قومی سمینار: راجندرسنگھ بیدی اورعصمت چغتائی – – – رافد اُویس بٹ

Share

عصمت چغتائی
شعبۂ اردو، یونی ورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے
دو روزہ قومی سمینار

’’ راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی:ترقی پسند تحریک کے تناظر میں‘‘
”RAJINDER SINGH BEDI AND ISMAT CHUGHTAI :
IN PERESPECTIVE OF PROGRESSIVE WRITERS MOVEMENT”

رپورتاژنگار: رافد اُویس بٹ
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، یونی ورسٹی آف حیدرآباد

شعبۂ اردو،یونی ورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے مورخہ ۸؍اور ۹؍ فروری ۲۰۱۷ء کو اردو فکشن کے دواہم ستون راجندر سنگھ بیدی اورعصمت چغتائی پر دوروزہ قومی سمینار بعنوان’’راجندرسنگھ بیدی اورعصمت چغتائی: ترقی پسند تحریک کے تناظر میں‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ پہلے روز،افتتاحی اجلاس کے بعد دو تکنیکی اجلاس ہوئے، جن میں عصمت پر ۱۰؍ مقالے پڑھے گئے۔افتتاحی اجلاس میں پروفیسر پنچانن موہنتی، ڈین اسکول آف ہیومانٹیز، یونی ورسٹی آف حیدرآباد نے مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے سمینار کی کوآرڈینیٹر ڈاکٹرعرشیہ جبین صاحبہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ منعقدہ سمینارعصمت اور بیدی کی تخلیقات کو نئے تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے کی بہترین کوشش ہے۔

شعبہ کے صدرپروفیسرمظفرعلی شہ میری نے مہمانوں کا تفصیلی تعارف پیش کیا اوردیگرکئی اہم نکات کی جانب توجہ مبذول کرائی۔جب کہ سمینارکا افتتاحی خطبہ یونی ورسٹی کے پرووائس چانسلر، پروفیسر وِپِن شری واستو نے پیش کیا۔اُنھوں نے اپنے خطبے میں اردو زبان کو تمام زبانوں میں میٹھی زبان قراردیا اوراس بات پرافسوس کا اظہار بھی کیا کہ اردوزبان کو صرف مسلمانوں کی زبان قراردیا جارہا ہے جوکہ ایک لایعنی بات ہے۔اُنھوں نے کہا کہ اردوزبان کسی مخصوص خطے یا طبقے کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ عوامی رابطے کی زبان ہے؛ جسے ہندو اور مسلمان اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہیں۔وِپن شری واستو نے اردو کے لسانیاتی پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہوئے اپنے خطبے کے دوران اس بات پر زور دیا کہ اردو زبان کی تحقیق لسانیاتی تناظر میں بھی ہونی چاہیے تاکہ اس بات کا پتا لگایا جاسکے کہ اردو زبان غیر اردو علاقوں میں کس طرح ارتقا پذیر ہو رہی ہے۔اردو تنقید کاعصر حاضرکا ایک معتبر نام پروفیسر شارب ردولوی کو مذکورہ سمینار میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت مدعو کیا گیا تھا۔ اُنھوں نے عصمت اور بیدی کواردو فکشن کے دو اہم ستون قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ترقی پسند تحریک کے بڑے تخلیق کار تھے۔ دونوں نے سماجی مسائل کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا ہے لیکن دونوں کا بیانیہ الگ ہے اور دونوں کے پاس سماجی مسائل کے لیے اپنا ایک الگ treatment ہے۔ شارب صاحب نے مزید کہا کہ ’’انگارے‘‘ کے بعد اگر کہیں انسانی تعلقات میں boldness نظر آتی ہے تو وہ بیدی کی تخلیقات میں دیکھنے کو ملتی ہے۔سمینار کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ بیدی اورعصمت پر اس طرح کے سمینار منعقد کرانے سے اُن کی تخلیقات کے مخفی اور پوشیدہ پہلوؤں کو منظرِ عام پر لانے میں مدد ملے گی ۔موجودہ عہد کی ممتاز فکشن نگارپدم شری جیلانی بانو نے مہمان اعزازی کے طور پر اپنے خطبے کے دوران کہا کہ بیدی اور عصمت جیسے اردو فکشن کے بڑے تخلیق کاروں پر سمینار منعقد کرانا ہی اردو زبان کی ترقی و ترویج کا بین ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے اردو زبان و ادب کے تحفظ کی ذمہ داری اردو داں طبقے پر ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو زبان کو تحفظ دینے کی ذمہ داری حکومت سے زیادہ اردو داں طبقہ پر عائد ہوتی ہے۔پروفیسر انور معظم، سابق صدر شعبۂ اسلامک اسٹڈیزو ڈین فیکلٹی آف آرٹس، عثمانیہ یونی ورسٹی نے کلیدی خطبہ دیا، جس میں اُنھوں نے سمینار کی کوآرڈینیٹر کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے سمینار منعقد کرنے سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ایک ترقی پسند تخلیق کار یا ادیب، کس تناظر میں اپنے ماحول، سماج اور مسائل کو دیکھتا ہے اور اُس کے لیے کو ن سا treatment تجویز کرتا ہے۔اس کے علاوہ اس بات کا بھی علم ہو جاتا ہے کہ کس طرح ایک ترقی پسند ادیب مختلف چیزوں کو ترقی پسند تصور کے ذریعے پیش کرتا ہے۔سمینار کے اغراض و مقاصد سمینار کی کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عرشیہ جبین نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ بیدی اور عصمت ترقی پسند فکشن نگاری کے دو اہم ستون ہیں ، اس لیے ان کی تخلیقات کے مختلف مخفی گوشوں کا آشکار کرنا آج کی اہم ضرورت ہے ۔ امید ہے کہ اس سمینار میں ان دونوں تخلیق کاروں کی تخلیقات کے بہت سے اہم گوشے سامنے آئیں گے۔اجلاس کے آخر میں تین کتابوں کی رسم رونمائی بھی انجام دی گئی،جس میں ڈاکٹر فریدہ تبسم کی کتاب ’’آغاحیدر حسن کی علمی و ادبی خدمات‘‘، شاہجہاں بیگم کی’’محسن جلگانوی: شخصیت اور شاعری‘‘ اورفرحت انجم کی’’علی باقر کے افسانوں کا تنقیدی جائزہ‘‘ شامل ہیں۔
سمینار کا پہلا تکنیکی اجلاس ظہرانے کے بعد شروع ہوا، جس میں ۵؍ مقالے پڑھے گئے۔ پہلے تکنیکی اجلاس کی صدارت پروفیسر شارب ردولوی صاحب نے کی۔اس اجلاس میں دوخاتون فکشن نگار محترمہ قمرجمالی اور محترمہ صادقہ نواب سحر کےعلاوہ ڈاکٹرآمنہ تحسین اورڈاکٹرآمنہ آفرین نے عصمت چغتائی پر اپنے مقالے پیش کیے ۔محترمہ قمر جمالی صاحبہ نے عصمت چغتائی کے اسلوب نگارش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عصمت اپنے اسلوب کی خود موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔ اُنھوں نے اپنے افسانوں میں علاقائیت خصوصاً ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا خاص خیا ل رکھا ہے اور زبان کے روز مرہ کو ہاتھوں سے جانے نہیں دیا۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نقادانِ ادب ہوں یا سمینار کوآرڈینیٹرس، دونوں ۲۰ ویں صدی تک آکر رُک جاتے ہیں اور ۲۱ ویں صدی کے سرمایۂ ادب کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ کسی بڑے ادیب پر اس کی زندگی ہی میں سمینار منعقد کرنا اُس ادیب کے لیے نہایت ہی عظیم خراج تحسین ہوتا ہے ۔صادقہ نواب سحر نے اپنے مقالے’’عصمت کی افسانوی جہات‘‘ کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ عصمت نے اپنی تخلیقات میں کسی تصوف، فلسفہ یا مذہب کو پیش نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے یہاں سب حقیقی معلوم ہوتا ہے اور کہیں پربھی نقلی پن کا احساس نہیں ہوتا۔اُنھوں نے سماج کو آئینہ دکھایا اور جہاں کہیں بھی احتجاج کیا تو نہایت ہی سادہ اور صاف زبان میں کیا۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ عصمت کے یہاں تکنیک سے افسانہ نہیں بلکہ افسانے سے تکنیک متاثر ہو تی ہے۔ اجلاس کے اختتام پر پروفیسر شارب ردولوی نے مقالہ پیش کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور عصمت کے بارے میں اپنے پر مغز اور فکر انگیز خیالات سے حاضرین کا من موہ لیا۔
سمینار کے دوسرے اجلاس میں بھی عصمت ہی پر ۵؍ اور مقالے پڑھے گئے،جس کی صدارت پروفیسر ستار ساحر نے کی۔اس اجلاس میں ڈاکٹر عبد الرب منظر، ڈاکٹر مسرت جہاں ،ڈاکٹر نکہت آراشاہین، ڈاکٹر کہکشاں لطیف اور جناب عبید الرحمن نے اپنے اپنے مقالے پیش کیے۔ڈاکٹر عبد الرب منظر نے عصمت کے’چوتھی کاجوڑا‘ کے حوالے سے کہا کہ عصمت نے اس افسانے کے ذریعے مرد کی بے حسی اور بے زاری کی طرف انگشت نمائی کرتے ہوئے عورت کی نفسیات کا بھر پور نقشہ کھینچا ہے۔انھوں نے عصمت کو نسوانی نفسیات کا نباض قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس افسانے کے ذریعے عصمت نے اُن عورتوں کی نفسیات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جو اپنے لاشعور میں کئی ادھوری خواہشات اور تمناؤں کے پورے ہونے کی منتظر رہتی ہیں۔ڈاکٹر نکہت آرا نے عصمت کے ناول ’ٹیڑھی لکیر‘ میں خواتین کے مسائل کے حوالے سے بات کی اورڈاکٹر مسرت جہاں نے ’عصمت اور منٹو کی نظریاتی ہم آہنگیاں‘ کے عنوان سے بہت ہی اچھا مقالہ پیش کیا ۔ اجلاس کے صدر پروفیسر ستار ساحرنے مقالہ نگاروں کو مبارکباد دی اور ان کی کاوشوں کو سراہا۔ انھوں نے بھی عصمت کے تعلق سے اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا۔
دوسرے اجلاس کے مکمل ہونے کے بعد آغا حشرکاشمیری کا ڈراما ’’سلور کنگ‘‘(حذف و ترمیم کے ساتھ) پیش کیا گیا۔جس کو شعبہ کے ایم۔ اے۔ کے طلبہ و طالبات نے پروفیسر شوکت حیات کی ہدایت کاری میں تیار کیا تھا۔ ڈرامے کے ہرہرسین پرحاضرین نے تالیوں سےکرداروں کی اداکاری کو خوب سراہا۔ ڈرامے میں مزاحیہ عنصرنے اس کو مزید پر لطف بنا دیا تھا، جس کو تمام شائقین نے پسند کیا اورطلبا کی اداکاری کی ستائش کی۔ اس ڈرامے میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے طلبہ و طالبات میں محمد الیاس، شائستہ صدیقہ،اسما بیگم، افضل راشد، مبین پاشا،بہادر حسین، نذیر احمد،ظفر اقبال،سلیمان، محمد شاکر اور ظہور احمد تھے۔ ڈرامے کے اختتام پر اداکاروں کو شعبے کے صدر پروفیسر مظفر علی شہ میری نے اسناد فراہم کیں۔
سمینار کے دوسرے روز مورخہ ۹ ؍ فروری ۲۰۱۷ء کے تیسرے اور چوتھے اجلاس میں راجندر سنگھ بیدی پر ۱۰ ؍مقالے پڑھے گئے۔تیسرے اجلاس کی صدرات کے فرائض پروفیسر شوکت حیات اور محترمہ قمر جمالی نے انجام دیے۔اس اجلاس میں ڈاکٹر محمود کاظمی کے علاوہ شعبے کے ۴؍ ریسرچ اسکالروں نے اپنے مقالے پیش کیے۔ ڈاکٹر محمود کاظمی نے’’بیدی کے افسانوں میں معاشرے کا تصور‘‘ کے عنوان سے نہایت ہی دلچسپ اورمعلومات سے بھر پورمقالہ پیش کیا ۔اُنھوں نے اپنے مقالے کے دوران کہا کہ ادب چوں کہ سماج کا عکاس ہوتا ہے اور بیدی نے اس مقصد کو ملحوظ نظررکھ کر اپنی تخلیقات میں سماج اورسماج سے جڑے مختلف النوع مسائل کی طرف انگشت نمائی کی ہے ۔کاظمی صاحب کے مطابق بیدی نے افراد کے باہمی ربط و تعلق کے ذریعے سے جُز کو کل میں پیش کیا ہے۔بیدی انسانی نفسیات کی دُکھتی رگوں پر ہاتھ رکھنے والے تخلیق کار ہیں لیکن کاظمی صاحب کے نزدیک بیدی نے انسانی نفسیات میں جذباتی تغیرات کا بھی بھر پور نقشہ کھینچا جو کہ بیدی کا خاص ملکہ ہے۔اپنے مقالے کے دوران اُنھوں نے کہا کہ بیدی کی تخلیقات کی بنت میں معاشرے کے مسائل اور افراد کی نفسیات شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیدی کے یہاں فکری رویہ نہایت ہی قوی نظر آتا ہے۔محترمہ عارفہ شبنم اور جناب عتیق اللہ نے راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں میں عورت کے تصور پر اپنے مقالات پیش کیے۔ عیسیٰ محمدنے بھی بیدی کے افسانوں میں سماجی مسائل کے عنوان پر اپنا مقالہ پڑھا اور جناب جمشید احمد ٹھوکر نے بیدی کے ناولٹ’ایک چادر میلی سی‘ میں پنجابی تہذیب کی عکاسی پر اپنا مقالہ پیش کیا۔اجلاس کے صدور نے مقالہ نگاروں کو تہنیت پیش کی اور ان کے ذریعے اٹھائے گئے سوالات کو سراہا بھی اور کہا کہ اس سے ذہن کے دریچے وا ہوتے ہیں، جسے ہم سمینار کے مقاصد میں جوڑ سکتے ہیں۔
سمینار کے آخری اجلاس میں بیدی پر ۵؍ مقالے پڑھے گئے،جس کی صدارت پروفیسر نسیم الدین فریس نے کی۔اس اجلاس میں ڈاکٹر شمس الہدیٰ دریاآبادی نے ’ایک چادر میلی سی کا تہذیبی مطالعہ‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا ۔’راجندر سنگھ بیدی کے ڈراموں کی عصری معنویت کے عنوان سے ڈاکٹراسماعیل خان نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ اس کے علاوہ اس اجلاس میں بھی شعبے کے ۳؍ ریسرچ اسکالروں وسیم حسن راجا نے ’بیدی کے افسانوں میں طنزیہ و مزاحیہ عناصر‘، جناب نورعالم نے’ بیدی کے نسوانی کردار‘ اورزبیراحمد نے’ بیدی کے افسانوں میں نچلے طبقے کے مسائل کی عکاسی‘ پراپنے مقالے پیش کیے۔ اپنے صدارتی خطبے میں پروفیسر نسیم الدین فیس نے تمام شرکا کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ہر مقالے پر اپنی رائے ظاہر کی۔
اختتامی اجلاس میں پروفیسر یوسف سرمست، پروفیسر شوکت حیات ،پروفیسر مظفرعلی شہ میری،فکشن نگار محترمہ قمرجمالی اورصادقہ نواب سحر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے اساتذہ اور طلبا، شہر سے آئے ہوئے لوگوں کے علاوہ شعبہ کے طلبا اور طالبات کی بھی اچھی خاصی تعدادموجود تھی، ہر چند کے اس وقت شام کے چھ بج چکے تھے۔ پروفیسر یوسف سر مست نے وقت کی قدر کو ذہن نشین کراتے ہوئے ریسرچ اسکالروں سے اپنے کام کے تئیں دیانت داری اور محنت و لگن کی تلقین کی۔محترمہ قمر جمالی نے ریسرچ اسکالروں کے ذریعے پڑھے گئے مقالات اور اُن کے انداز بیان کو کافی سراہا۔ مقالات میں پیش کیے گئے تنقیدی مطالعات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تنقید ادب کے لیے ضروری ہے۔ تنقید ہی ایک ایسا میدان ہے جہاں علم اور تجربے کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ڈاکٹرصادقہ نواب سحر نے شعبے کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ منعقدہ سمینار کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ریسرچ اسکالروں کو موقع دیا گیا جو کہ اپنی جگہ بہت اہم بات ہے۔ سمینار میں پیش کیے گئے مقالات کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ ایسے بھی مقالے پیش کیے گئے جو معلوماتی تھے اورجن سے عصمت اور بیدی کی تخلیقات کے حوالے سے مخفی پہلوؤں پر روشنی پڑی۔ شوکت حیات نے پیش
کیے گئے ڈرامے میں طلبہ و طالبات کی اداکاری کو دیکھتے ہوئے کہا کہ شعبے کے بچے نہایت ہی ہونہار ہیں لہٰذا ان کے لیے ایک ورکشاپ کا اہتمام ہونا چاہیے۔ پروفیسرمظفر علی شہ میری نے سمینار کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عرشیہ جبین صاحبہ کو مبارکباد دی۔ ساتھ ہی آئے ہوئے مہمانوں کا شعبے کے صدر کی حیثیت سے شکریہ ادا کیا۔ اس کے علاوہ صدرِ شعبہ نے یقین دلایا کہ آئندہ ریسرچ اسکالروں کے لیے ایک سمینار’’تخلیق‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوگا، جس میں شعبے کے ریسرچ اسکالر اپنی تخلیقات پیش کر سکیں گے۔آخر میں سمینار کی کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عرشیہ جبین نے تمام مہمانانِ گرامی کا سمینار میں شرکت اور مقالات پیش کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ ساتھ ہی ان ریسرچ اسکالروں کا بھی شکریہ ادا کیا،جنھوں نے اپنے مقالات پیش کیے۔ عرشیہ جبین صاحبہ نے اُن تمام حاضرین و سامعین کا بھی شکریہ اد اکیا جو شعبۂ ہندی، یونی ورسٹی آف حیدرآباد اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی سے سمینار میں شرکت کے لیے آئے تھے۔اپنے شکریے کے کلمات ادا کرتے ہوئے انھوں نے آخر میں یونی ورسٹی کے وائس چانسلر، ڈین، اسکول آف ہیومانیٹیز ، صدر شعبۂ اردو اور شعبے کے دیگر شرکا کا سمینار کوکامیاب بنانے کے لیے شکریہ ادا کیا ۔

Share
Share
Share