ایک یادگار ادبی سفر : – عزہ معین

Share


ایک یادگار ادبی سفر

عزہ معین

مجھے کئی مرتبہ ادبی سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے. ہر سفر کی اپنی انفرادیت ہوتی ہے.لیکن ہر سفر خاص بھی ہو جائے ایسا کم ہی ہوتا ہے.میرے اب تک کے ادبی سفروں میں ایک دو ہی ایسے سفر ہوئے ہیں جو خاص ہو گئے اور یادوں کے البم میں ہمیشہ کے لئے قید ہو گئے. ان کی خوشبو مجھے آج بھی محسوس ہوتی ہے.

آج کا سفر بھی میرے انھیں سفروں میں سے ایک ہے جن کی یادیں میرے ذہن و دماغ پر ہمیشہ کے لئے نقش ہوگئی ہیں.نوشابہ میموریل مہلا کلیان اینڈ شکشا وکاس سمتی میں این سی پی یوایل کی طرف سے اردو زبان اور انٹر نٹ کے موضوع ایک سیمنار منعقد ہونا تھا.مجھ ناچیز کو بھی اس پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا.میں نے آج کا سفر اسی پروگرام میں شریک ہونے کی غرض سے کیا. اس سفر میں سنبھل کے معروف افسانہ نگار یامین برکاتی،شفیق الرحمن برکاتی ،فہیم بسمل ،ایم اے معروف ،اور شاکر اصلاحی جیسے ادبی ذوق رکھنے والے حضرات میرے ساتھ رہے ۔اگرچہ سنبھل سے جاتے ہوئے ہزارشبہات ذہن میں گردش کر رہے تھے.شدید گرمی میں ویسے بھی گھر سے باہر نکلنے سے پہلے ہزار بار ارادے بدلتے ہیں.جس پروگرام میں جانا تھا وہاں کے انتظام و انصرام کے متعلق بھی ذہن میں کئی سوالات آ رہے تھے.کچھ اپنے گھر کی پریشانیاں بھی تھیں. اس لئے ذہن کئی بار پس وپیش کا شکار رہا.لیکن پروگرام میں جانے کا ارادہ اس لئے بنا لیا کہ ساتھ میں کئی اہم شخصیات جا رہی تھیں. دوران سفر بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع تھا.سیمینار کے مقام پر پہنچنے تک بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا .اچھی بات یہ رہی کہ وقت پر پہنچ گئے کیوں کہ ہمیں گھر سے نکلتے وقت محسوس ہو رہا تھا کہ راستہ زیادہ ہے اور وقت کم .لیکن شکراللہ .گاوں کے حالات اور وہاں کا نظام دیکھ کر بہت خوشی ہوئی. میزبانوں کے انداز استقبال نے دل جیت لیا.مہمانوں سے بڑے پر تپاک اور گرمجوشی سے ملے.ہم لوگوں کو دیکھتے ہی میزبانوں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی.مجھے وہاں پر جو بھی ملے وہ سب اعلی خیالات کےحامل تھے.سماجی اور مثبت فکر کے لوگوں سے مل کر بڑی طمانیت کا احساس ہوتا ہے.دوران ملاقات ان لوگوں کی سماجی سرگرمیوں کا علم ہوا. ان کی شروع کی گئی اسکیمیں اور ان کی تعلیمی سر گرمیاں بلا شبہ قابل تعریف ہیں.سیمنار میں بطور خصوصی مہمان کے علاوہ گاوں کے پردھان کو بھی مدعو کیا گیا تھا.انہوں نے اپنے خصوصی خطاب میں جس طرح کی گفتگو کی اس سے ان کے بلند ارادے کا پتہ تو چلا ہی ساتھ ہی ان کی دوراندیشی اور بصیرت افروزی کا بھی علم ہوا. سیمنار کے ختم ہونے پر ہمیں گاوں کے ایک بزرگ جو معروف سر کے شناسا تھے اپنے گھر لے گئے . ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ان کے بیٹے جاوید خان نے ممبئی انڈئنس کی طرف سے آئی پی ایل میچ کھیلا ہے.اب انڈئن کرکیٹ ٹیم میں اپنی جگہ بنانے کی تیاری کر رہا ہے.ان کے گھر کے افراد سے مل کر بہت اچھا لگا.ان سے بات کرتے ہوئے مجھے یہ احساس ہوا کہ ان سب کے لئے یہ فخر کی بات تھی کہ ان کا لڑکا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کرکٹ کلب سے جڑاہے اور آئی پی ایل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے.بہر کیف ان کی میزبانی بڑی اچھی رہی. سب لوگ پرخلوص لگے. واپسی میں ہمارے ساتھی ہمسفر شفیق برکاتی ,شاکر سر ,معروف سر وغیرہ سبھوں نے مل کر ایک چھوٹے سے مشاعرے کا آغاز کر دیا. یہ بہت دلچسپ اور قابل تعریف رہا ۔ہوا یو ں کہ گاءوں سے نکلتے ہی تھوڑی دیرتک گاءوں کے متعلق اور وہاں کے باشندوں کے رویے کے بارے میں سب اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے رہے.اظہار خیال کا یہ سلسلہ بہت جلد ختم ہو گیا.ہمارے درمیان خاموشی اپنا ڈیرہ ڈالنے والی تھی کہ تب ہی موجود افراد ایک لمحے میں فیصلہ کرکے ہمارے شہر سنبھل کے جانے مانے شاعر شفیق الحمن برکاتی کی موجودگی کو غنیمت جانتے ہوئے ان سے غزل سنانے کا مطالبہ کرنے لگے.ایک طرح سے شعری نشست قائم ہو گئی.کئی غزلیں پیش کی گئیں. داد و تحسین کا سلسلہ بھی شروع ہوا.پھر ادب پر گفتگو شروع ہوئی. سفر طویل تھا مگر طوالت کا پتہ ہی نہ چلا ۔محترم شاکر اصلاحی کی بہترین غزل سننےکا شر ف حاصل ہوا۔ غزل سنانے اور داد پر داد ملنے سے مشاعرے کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی. ڈاکٹر فہیم کی بہترین غزلیں اور حمد سننے کے بعد مجھ پر ایک نیا انکشاف ہوا.وہ یہ کہ ایم اے معروف سر بی اے کے زمانے سے ہی شاعری کر رہے ہیں. ان کے کلام کو لوگوں نے بہت غور سے سماعت کیا. مجھے ان کی غزلیں بے حد پسند آئیں. پر غلطی یہ ہوئی کہ ان کے اشعار لکھ نہیں سکی ۔شاعری پسند ہے پر ذہن اس طرف منعطف نہ ہونے کی وجہ سے اشعار یاد نہیں رہتے. ورنہ یہاں پر کچھ اشعار ضرور پیش کرتی.ادبی بحث و مباحثے جاری رہے.تقریبا سبھی اپنے خیالات رکھ رہے تھے. لیکن اس بیچ میں نے ایک چیز محسوس کی.اس کا ذکر شاید میرے لئے اچھا نہ ہو. لیکن پھر بھی میں کر رہی ہوں.ہمیں افسانہ نگار یامین برکاتی کے خیالات جاننے کا موقع نہ مل سکا. کیونکہ انہیں کچھ بولنے کے لئے وقت نہیں دیا گیا.کسی نے کوشش بھی نہیں کہ ان کے خیالات کو سنا جائے.پروگرام کی بات کا ذکر تو بھول ہی گئی.جس پروگرام میں ہم شریک ہوئے تھے اس میں شاکر بھائی نے مقالہ پڑھا بلکہ پڑھا نہیں انھونے خطاب کیا یا پھر با لکل شہزاد ماما کی طرح پڑھا ۔ڈاکٹرشہزاد احمد مقالہ تحریر نہیں کرتے وہ زبانی بولتے ہیں اور مربوط گفتگو کرتے ہیں.دوران تقریر بھٹکتے نہیں. معلوماتی بات کرتے ہیں. موضوع کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں چھوڑتے .ان کی تقریر وضاحتی ہوتی ہے.ان کے ساتھ جتنے بھی سیمنار میں شریک ہوئی ان کی تقریر سے میں نے ہمیشہ نوٹس تیار کئے. بہر کیف اس سفر میں کئی باتیں اہم رہیں.سیمنار میں مختلف لوگوں کی علمی گفتگو سے فیض یاب ہونے کے علاوہ جو وقت میں نے بڑی شخصیتوں کے ساتھ سفر میں گزارا وہ میری یادوں کا حصہ بن گیا..

Share
Share
Share