شاعرہ، افسانہ نگار، ناول نگار : شئی لجا مترا – – – – ڈاکٹر قطب سرشار

Share
شئی لجا مترا

شاعرہ، افسانہ نگار، ناول نگار
شئی لجا مترا
پندرہ ادبی ایوارڈ یافتہ واحد تلگو اور انگریزی شاعرہ

ڈاکٹر قطب سرشار
محبوب نگر، تلنگانہ
موبائل : 09703771012

اردو زبان اپنی لسانی وادبی خصوصیات کے سبب سارے عالم میں مقبول ومشہور ہے۔ اس زبان کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ انگریزی کی طرح اس نے ملک اور بیرون ملک کی کئی زبانوں کے ادب کو (ترجمے کے ذریعہ) اپنی آغوش میں سمولیا ہے۔ اپنے وطن ہندوستان میں کسی ایک ریاست کی زبان نہ ہوتے ہوئے بھی تمام تر علاقائی زبانوں کے شانہ بہ شانہ چلتی ہوئی ہم آہنگ اور خوش گوار کردار نبھاتے رہنا اس کا گنگا جمنی مزاج ہے اردو کے ادیبوں اور شاعروں نے اپنی اپنی علاقائی زبانوں کے ادب کو اردو قالب میں ڈھالنے کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔

شہر حیدرآباد اگرچیکہ ایک تلگو ریاست کا صدر مقام ہے لیکن ساری دنیا میں شہر اردو کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر سلطان محمد قلی قطب شاہ تلگومیں بھی شعر کہتا تھا۔ اس طرح اردو سے تلگو زبان کے ساتھ کو صدیوں سے ادبی تناظر میں دیکھا جاتا رہا ہے۔ اردو تلگو یارانے کی اس صدیوں پرانی روایات کے خوبصورت تسلسل کی کڑی ہماری اپنی ترجمہ نگاری بھی اک حقیر سی خدمت ادبی ہے۔ ہم نے حیدرآباد کے اردو اخبارات ورسائل کے صفحات پرتا حال ۲۶؍ ادیبوں ، شاعروں اور مورخین کا تعارف اور تخلیقات کے تراجم پیش کئے ہیں جس کی اردو حلقوں میں پذیرائی بھی ہو رہی ہے۔ اب کی بار تلگو کی نامور شاعرہ، افسانہ نگار ، ناول نگار اور انشاء پرداز شئی لجا مترا کا تعارف شاعری کا جائزہ اور نظموں کا ترجمہ پیش خدمت کر رہے ہیں۔
شئی لجا مترا نے دنیائے تلگو ادب وثقافت کے تناظر میں ایک پہلو دار شخصیت ہیں۔ ادبی تناظرمیں جدید مکتب فکر اور منفرد لب ولہجے کی معتبر شاعرہ ہیں۔ شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری ، ناول نگاری اور انشاء پردازی سے بھی گہرا شغف رکھتی ہیں۔ ادبی کاوشوں کے علاوہ کرناٹک سنگیت اور رقص میں مہارت رکھتی ہیں۔ اپنی آواز کی شیرینی اور دلکش رقص کے حوالے سے تلگو ماحول میں انہیں مقبولیت حاصل ہے۔ شئی لجا مترا کی شخصیت تکوینی اور کسبی دونوں صلاحیتوں کی نمائندہ ہے۔ تکوینی جہت سے اعلی درجے کی قلمکار ہیں۔ اور کسبی جہت سے بہترین گلوکارہ اور رقاصہ ہیں۔ ان دونوں جہتوں سے شخصیت کی ایسی مثال تلگو کے ادبی وتہذیبی منظر نامے میں کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ اور اردو دنیا میں کمال ہنر کے پیمانے پر دیکھا جائے تو دور دور ایسی مثال نہیں ملتی۔ یہ تو شئی لجا مترا کی پہلو دار شخصیت کا یہ سرسری تذکرہ ہوا۔ اصل موضوع ان کی ادبی حیثیت اور شاعری ہے۔ شئی لجا مترا پچھلے دس برسوں سے تلگو کے ادبی افق پر نظر آنے لگی ہیں اور ان کا فن بڑی سرعت کے ساتھ عمودی سمت میں مائل پرواز ہے۔ ذود نویسی کا عالم یہ کہ پورے دس برسوں کے دوران انہوں نے ادبی دنیا کو پانچ شعری مجموعے، چھ ناول، ایک کہانیوں کا مجموعہ اور ایک سو چیدہ چیدہ کہانیاں دی ہیں۔ ان کے علاوہ ادبی اور سماجی موضوعات پر مبنی پچاسوں مضامین اخبارات ورسائل کے لئے تحریر کئے ہیں۔ زود نویسی تخلیقی معیار کی ضامن ہرگز نہیں ہوتی لیکن شئی لجا مترا نے تخلیقی اور فنی اعتبار سے تلگو ادب کے قارئین اور نقادوں سے اپنے کمال ہنر کا لوہا منوالیا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں ان کا تیسرا شعری مجموعہ نشبدم (خاموشی) شائع ہوا۔ اس کتاب کے حرف اول میں تلگو کے ممتاز شاعر گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ پدم بھوشن ڈاکٹر سی نارائن ریڈی لکھتے ہیں ‘‘ شئی لجا مترا کے بارے میںیہ فیصلہ کرنا مشکل لگتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر شاعرہ ہیں یا کہانی نگار ان کا فنی اظہار دونوں اصناف ادب میں یکساں نظر آتا ہے۔ شئی لجا کی کہانیوں اورناول تلگو اخبارات ورسائل میں نہایت اہمیت اور اہتمام کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں۔ تلگو اخبارات ورسائل کی یہ روایت ہے کہ وہ افسانوں اور نالوں کو اقساط میں شائع کرتے ہیں۔ خصوصاً ناولوں کی اقساط میں اشاعت ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ جبکہ اردو اخبارات میں اس طرح کی ترجیحات ادب عالیہ تک محدود ہے۔
شعری اظہار کے مرحلے میں روز مرہ اور محاوروں کے ساتھ ساتھ الفاظ کے گونا گوں معنوی ابعاد کو تخلیق کی کمال فن سمجھا جاتا ہے۔ اردو میں غالبؔ ، اقبالؔ ، اور جوشؔ کی شاعری میں لفظوں کے معنوی ابعاد کا تخلیقی اظہار موجودہ جدید مکتب فکر کے شاعروں کے لئے فنی سطح پر آج بھی مشعل راہ ہے۔ ادھر پچھلے دس پندرہ برسوں کے دوران جدید شعری اظہار کے حامل تلگو شاعروں کے رجحانات میں الفاظ کی مناسب دروبست اور معنوی تہہ داریوں کا گہرا ادراک پایا جاتا ہے۔ آنجہانی گنٹور شیشندرا شرما کا لب ولہجہ ترقی پسندوں جیسا تھا لیکن ان کی شاعری کا ڈکشن مکمل طور پر جدید تھا بلکہ کئی اعتبارات ایسے ہیں کہ جدید تلگو شاعری کے منظر نامے میں شرما کے قد کے برابر تک کوئی نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ وہ جدید تلگو شاعروں کے امام تھے۔ شئی لجا مترا کا ہیولیٰ تلگو کے جدید شاعروں کی صفوں میں زیادہ روشن اور اونچا نظر آتا ہے۔ یہ بات محل نظر رہے کہ تلگو شاعری کو عروضی پابندیوں سے آزاد ہو لگ بھگ تین دہائیاں بیت گئیں۔ تمام تر اصناف شاعری سے گریز کے بعد صرف نثری شاعری کا رواج عام ہوگیا ہے۔ جس کی وجہ سے شاعری کے میدان میں مشاعروں کا داخلہ بھی عام ہوگیا۔ جہاں تک حقیقی شاعروں کا تعلق ہے ان میں اکثریت ایسے شاعروں کی ہے جن کی شاعری پر زبان لب ولہجے اور غیر شاعرانہ شعری اظہار کے سبب سے بیان اور احتجاجی تقریروں کا گمان ہوتا ہے۔ شئی لجا مترا نے بیانیہ اور تقریری لب ولہجے سے خود کو نہایت احتیاط کے ساتھ بچائے رکھا ہے۔ جوالا مکھی تلگو کے بزرگ شاعروں کی صفوں میں باشعور اور بیدار مغز شاعر ہیں شئی لجا مترا کے پانچویں شعری مجموعے ’’انترمتھن ویلا ( لمحۂ تزکیۂ ذات ) ‘‘ کے پیش نظر چند نظموں کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’حقیقت آگاہی اور فرض شناسی اور عصری حسیت کے امتزاج کے باوصف شاعر کے ذہن پر تہذیب حرف وہنر کے اسرار کھل جاتے ہیں۔ شئی لجا مترا تہذیب حرف وہنر کی تہہ داریوں کا بھر پور ادراک رکھتی ہیں۔ تلگو صحیفے آندھراپربھا کے اسوسی ایٹ ایڈیٹر وجئے بابو کی شعر وادب پر نظر گہری ہے۔ لکھتے ہیں :
’’ شئی لجا مترا متعصب یا متنازعہ شاعرہ نہیں ہیں۔ ان کا درد سارے جہاں کا درد ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی سانحہ یا حادثہ ہوجاتا ہے شئی لجا مترا اسے اپنے اندر محسوس کرتی ہیں۔ اختلافات کے کانٹوں میں الجھے ہوئے شاعروں کی رہگذر کیلئے شئی لجا مترا کا شعری رویہ کسی فیضان سے کم نہیں۔ شاعری سے مراد اگر کوڈ لینگویج ہے تو شئی لجا مترا شعری علامتوں کا خاصہ ادراک رکھتی ہیں۔شاعری کو تنقید کی ترازو میں تولنے کی بجائے محسوس کریں شئی لجا مترا کی شاعری کو دل کی زبان سے پڑھاجاسکتا ہے‘‘ ۔
شئی لجا مترا کے تازہ شعری مجموعہ کے حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے منفرد شعری اظہار پر گرفت مضبوط کرلی ہے۔ عمق فکر الفاظ کے معنوی تنوع اور تخلیقی اظہار کے اعتبار سے یہ شاعرہ تلگو کی شفیق فاطمہ شعری سے مشابہت رکھتی ہیں۔ عوامی شہرت اور ادبی حلقوں میں پذیرائی انہیں پروین شاکر جیسی نصیب ہوئی ہے۔ ایک دہائی کے ادبی سفر میں شئی لجا مترا کی سرعت رفتار کا اندازہ ان کی ذود نویسی اور پذیرائی سے کیا جاسکتا ہے پذیرائی ایسی کہ دس برسوں میں ادبی وسرکاری اداروں کی جانب سے پورے پندرہ ادبی ایوارڈ ان کے حصے میں آگئے۔ پذیرائی اور اعتراف ارض ہند کی ایسی روایت کم از کم اردو زبان میں بہت کم پائی جاتی ہے۔ دراصل اعتراف حق کی جرأت مخلص ، دیانتدار اور سنجیدہ قوموں کا حصہ ہے۔ شئی لجا مترا کے علاوہ انگریزی میں نظمیں لکھتی ہیں۔ سلور لائنز کے نام ان کا ایک انگریزی نظموں کا مجموعہ بھی شائع ہوا اور انگریزی حلقوں میں پسند بھی کیا گیا۔ آخر میں تلگو نظموں کے چند اقتباسات کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:
شاعر کے تجربات
شدت احساس کے سبب
کبھی نہ رجھانے والے پھولوں کی مسکان میں زندہ رہ جاتے ہیں
میں برگشتہ شاعرہ نہیں
احتجاجی ہوں
بجز بساطِ حرف وہنر کے
کہیں بھی سر تسلیم خم نہ کرنے والی
مورت ہوں
حرف الف سے ہویدا آب زلال ہوں میں۔ !!!
رمز ظلمت آشنا حق وباطل کے پیکر سماج کے سینے پر پتھر کی سل کی مانند
حقیر ترین اغراض کی گرد سے اٹی ہوئی پرچھائیاں
پو پھٹتے ہی میرے شانوں پر پرندوں کی پروازیں
قد آدم آئینوں میں اپنا ہی عکس دیکھتے ہوئے مجسم سوال
یہ میرا گھر مرا کمرہ یہ پیڑ سبھی کچھ
یہ سارے رشتے باطل ہیں
سارے لہجے یخ بستہ ہیں اور دلو ں میں انگارے
اور چنگاریاں نگاہوں میں
میں کہ شاخ گل کی جویائی مگر کارزار حیات میں تنہا
طلوع سحر تا غروب آفتاب
میرا دل ۔۔۔ ایک شورِ بے پناہ !!!
——
Dr. Qutb Sarshar

Share
Share
Share