افسانہ – میری ماں : – ڈاکٹر حمیرہ سعید

Share


افسانہ : میری ماں

ڈاکٹر حمیرہ سعید
صدر شعبۂ اُردو
این ٹی آر گورنمنٹ ڈگری کالج(اُناث)
محبوب نگر – تلنگانہ

اندھیرے جب اجالوں سے گلے ملتے ہیں تو اپنا رنگ اتنا حاوی کرلیتے ہیں کہ اجالا اپنا وجود ہی کھو بیٹھتا ہے۔ آج مجھے بالکل ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں نے اپنے وجود کو کھو دیا۔ سارے رشتے آج بکھر گئے تھے، احساس کی چنگاریوں کو بے بسی کی برسات نے بجھا دیا۔ ممتا کا تقدس پامال ہو چکا تھا۔مجھے لگ رہا تھا کہ میری شخصیت کا شیرازہ بکھر گیا۔ ڈائننگ ٹیبل کا سہارا لے کرمیں نے اپنے کرچی ہوتے وجود کو سنبھالا۔ پانی کا گلاس غٹاغٹ چڑھا گیا۔

مجھے آج اندازہ ہوا تھا کہ کچھ حقیقتیں سامنے نہ آئے تو ہی بہتر ہے۔ میں نے آج تک سن رکھا تھا کہ سچ کڑوا ہوتا ہے لیکن مجھے پتہ نہیں تھا کہ سچ اتنا کڑوا ہوتا ہے کہ رشتوں کی میٹھاس کو ہی ختم کر دے ۔میں بے دم قدم اٹھاتا اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھا اور بیڈ پر اپنے وجود کو ایسے پٹکا جیسے پھل کے پکنے پر درخت اس سے ناطہ توڑ کر اسے ٹپکا دیتا ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنے احساس کی کر چیاں کیسے سمیٹوں،جذبات کی آندھیوں پر کیسے قابو پاؤں۔ ایک ایک کر کے کئی مناظر آنکھوں میں گھوما کیے ۔
’’بیٹا جمیل میں جارہی ہوں یہ دودھ پی لینا۔ زینب بی تمہاری نگرانی کو ہے ۔ کوئی چیز کی ضرورت ہو تو پوچھ لینا۔‘‘ ماں نے تیزی سے آفس جانے کی تیاری کرتے ہوئے اسے ہدایت دی۔’’ماں آج آپ مت جاؤ نا‘‘ جمیل نے ضد کی۔ صبح ہی سے اس کی طبیعت نا ساز تھی وہ چاہتا تھا کہ اپنی ماں کے گود میں سر رکھ کر سوئے ۔ ’’نہیں بیٹا تمہیں پتہ ہے میں چھٹی نہیں کر سکتی‘‘۔ جمیل کی آنکھوں میں آتے آنسو دیکھ کر ماں نے کہا۔ بیٹا یہ سب تمہارے لیے ہی ہے اور پھر زینت بی ہیں ناتمہارے پاس۔ وہ میرے سر پر ہاتھ رکھ کر چلی گئی اور میرے آنسو متواتر بہنے لگے۔ میرے جلتے وجود کو ممتا کی ٹھنڈی چھاؤں درکار تھی لیکن میں انھیں کیسے سمجھاتا ۔میں اس دو رمیں تھاکہ کئی چیزیں خود ہی نہیں سمجھ پاتا تھا۔میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ان کا واحد چشم و چراغ ان کی آنکھوں کا مرکز بقول ان کے زندگی جینے کی وجہ میں ہی تھا اور شاید آج تک میں اس بات پر یقین کر کے ہی زندگی گذار رہا تھا۔ لیکن آج تو کانوں میں ایسا سیسہ گھول دیا تھا گیا کہ…….میں سماعت سے محروم ہو گیا ۔ سماعت کیا مجھے تو لگتا ہے کہ میری ساری حسیّات مفلوج ہو کر رہ گئی۔ پتہ نہیں کیوں بچپن سے ہی ہر بار مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ مجھے اپنے والدین کا بھر پور پیار نہیں ملا۔ خاص کر ماں کا۔ جب بھی میں نے ان کی ضرورت محسوس کی وہ میرے پاس نہیں تھی ۔ کسی نہ کسی کام میں مصروف ۔ ماں اور بچے کے رشتوں کی بے ساختگیاں اور جذبوں کی بے تکلف کھلکھلاہٹوں کے لیے میں ہمیشہ ترستا رہا۔ جب بھی شکوہ کیا ایک پار بھرا لکچر سننے کو ملتا کہ یہ سب بھاگ دوڑ تمہارے لیے ہی تو ہے۔
ماں اور پاپا دونوں اپنی مصروفیات میں مگن تھے اور میں اپنے تشنہ کام مسرتوں اور ادھوری محبتوں کے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھ ہی چکا تھا لیکن آج اچانک زندگی کے معنٰی ہی بدل گئے۔ وہ پورے اقوال ، باتیں یاد آنے لگی جو ماں کی عظمت کے بارے میں کہی گئیں۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنّت ہوتی ہے۔ ماں کا احسان کبھی چکا یا نہیں جاتا۔ اسے یاد تھا ایک بار اس نے اپنی ٹیچر سے ماں کی عدم توجہی کی شکایت کی تو انہوں نے کتنے پیار سے سمجھا یا تھا کہ بیٹے کبھی ایسا خیال بھی مت کر نا یہ وہی ماں ہے جس نے مہینوں تمہیں اپنے خون سے سینچا ہے۔ نو مہینے اپنی کوکھ میں رکھ کر جنم دیا۔ راتوں کی نیند تم پر قربان کیں ہر دن کا چین لٹا یا۔ اس ماں کی محبت پر شک کیسا۔بیٹا وہ تمہاری آنے والی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مصروف ہے سمجھے۔ اور میں سمجھ بھی گیا تھا لیکن آج ماں اور شمیم آنٹی کی درمیان ہونے والی گفتگو نے مجھے چکرا دیا اور پوری طرح سمجھ میں آگیا کہ اپنی ماں سے ہمیشہ ادھوری محبت کیوں ملی۔ ماں کہہ رہی تھی’’شمیم تمہارا احسان میں زندگی بھر نہیں چکا سکتی۔ اگر تم نہ ہوتی تو جمیل نہ ہوتا۔ تم نے مجھے ماں بنایابناء کسی تکلیف کے۔ تم جانتی ہوکہ اس وقت کتنا مشکل تھا۔ چھٹی کا ملنا اور پھرنبیل کو بھی میرے فیگر کی کتنی پرواہ تھی۔ تم نے میرے بچے کو جنم دے کر دو سال تک اسے پال پوس کر میری کافی مشکلیں آسان کردیں۔ تب شمیم آنٹی نے کہا تم نے بھی کافی مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا۔ شوہر کو کھونے کے بعد اتنے سارے قر ضے میں کیسے ادا کر سکتی تھی۔ اکیلا وجودجمیل کی وجہ سے مجھے جینے کی ایک وجہ ملی ۔ تین سال کتنی آسانی سے گذر گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ پھر وہی تنہائی ۔ جب بھی دل بے چین ہوتا ہے آجاتی ہوں۔پتہ نہیں وہ لوگ اور کیا کیا باتیں کر رہی تھیں لیکن میں کہاں سن پا رہا تھا۔ آئے دن اخبارات میں نیٹ پر میں نے سروگیٹ مدر(Surrogate Mother)کے بارے میں سنا تھا لیکن میرے گھر میں ہی ایسا ہوا، میرے ساتھ ہی۔ساری رات اسی کشمکش میں گذری۔ اب مطلع صاف تھا صبح کی سپیدی جمیل کے ذہن کو بھی روشن کر رہی تھی۔ اب اسے سمجھ آگیا تھا کہ اس کی ماں کی محبت اسے ہمیشہ ادھوری کیوں لگتی کیوں کہ وہ اس کی ادھوری ماں تھی۔ پہلی بارکِک (Kick)مار کر اس نے اپنے وجود کا احساس جیسے دلا یا وہ شمیم آنٹی تھی۔ اس کے تخلیق عمل کے ہر ارتقاء کو محسوس کرنے والی جمیل کو دنیا میں لانے کے لیے بے پناہ درد سہنے والی ، دودھ پلا کر سینچنے والی۔ پہلی مسکراہٹ ، پہلا لمس، پہلا احساس، پہلا قدم ،پہلی نظر،پہلی فکر عطاء کرنے والی،راتوں کو جاگ کر لوری سنانے والی، اس کی ماں نہیں بلکہ شمیم آنٹی تھی۔ آنٹی نہیں دراصل وہی اس کی ماں تھی۔ اپنی ماں سے اس کا کیا رشتہ تھا ، کیسا رشتہ ۔ رشتے تو وقت مانگتے ہیں ۔رشتے تو جذبات و احساسات کو مرکزہوتے ہیں لیکن ان کے رشتے میں تو یہ سب کہاں تھے۔ سورج کی پہلی کرن نے جمیل کی زندگی کو روشن کر دیا اور پھر صبح شمیم آنٹی نہیں اپنی اصلی ماں کے بیگ کے ساتھ میں نے اپنا بیگ رکھا اور اپنی ماں اور شمیم آنٹی اوہ ! نہیں میری ماں اپنی ماں کی حیران ہوتی نظروں کو نظر انداز کر تا مطمئن ہو کر ناشتہ کھانے میں مصروف ہوگیا۔
———-

Share
Share
Share