قسط: 7 – حقیقت تلاوتِ قرآن : – مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 7
حقیقت تلاوتِ قرآن

مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536
———
دین میں قرآن فہمی کی اہمیت ۔ چھٹی قسط کے لیے کلک کریں
———

جس طرح قرآن کے کسی حکم کو بدلا نہیں جاسکتا اسی طرح قرآن کے متعین کیے ہوئے کسی لفظ کے معنٰی کو بدلا نہیں جاسکتا اور نہ کسی وسیع معنی کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ دینی غفلت کی وجہ سے جہاں مسلمان ایک طرف قرآن کے بنیادی احکام سے بے خبر ہوگئے وہیں دوسری طرف ان کے ذہن و دماغ سے قرآنی اصطلاحات کے صحیح معنی نکل گئے یا وسیع معنٰی محدود ہوگئے۔

قرآن کی جن اصطلاحات کے صحیح معنی عام مسلمانوں کے ذہن و دماغ میں نہیں پائے جاتے ان میں سے ایک اصطلاح تلاوتِ قرآن ہے۔ تلاوتِ قرآن کے متعلق مسلمانوں میں یہ عام سوچ پائی جاتی ہے کہ تلاوت میں صرف الفاظِ قرآن کا پڑھنا داخل ہے اور معانئی قرآن سے واقفیت تلاوت کے معنی میں شامل نہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ قرآن کے معانی جانے بغیر محض الفاظِ قرآن کا پڑھنا پڑھانا ، سننا سنانا جائز ہے یا نہیں ۔ کیونکہ یہ بات کسی بھی مسلمان سے پوشیدہ نہیں ہے کہ معانئی قرآن کو جانے بغیر بھی صرف الفاظِ قرآن کا پڑھنا پڑھانا سُننا سُنانا اجروثواب سے خالی نہیں ہے۔بلکہ دراصل سوال یہ ہیکہ قرآن کے معانی جانے بغیر محض الفاظِ قرآن کا پڑھنا پڑھانا ، سننا سنانا تلاوت کی تعریف میں آتا ہے یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب قرآن کی روشنی میں تلاش کیا جائے تو یہ ملے گا کہ معانی قرآن سے واقفیت کے بغیر محض الفاظِ قرآن کا پڑھنا پڑھانا ، سننا سنانا تلاوت کی تعریف میں نہیں آتا۔ اس لیے کہ قرآن میں تلاوت کے جو معنی متعیّن کئے گئے ہیں اس میں الفاظ قرآن کے ساتھ معانئی قرآن بھی شامل ہیں۔ اب یہ بات کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ تلاوت میں معانی قرآن بھی شامل ہیں تو یہ جاننے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کے تعیّنِ معنیٰ کا اصول سمجھا جائے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کے اوّلین عرب مخاطبوں کے نزدیک جس لفظ کے جو معنی مروّج تھے قرآن نے اس لفظ کو اسی مروّجہ معنی میں استعمال فرمایا : اور قرآن کے اوّلین عرب مخاطبوں کے نزدیک لفظ تلاوت کسی بات کے معنیٰ پڑھا گویا اس نے قرآن پڑھنے کے ایک اہم مقصد کو فوت کردیا۔ جانتے ہوئے پڑھنے پڑھانے ، سننے سنانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اور یہ بات فہمِ قرآن کے تقاضوں میں شامل ہے کہ قرآن کے اوّلین عرب مخاطبوں کے نزدیک قرآنی الفاظ و اصطلاحات کے جو معانی مروّج تھے وہی مراد لینا ضروری ہے ۔کیوں کہ قرآن ان ہی کی مروّجہ زبان میں نازل ہوا اور قیامت تک اسی زبان میں رہے گا ۔لہٰذا لفظ تلاوت قیامت تک الفاظِ قرآن کے ساتھ معانئی قرآن کو بھی شامل رہے گا ۔ تلاوت کو صرف الفاظِ قرآن میں محدود کردینا ایک طرح سے یہ قرآن کی معنوی تحریف ہے اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ قرآن کی زبان سے ناواقف شخص اگر تلاوتِ قرآن کی ذمہ داری ادا کرنا چاہتا ہے یا تلاوتِ قرآن کی فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لئے ضروری ہے قرآن کی زبان سے واقف ہوکر تلاوت کرے۔ یا کسی ذریعہ سے معانئی قرآن کو اپنی زبان میں جانتے ہوئے تلاوت کرے یا کسی سے قرآن کے معانی جانتے ہوئے قرآن کی تلاوت سنے۔ یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ تلاوتِ قرآن میں جب معانی قرآن بھی داخل ہیں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی کریمﷺ کے فرائض میں تلاوتِ قرآن کے ساتھ تعلیمِ قرآن کو کیوں بیان فرمایا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی کچھ آیات ایسی بھی ہیں جن کی مراد صرف معانی سے واضح نہیں ہوتی بلکہ ان کی مراد جاننے کے لئے تعلیمِ رسولﷺ کی ضرورت پیش آتی ہے۔
قرآن میں ایسی بے شمار آیات ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تلاوت میں معانی بھی شامل ہیں۔ اور یہ کہ قرآن کے اوّلین عرب مخاطبوں کے نزدیک لفظِ تلاوت کسی بات کے معنٰی جانتے ہوئے کہنے اور سننے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ بطور نمونہ دو آیات مع ترجمہ پیش کی جاتی ہیں ، جن سے حقیقتِ تلاوت پر مزید روشنی پڑے گی۔ سورۂ زمر کی (۷۱) آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوآ اِلیٰ جَھَنَّمَ زُمَراً حَتّٰی اِذَا جآءُ وْا ھَا فُتِحَتْ اَبْوَابُھَا وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَآ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمُ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِّقَآءَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا قَالُوْ بَلٰی (زمر ۷۱) ترجمہ : (خلاصہ اس طرح ہے کہ قیامت کے دن کافر لوگ دوزخ کی طرف گروہ در گروہ ہانکے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ دوزخ کے پاس آئیں گے تو اس کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے اور دوزخ کا داروغہ ان سے کہے گا : کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تمہارے سامنے تمہارے رب کی آیات کی تلاوت کرتے اور اس دن کی ملاقات سے تمہیں ڈراتے وہ کہیں گے کیوں نہیں یعنی رسول آئے لیکن ہم نے ان کی بات نہیں مانی ۔ )
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ تلاوت کے معنی آیاتِ الٰہی کے معانی جانتے ہوئے انھیں لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہے اور معانی جانتے ہوئے سننا ہے ۔ ورنہ اگر تلاوت میں معانی کے جاننے کا مفہوم نہ ہوتا تو آیت مذکورہ میں کافر ، داروغہ جہنم کے جواب میں کہتے کہ رسولؐ آئے اور انھوں نے رب کی آیات کی تلاوت کی لیکن ہم آیات کے معانی نہیں جانتے تھے۔ اسی طرح سورۂ انفال کی دوسری آیت میں فرمان باری تعالی ہے۔ اِنَّمَا المُوْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَاللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہ‘زَا دَ تْھُمْ اِیمَاناً۔ترجمہ : ( یعنی حقیقی مومنین وہ ہیں ، جب اللہ کا تذکرہ ان کے سامنے آتا ہے تو ان کے دل پگھل جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اللہ کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔) اس آیت سے بھی واضح ہوا کہ تلاوت میں معانی سے واقفیت کا مفہوم بھی شامل ہے ۔ اس لئے کہ آیت میں جن مومنین کا ذکر ہے اس کے اول مصداق صحابہؓ ہیں جو قرآن کے الفاظ سے معانی بھی جان لیا کرتے تھے اور مزید یہ کہ تلاوتِ قرآن کو آیتِ مذکورہ میں ایمان میں زیادتی کا باعث قرار دیا گیا ہے اور ایمان میں زیادتی کا تعلق دل کی کیفیت سے ہے اور صرف الفاظ سے دل کی کیفیت نہیں بدلتی۔ جب تک کہ ان کے معانی نہ جان لیے جائیں ۔ معلوم ہوا کہ تلاوت میں معانی قرآن سے واقفیت لازماً شامل ہے ۔ نبی ﷺ کی ایک حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ لفظِ تلاوت میں معانی بھی شامل ہے ، آپﷺ نے فرمایا :عَنِ ابْنَ عُمَرَؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَمَ اِنَّ ھٰذِہِ القُلُوْبَ تَصْدَأُکَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَآء قِیْلَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَمَا جِلآءُ ھَا قَالَ کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوتِ
وَتِلاوَۃِ الْقُرْآن (بیہقی ، مشکوٰۃ)ترجمہ : (حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان دلوں کو زنگ لگتا ہے جیسے لوہے کو پانی کی وجہ سے زنگ لگتا ہے۔ پوچھا گیا ائے اللہ کے رسولؐ ان کی صفائی کا کیا ذریعہ ہے تو آپؐ نے فرمایا موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا) ۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ تلاوت میں معانی قرآن سے واقفیت بھی شامل ہے ، کیونکہ حدیث مذکورہ میں قرآن کی تلاوت کو دلوں کی صفائی قرار دیا گیا ہے۔ اور آدمی جس بات کے معنی نہیں سمجھتا وہ بات دل میں نہیں اُترتی۔ اور جب تلاوت کو دلوں کی صفائی کا ذریعہ قرار دیا گیا تو لازماً وہ ایسی چیز ہے جو دلوں میں اُترے۔ اور یہ معانی قرآن سے واقفیت سے ہی پوری ہوسکتی ہے۔ صرف الفاظ سے دلوں کی صفائی نہیں ہوسکتی ۔

Share
Share
Share