سانیٹ : تعارف و تجزیہ – – – – – عبدالعزیزملک

Share

abdul malik سانیٹ
سانیٹ : تعارف و تجزیہ

عبدالعزیزملک
لیکچرار اردو
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد
(0923447575487)

سانیٹ شاعری کی ایک ایسی صنف ہے جویورپ کی متعدد زبانوں میں صدیوں سے قبولیت پذیری کی مسند پر متمکن ہے۔ انگریزی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو کئی اصنافِ سخن مختلف اوقات میں قارئین کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ان میں ’’ایپک‘‘(Epic)،’’ڈراما‘‘(Drama)،’’بیلڈ (Ballad)’’لیرک‘‘(lyric)،’’اوڈ‘‘(Ode)، ’’ایلیجی‘‘(Elegy) اور’’سانیٹ‘‘(Sonnet) خا ص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ سانیٹ ان تمام اصناف میں ممتاز اور فنی اعتبار سے پختہ صنفِ سخن ہے۔دیگر اصنافِ سے اگر اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ صنف انگریزی میں زیادہ معروف بھی ہے اور مقبول بھی۔اردو زبان میں بھی انگریزی شاعری کے زیر اثر سانیٹ تخلیق کرنے کارواج پروان چڑھا۔ان میں اختر شیرانی ، ن م راشد،شائق بریلوی،اوم پرکاش اوج، روشن لال نعیم،احمد ندیم قاسمی،منوہر لال ہادی ،نذیر مرزا برلاس ،عزیز تمنائی اورناظم جعفری وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں جنھوں نے اردو سانیٹ نگاری کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔

سانیٹ اطالوی لفظ’’سانیتو‘‘ (Sonetto) سے ماخوذہے۔ ’’سانیتو‘‘ کے معنی ’’مختصر آواز یا راگ ‘‘ کے ہیں ۔اصطلا ح میں سانیٹ چودہ مصرعوں پر مشتمل اس نظم کو کہتے ہیں ،جس میں قوافی کی ترتیب مقررہ اُصولوں کے تحت خاص انداز میں صورت پذیر ہوتی ہے۔وحدتِ خیال اور احساس کی شدت سانیٹ کے لازمی عناصر تصور کیے جاتے ہیں۔سانیٹ بنیادی طور پر غنائی شاعری کی صنف ہے۔ذہن میں رہے کہ غنائی شاعری کی تمام اصناف سازوں کی ہم آہنگی کے لیے عمل میں لائی گئی تھیں ۔ مثلاًلیرک(lyric)کی ایجاد ’’لائر‘‘(lyre)کی ہم آہنگی کے لیے کی گئی تھی۔’’لائر‘‘ گٹار یا ستار کی ساخت کے مماثل ایک ساز ہوتا ہے۔بعینہٖ سانیٹ کا ظہور بھی موسیقی کی ضروریات کے پیش نظر ہوا تھا،لیکن موسیقی سے اس کی وابستگی زیادہ دیر نہ رہ سکی اورسانیٹ کی حیثیت محض ادبی ہو کر رہ گئی۔سانیٹ میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہئیت اور تکنیک کے تجربات سامنے آئے جن کی بنیاد پر سانیٹ کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ اطالوی سانیٹ(پیٹرارکن)
۲۔انگریزی سانیٹ (شیکسپیری)
۳۔ا سپینسری سانیٹ
اردو شاعری میں ان روایتی ہئیتوں سے ہٹ کر بھی تجربات ہوئے جن کا ذکر تھوڑا آگے چل کر پیش کیا جائے گا۔سرِ دست مذکورہ اقسام کی وضاحت مقصود ہے۔
اطالوی سانیٹ:
اطالوی سانیٹ قدیم اور پرانی شکل کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔اس کو با قاعدہ صنفِ سخن کے طور پر متعارف کروانے کاکام اطالوی شاعر ’’پیٹرارک‘‘سے منسوب کیا جاتا ہے۔اس نے اپنی ذہانت اور مہارت سے سانیٹ کی اس طرح فنی اور تکنیکی تکمیل کی کہ آج بھی پیٹرارک کا سانیٹ کلاسیکی سانیٹ تصور کیا جاتا ہے۔مواد اور ہئیت کے اعتبار سے یہ سانیٹ مخصوص تکنیک کو بروئے کار لاتا ہے۔اس میں چودہ مصرعے ہوتے ہیں جو دو بندوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ پہلا بند آٹھ مصروں(مثمنOctave) سے تشکیل پذیر ہوتا ہے۔جو خود چار چار مصرعوں (مربع)کے دو بندوں سے بنتا ہے۔دوسرا بند چھ مصرعوں (مسدسSestet)پر مشتمل ہوتا ہے۔مثمن حصے میں دو قافیے استعمال ہوتے ہیں،جن کی ترتیب درج ذیل ہو گی:
۔۔۔۔۔۔۱
۔۔۔۔۔ب
۔۔۔۔۔ب
۔۔۔۔۔۔ا
۔۔۔۔۔۔۱
۔۔۔۔۔ب
۔۔۔۔۔ب
۔۔۔۔۔۔ا
مذکورہ ترتیب سے واضح ہوتا ہے کہ پہلا مصرعہ چوتھے ،پانچویں اور آٹھویں مصرعے سے ہم قافیہ ہوگا۔دوسرا مصرعہ تیسرے،چھٹے اور ساتویں مصرعے سے ہم قافیہ ہوگا۔مثمن کے لیے قوافی کی مذکورہ ترتیب ہی معیاری ترتیب تصور کی جاتی ہے۔ اگر کوئی شاعر اس سے انحراف کرے گا تو یہ اس کی غلطی تصور کی جائے گی۔
سانیٹ کا دوسرا حصہ جو مسدس ہوتا ہے مزید تین تین مصرعوں (مثلث)کے دو بندوں پر مشتمل ہوتا ہے۔مسدس حصے میں مثمن کے برعکس دو سے زائد قافیے استعمال کیے جاتے ہیں۔عموماً قوافی کی ترتیب اس طرح ہوتی ہے۔
اگر دو قوافی استعمال کیے گئے ہوں تو صورتِ حال درج ذیل ہوگی:
۔۔۔۔۔ج
۔۔۔۔۔۔د
۔۔۔۔۔ج
۔۔۔۔۔۔د
۔۔۔۔۔ج
۔۔۔۔۔۔د
درج بالاصورت میں سانیٹ کا نواں مصرع گیارہویں اور تیرھویں مصرعے کے ہم قافیہ ہوگا اور دسواں مصرع بارھویں اورچودھویں مصرعے کے ہم قافیہ ہوگا۔
اگر قوافی کی تعداد تین ہوتو:
۔۔۔۔۔۔ج
۔۔۔۔۔۔۔د
۔۔۔۔۔۔۔ہ
۔۔۔۔۔۔ج
۔۔۔۔۔۔۔د
۔۔۔۔۔۔۔ہ
تین قوافی کے استعمال کی صورت میں نواں مصرع بارہویں مصرعے کا،دسواں مصرع تیرھویں مصرعے کا اور گیارھوں مصرع چودویں مصرعے کا ہم قافیہ ہوگا۔درج بالاقوافی کی ترتیب میں معمولی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں لیکن عام شکلیں وہی رہیں گی جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔درج بالا تجزیے سے پٹرارک کی سانیٹ میں کل پانچ قافیے استعمال ہوتے ہیں ۔
نظم کی دیگر اصناف کی مانندسانیٹ بھی خیال ، جذبے اور احساس کا ترجمان ہوتا ہے ۔ وحدتِ خیال سانیٹ کی امتیازی خصوصیت تصور کی جاتی ہے۔خیال اور جذبے کی شدت کو بطور تمہید سانیٹ کے ابتدائی حصے یعنی مثمن میں پیش کیا جاتا ہے، کوئی سوال یا کوئی مسئلہ زیر بحث لایا جاتا ہے۔ آٹھ مصرعوں کے بعد ایک وقفہ ہوتا ہے جسے Caesuraکہا جاتا ہے۔اس وقفے کے بعد قصیدے کی طرح شاعر گریز سے کام لیتا ہے جسے سانیٹ کی اصطلاح میں voltaکہا جاتا ہے۔گریز یعنی وولٹا ا س بات کی دلیل ہے کہ خیال ابھی اختتام پذیر نہیں ہوا بلکہ اس کو نئی جہت عطا کر دی گئی ہے ۔ بعض صورتوں میں مثمن(Octave)میں پیش کردہ خیال کی تردید مسدس حصے میں کی جاتی ہے یا ان ذہنی الجھنوں ،پیچیدگیوں اورپریشانیوں کو سلجھایا جاتا ہے،جو تمہید کے طور پر سانیٹ کے پہلے حصے میں بیان کی جاتی ہیں ۔گریز میں شاعر کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ کس مہارت اور چابکدستی سے خیال کو نیا رخ عطاکرتا ہے کہ سانیٹ میں وحدتِ خیال کو گزند بھی نہ پہنچے اورخیال کادوسرا رخ بھی اس انداز سے سامنے آئے کہ اس کا تسلسل برقرار رہے۔انگریزی ادب میں پٹرارک کے انداز پہ سانیٹ ملٹن ، ورڈورتھ اور کیٹس نے کامیابی سے پیش کیے ہیں ۔اردوشاعری میں سانیٹ کی مثال ملاحظہ ہو:
کسی کو عیش میں دیکھا ، کسی پر زحمتیں دیکھیں
کسی کو خوابِ راحت میں ،کسی کو بے قراری میں
کسی کے یار ہم پہلو، کسی کو دل فگاری میں
کسی کو نشہ دولت ،کسی پر آفتیں دیکھیں
غضب کے ولولے دیکھے، بلا کی حسرتیں دیکھیں
کسی کے دن گزرتے دیکھے ذلت وخواری میں
کسی کی رات کٹتے دیکھی فریاد اور زاری میں
نہیں معلوم ان آنکھوں سے کیا کیا صورتیں دیکھیں
۔۔۔۔۔۔۔
جہاں میں اس قدر اضداد کیوں ہے ماجرا کیا ہے؟
بہت کچھ اپنا سر مارانہ کچھ اس کا پتا پایا
کسی اللہ والے سے جو پوچھوں تو یہ کہتا ہے
مقدر ہے یہ اس کا بھید تو ہرگز نہ سمجھے گا
کوئی کہتا ہے باعث اس کا فطرت کا تقاضا ہے
مگر، کیا مصلحت اس میں ہے یا رب کچھ نہیں کھلتا (عظیم الدین احمد)
انگریزی سانیٹ:
ارل آف سرے ہنری ہارورڈ نے سولہویں صدی کے نصف اول میں انگریزی سانیٹ کی نئی شکل وضع کی جو تکنیک کے لحاظ سے اطالوی سانیٹ سے مختلف تھی۔انگریزی سانیٹ میں اطالوی سانیٹ کے برعکس پانچ کی بجائے سات قافیے استعمال ہوتے ہیں۔مذکورہ فارم دو حصوں کی بجائے چار حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔اس میں تین (مربع)Quatrainsشامل ہوتے ہیں اور آخر میں دو ہم قافیہ مصرعے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ہر مربع میں دو دو قافیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ان قوافی کی ترتیب کچھ یوں ہوتی ہے:
پہلا مربع: ۔۔۔۔۔۔۔۱
۔۔۔۔۔۔ب
۔۔۔۔۔۔۔۱
۔۔۔۔۔۔ب
دوسرا مربع :۔۔۔۔۔۔ج
۔۔۔۔۔۔۔د
۔۔۔۔۔۔ج
۔۔۔۔۔۔۔د
تیسرا مربع:۔۔۔۔۔۔۔ہ
۔۔۔۔۔۔۔و
۔۔۔۔۔۔۔ہ
۔۔۔۔۔۔۔و
آخری حصہ: ۔۔۔۔۔۔ز
۔۔۔۔۔۔ز
ہنری ہارورڈ کے اس انداز کو شیکسپئیرنے دوام بخشا اور اسے اتنی مقبولیت نصیب ہوئی کہ یہ اپنے موجد کے نام کے بجائے ولیم شیکسپئیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔پیٹرارک کے سانیٹ کی طرح اس میں آٹھویں مصرعے کے اختتام پر وقفہ اور گریز نہیں ہوتا۔اس میں خیال آغاز سے انجام تک ایک ہی انداز میں کارفرما رہتا ہے۔آخری دو مصرعوں میں خیال اپنے نقطہ عروج کو چھوتا دکھائی دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انگریزی سانیٹ میںآخری دو مصرعے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔انگریزی سانیٹ میں فنکار کے فن کا امتحان ان ہی آخری دو مصرعوں میں نمایاں ہوتا ہے۔ وقفہ اور گریز کی عدم موجودگی اور پانچ کے بجائے سات قوافی کاا ستعمال انگریزی سانیٹ کو اطالوی سانیٹ کے مقابلے میں سہل بنا دیتا ہے۔فنی اور تکنیکی اعتبار سے یہ سانیٹ اطالوی سانیٹ کے مقابلے میں کم حیثیت ہے اسی باعث اسے بے ضابطہ سانیٹ بھی کہا جاتا ہے۔شیکسپئیر سے پہلے سر فلپ سڈنی اس تکنیک کے مطابق سانیٹ تخلیق کر رہاتھا۔شیکسپئیر اس لیے اہم ہے کہ اس نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اس کو دوام بخشا۔شیکسپئیری سانیٹ کی اردو میں مثال ملاحظہ ہو:
محبتوں کا مارا بستر پر جو میں سونے لگا
بہترین راحت سفر سے چور اعضا کے لیے
بس وہیں سود از وہ دل کو سفر ہونے لگا
جب تھکا تن دل چلا سیر و تماشا کے لیے
میں جہاں ہوں اس جگہ سے یہ تمنائے دل
اس گھڑی لے جاتی ہے تیری زیارت کے لیے
ہر طرف چھایا ہے جب گو دونوں آنکھیں ہیں کھلی
وہ اندھیرا جو منافی ہے بصارت کے لیے
پر تیری تصویر کو میرے قوائے باطنی
جب لگا لاتے ہیں چشمِ بے بصر کے سامنے
یوں دماغ و دل میں ہو جاتی ہے اس دم روشنی
جیسے عکس مہ چمک جائے نظرکے سامنے
۔۔۔۔۔۔۔۔
دن کو ہے بس کوچہ گردی، شب کو فانوسِ خیال
یہ ہے میرے دن کی کیفیت، یہ میری شب کا حال (عظیم الدین احمد)
اسپنسری سانیٹ:
انگریزی ادب میں اسپنسر نے سانیٹ کی بالکل نئی ہئیت کو متعارف کروایا۔ اسپنسر ی سانیٹ میں بھی تین مربعے ہوتے ہیں اور شیکسپئیری سانیٹ کی طرح اس کے پہلے مربعے کا پہلا مصرع تیسرے مصرعے سے اوردوسرا مصرع چوتھے مصرعے کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔اسپنسری سانیٹ کا شیکسپئیری سانیٹ سے فرق وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں ہر مربعے کا آخری مصرع بعد میں آنے والے مربعے کے پہلے مصرعے سے ہم قافیہ ہوتا ہے۔اسی طرح پہلے مربعے کا دوسرا مصرع دوسرے مربعے کا پہلا قافیہ بن جاتا ہے اور دوسرے مربعے کا دوسرا قافیہ تیسرے مربعے کا پہلا قافیہ بن جاتا ہے۔ آخری دو مصرعے شیکسپئیری سانیٹ کی طرح اسپنسری سانیٹ میں بھی ہم قافیہ ہوتے ہیں اور باقی تین بندوں سے الگ ہوتے ہیں۔اسپنسری سانیٹ میں قوافی کی ترتیب کچھ یوں ہوگی:
پہلا مربع: ۔۔۔۔۔۱
۔۔۔۔ب
۔۔۔۔۔۱
۔۔۔۔۔ ب
دوسرا مربع:۔۔۔۔۔ب
۔۔۔۔۔ج
۔۔۔۔۔ب
۔۔۔۔۔ج
تیسرا مربع:۔۔۔۔۔ج
۔۔۔۔۔۔د
۔۔۔۔۔ج
۔۔۔۔۔د
آخری شعر:۔۔۔۔۔د
۔۔۔۔۔ہ
قوافی کی اس ترتیب سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس میں بھی پیٹرارکی سانیٹ کی مانند پانچ قوافی مستعمل ہیں۔اس کاچار حصوں میں منقسم ہونا شیکسپئیری سانیٹ سے مماثلت پیدا کرتا ہے،لیکن قوافی کی ترتیب ،اسے شیکسپئیری سانیٹ سے جداحیثیت عطاکرتی ہے۔اسپنسر کی ایجاد کردہ یہ طرز عوام میں مقبولیت حاصل نہ کر سکی۔اسپنسری سانیٹ کی اردو مثال ملاحظہ ہو:
مل کے اک جان ہوئے دو نیم ہم رشتہ بدن
روح کی پیاس بجھی جسم کے پیمانے سے
یک بیک کھلنے لگے جاگتے خوابوں کے چمن
بڑھ گیا لطف حقیقت ہر اک افسانے میں
۔۔۔۔۔۔۔
ہم سفر جسموں کے خلوت میں قریب آنے سے
نور برسانے لگا محفل قدسی کا شباب
تیرہ بختی گئی اک رات کے آجانے سے
صبح تقدیر نے الٹی رخِ روشن سے نقاب
۔۔۔۔۔۔۔۔
آہ ! وہ رات کہ تھی سیکڑوں صبحوں کا جواب
کھو دیا میں نے اسے دن سے اجالوں میں کہاں
میں نے ہر رات میں دیکھے ہیں اسی رات کے خواب
کاش بن جائیں حقیقت یہ مرے خواب جواں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش مل جائے مجھے پھر سحر آثار وہ رات!
پھر میری عمرِ گریزاں کو میسر ہو ثبات! (حنیف کیفی)
اردو شاعری میں سانیٹ کی روایت کا جائزہ لیا جائے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ اردو میں نہ صرف اطالوی اور شیکسپئیری سانیٹ وجود میں آئے بلکہ دو نئی ہئیتوں میں سانیٹ لکھنے کا رواج ہوا ۔ان میں ایک ’’اردو سانیٹ‘‘ اور دوسرا’’شیرانی سانیٹ‘‘ ہے۔اردو سانیٹ شیکسپئیری سانیٹ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔شیکسپئیری سانیٹ کے برعکس اس میں قوافی کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے۔’’ا،ب،ب،ا ‘ج،د،د،ج‘ھ،و،وھ‘ ز،ز‘‘اس طرح اردو سانیٹ میں پہلا مصرع چوتھے مصرع کا اور دوسرا مصرع تیسرے مصرعے کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔اردو سانیٹ کی مروجہ ہئیت کی بنیاد کس نے رکھی اس کے بارے میں حتمی رائے دینا مشکل کام ہے۔اختر شیرانی نے سانیٹ کی ایک نئی ہیئت کو رواج دیا جو ان کے نام سے موسوم ہو ئی۔ شیرانی سانیٹ میں قوافی کی ترتیب یوں ہوتی ہے۔’’ا،ب، ب،ا‘ا،ب،ب،ا‘ج،د،د،ج‘ہ،ہ‘‘شیرانی سانیٹ کا مثمن حصہ پیٹرارکی سانیٹ سے مماثل ہے۔مسدس حصے میں قوافی کی ترتیب ذرا مختلف ہے جو وائٹ کے سانیٹ سے مماثل ہے۔اس ضمن شیرانی کے سانیٹ ’’ عذرا‘‘ کی مثال ملاحظہ ہو:
عذرا
پری و حور کی تصویر ناز نیں عذرا
شہیدِ جلوۂ دیدار کر دیا تونے
نظر کو محشرِ انوار کر دیا تونے
بہارو خواب کی تنویر مر مریں عذرا
شراب و شعر کی تفسیر دل نشیں عذرا
دل و دماغ کو سر شار کر دیا تونے
شباب و شعر کو بیدار کر دیا تونے
مری حسیں مری ناز آفریں عذرا
دیارِ دل میں تو آئی بہار کی صورت
گدائے حسن سے اظہارِ عشق تونے کیا
گناہ گار سے اقرارِ عشق تونے کیا
بسی دماغ میں کیف و خمار کی صورت
مٹا سکے گا نہ اب دور آسماں مجھ کو
کہ ہے نصیب تیرا عشق نوجواں مجھ کو (اختر شیرانی)
موضوع کے اعتبار سے دیکھا جائے تو سانیٹ اور غزل میں بڑی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔جس طرح ابتدائی دور میں غزل حسن و عشق کے لیے مختص تھی، اسی طرح سانیٹ کا موضوع بھی حسن و عشق ہی تھا۔پیٹرارک سے لے کر عہدِ الز بتھ تک کے تقریباً تمام شعرا نے سانیٹ میں اسی موضوع کو برتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی میں سانیٹ سے مراد مخصوص قسم کی عشقیہ نظم مراد لی جاتی ہے۔سانیٹ نگار کی محبوبہ غزل گو کے محبوب کی مانند بے رحم ، جفاکار،اور بے حس ہوتی ہے، جب کہ عاشق وفادار اور دل و جان سے اس پر فدا ہوتا ہے۔وہ اس کے عشق میں دیوانہ ہے اوراس کے غم میںآ ہیں بھرتا،اس کے ستم پر غصے کا اظہار کرتا اورالتفات کی بھیک مانگتا دکھائی دیتا ہے۔سولہویں صدی تک سانیٹ ان ہی موضوعات کے لیے مختص رہا ۔ملٹن نے اس روایت کو توڑا اور اس میں ذاتی معاملات اور ملکی حالات کو منظوم کر کے اس کا دامن وسیع کیا ۔بعد ازاں ورڈز ورتھ نے فطرتی مناظر کے ساتھ ساتھ سیاسی، مذہبی اور سماجی موضوعات کے لیے اسے استعمال کیا۔اس کے بعد متنوع موضوعات سانیٹ میں بیان کیے جانے کا رواج ہوا۔
———-

Share
Share
Share