے خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تم اپنی قربانی کے پاس ذبح کے وقت ضرور کھڑی ہوجاؤ‘ کیونکہ جانور کے خون کا قطرہ گرنے سے پہلے تمہارے سب گناہ معاف ہوجائیں گے۔ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا یہ فضیلت و ثروت ہم سب اہل بیت کے لئے ہی ہے یا ہر مومن اور مسلمان کے لئے؟ رسول اکرمؐ نے فرمایا: تمام مومن اور مسلمانوں کے لئے بھی ہے۔ (بزار ترغیب) رسول معظمؐ نے بار بار فرمایا کہ قربانی کے لئے جانور کو فربہ موٹا اور بڑا ہو کیونکہ یہی جانور پلعمل بھی قربانی سے زیادہ اللہ رب العزت کو پیارا نہیں اور فرمایا کہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگوں‘ بالوں‘ چمڑوں سمیت آئے گا اور قربانی کا قطرۂ خون زمین پر گرنے سے قبل ہی اللہ کے نزدیک قبولیت حاصل کرجاتا ہے۔ لہٰذا قربانیوں کے لئے کسی قسم کی کوتاہی لغزش سے حتی الامکان بچتے رہو کہ یہی تمہارے لئے اجر عظیم و عطیہ اکرم ہے (ترغیب)

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340

Share
Share
Share