تلنگانہ میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات – – – – یحییٰ خان

Share


تلنگانہ میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات

یحییٰ خان
سہارا نیوز بیورو

ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں !
مسلمان صرف تحفظات کے ذریعہ اپنی حالتِ زار کو دور کرنے کے بجائے خود اپنے طورپر بھی حالات درست کرنے کے اقدامات کریں !
مالدار طبقہ بیجا اسراف سے گریز کرے،،نوجوانوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا کیاجائے، اپنے غریب رشتہ داروں و پڑوسیوں کی مدد کریں
– – –
بالآخر ریاستی وزیراعلیٰ کے سی آر نے 16؍اپریل کو ریاستی اسمبلی اور قانون ساز کونسل کا خصوصی اجلاس طلب کرتے ہوئے مسلمانوں کو موجودہ طور پر حاصل 4؍فیصد تحفظات میں اضافہ کرتے ہوئے انہیں 12؍فیصد تحفظات کی فراہمی کا بل دونوں ایوانوں میں اکثریت کیساتھ منظور کروالیا اس طرح وزیراعلیٰ نے اپنے 107؍انتخابی جلسوں میں کئے گئے وعدہ کی تکمیل کردی وہیں گریجن طبقے کے تحفظات کو بھی 6؍فیصد سے بڑھاکر 10؍فیصد کئے جانے کو بھی منظوری حاصل کرلی یہ ریاستی وزیر اعلیٰ کے سی آر اور حکومت تلنگانہ کی کامیابی ہی مانی جائے گی ۔

اب ان تحفظات کو مرکزی حکومت کی منظوری لازمی ہے اس سلسلہ میں وزیراعلیٰ نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ مسلمانوں کو بی سی ای زمرے کے تحت تحفظات میں اضافہ کے اس بل کی توثیق کے لئے وزیراعظم نریندر مودی سے بھیک نہیں مانگیں گے بلکہ سخت جدوجہد کریں گے اور وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ ضرورت پڑنے پر حکومت تلنگانہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی کل اس تحفظات بل کو ریاستی اسمبلی اور قانون ساز کونسل میں حکمراں ٹی آرایس ،اپوزیشن کانگریس ، مجلس اور سی پی ایم کی تائید حاصل ہوئی جبکہ عین توقع کے مطابق بی جے پی کے ارکان بلدیہ نے اس کی سخت مخالفت کی ان کے احتجاج کے باعث انہیں اسمبلی سے ایک دن کے لئے معطل کردیا گیا بی جے پی کا استدلال ہیکہ مذہب کی بنیاد پر تحفظات کی وہ سخت مخالف ہے جبکہ ریاستی وزیراعلیٰ کے سی آر بارہا مرتبہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ سدھیر کمیشن اور بی سی کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر غریب مسلمانوں کو تحفظات فراہم کررہے ہیں قارئین کو یاد ہوگا کہ روزنامہ راشٹریہ سہارا کی 13؍اپریل کی اشاعت میں ہم نے حکومت کی جانب سے تشکیل بی سی کمیشن کی حکومت کو پیش کی گئی رپورٹ کے چند اقتباسات شائع کئے تھے ۔ بی ایس راملو صدربی سی کمیشن نے حکومت تلنگانہ کو سونپی گئی اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کی حالت زار کا آئینہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہیکہ ریاست میں 80؍فیصد مسلمان غریب ہیں اور غربت ہی مسلمانوں کااصل مسئلہ ہے اس رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہیکہ ریاست کے 32؍فیصد مسلمان اپنا ذاتی مکان نہیں رکھتے اس رپورٹ میں کہا گیا ہیکہ تعلیمی میدان میں بھی مسلمان بہت پیچھے ہیں زیادہ تر مسلمان پرائمری اور ہائی اسکول سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے جبکساتھ ہی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہیکہ زیادہ تر مسلمان چھوٹے چھوٹے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں ان میں سے بھی زیادہ تر آٹواوردیگر گاڑیوں کے ڈرائیورس ،مختلف مرمتی کاموں اور مختلف خدماتی شعبہ جات اوردکانات میں کام کرتے ہیں اور ملازمتوں کی تلاش میں سالانہ 50؍ہزار مسلمان ریاست کے مختلف مقامات سے خلیجی ممالک کا رخ کرتے ہیں ۔ سرکاری ملازمتوں کے متعلق بی ایس راملو کی قیادت والی بی سی کمیشن نے اپنی اس رپورٹ میں انکشاف کیا ہیکہ تلنگا نہ میں ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب صرف 7؍فیصد ہے اس رپورٹ میں یہ حقیقت بھی سپرد قلم کی گئی کہ مسلم علاقوں میں سرکاری ہسپتالس موجود نہیں ہیں زیادہ تر بینکس مسلمانوں کو قرض نہیں دیتے ، مسلمان گھریلو ضرورتوں کے لئے بھاری سود پر قرض حاصل کرسکتے ہیں اور ہمیشہ مقروض زندگی گزارتے ہیں اس طرح اس رپورٹ میں تمام حقائق کو آشکار کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کے معاملہ میں بی جے پی کی سنگ دلی ،ہٹ دھرمی اور دوہرا معیار ناقابل فہم ہے! کیونکہ وہ ہریانہ میں جاٹ برادری کو ، گجرات میں پٹیل برادری کو اور راجستھان میں گجروں کو تحفظات کے حق میں ہے جنہوں نے تحفظات کا مطالبہ کرتے ہوئے پرتشدد احتجاج تک کیا جس میں کروڑ ہا روپئے مالیتی سرکاری اور خانگی املاک کو تباہ و تاراج کیا گیا تھا۔کل اسمبلی میں تحفظات بل کی مخالفت کرتے ہوئے بی جے پی کے تمام پانچوں ارکان اسمبلی نے زبردست احتجاج کیا ،اسمبلی میں پلے کارڈس کا مظاہرہ بھی کیا اس موقع پر اسمبلی میں بی جے پی فلورلیڈر جی۔ کشن ریڈی نے گریجن طبقہ کو 10؍فیصدتحفظات کی تو تائید کی لیکن مسلم تحفظات کی بھرپور مخالفت کی اسمبلی میں انکی تقریر سن کر جہاں خوشی ہوئی کہ انہیں اسلام کے متعلق معلومات حاصل ہیں کہ اسلام میں کوئی طبقہ ، فرقہ یا ذات پات کا تصور نہیں ہے وہیں ایک قدم آگے بڑھ کر جی۔ کشن ریڈی نے ان تحفظات کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ یہ مخالف اسلام عمل ہے ! سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ کیا بی جے پی ریاست میں مسلمانوں کی معاشی ، سماجی اور تعلیمی ابتری سے واقف نہیں ہے ! قابل غور بات یہ بھی رہی کہ کہ جن مسلمانوں نے دکن پر1518ء تا 1948؍جملہ 430 ؍ سال تک حکومت کی اور مسلم حکمرانوں کی تعمیر کردہ اسمبلی کی عمارت میں ہی مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کیلئے بحث چل رہی تھی !! اب ذرا خود مسلمان کھلے ذہن سے اس بات پر غور کریں کہ گزشتہ 69؍سال میں انکی معاشی ، معاشرتی ، سماجی اور تعلیمی پسماندگی کا ذمہ دار کون ہے ! تو سیدھا جواب ہوگا کہ ان حالات کے ذمہ دار خود ایک حدتک مسلمان بھی ہیں اور انہیں صرف ووٹ بینک کی طرح استعمال کرنے والی چند سیاسی جماعتیں بھی اس کی ذمہ دار ہیں!! اگر ماضی کی حکومتوں نے مسلم علاقوں میں پولیس اسٹیشنس کے قیام کے بجائے اسکولس تعمیر کئے ہوتے توشاید مسلمان آج تعلیمی میدان میں اتنے پچھڑے ہوئے نہ ہوتے ! افسوس کی بات تو یہ ہیکہ خود مسلمانوں نے کبھی اپنی حالت سدھارنے کی جانب دھیان نہیں دیا ! افسوس تو آج بھی ہوتا ہیکہ چندمسلم قیادت کے دعویدار آج بھی حکومت ، وزراء اور اپنے اراکین اسمبلی سے عیدگاہوں کی حصار بندی ،عیدگاہوں کے لئے اراضی ، انکی مرمت ، قبرستانوں کے لئے اراضی اور موجودہ قبرستانوں کی حصار بندی جیسے مطالبہ لیکر ہی رجوع ہوتے ہیں کبھی بھول کر بھی یہ نمائندگی نہیں کرتے کہ موجووہ سرکاری اردو میڈیم اسکولس کی شکستہ عمارتیں ٹھیک کی جائیں ، انکے لئے جدید عمارتیں تعمیر کی جائیں ، مخلوعہ اساتذہ کی جائدادیں پر کی جائیں ! غریب مسلمانوں کو ہمیشہ یہ شکوہ رہتا ہیکہ مسلمانوں کا مالدار طبقہ شادی بیاہ کے نام پر کروڑہا روپئے کا بیجا اسراف کرتا ہے ! اور یہ حقیقت بھی ہے ! اگر مسلمانوں کا مالدار طبقہ شادی بیاہ کے مواقع پر بیجا رسومات پر رقم خرچ کرنے کے بجائے اپنی رشتہ دار یا اڑوس پڑوس کی غریب مسلم لڑکیوں کی شادیوں کے لئے کچھ رقم دے دیا کرے تو اس سے بھی غریب مسلمانوں کا بوجھ ہلکا ہوسکتا ہے ۔اسی طرح ریاست کے ٹاؤنس میں چھوٹے مسلم بیوپاریوں کو بلاء سودی قرضہ جات کی فراہمی کے لئے مقامی سطح پر ٹرسٹ قائم کئے جائیں تو غریب مسلمانوں کی معاشی حالت درست ہوسکتی ہے اور یہ سود خوروں کے استحصال سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

سب سے اہم مسئلہ مسلم نوجوانوں کا ہے جو آج حقہ سنٹرس ، چبوتروں، ہوٹلوں ، ریسارٹس کا رخ کرتے ہوئے بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں اور مسلم نوجوانوں کی بڑی تعدادجو غیر ذمہ دار نظر آنے لگی ہے ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا کیا جائے انہیں مسلم ادارے ملت کی فلاح کی غرض سے فنی تعلیم سے آراستہ کرتے ہوئے خودمکتفی بناسکتے ہیں جس سے یہ نوجوان اپنے خاندانوں کا سہارا بن سکتے ہیں اس کے لئے حکومت قرضہ جات بھی جاری کررہی ہے مسلم اقلیتی تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کا بھی یہ فرض بنتا ہیکہ وہ قوم کے قابل طلباء و طالبات کو اپنے اداروں میں برائے نام فیس کے ذریعہ داخلہ دیں تاکہ یہ بھی ڈاکٹرس ، انجنیئرس اور دیگر شعبہ جات میں اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کی خدمت کرسکیں وہیں ضرورت ایک یہ بھی ہیکہ قوم کی امداد سے چلنے والے مدارس اپنے طلبہ کو دینی تعلیم کیساتھ ساتھ عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں اور مدارس میں طلبہ کو دینی تعلیم کیساتھ فنی تعلیم کا بھی نظم کیا جائے ! کیونکہ مسلمانوں کو 12؍فیصد تحفظات حاصل ہوبھی جائیں تو راتوں رات انکی معاشی ، معاشرتی ، سماجی اور تعلیمی پسماندگی دور نہیں ہوگی اس کے لئے ایک طویل وقت درکار ہوگا !! ضرورت شدید ہیکہ ریاست تلنگانہ کے 31؍اضلاع کے شہروں ،ٹاؤنس اور دیگر مقامات کے علماء اکرام ، مسلم سیاسی قائدین، دانشوراور مسلم ذمہ داران اپنے اپنے سیاسی ، ذاتی اور مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سر جوڑکر بیٹھیں اور اس پر غور کریں۔ مشہور شاعر دُشینت کمار نے بجا کہا ہیکہ
کیسے آسمان میں سوراخ نہیں ہوسکتا
اِک پتھر تو طبیعت سے اُچھالو یارو
——
Yahiya Khan

Share
Share
Share