کہانی ۔ درد : – دلجیت قاضی

Share


کہانی :
درد

دلجیت قاضی

فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی لیکن وہ فون اٹھانے سے قاصر تھا ۔
کہ اسے رکشہ میں سوار مریض کو جلد سے جلد اسپتال پہنچانا تھا ۔اس نے رکشہ اور تیز دوڑایا ۔ مریض کو ایمرجنسی وارڈ منتقل کرنے تک دوبارہ فون بجنے لگا ۔ جھنجھلاکر اس نے فون اٹھایا آواز پہچان کر اس کے چہرے پر ایک پیار بھری مسکراہٹ دوڑ گئی —- جواد کی کامیابی کا سن کر اس کی آواز بھرّا گئی ۔اس نے آنے کا کہہ کر رکشہ پہلے مسجد کی طرف موڑا ‘ اللہ کے حضور اپنی سرخ روئی پر سجدہ ریز ہونے کے بعد مٹھائی لی اور جواد کے گھر کی طرف چل پڑا۔

صاحب! ایک گجرا لے لو — اس طوفانی بارش میں بھیگتا ایک بارہ ‘ تیرہ سالہ بچہ رکشہ میں بیٹھی سواری سے سوالی تھا۔
نہیں چاہیے —–
لے لیں ناں صاحب ! آج بارش کی وجہ سے بِکری نہیں ہوئی ہے —–
یہ لو دس روپئے اور بھاگو یہاں سے ‘ مجھے کوئی گجرے نہیں چاہیے ——
میں بھکاری نہیں ہوں ——- اور بچے نے پیسے دینے والے کو پیسے واپس تھما کر دوسری گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
نئے نئے ہتھکنڈے ہیں ان لوگوں کے بھیک مانگنے کے ——– سواری کی بڑبڑاہٹ نذیر کو اچھی نہیں لگی ۔
پھر یوں ہونے لگا کہ اکثر اس راستے سے گزرتے سگنل پر لال بتی ہوتی تو یہ بچا پھول لئے دوڑ کر آتا ۔کبھی کوئی سواری پھول خریدتی اور کوئی نہیں۔
کاں تھے استاد ‘ نظر نہیں آئے دو چار دن سے ؟——– نذیر نے پیسے لیتے بچے سے یونہی پوچھا
جی ‘ امتحان چل رہے تھے ——– بچے نے جھینپی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ۔
اچھا ——– نذیر کی آواز میں غیر شعوری طور پر حیرت تھی ۔ کون سی جماعت میں ہو ؟
جی ‘ ساتویں—-
ماشاءاللہ ‘ دل لگا کر پڑھو اللہ مدد گار ہے —- کام تو کسی عمر میں بھی کر لو گے ‘ لیکن پڑھنے کی یہ عمر چلی گئی تو ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ——-نذیر کی آواز بھرا گئی ۔
چھوٹے استاد ! آؤ چائے پیتے ہیں —- ایک دفعہ بغیر سواری کے نذیر کا گزر ادھر سے ہوا تو اس نے اس بچے کے قریب رکشہ روکا ۔
نہیں ‘ میں چائے نہیں پیتا —-
اچھا ‘ کیا نام ہے تمہارا ؟
جواد —-!
ابا کیا کرتے ہیں ؟ نذیر نے سستانے کے لئے رکشہ بازو میں لگایا اور جواد سے باتیں کرنے لگا۔اس کے ابا سعودی میں ڈرائیور ہیں ۔اس کی چار بہنیں اور تین بھائی ہیں ——- آجکل ابا کو کفیل تنخواہ برابر نہ دینے کی وجہ سے جواد کو کام پر آنا پڑ رہا تھا ۔سب بہن بھائی پڑھتے ہیں ۔امی کہتی ہیں جیسے ہی ابا کو تنخواہ ملے گی تو اسے پھول بیچنے جانے کی ضرورت نہیں ہوگی —– جواد نے باتوں باتوں میں بتایا ۔
بہت دن بعد جب جواد نظر آیا اداس اداس سے لگ رہا تھا۔
کیوں چھوٹو میاں کیسے ہو —— اس نے رکششہ بازو روکی اور ٹھنڈے کے دو گلاس کا آرڈر دے کر اس کے قریب ہی بیٹھ گیا۔جواد نے بتایا کہ امتحان میں اس کے نمبر اچھے نہیں آئے اس لئے اب وہ امی کی مدد کے لئے فل ٹائم کام ہی کررہا ہے پڑھائی کو خیر باد کہہ کر۔ اسے دھچکا لگا۔
پتہ نہیں کس جذبے کے تحت نذیر نے جواد کو کچھ رقم دینی چاہی جسے لینے سے اس نے انکار کر دیا یہ کہہ کر کہ امی کہتی ہیں اپنی محنت کے پیسوں میں برکت ہوتی ہے۔اس کے بہت اسرار پر بھی جب جواد نے پیسے نہیں لئے ۔اسے برا تو لگا لیکن جواد کی خودداری اسے اچھی لگی ۔
دو دن بعد اس نے جواد کو اپنے ایک جاننے والے سے ملوایا جو پھولوں کا کاروبار کرتا تھا۔یہ طئے پایا کہ جواد روزانہ گھر سے گجرے اور ہار بنا کر دکان پر دے جایا کرے گا۔اس نے جواد سے وعدہ لیا کہ اب وہ اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کردے گا۔
فون کی گھنٹی کی آواز پر اس کی سوچوں کا سلسلہ ٹوٹا ۔جواد کا فون تھا۔
چاچا کہاں ہو —–؟
ابھی بس پہنچ رہا ہوں بیٹا۔
جواد کے گھر پہنچ کر اس نے مٹھائی کھلائی ‘ پھول پہنائے اور جواد کو سینے سے لگا کر دعا دی ۔سینے سے لگایا تو روتے ہوئے اس کی ہچکی بندھ گئی——– وہ وہاں مزید رک نا سکا ۔گھر پہنچ کر مٹھائی زبیدہ کو پکڑائی ۔
طبیعت تو ٹھیک ہے ؟اس کی بیوی کی فکر بند آواز پر اس نے تسلی دی اورسونے کے لئے لیٹ گیا۔تھکن کے باوجود نیند نہیں آرہی تھی ۔کروٹیں ندلتے اسے امی یاد آنے لگیں۔
اللہ اللہ کل سے جاتوں امی مت مارو —— روتے ہوئے اس نے امی کے ہاتھ پکڑ لئے۔
غلط دوستوں کی صحبت میں وہ کئی دن سے اسکول سے ناغہ کررہا تھا ۔روزانہ کی مار نے اسے پڑھائی کی طرف لانے کے بجائے اور دور کررہی تھی۔اس پر امی کی بیماری نے اسے اور چھوٹ دے دی تھی ۔ پھر اچانک امی چلی گئیں ۔آپا نے امی کی جگہ بھرنے کی کوشش کی ‘ پھر آپا کی شادی ہوگئی اور وہ اپنے گھر چلی گئیں۔ اب وہ کسی حد تک سدھر گیا تھا ۔وہ اور چھوٹا بھائی ساتھ ہی اسکول جاتے ۔بشیر بچپن سے پڑھنے میں تیز تھا۔سال کے سال اچھے نمبروں سے کامیاب ہوتا رہا اور اس سے آگے نکل گیا۔ایک تو سرکاری اسکول ’ دوسرے پڑھائی پر توجہ دلانے والا نہ کوئی اور نا سرزنش کرنے والا ——— پڑھائی سے عدم دلچسپی دیکھ ابا نے اسے کارخانے میں لگا دیا۔ وقت گزرتا رہا۔بشیر انجینیرنگ کرکے اپنی فیملی کے ساتھ سعودی میں سیٹل ہوگیا ۔ابا بھی گزر گھے اس کے پاس نا تعلیم تھی اور نا ڈھنگ کی نوکری ۔بھائی نے ایک بار کوشش کر کے اسے بھی سعودی بلا لیا ڈرائیور کی نوکری پر۔ بھائی کی اعلی نوکری اور اپنی حیثیت نے اسے احساسِ کمتری میں مبتلا کردیا ۔وہ وطن واپس آگیا اور یہیں کارخانے میں کام کرنے لگا۔اب اسے رہ رہ کر تعلیم مکمل نا کرنے کا احساس ہونے لگا ۔بہن کے بار بار کہنے پر اس نے دسویں کا امتحان لکھنے کی کوشش کی لیکن کئی مرتبہ کی کوشش کے بعد بھی وہ دسویں پاس نا کر پایا۔ کارخانے میں کام کرنا اور رکشہ چلانا خاندان والوں کی ناک کٹانے والی بات گردانی گئی۔ اسے رہ رہ کر امی یاد آتیں۔پھر یوں ہوا کہ اسٹیٹس کے فرق نے اسے اپنوں سے دور کر دیا۔ اس کی شادی بھی ایک کم تعلیم یافتہ گھرانے میں ہوئی۔ لیکن یہ امی کی کوئی نیکی تھی یا اس کے حق میں دی گئی دعا کہ دسویں پاس رضیہ ایک سلیقہ شعار محبت کرنے والی بیوی ثابت ہوئی۔ زندگی میں مثبت تبدیلیاں آنے لگیں۔
ایک طوفانی رات جواد سے ٹکراؤ ——– سواری کا غریب بچے کو جھڑکنا اور بھیک مانگنے کے ہتھکنڈے کہنا اسے تکلیف دے گیا۔ اسے اپنے ساتھ ہوئے سلوک یاد آنے لگے۔ اسے پریشان دیکھ کر رضیہ کے استفار پر نذیر نے واقعہ سنایا ۔پتہ نہیں لوگ کیوں غریب کی مجبوری نہیں سمجھتے۔ اس نے رضیہ سے کہا کہ اسے جواد کو ایک اور نذیر بننے سے روکنا ہے۔رضیہ نے ایک غمگسار بیوی کا پورا حق ادا کیا اور دونوں نے مل مصمم ارادہ کر لیا۔
نذیر نے اپنے ایک واقفکار پھول فروش سے بات کی اور جواد کو گھر سے پھولوں کے گجرے اور ہار بنا کر روزانہ شام پہنچانے کا کام دلایا جس سے اسے اسکول سے ناغہ کرنے کی ضرورت نہ رہی اور مناسب آمدنی بھی ہونے لگی ‘ اور جواد کی ماں کو بھی ایک ٹیلر سے گھر بیٹھے کپڑے سی کر دینے کا کام دلایا۔
آج جواد انجینئرنگ کے آخری سال میں کامیابی کی خوش خبری سنائی فون پر تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے آج وہ امی کے سامنے سرخ رو ہو گیا۔

Share
Share
Share