قسط: 8 – اہمیت تلاوتِ قرآن : – مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 8
اہمیت تلاوتِ قرآن

مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536
——-
دین میں قرآن فہمی کی اہمیت ۔ ساتویں قسط کے لیے کلک کریں
——-

حقیقتِ تلاوتِ قرآن کے عنوان میں یہ بات گزر چکی ہے کہ صرف الفاظ کے پڑھنے پر تلاوت کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ الفاظ کے ساتھ معانی قرآن کو سمجھتے ہوئے پڑھنے پر تلاوت کا اطلاق ہوتا ہے ۔اس عنوان کے تحت تلاوتِ قرآن کی اہمیت سے متعلق چند باتیں پیش کی جارہی ہیں۔ سورۂ عنکبوت کی آیت (۴۵) میں ارشاد ربانی ہے : اُتْلُ مَا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ (یعنی اَے محمد ﷺ جس کتاب کی آپؐ کی طرف وحی کی جارہی ہے اس کی تلاوت کیجئے اور نماز قائم کیجئے )

اس آیت کی تفسیر میں ایک مفسر قرآن مفتی محمد شفیع صاحب ؒ ، فاضل دیوبند نے جو کلمات تحریر فرمائے وہ ملاحظہ ہوں : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ آپ رسولؐ ہیں اس لیے جو کتاب آپؐ پر وحی کی گئی ہے آپؐ تبلیغ کے واسطے اس کو لوگوں کے سامنے پڑھا کیجئے۔ اسی آیت کی ذیل میں اصلاحِ خلق کا مختصر جامع نسخہ کا عنوان قائم کرکے موصوف مفتی صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں ، مذکور الصدر آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت الی اللہ کا ایک مختصر جامع نسخہ بتلایا گیا ہے جس پر عمل کرنے سے پورے دین پر عمل کرنے کے راستے کھل جاتے ہیں اور اس کی راہ میں جو رکاوٹیں عادۃً پیش آتی ہیں وہ دور ہوجاتی ہیں۔ اس نسخہ اکسیر کے دو جز ہیں ، ایک تلاوت قرآن دوسرے نماز کی اقامت اور اس جگہ اصل مقصود تو یہی ہے کہ لوگوں کو ان دونوں چیزوں کا پابند کیا جائے لیکن ترغیب و تاکید کے لئے ان دونوں چیزوں کا حکم اوّلاً خود نبی کریم ﷺ کودیا گیا تاکہ امت کو اس پر عمل کرنے کی رغبت ہو اور رسول اللہ ﷺ کی عملی تعلیم سے ان کو خود عمل کرنا بھی آسان ہوجائے ، ان میں تلاوتِ قرآن تو سب کاموں کی روح اور اصل بنیاد ہے اس کے بعد دوسری چیز اقامتِ صلٰوۃ ہے۔ (معارف القرآن جلد ششم صفحہ ۶۹۵)
مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح اقامت نما ز اللہ کا حکم ہے اسی طرح تلاوتِ قرآن بھی اللہ کا حکم ہے، اور ایک مسلمان کے لئے جس طرح نماز کے فریضہ کو ادا کرنا ضروری
ہے اسی طرح ایک مسلمان کے لیے تلاوت قرآن کے فریضہ کو ادا کرنا ضروری ہے۔ البتہ تلاوت قرآن کا فریضہ کسی سے قرآن سمجھ کر سننے سے بھی ادا ہوجاتا ہے۔ جب کہ فریضہ نماز صرف سماعتِ نماز سے ادا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ فریضۂ تلاوت میں فہم دین کا پہلو غالب ہے اور دین کا فہم جس طرح قرآن سمجھ کر پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے اسی طرح قرآن سمجھ کر سننے سے بھی حاصل ہوتا ہے۔سورۂ نمل کی آیت ۹۱ ، ۹۲ سے بھی تلاوت قرآن کی اہمیت واضح ہوتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :اِنَّمَا اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ ہٰذِہِ الْبَلْدَۃِالَّذِیْ حَرَّمَہَا وَلَہٗ کُلِّ شَیءٍ وَّاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْن وَاَنْ اَتْلُوَ االقُراٰنَ ۔ترجمہ : (اے محمدؐ کہہ دیجیے) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اسی شہر کے رب کی بندگی کروں، جس نے اس کو محترم بنایا اور ہر چیز اسی کے لیے ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ فرمانبرداروں میں سے ہوجاؤں ٗ اور (یہ بھی حکم) ہے کہ میں قرآن کی تلاوت کروں۔ یعنی خود بھی پڑھوں اور لوگوں کو بھی سناؤں۔) مذکورہ آیات سے تلاوتِ قرآن کی اہمیت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندگی رب اوراطاعت فرمانبرداری الٰہی کے ساتھ تلاوت قرآن کا حکم دیا ۔خطاب اگرچہ بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن اس حکم کے مخاطب حقیقتاً تمام ایمان والے ہیں۔ اسی طرح سورۂ بقرہ کی آیت ۱۵۱ میں ارشاد ربانی ہے : کَمَا اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًامِّنْکُمْ یَتلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ( البقرۃ)ترجمہ :۔ (جیسا کہ ہم نے تم میں ، تم ہی میں سے ایک رسولؐ بھیجا وہ تلاوت کرتا ہے تم پر ہماری آیات اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔)اسی طرح قرآن میں تین اور آیات ہیں جن میں نبیؐ کے وہی کام بیان کئے گئے ہیں جو مذکورہ آیات میں بیان کئے گئے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تلاوت قرآن کتنی اہمیت کی حامل چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو آنحضورﷺ کی بعثت کا ایک اہم کام قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے جو مسلمان تلاوتِ قرآن سے غافل ہے گویا وہ نبی کریمؐ کی بعثت کے ایک اہم کام سے غافل ہے۔آنحضورؐ کو تلاوتِ قرآن سے کتنا شغف تھا آپؐ کے ایک قول اور فعل سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ ترمذی اور مشکوٰۃ کی روایت ہے : ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ آپ کے بال پکنے لگے، آپﷺ نے فرمایا مجھے سورہ ہود واقعہ والمرسلات اور عَمَّ یَتَسَأَ لُوْن نے بوڑھا کردیا ہے۔اسی طرح بخاری مسلم کی روایت ہے :عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ مَسعُوْدٍؓ قَال قَالَ لِیْ رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ وَہُوَ عَلی الْمِنْبَرِ اِقْرَأ عَلَیَّ قُلْتُ اَاَقْرَءُ عَلَیْکَ وَعَلَیْکَ اُنْزِلَ قَالَ اِنِیْ اُحِبُّ اَنْ اَسْمَعَہُ مِنْ غَیْرِیْ فَقَرَاْتُ سُوْرَۃَ النِّسَاءِ حَتَّی اَتَیْتُ اِلٰی ہٰذِہِ اٰلاَیَۃِ فَکَیْفَ اِذَا جِءْناَ مِنْ کُلِ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍوَّجِءْنَابِکَ عَلَی ہٰؤُلَآءِ شَہِیْداً قَال حَسْبُکَ الْاٰنَ فَالْتَفَتُّ اِلیْہِ فَاِذَا عَیْنَاہُ تَذْرِفَانِ (بخاری)ترجمہ :۔ (حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ منبر پر تشریف فرما تھے آپﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ قرآن سناؤ میں نے عرض کیاکہ میں آپ ﷺ کو قرآن کیسے سناؤں جب کہ قرآن خود آپؐ پر نازل ہوا ہے آپ ؐ نے فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ میرے علاوہ کسی اور سے قرآن سنوں، میں نے سورہ نساء پڑھنا شروع کی یہاں تک کہ میں اس آیت پر پہنچا فَکَیْفَ اِذَا جِءْناَ مِنْ کُلِ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍوّ َجِءْنَابِکُ عَلَی ہٰؤُلَآءِ شَہِیْداً (یعنی کیسے ہوگاجب کہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپؐ کو ان تمام پر گواہ بنائیں گے) تو آپؐ نے فرمایا بس کرو تو میں نے آپؐ کے چہرے کی طرف دیکھا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

Share
Share
Share