افسانہ : محبت لا حاصل – – – – – محمد نواز

Share

لا حاصل
افسانہ
محبت لا حاصل

محمد نواز ۔ کمالیہ

یوسف کا چہرہ اترا ہوا تھا ،وہ مجھے بہت زیادہ پریشان بھی دیکھائی دے رہا تھا ۔ مجھے اس کی پریشانی کا اندازہ تھا کیونکہ وہ اکثر اوقات اپنے گھر کے معاملات مجھ سے دل کھول کر بیان کر دیا کرتا تھا ۔ شائد اس لیئے کہ مجھ پر اسے سب سے زیادہ اعتماد بھی تھا ۔۔ صبح کی سیر میرا معمول تھا میں نے یوسف کو بھی اس کا عادی بنا ڈالا ۔ مین روڑ پر صبح کے وقت ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی ہم سڑک کنارے دور تک نکل جاتے۔

ابتدا میں ہماری گفتگو کا محور دفتر ہی ہوتا تھا ۔دفتر اور دفتری معاملات سے ہٹ کر یوسف نے ایک دن گھر کی بات چھیڑ لی ۔میں بات کرنے میں ہچکچا رہا تھا ،مگر یوسف بولا ’’ مجھے اپنے ارد گرد اور کوئی ایسا آدمی نہیں ملا جس سے میں دل کی بات کہہ سکتا ‘‘ یوسف کا اعتاد میرا دل جیت گیا ۔ میں نے چلتے چلتے اس کے ہاتھ کو پکڑ ا اور شکریہ کے الفاظ کہتے ہوا چپ ہو گیا ۔ چند ثانیے کے بعد یوسف نے اپنے دل کی بات میرے سامنے رکھ دی ۔
’’ یار میں ان دنوں بہت پریشان ہوں اور الجھن کا شکار بھی ،میری باجی کہتی ہے میں نے گنا ہ کیا ہے جبکہ میرا دل کہتا ہے میں نے محبت کی ہے ‘‘ ’’ کیوں کیا ہوا ؟‘‘ ’’ محبت اور گناہ نے مجھے چونکا دیا ۔میں نے لوگوں کو محبت کرتے سنا بھی تھا اور دیکھا بھی تھا ۔یہ محبت کے ساتھ گناہ کا لفظ پہلی بار یوسف کی زبانی سن رہا تھا ۔ میں چلتے چلتے رک گیا ، کیا کہا ؟ محبت اور گناہ میں نے یوسف کو کندھوں سے پکڑ لیا ۔’’ ہاں محبت اور گناہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نے ایک بار پھر اپنی زبان سے چاشنی والے لفظ محبت اور روح کو تار تار کرتے لفظ گناہ کو دوہرا دیا ۔
’’ مجھے ماہم سے محبت ہو گئی تھی ۔ماہم میری باجی کی دوست تھی اور اکثر ہمارے گھر آیا کرتی تھی ۔ جب بھی آتی گھنٹوں بیٹھ کر باجی سے باتیں کیا کرتی ۔ میں کمرے میں آتے جاتے اسے نظر بھر کے دیکھ لیتا ۔ ماہم نظروں سے دل میں اتر گئی ،مجھے اس کی ہر ادا اچھی لگنے لگی ۔ گوری رنگت ،شدول جسم اور موٹی آنکھیں جن کے اوپر کمان کی طرح تراشی ہوئی پلکیں گویا پہلی کا چاند ۔ ایک روز باجی امی کے ساتھ بازار گئی۔میں گھر میں اکیلا تھا ۔ماہم باجی سے ملنے آئی ۔میں نے موقع غنیمت جانا اور اظہار محبت کر ڈالا ۔ ماہم تو جیسے پہلے ہی اپنے جنس مخالف سے محبت کو بے چین اور بے قرار تھی ۔بقول مالتھس ’’ عورت اور مرد میں جنسی کشش ایک فطری عمل ہے ‘‘ عورت مرد کی طرف یوں کھینچی چلی آتی ہے جیسے پیاسا کنویں کی طرف ،لوہے کے باریک ذرے مقناطیس کی طرف اور آسمان سے گرنے والی چیز زمین کی طرف ۔ میں کنواں تھا ،مقناطیس یا زمین ،مجھے اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب ماہم کے گرم اور نرم و ملائم ہاتھوں نے میرے کانپتے ہاتھوں کو دبوچ لیا ۔’’ ایک سرد لہر میرے کپکپاتے جسم میں سرائیت کر گئی ۔مجھ سے پیار کروں گے یوسف ؟‘‘ اتنی خوبصورت ،نرم و نازک ،پٹولا سی لڑکی کا احساس ہی ہاں کہنے کیلئے کافی تھا ۔‘‘
یوسف مجھے اپنی داستان محبت سنا رہا تھا ۔چلتے چلتے ہم اس مقام تک پر آگئے تھے جہاں سے ہمیں واپس پلٹنا تھا ۔ میں نے یوسف کو واپسی کا اشارہ کیا اور سڑک کے دوسرے کنارے پر بنے فٹ پاتھ پر آ گئے ۔ میرا دل کہہ رہا تھا یوسف اپنی ادھوری بات کو مکمل کرے گا ۔ایسا ہی ہوا ،ہم نے جونہی گھر کیلئے رخت سفر باندھا یوسف بولا ’’ ماہم سے محبت نے مجھے جیسے مکمل کر دیا تھا ۔اس سے پہلے میں نامکمل تھا ۔مجھے اپنی ذات میں کچھ کمی محسوس ہوتی تھی ۔ایک بے چینی ،بے قراری ،اضطرابی کیفیت ،ایک ادھورا پن میں ہمیشہ اپنے آپ میں محسوس کیا کرتا تھا۔ بالکل ایسی ہی جیسے جد امجد آدم نے محسوس کیا تھا اور اللہ سے اپنی تنہائی کی التجا کی تو اللہ نے حوا کو آدم کے وجود سے تخلیق کر کے چین کا سامان فراہم کیا۔ ماہم مثل حوا میرے وجود سے خلق تو نہ ہوئی تھی البتہ میرے وجود کی بے چینی کو مٹانے ضرور آئی تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ لیکن یوسف میں نے تو سنا ہے،محبت خود ایک بے چینی ہے ،پھر تیرے وجود کو قرار کیسے آگیا ؟‘‘ میں یوسف کی بے قراری کو بھانپ چکا تھا ۔ جتنا بے قرار وہ آج دکھائی دے رہا تھا شائد اتنا ہی بے چین وہ ماہم سے مل کر بھی ہوا ہوگا ’’ آپ نے ٹھیک سنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت خود بے چینی کا نام ہے ۔
اب ملنے کی تڑپ اور ملنے کی خواہش مجھے ہر وقت بے چین رکھتی ۔آنکھیں دیدار یار میں فرش راہ رہتی جب تک ماہم کو دیکھ نہ لیتا دل کو چین نہ آتااور آنکھیں خیرہ نہ ہوتی۔کچھ ایسی ہی کیفیت ماہم کی بھی تھی ۔ وہ بھی ملنے کو بے تاب رہتی ۔ باتیں کرنے سے تو جیسے اس کا جی نہ بھرتا تھا ۔ ہمیں جب بھی موقع ملتا جی بھر کر باتیں کرتے۔‘‘
ہم واپس آ چکے تھے ۔یوسف اپنے فلیٹ میں چلا گیا اور میں اپنے گھر ۔لیکن جاتے ہوئے میرا ذہن یوسف کی داستان محبت میں الجھ کر رہ گیا ۔میں خود ہی اندازے لگانے لگا کہ یوسف کے ساتھ اس کے بعد کیا ہوا ہوگا ۔جلدی سے تیار ہوا اور دفتر چلا گیا ۔یوسف میرے دفتر پہنچنے سے پہلے ہی پہنچ چکا تھا ۔ میرا ذہن اب بھی یوسف کی طرف الجھا تھا ۔ جب ذرا دفتر کے کام کاج سے فراغت ملی تو میں نے ملازم کو دو کپ چائے لانے کو کہا اور یوسف کی میز پر جا بیٹھا ۔ چائے پیتے میں نے اس بچے کی ماندسوال کیا جو رات کہانی سنتے سنتے سو جائے اور صبح اٹھ کر پہلا سوال کرے ،پھر کیا ہوا ؟
یوسف نے چائے کا گھونٹ حلق میں انڈیلا اور بولا ’’ محبت خوشبو ہوتی ہے اور خوشبو پھیلتے دیر نہیں لگتی ۔باجی نے ہمیں پیار کرتے دیکھ لیا ۔ندامت ہمارے چہروں سے جھلک رہی تھی اور ہم اعتراف گناہ کے ساتھ نظریں جھکائے باجی کے سامنے کھڑے تھے۔ ہم نے محبت کا اعتراف کیا مگر باجی نے اسے یکسر مستردکر دیا اور بولی ’’ جسے تم دونوں محبت کانام دے رہے ہو اصل میں یہ نفسانی خواہش ہے ۔ محبت تو معصوم ہوتی ہے گناہ سے پاک ۔ اس میں جسم کا حصول کہاں ہوتا ہے یوسف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جونہی باجی نے میرا نام لیا میں اپنے ہی اندر ڈوبتا چلا گیا ۔ میرے اندر اتنی ہمت نہ تھی کہ باجی کی کسی بات کا جواب دے پاتا ۔ ماہم بھی بت بنے کھڑی تھی ۔‘‘ ماہم نے باجی سے ملنا چھوڑ دیا شائد اس وجہ سے کہ اس میں ہمت نہ تھی کہ دوبارہ وہ باجی سے نظریں ملا پائے۔ گھر میں میں بھی سہما سہما رہتا اور کوشش کرتا باجی کے سامنا نہ ہی کروں ‘‘ آپ بتاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کیا کیا ؟ محبت یا گناہ ۔میری چائے ختم ہوگئی اور ساتھ ہی میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ۔ میں یوسف کی میز سے اٹھا اور اپنے کائنٹر پر آگیا ۔ میں مسلسل سوچ میں تھا ۔ یوسف کا سوال عجیب نوعیت کا تھا۔ جس کا میرے پاس فی الحال کوئی جواب نہ تھا ۔ میں اس دن دفتر سے جلدی گھر چلا گیا ۔شائد اس لیئے کہ یوسف نے دفترٹائم ختم ہونے پر مجھ سے اپنی الجھن کا حل پوچھناتھا ۔
یوسف نے اپنے ساتھ مجھے بھی الجھن میں ڈال دیا تھا ۔ شائد اس کی باجی ٹھیک کہتی تھی ۔ جسے آج کی نوجوان نسل محبت اور عشق مجازی سے تعبیر کر رہی ہے اصل میں وہ نفسانی خواہش ہی ہے ۔ اسی نفسانی خواہش کے تابع ہر نوجوان چاہے وہ مرد ہو یا عورت ۔ محبت اور پیار کو حصول جسم اور جسم کو عشق مجازی سمجھ بیٹھے ہیں ۔ شاید یوسف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔ یوسف اور ماہم کی محبت حصول جسم کے سوا کچھ نہ تھی ۔ اس لیئے جلد ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی ۔ نظر جسم کا طواف کرتی ہے جبکہ جسم میں موجود نفس جسم کو حاصل کرنے کی تگو دو میں لگ جاتا ہے ۔
’’ یوسف مجھے تیری الجھن سمجھ میں آگئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ سیر پر جاتے ہوئے میں نے یوسف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔ وہ اپنے قدموں پر ساکت ہو کر میری طرف دیکھنے لگا ۔ ’’ محبت کسی سے بھی ہو سکتی ہے، وہ جنس مخالف ہو یا مظاہر فطرت میں پائی جانے والی کوئی شے ۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں مظاہر قدرت سے محبت ہوتی ہے ۔زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنہیں محبت اپنے جنس مخالف سے ہی ہوئی ہے ۔ وہ اپنی مخالف جنس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے ۔محبت میں یہ کھنچاؤ اپنے اندر بے پناہ طاقت رکھتا ہے ۔ انسان اس طاقت سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے ۔جو اس لڑائی میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ عشق حقیقی کی منزل کو پا لیتا ہے اور جو اس طاقت کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے وہ گنا گار کہلا تا ہے ۔ یوسف میں اور تم وہ انسان ہیں جو اس لڑائی میں ہار جاتے ہیں اور ہماری محبت لا حاصل رہتی ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد نواز ۔ کمالیہ
0300-8796114

Share
Share
Share