حضرت مولانا عبد الرشید صاحب بستوی ؒ – – – – مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share
مفتی امانت علی قاسمیؔ

کچھ یادیں،کچھ باتیں – یاد گارِ اسلاف
حضرت مولانا عبد الرشید صاحب بستوی ؒ
(۱۹۴۲ء۔دسمبر۲۰۱۶ء)

مفتی امانت علی قاسمیؔ

ایک طالب علم پر ہمیشہ استاذ کی زندگی کا نقش پایا جاتا ہے ، جس طرح بیٹے پر باپ کی زندگی کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں ، طالب علمی کا زمانہ تربیت کا زمانہ ہوتا ہے اور اس کی تربیت میں اساتذہ کا خاص دخل ہوتا ہے ، تربیت کا زمانہ لا شعوری کا زمانہ ہوتا ہے جس میں غفلت کا بول بالا ہوتا ہے، شعور اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ تربیت کا مرحلہ گزر چکا ہوتا ہے ؛لیکن تربیت کی زندگی گزرجانے کے بعد والدین اور مربی و استاذ کی بہت یاد آتی ہے ، ان کی شفقتیں یاد آتی ہیں ، ان کا خلوص اورہماری تربیت کے لئے ان کی جد و جہد یاد آتی ہے، ان کی روشن زندگی کی روشنی دل کی اندھیری کوٹھری میں روشنی کا دیا جلاتی ہے ،ان کا جذبہ اور امنگیں اور تربیت کے سلسلے میں ان کی کاوشیں رہ رہ کر سوچنے پر مجبور کرتی ہیں ،طالب علم اگر چہ زمانہ طالب علمی کو لاابالی پن اور نادانی میں گزار دیتا ہے، لیکن اساتذہ کا طرزِ عمل اور ان کی صحبتیں اور ان کے صبح و شام زمانہ طالب علمی کے بعد بھی اس کو مہمیز کا کام دیتے ہیں اور اپنی زندگی کو بدلنے اور صبح و شام کو بہتر بنانے کی دعوت دیتے ہیں ۔

جن اساتذہ کی زندگی کا نقش اپنے اندر محسوس کرتا ہوں اور جن کی تعلیم و تربیت سے بہت متاثر ہوں ،ان میں ایک نام مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی جونپور کے قدیم استاذ حضرت مولانا عبد الرشید صاحب بستوی نوراللہ مرقدہ کا ہے، آپ نے اکابر سے کسب فیض کیا تھا،حدیث اور اعلی کتابوں کی تعلیم شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب ؒ سے حاصل کی تھی ،آپ واقعتا یاد گار اسلاف تھے ، اس زمانے میں پچھلے زمانے والے معلوم ہوتے تھے، متبع سنت تھے ،آپ کے لباس ،ظاہری وضع قطع اور چال ڈھال سے اتباعِ سنت جھلکتا تھا ، نگاہیں نیچی رکھتے اور آگے کی طرف جھک کرتیزی سے چلتے تھے ،دو پلّی ٹوپی اور اس پررومال ڈال کرلنگی میں ملبوس ہوکر جب چلتے تو بہت باوقار معلوم ہوتے تھے ، خوش مزاج اور ظرافت پسند واقع ہوئے تھے ،ہمیشہ خندہ پیشانی اور مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرتے تھے ۔
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
راقم الحروف نے مشرقی یوپی کی مشہور و معروف درسگاہ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم میں ابتدا سے متوسطات تک کی تعلیم حاصل کی ہے صلاحیت اور استعداد سازی کی یہی عمر ہوتی ہے ،بننا بگڑنا انہی سالوں میں ہوتا ہے، آگے تو صرف حدبث کی تعلیم رہ جاتی ہے جس میں معلومات میں تو اضافہ ہوتا ہے؛ لیکن کندۂ ناتراش کو تراش کر کندن بنانے کا کام آخری سالوں میں نہیں ہوپاتا ہے ، کسی بھی ادارے کی نیک نامی کی بنیاد حسن انتظام کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی قابلیت پر موقوف ہوتی ہے، الحمدللہ اس ادارے کو یہ دونوں باتیں میسر تھیں ، یہاں کا حسن انتظام بھی لائق تحسین تھااور اساتذہ کا کردار بھی بہت نرالا تھا ،آج بھی یہاں کا معیار بسا غنیمت ہے ،ایک خاص بات جو آج کل مدرسوں میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے و ہ یہ تھی کہ قابل اساتذہ جواوپر کی جماعتوں میں پڑھاتے تھے وہی تجربہ کار اور فن کے ماہر اساتذہ نیچے کی جماعتوں میں بھی پڑھاتے تھے اور اسی دلجمعی ،اخلاص اور محنت و لگن سے پڑھاتے تھے ،جس طرح اوپر کی جماعتوں میں پڑھاتے تھے یہ اس ادارے کی کامیابی کی بہت بڑی علامت تھی ،میں نے اول عربی میں ۱۹۹۹ ء میں داخلہ لیا اس وقت میری عمر ۱۲ یا ۱۳ سال کی ہوگی اس سال جس شخصیت سے سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ حضرت الاستاذ مولانا اکرام اللہ صاحب ؒ تھے ان سے نحومیر اور شرح ماءۃ عامل پڑھنے کی سعادت ملی، ان دونوں کتابوں کے پڑھنے کا جو لطف تھا وہ آج تک یاد ہے ، نحومیر ہم لوگوں کو سورہ فاتحہ کی طرح یاد تھی اور جس طرح سورہ فاتحہ کا ورد نمازوں میں روزانہ کرتے ہیں اسی طرح نحومیر کا ورد روزانہ کرتے تھے ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے ایک ساتھی عبد السلام جو اب مولانا عبد السلام ہیں چوکیہ گورینی کے رہنے والے تھے اور میرے ہم عمر تھے، مدرسہ سے سیدھا ایک راستہ مانی کلاں کی طرف جاتا ہے جس پر اس وقت گاڑی کی آمد و رفت کم رہتی تھی ، مدرسہ میں ایک اچھی چیز یہ بھی تھی کہ وہاں فجر کے بعد کافی دیر تک تلاوت اور اس کے بعد اشراق کا معمول تھا کوئی بھی طالب علم بغیر اشراق پڑھے مسجد سے نہیں نکل سکتا تھا ،یہ معمول بہت کم مدرسوں میں دیکھنے کو ملتا ہے ہم دونوں ساتھی تلاوت واشراق کے بعد نحومیر لے کر اس راستہ پر چل پڑتے تھے ایک سناتا جاتا اور دوسرا کتاب میں دیکھتا جاتا جہاں کتاب مکمل ہوجاتی وہاں سے یہی عمل کرتے ہوئے واپس لوٹ جاتے یہ اکثر دنوں کا معمول تھا ، حضرت الاستاذ کا حکم تھا نحومیر سورہ فاتحہ کی طرح یاد ہونی چاہئے اور الحمدللہ ہم لوگوں کا معاملہ ایسا ہی تھا ۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ ریاض العلوم کی نیک نامی اسی بنیاد پر تھی کہ یہاں کے اساتذہ بہت قابل تھے ،ہر ایک اپنے آپ میں آفتاب و مہتاب اور علم و عمل کے گوہر نایاب تھے ، فکر وفن کے تاجدار اور قرطاس و قلم کے شہسوار تھے آج بھی اساتذہ کی یہ خوبیاں وہاں پائی جاتی ہیں،طلبہ میں تمام اساتذہ کا حد درجہ احترام تھا ،لیکن قلبی اعتبار سے فرق مراتب ضرور ہوتا ہے بعض اساتذہ اپنی متنوع صفات کی وجہ سے طلبہ میں بہت مقبول ہوتے ہیں مولانا اکرام اللہؒ صاحب کا معاملہ ایسا ہی تھا ،مشفق مہربان تھے، لیکن سبق کے معاملے میں بڑے سخت دل تھے زبانی تادیب کے ساتھ ساتھ ضربی تادیب سے بھی کام لیتے تھے؛ لیکن طلبہ میں ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آتی تھی ،اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی خدمات کا بہتر صلہ انہیں عطا فرمائے ۔
دوم عربی میں جس شخصیت نے بہت متاثر کیا وہ حضرت الاستاذ مولانا عبد الرشید صاحب تھے ہدایت النحو کا گھنٹہ ان سے متعلق تھا یہ ہماری سعادت مندی کی بات تھی کہ نحو جس پر عربی زبان و ادب کے سیکھنے اور سمجھنے کا مدار ہے ان اساتذہ سے پڑھنے کا موقع ملا جونحو کے رمز شناس تھے، کافیہ مولانا حبیب اللہ اشہر بستوی صاحب سے اور شرح جامی حضرت مولانا جمیل احمد صاحب مظاہری اعظمی صاحب سے پڑھنے کا موقع ملا یہ سب ائمہ نحو کہلاتے تھے، آج جب کہ میں خود تدریس سے جڑا ہوا ہوں میرا احساس یہی ہے کہ یہ حضرات امام النحو تھے علم نحو پر دسترس رکھتے تھے خاص طور پر شرح جامی پڑھنے کا لطف اور اس کے فوائد آج بھی محسوس کرتا ہوں ،عربی سوم میں ترجمہ کلام کا درس حضرت ناظم صاحب سے متعلق تھا اس کا رنگ بھی جدا گانہ تھا ہم لوگ سوم میں جلالین کا مطالعہ کرتے تھے، آج کے طلبہ کو سن کر شاید حیرت ہو؛ لیکن واقعہ یہی ہے ناظم مدرسہ حضرت مولنا عبد الرحیم صاحب بجائے خود بتانے کہ طلبہ کے ناتواں کندھوں پر بوجھ ڈالتے تھے اور پھر ہم لوگ بھر پور تیاری کرکے آتے تھے تاکہ کسی بھی طرح کے چیلینج کو قبول کیا جاسکے اس طرح پڑھنے کا بڑا لطف آتا تھا اور اس کے فائدے بھی محسوس کرتا ہوں ،جب پڑھانے والا فن کا ماہر اور قادر ہوتا ہے تو اس کے پڑھانے اور سمجھانے کا طرز ہی کچھ اور ہوتا ہے وہ بچوں کی صلاحیتوں کو جانچ اور پرکھ کر اس کی سطح پر اتر کر کلام کرتا ہے، اس لئے میرا تجربہ یہ کہ جو شخص جس فن کا ماہر ہواور اس کو جس فن سے دلچسپی ہواسے وہی کتابیں پڑھانے کے لئے دینی چاہئے ۔
تذکرہ جب ریاض العلوم کا ہوتا ہے تو بہت سی یادیں اور باتیں ایک ساتھ جھک کر سلام کرنے لگتی ہیں اور الفاظ کا لباس پہن کر تیار ہوجاتی ہیں کہ مجھے بھی کاغذی جسم کا پیرہن بنا کر زینت ببخش دیاجائے یہی وہ مجبوری ہے کہ رہ رہ کر قلم اپنے موضوع سے ہٹتا جارہا ہے اور باوجود بہت کوشش کے دوسری باتیں زیرِقلم آرہی ہیں ،خیر بات تھی کہ حضرت الاستاذ سے ہدایت النحو پڑھنے کا موقع ملا سچ کہتا ہوں اور الفاظ کی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ لکھتا ہوں پوریے زمانہ طالب علمی میں وہ لطف اور چاشنی پھر کبھی نہیں محسوس ہوئی ،آج جب کے پندرہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے آج بھی اس کی مٹھاس و حلاوت ختم نہیں ہوئی ہے، اس کے بعد عربی چہارم میں نورالانوار پڑھنے کا موقع ملا حضرت ؒ کو فقہ و اصول فقہ پر کامل دسترس حاصل تھی آپ مطالعہ کے خوگر اور عادی تھے درس کے علاوہ باقی اوقات کو مطالعہ میں گزاراکرتے تھے ہر قسم کے اخلاق رذیلہ سے کوسوں دور تھے کبھی بھی کسی کی غیبت اور چغلی کرتے نہیں سنا ،اپنے کام سے ہمیشہ مطلب رکھتے تھے آج جب کے وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں ان کی الفت و پیار ، ان کا مسکراتا چہرا اور دل کوچھو لینے والی ان کی باتیں جن کامیں اسیر تھا انہیں سب نے آج مجبور کیا کہ ایک تحریر لکھ کر آپ کوخراج عقیدت پیش کروں اور انکی تدریسی زندگی کو سلام کروں ، آپ کی تعلیمی و تدریسی زندگی ہم تمام شاگردوں کے لئے مشعل راہ ہے ،
روشن شبِ حیات کے مہتاب کی طرح
آتی ہے ان کی یاد حسیں خواب کی طرح
ممکن نہیں کہ ان سے زمانہ ہو بے نیاز
وہ تھے جہاں میں گوہر نایاب کی طرح
حضرت الاستاذ کو انتقال ہوئے اگر چہ کئی مہینے گزر چکے ہیں باوجود قلبی داعیے اور تقاضے کے لکھنے میں جان بوجھ کر تاخیر کرتا رہا کچھ تو مصروفیت تھی اور یہ احساس تھا کہ شاید حضرت کی سوانحی زندگی سے کچھ پردہ اٹھے گا اور کچھ معلومات حاصل ہوں گی تو اس کو بھی سپردِ قرطاس کروں گا ؛لیکن باوجود کوشش کے ایسا نہیں ہو سکا ، بہر حال تعلیمی زندگی میں حضرت ؒ کو جیسا میں نے پایا اور ان کی بے لوث زندگی سے جو میں نے اخذ کیا ہے اور جو سبق انہوں نے اپنے شاگردوں کو دیا ہے چاہتا ہوں کہ اس کا اعادہ کردوں تا کہ ہمیں بھی فائدہ ہو اور علم و عمل کے ہر رہ گزر کو فائد ہ پہونچے ۔
حضرت الاستاذ سے پہلی کتاب میں نے ہدایت النحو پڑھی ، پڑھانے کا انداز بہت تفصیلی تھا سمجھانے کا اللہ تعالی نے عجیب و غریب ملکہ عطا فرمایا تھا ،کتابی مسائل کو محسوسات کی شکل میں اس طرح ہمارے سامنے بیان کرتے گویا اسم فعل حرف کلمہ کی کوئی قسم نہیں بلکہ تینوں بھائی ہیں اور ہماری جماعت میں شریک ہیں ،ہر تقسیم کی دلیل حصر ، اس کی مثالیں ، ہر ایک کی علامتیں مکالمے اور مناظرے کی شکل میں اس طرح بیان کرتے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کلاس میں نہیں ؛بلکہ کسی سیر و تفریح کی مجلس میں ہیں اور تفریحی اور دلچسپ باتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں یہی وجہ تھی کہ ہمیں گھنٹہ کے ختم ہونے کا احساس نہیں ہوتا ؛بلکہ بعض مرتبہ ایسا محسوس ہوتا کہ اے کاش ابھی کچھ وقت باقی رہتا اور ہم اپنی تشنگی بجھا لیتے درس کا یہ انداز بہت موثر اور مسحور کن ہوتا تھا اور اسی لب و لہجہ اور طرز کلام نے حضرت کے سبق کو مقبولیت کے افق پرپہونچا دیا تھا ۔
یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں
نورالانور میں حضرت کاجلال و جمال اور بھی قابل دید ہوتا ، یہاں فقہ اور اصول فقہ کی دلنشیں تشریح کے بعد فقہا کے اختلاف کو اس انوکھے انداز اور پیارے لب ولہجہ میں بیان کرتے تھے کہ اس کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنا یاجاسکتا ہے ، اس کیف و سرور کا تعلق سننے سے تھا بیان کرپانا مشکل ہے اختلاف فقہا بیان کرنے کے بعد ہر ایک کے دلائل بیان کرتے تھے دلائل بیان کرنے میں یہ طرز تھا کہ اگر امام شافعی ؒ کی دلیل بیان کرتے تو اس احترام و اہتمام او رمضبوطی سے بیان کرتے کہ گویا آپ شافعی المسلک عالم دین اور اس کے ترجمان ہیں اور سننے والے کو ایسا محسوس ہوتا کہ یہی مذہب قوی اور مضبوط ہے پھر جب احناف کی دلیل بیان کرتے تو لگتا کہ امام شافعی ؒ کی دلیل احناف کے مقابلے میں کسی لائق بھی نہیں ہے اور مذہب احناف ہی سب سے مضبوط مذہب ہے اور اما م صاحب ؒ کی فکر و فہم تک لوگوں کی رسائی نہیں ہو سکی ہے ،دلائل کے بیان کرنے میں فقہاء کے مکالمے کو اس اچھوتے انداز میں ذکر کرتے کہ ہر طالب علم ہمہ تن گوش آپ کی باتوں کو سنتا اور عش عش کر اٹھتا درس کا یہ نرالہ انداز تھا اس لئے طلبہ پر اس کا بہت اثر ہوتا تھا ۔
حضرت الاستاذ کی دوسری نمایا ں خصوصیت ان کاخلوص و تقوی تھا، اخلاص جیسی گم نام صفت کو تلاش کرپانا بہت مشکل ہے، الفاظ او رجملوں میں ،تقریروں اور وعظوں میں تو بہت دکھائی اور سنائی دیتا ہے ،البتہ انسانی زندگی سے یہ صفت نایاب ہوتی جا رہی ہے لیکن ایک طالب علم کی یہ شہادت ہے کہ حضرت ؒ کی زندگی میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود تھی اور صرف عقیدت مندانہ شہادت نہیں ہے بلکہ شہادت کی عظیم ذمہ داری کے احساس کے ساتھ ہے ان کی مقبولیت و محبوبیت میں ان کی اس صفت کا خاص دخل تھا ،ہر استاذ اپنے طالب علم کے تئیں بہت مشفق و مہربان ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ طلبہ کے مستقبل کو بہتر سے بہتر بنانے میں ان کا کلیدی رول ہوتا ہے ہر استاذ کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ ان کے پاس پڑھنے والے طلبہ آسمان کی بلندی کو پہونچیں ان کا مستقبل تابناک اور بہتر ہو حضرت الاستاذ کی زندگی بھی اس جذبہ سے خالی نہیں تھی، لیکن طلبہ کے لئے ان کی جد وجہد اور دلچسپی حیرت انگیز تھی ،ہدایت النحو کے پڑھنے کے زمانے میں آپ روزانہ سبق لکھ کر لایا کرتے تھے اور وہ اتنے صفحات پر مشتمل ہوتا تھاکہ ہم لوگوں کے لئے اس کانقل کر پانا مشکل ہوتا تھااور ایسا بھی نہیں تھا کہ ایک سال کاپی لکھ کر ہر سال طلبہ کو دے دیا کرتے ہوں،بلکہ ہر سال کسی ایک طالب علم کی کاپی لکھتے تھے اور باقی طلبہ اس سے نقل کرتے تھے اور یہ لکھنے کا عمل حضرت کے تہجد کے وقت میں انجام پاتا تھایعنی کہ تہجد کی نماز کے بعد ہدایت النحو کے طلبہ کے لئے کا پی لکھتے تھے جو یومیہ بیس سے پچیس صفحات پڑمشتمل ہوتی تھی، اندازہ لگائیے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اس قحط الرجال کے زمانے میں ایسی مثالیں ملنی مشکل ہیں
فروغ شمع تو باقی رہے گا صبح محشر تک
مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے
حضرت الاستاذ کا سبق بہت مفصل ہوتاتھا ،تفہیم پر ان کوقدرت کاملہ حاصل تھی لیکن نصاب بھی مکمل کرتے تھے ،اس لئے کہ ان کے یہاں وقت کی بڑی قدر تھی غیر حاضری کا ان کے یہاں کوئی تصور نہیں تھا اور پورا گھنٹہ پڑھاتے تھے اگر پچاس منٹ کا گھنٹہ ہوتا تو اس میں سینتالس منٹ ان کی تقریر ضرور ہوتی تھی وہ ہمیشہ گھنٹہ لگتے ہی کلاس میں داخل ہوتے تھے ،ہدایت النحو سے پہلے تجوید کا گھنٹہ تھا تجوید کی کلاس اس زمانے میں عربی کی درسگاہوں سے کافی دور تھی ،تجوید پڑھ کر آنے میں کم از کم پانچ منٹ تو لگ ہی جاتے تھے ادھر حضرت ؒ گھنٹہ لگتے ہی آتے تھے، عام معمول یہ تھا طلبہ ان کو لانے کے لئے ان کمرے پر جایا کرتے تھے ؛لیکن اگر کوئی نہیں گیا تو خود ہی آجاتے تھے اور کبھی ناراض بھی ہوتے تھے ایک مرتبہ تجوید پڑھ کر آنے میں معمولی سی تاخیر ہوگئی حضرت ؒ درسگاہ حاضر ہوئے اورناراض ہوکر واپس چلے گئے اب ہم میں سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ حضرت کو بلانے جائیں اس طرح اس دن گھنٹہ نہیں ہوا رات میں سب ساتھی معافی مانگنے گئے تو حضرت ؒ نے معاف بھی کر دیا اور شفقت و پیار کا بھی معاملہ فرمایا ،اس دن کے بعد سے ہم لوگ روزانہ تجوید کی کلاس سے دوڑ کر ہی آتے تھے کہ کہیں حضرت پھر واپس نہ چلے جائیں اس واقعہ پر کوئی بڑاعرصہ نہیں گزرا ہے لیکن طلبہ کے ذوق وشوق اور اساتذہ کے اس درجہ احترام میں کمی ضرور آئی ہے اگر آج کوئی استاذ ناراض ہو کر چلاجائے تو طلبہ تھوڑی دیر کے لئے خوش ضرور ہوجاتے ہیں کہ چلو آج کی چھٹی تو ہوئی جو ہونا ہے بعد میں ہوگا پھر استاذ کو منانے بھی اب سارے طلبہ نہیں جاتے ہیں،بلکہ کلاس میں جو باادب اور سنجیدہ ہوتے ہیں وہی اپنی ذمہ داری محسوس کرکے جاتے ہیں ،یہ ایک المیہ ہے کہ طلبہ سے وہ شعور اور وہ شوق رخصت ہو رہا ہے جو ہمارے مدارس کی روح ہے ۔
سبق کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ کا سبق خشک نہیں بلکہ ظرافت کی آمیزش سے پر لطف رہتا تھا اور طلبہ ہمہ تن گوش متوجہ رہتے تھے اگر کوئی طالب علم سبق سے غافل ہوتا تو آپ اپنی نگاہ فراست سے پہچان لیتے تھے اور اس طالب علم سے کچھ ایسے چبھتے ہوئے سوالات کرتے کہ تمام طلبہ کی رگوں میں چستی و نشاط کا خون دوڑنے لگتا آپ اس طالب علم سے پوچھتے ’’جناب کہاں چلے گئے تھے ، کس کی یاد آرہی تھی،کسے دیکھ رہے تھے ‘‘اس طرح کے کئی جملوں سے نہ صرف اس طالب کی جو حضرت کی تنبیہ کا شکار ہوا ہے بلکہ تمام طلبہ کی توجہ سبق پرمرکوزہوجاتی تھی آپ فرماتے طلبہ سبق میں رہتے ہوئے بہت دور کا سفرکرلیتے ہیں پھر اس کے بعدیہ شعر پڑھتے
دل کے آئینہ میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
آپ سبق میں کبھی کبھی اشعار بھی پڑھا کرتے تھے حضرت ؒ کا ایک شعر یاد آتا ہے جو آپ کثرت سے پڑھا کرتے تھے ،جس میں ایک نقطہ کے فرق سے بات کہاں سے کہاں چلی چاتی ہے
ہم دعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطہ نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا
بات اپنے آخری مرحلے میں ہے اس احساس کے ساتھ کے حضرت کی سوانحی زندگی جو ہم شاگردوں کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہے اس پر اب تک کچھ نہیں لکھا گیا ہے جو تحریر اب تک سامنے آئی ہے اس کی حیثیت تاثراتی نحریر کی ہے اس میں خاکہ نگاری کا رنگ بھی نہیں آسکا ہے میری یہ تحریر بھی قلبی تاثرات پر مشتمل ہے اس لئے ضرورت ہے کہ کوئی صاحب قلم حضرت کی سوانحی نقوش جمع کرے-
——–
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد

07207326738

Share
Share
Share