اردو کےادیب اورنثرنگار- قسط 8 – آغا حشر-امتیاز-مجیب – – محسن عثمانی ندوی

Share


قسط ۔ 8
اردو کےادیب اورنثرنگار

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

اردوکے ادیب اورنثرنگار- قسط 7 کے لیے کلک کریں

آغا حشر کاشمیری (۱۸۷۶۔۱۹۳۵ء)
آغا حشر کاشمیری ڈرامہ نگاری میں اردو کے شکسپیرکہلاتے ہیں اردو ڈرامہ کی نشا ونما اور ترقی میں ان کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، ان کا آبائی وطن کشمیر تھا ، ان کے خاندان کے دو بزرگ کشمیری شال کی تجارت کرتے تھے اور اس سلسلہ میں بنارس آئے تھے جہاں انھوں نے مستقل سکونت اختیار کی تھی ، بنارس ہی میں آغا حشر کاشمیری کی ولادت ہوئی اور یہیں انھوں نے اردو ، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی ، اور یہیں پھر انھوں راج نارائن ہائی اسکول میں داخلہ لیا ، اور یہیں انھوں نے اپنی شاعری کا آغاز کیا او رحشر ؔ تخلص اختیار کیا –

بمبئی کی ایک تھیٹر کی کمپنی جب بنارس آئی تو اس نے ہنگامہ برپا کردیا ، حشر نے اس کمپنی کے ڈرامے دیکھے تو ان کے اندر سویا ہوا ڈرامہ نگار بیدار ہوگیا ، انھوں نے سب سے پہلے’’ آفتاب محبت‘‘ کے نام سے ایک ڈرامہ لکھا ، پھر وہ بمبئی چلے گئے اور یہاں ان کے تعلقات ایک ناٹک منڈلی کمپنی کے مالک سے ہوئی ، کمپنی کامالک ان کی فی البدیہہ شعر گوئی کی صلاحیت سے متاثر ہوا ، اور انہیں اپنے یہاں ملازم رکھ لیا ، یہاں انھوں نے کئی ڈرامے لکھے ، جیسے مرید شک ، اسیر حرص ، یہ ڈرامے بہت مقبول ہوئے ، اور انھوں نے پھر ’’جرم وفا‘‘ اور ’’باپ کا قاتل ‘‘ اور ’’ترکی کی حور‘‘ کے نام سے ڈرامے لکھے ، ان ڈراموں نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھولیا ، انھوں نے حشر فلمس کے نام سے اپنی کمپنی بھی قائم کی اور ’’خوبصورت بلا ‘‘ اور ’’یہودی لڑکی‘‘ اور ’’صید ہوس‘‘ کے نام سے ڈرامے لکھے ، یہ سارے ڈرامے بہت مقبول ہوئے ، ان ڈراموں میں برجستہ گوئی ، فقرے بازی ، خطابت اور شاعری کا جادو جگایا گیا تھا ، بہت سے مکالموں میں سجع اور قافیہ کا التزام تھا ، اس لئے کہ قدیم ڈراموں کا یہی اسلوب ہوا کرتا تھا ، بعد میں انھوں نے اپنے ڈراموں میں زمانہ کے لحاظ سے تبدیلیاں کیں لیکن اس کے ساتھ ہی عوام کے معیار اور ذوق کو پیش نظر رکھا گیا ، آغا حشر کاشمیری نے اپنے ڈراموں میں ہمیشہ ادبیت قائم رکھنے کی کوشش کی ، ان کے ادبی اعتبار سے مشہور ڈراموں میں ’’سیتا بن باس‘‘ اور ’’رستم وسہراب‘‘ مشہور ڈرامے ہیں ، ادبی حیثیت سے آغا حشر کاشمیری نے ڈرامہ کو دل کشی عطا کی ہے ، اور بقول آل احمد سرور آغا حشر قدیم اور جدید ڈرامہ کے درمیان ایک کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

امتیاز علی تاج (۱۹۰۰۔۱۹۷۰ء)

اردو ڈرامہ کی تاریخ میں مشہور ڈرامہ ’’انار کلی ‘‘ کے تخلیق کار امتیاز علی تاج کا نام ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا ، اردو میں ڈرامہ نگاری نے اتنی ترقی نہیں کی جتنی دوسری زبانوں کے ڈراموں نے کی ، اس کے بہت سے اسباب بتائے جاتے ہیں ، ایک تو یہ کہ اس فن کو مذہبی اعتبار سے ثقہ اور معتبر نہیں سمجھا گیا ، اس لئے مذہبی ذہن کے لوگ اس سے گریزاں رہے ، بہر حال اردو ڈرامہ نگاری میں انارکلی کی حیثیت ایک سنگ میل کی ہے اور اس کے ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج کی تعلیم وتربیت لاہور میں ہوئی ، انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۲۲ء میں بی اے کی ڈگری لی ، وہ تہذیب نسواں کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالتے رہے جسے ان کے والد نے شروع کیا تھا ، پھر امتیاز علی تاج نے ۱۹۱۸ء میں کہکشاں کے نام سے رسالہ جاری کیا اور جب ان کا ڈرامہ انارکلی ۱۹۲۲ء میں منصہ شہود پر آیا تو اسے غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی، انہیں ستارہ امتیاز سے پاکستانی حکومت نے نوازا ، ان کے اور بھی کئی ڈرامے ہیں جیسے حلیم قلب ، اور صید و صیاد ، ورجینا اور الوّ کی زبان وغیرہ ، وہ ایک کثیر التصانیف نثر نگار تھے ، اور ان کی کہانیوں کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں جیسے اسکول کی کہانیاں ، بونوں کی کہانیاں ، بیربل کی کہانیاں ، خزانوں کی کہانیاں ، خانہ بدوشوں کی کہانیاں ، سانپوں کی کہانیاں ، جنوں کی کہانیاں ، کنجوسوں کی کہانیاں اور ہیبت ناک افسانے ، اور چچا چھکن وغیرہ ، یہ سب ان کی نثری یادگاریں ہیں ، اور چچا چھکن اردو کے مزاحیہ ادب کا ایک قابل قدر نقش ہے ۔
ان کے ڈراموں ، افسانوں اور کہانیوں میں جو شہرت انار کلی کو ملی وہ کسی اور کتاب کو نہیں مل سکی ، اس ڈرامہ میں انھوں نے مغل حکمرانوں کی حرم سرا ، خواجہ سرا ، کنیزوں اور بیگمات کی شاندار مرقع کشی کی ہے ، ان سب کے آداب وانداز ، طرز گفتگو ، شہنشاہ کے رعب وجلال کو انھوں نے مجسم کردیا ہے ، اور ہر کردار کی زبان اور گفتگو کا فرق ملحوظ رکھا ہے ، جس سے جذبات کی عکاسی بھی ہوتی ہے اور کردار کا فرق بھی ظاہر ہوتا ہے ، ڈرامہ کے آغاز سے انجام تک تجسس اور تذبذب کی فضا برقرار رہتی ہے ، مغلوں کے قلعے ، باغات کی تصویر کشی کی گئی ہے ، انار کلی کے برجستہ مکالمے ڈرامہ نگار کی قوت اظہار اور فنی ذکاوت کے مظہر ہیں ۔

پروفیسر محمد مجیب (۱۹۰۲۔۱۹۸۵ء)

محمد مجیب ان باکمال شخصیتوں میں سے ہیں جنہوں نے بیسویں صدی میں دانشوری کی روایات کو استحکام عطا کیا ، وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے ، دہرادون کے ایک پرا یویٹ اسکول میں ثانوی تعلیم حاصل کی ، اعلی تعلیم کے لئے آکسفورڈ بھیج دئے گئے ، یہاں انھوں نے لاطینی اور فرانسیسی زبانیں سیکھیں ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ترقی میں انھوں نے ڈاکٹر ذاکر حسین ، شفیق الرحمن قدوائی اور ڈاکٹر عابد حسین صاحب کے ساتھ حصہ لیا ، جامعہ ملیہ میں تاریخ کے استاد کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا ، او رجب ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب جامعہ ملیہ سے علی گڑھ چلے گئے تو پروفیسر محمد مجیب نے شیخ الجامعہ یعنی وائس چانسلر کی ذمہ داری سنبھالی ، انھوں نے جامعہ میں کئی شعبے قائم کئے اور بہت سی کتابیں لکھیں جو ان کی گہری بصیرت اور تاریخ دانی اور دانشوری اور ادبی ذوق پر دلالت کرتی ہیں ، انھوں نے انگریزی میں انڈین مسلم کے نام سے قابل قدر کتاب لکھی ، اردو میں ان کی بہت کتابیں ہیں ، ان کی ایک کتاب ’’دنیا کی تاریخ ‘‘ ان کے عمیق نظر ، وسیع مطالعہ ، فلسفیانہ بصیرت اور شگفتہ اسلوب پر دلالت کرتی ہے ، ان کی دوسری کتابوں میں تاریخ ہندوستان کی تمہید ، تاریخ فلسفہ سیاسیات ، روسی ادب ، تاریخ تمدن ہند (قدیم) ، اردو کلام کا انتخاب اہم ہیں ۔
پروفیسر محمد مجیب ادیب اور مؤرخ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے ، ’’کھیتی ‘‘ ان کا پہلا ڈرامہ ہے ، ’’خانہ جنگی ‘‘اور’’ حبہ خاتون‘‘ ان کے دوسرے ڈرامے ہیں ، ان کا ایک ڈرامہ ’’آزمائش‘‘ کے نام سے ہے ، ’’ہیروئن کی تلاش‘‘کے نام سے ان کا ایک اور ڈرامہ ہے ، ان کے تمام ڈراموں میں مقصدیت کا عنصر بہت نمایاں رہتا ہے اور جس کی وجہ سے مکالمے طویل بھی ہوجاتے ہیں ، بحیثیت مجموعی ان کا اسلوب سادہ ، پر اثر اور عام فہم ہے ، ان کے پیش نظر ہمیشہ ایک مقصد ہوتا ہے اور وہ مقصد انشا پردازی کی رنگینی کے درمیان بھی صاف نظر آتا ہے ۔

Share
Share
Share