اردو کے ادیب اورنثرنگار- قسط 2 – – محسن الملک – – – – پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share


قسط 2
اردو کے ادیب اور نثرنگار
محسن الملک – چراغ علی – محمد حسین آزاد

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

——–
اردو کے ادیب اور نثر نگار ۔ پہلی قسط کے لیے کلک کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محسن الملک ۱۸۱۷ ۔۱۹۰۷ء

سید مہدی علی نام تھا ، محسن الملک کا خطاب پایا تو لوگ نام بھول گئے اور محسن الملک ہی کہنے لگے ، ان کی پیدائش اٹاوہ میں ہوئی ، گھر پر عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی اول کلکٹری میں ملازمت مل گئی ، محنت اور ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے کی وجہ سے ترقی کرکے تحصیلدار کے عہدہ پر فائز ہوئے ، ملازمت کے دوران قانون کے موضوع پر ان کی دو تصنیفات سامنے آئیں جس کی وجہ سے انھیں ڈپٹی کلکٹر بنادیا گیا ، ان کی کار کردگی کی شہرت اٹاوہ سے حیدرآباد تک پہنچ گئی جس کی وجہ سے وہ حیدرآباد میں مالیات کے معتمد اعلی کے عہدہ پر فائز ہوئے اور تین ہزار روپیہ ماہانہ ان کی تنخواہ مقرر ہوئی اور حسن خدمات کے اعتراف میں انھیں محسن الملک کا خطاب ملا ، حیدرآباد میں ان کی ایسی عزت تھی کہ بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے ، ۱۸۹۳ء میں وہ پنشن لیکر علی گڑھ چلے آئے اور باقی زندگی کالج کی خدمت میں گزاری ، وہ سر سید کے رفیق اور جانشیں ہوئے اور ان کا انتقال ۱۹۰۷ء میں شملہ میں ہوا مگر انھیں علی گڑھ لا کر سر سید کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ محسن الملک کو سر سید کا دست راست کہا جائے تو درست ہے ، انھوں نے ہر قدم پر سر سید کے ساتھ تعاون کیا اور اپنے قلم سے سر سید کے افکار و خیالات کو پھیلانے کی کوشش کی ، ان کے مضامین تہذیب الاخلاق میں اکثر شائع ہوتے تھے ، ان کی نثر بہت شگفتہ اور دل کش ہوتی تھی، مضمون کے ایک ایک لفظ پر ان کی نظر ہوتی تھی اور وہ بہت سوچ سمجھ کر لفظوں کا انتخاب کرتے تھے اس لئے وہ جو لکھتے تھے وہ حسین اور دل نشین ہوتاتھا ، ان کے خطوط کامجموعہ شائع ہوچکا ہے اور اہل ذوق اس مجموعہ کو دل چسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ علامہ شبلی جیسی شخصیت بھی ان کی دل کش تحریر کی قائل تھی ۔

چراغ علی (۱۸۴۶۔۱۸۹۵ء)
چراغ علی کا آبائی وطن کشمیر تھا لیکن ان کے دادا ملازمت کے سلسلہ میں پنجاب چلے آئے تھے ، کچھ عرصہ بعد انھوں نے میرٹ میں سکونت اختیار کرلی ، یہیں ۱۸۴۶ء میں چراغ علی کی ولادت ہوئی ، صرف دس برس کے تھے کہ یتیم ہوگئے، والدہ نے پرورش کی مگر تعلیم خاطر خواہ نہ ہوسکی ، اردو فارسی کے علاوہ انگریزی بھی سیکھی مگر واجبی سی ، معاشی حالت اچھی نہیں تھی ضلع بستی میں بیس روپیہ ماہوار پر سرکاری ملازمت کرلی، علم کی پیاس بے حساب تھی ، مطالعہ کا شغل جاری رہا ، یہاں تک کہ عربی فارسی کے علاوہ انگریزی ، لاطینی اور یونانی زبانوں میں مہارت حاصل کرلی ۔
لیاقت صلاحیت اور علمی ذوق کی شہرت حیدرآباد تک پہنچی ، اس زمانہ میں تمام جوہر قابل کو حیدرآباد بلانے کی کوشش ہوتی تھی ، چنانچہ ان کو بھی حیدرآباد بلاگیا اور مدد گار معتمد مالگزاری کا عہدہ ان کے سپرد کیا گیا ، پھر وہ ترقی کرکے معتمد کے عہدہ تک پہنچے ، علم کا شوق اور مطالعہ کا ذوق ہو تو انسان ہر جگہ اپنا یہ شغف جاری رکھ سکتا ہے ، انھوں نے نہ صرف کتابوں کا مطالعہ جاری رکھا بلکہ مختلف موضوعات پر کتابیں بھی لکھیں جن کی افادیت کو سب نے تسلیم کیا ، وہ تہذیب الاخلاق میں بھی برابر مضامین لکھتے رہے ، مذہب اور اخلاق ان کا خاص موضوع تھا اور بہت سے معاملات میں وہ سر سید کے ہم خیال تھے اور جس طرح سے سر سید کے بہت سے افکار و نظریات کو تنقید کا ہدف بنا گیا اسی طرح سے چراغ علی کے نظریات پر بھی لوگوں نے تنقیدیں کیں ۔ چراغ علی کا ذہن تحقیقی تھا اور وہ جو کچھ لکھتے تھے غور وفکر کے بعد لکھتے تھے اور اس میں استدلالی رنگ پایا جاتاتھا ۔چراغ علی کا انتقال ۱۸۹۵ء میں بمبئی میں ہوا ۔

محمد حسین آزاد( ۱۸۳۰۔۱۹۱۰ء)

اردو نثر کو خوبصورت ، بال وپر عطا کرنے والوں کی مختصر ترین فہرست بھی اگر بنائی جائے گی تو اس فہرست میں محمد حسین آزاد کا نام ضرور آئے گا ، انھوں نے کئی قابل قدر کتابیں لکھیں جو آج بھی شوق کے ہاتھوں لی جاتی ہیں ، اور انھیں سرمہء چشم بنایا جاتا ہے ،’’ آب حیات ‘‘ان کا لا زوال کارنامہ ہے جو اردو شاعری کی با قاعدہ تاریخ ہے جس میں ادوار قائم کرکے اردو شاعری کے آغاز و ارتقاء کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ آب حیات میں شاعروں کے حالات دل کش انداز میں پیش کئے گئے ہیں ، کتاب میں شعراء پر تنقید بھی ہے ، اس لئے اس کتاب کو اردو تنقید کا نقطہء آغاز بھی قرار دیا گیا ہے ، محمد حسین آزاد کا دوسرا بے مثال کارنامہ ان کے وہ رمزیہ مضامین ہیں جو’’ نیرنگ خیال‘‘ میں شامل ہیں ، ان کی ایک اور کتاب سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ ہے ، ان کی تصنیفات میں ایک بہت اہم تصنیف ’’دربار اکبری ‘‘ ہے ، یہ شہنشاہ اکبر کے زمانہ کی دل چسپ تاریخ ہے ، انداز ایسا ہے کہ اس عہد کی تصویر آنکھوں کے سامنے کھنچ جاتی ہے ، ان کی ایک اور اہم تصنیف ’’سخن دان فارس ‘‘ ہے ، اس کتاب میں انھوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ فارسی اور سنسکرت دونوں کی بنیاد ایک ہے ، بچوں کے لئے انھوں نے ’’قصص ہند‘‘ کے نام سے کہانیاں لکھی ہیں جن کا تعلق ہندوستان کی تاریخ سے ہے ۔
طرز تحریر ، اسلوب کی دل کشی اور حسن ادا کے اعتبار سے محمد حسین آزاد کی نثر لا جواب اور بے مثال ہے ، اس میں سادگی بھی ہے اور پر کاری بھی ، شگفتگی اور شیرینی ایسی کہ کتاب کو ہاتھ سے چھوڑنے کا جی نہ چاہے ، ان کی تحریر میں عجب تاثیر اور تسخیر کی صلاحیت ہے ، جملے اتنے دل کش کہ دل میں اترجائیں ، شبلی جیسے ادیب نے بھی ان کے بارے میں یہ لکھاکہ’’محمد حسین آزاد اگر گپ بھی ہانک دیں تو وحی معلوم ہوتی ہے‘‘ الفاظ و محاورات کا صحیح استعمال اور مناسب استعارہ و تشبیہ سے عبارت کو مزین کرنا ان کی وہ خصوصیت ہے جو ان کودوسروں سے ممتاز کرتی ہے ۔

Share
Share
Share