اورنگ زیب : فرد بشر اور افسانہ :- آڈرئے ٹرس کے /تبصرہ: ڈاکٹر مسعود جعفری

Share

Aurangzeb : The Man and the Myth
By: Audrey Truschke

اورنگ زیب : فرد بشر اور افسانہ
مصنفہ : آڈرئے ٹرس کے

تبصرہ نگار: ڈاکٹر مسعود جعفری

آدرے ٹرس کے نیویارک کی یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کی تاریخ پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے کافی تلاش و جستجو اور رات دن کی تحقیق کے بعد اورنگ زیب کی شخصیت اور ان کی بادشاہت کے بارے میں ایک مسند کتاب لکھی۔انہوں نے فارسی تواریخ ،شاہی فرامین ،درباری مورخین ،غیر ملکی سیاحوں کے تاثرات اور مغل قوانین کے حوالے دے کر کتاب کو نہایت معتبر بنادیا ہے۔

فاضل مصنفہ نے ان ساری بے بنیاد باتوں ،افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے تاریخی سچائیوں کو قاری کے روبرو کیا ہے۔ اورنگ زیب کو مذہبی جنونی ،فرقہ پرست کہنے والوں کو آئینہ دکھلایا ہے۔ وہ ایک انصاف پسند بادشاہ تھا۔اس کی سلطنت کی اساس عدل گستری پر تھی۔اپنے ہوں یا پرائے قانون شکنی کرنے پر انہیں موجب سزا قرار دیا جا تا تھا۔اس میں ذات ،علاقہ ،زبان اور عقیدے کو دیکھا نہیں جاتا تھا۔قانون سب کے لئے یکساں تھا۔اورنگ زیب نے فتاوائے عالمگیری مرتب کی۔ اسی کی روشنی میں فقہی ،تعزیری ،دیوانی مسائل حل کئے جاتے تھے۔اورنگ زیب نے جہاں جھروکے کی رسم ،تولہ دان کی ریت ،موسیقی پر پابندی لگائی وہیں اس نے محرم کے تعزیہ کے جلوس پر بھی روک لگائی۔بابر کے زمانے سے منائے جانے والے جشن نوروز کو بھی بند کر دیا۔جہاں اس نے سکھ گرو تیغ صاحب کو ریاست کے خلاف بغاوت کرنے کی پاداش میں واجب القتل قرار دیا وہیں اس نے دہلی کے صوفی سر مد،اپنے حقیقی بڑے بھائی دارہ شکوہ اور چھوٹے بھائی مراد کو بھی مروا ڈالا۔وجوہات کچھ بھی ہوں انجام تو سب کا موت ہی ہوا۔یہ سب لوگ اورنگ زیب کے عدل کے تصور کے اعتبار سے مجرم تھے۔اگر اورنگ زیب دارا شکوہ سے جنگ نہ کرتا تو وہ خود مارا جاتا۔مغلوں کے ہاں ایک کہاوت تھی۔تخت یا تختہ۔ شاہی تخت کے حصول میں ناکام ہو جاتے تو تختہ دار پر پہونچ جاتے تھے۔دو سال تک بھائیوں میں گھمسان کا رن پڑا تھا۔دو بھانک جنگیں دھرمت اور سمو سمو گڑھ کے بعد اورنگ زیب آگرے میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا۔
اورنگ زیب کی وسیع المشربی ،کشادہ دلی کی مثال کے لئے اس کا وہ سولہ سال کی عمر کا جنون عشق کافی ہے۔جب وہ برہان پور میں اپنے ماموں جان کے محل کے باغ میں ایک الھڑ حسینہ کو پیڑ کی شاخ سے اچک کر آم توڑتے ہوئے دکھ لیا تھا،اسی لمحہ وہ اس لڑکی پر فریفتہ ہو گیا تھا۔وہ تھی ہیرا بائی۔اورنگ زیب اس کے پیار میں اتنا ڈوب گیا تھا کہ ہیرا بائی نے اسے شراب پینے کے لئے کہا توو وہ راضی ہو گیا۔جب جام لب تک آگیا تو ہیرابائی نے اسے روک دیا اور کہا کہ وہ تو اس کی محبت کا امتحان لے رہی تھی۔اورنگ زیب نے اسے ز ین آ بادی کا خطاب دیا تھا۔اورنگ زیب نے ایک مرہٹہ لڑکی کو اپنا بنایا۔کہاں ہے مذہبی تعصب اور فرقہ پر ستی؟ایک راجپوت جئے سنگھ اورنگ ز یب کا با اعتماد فوجی کمانڈر تھا۔اور نگ زیب جنوبی ہند میں26 برس رہا لیکن ایک مندر بھی نہیں ٹوٹا۔ایک اینٹ بھی نہیں نکالی گئی۔متھورا میں ایسے مندر کے خلاف کاروائی کی گئی جہاں ہتیاروں کا زخیرہ ۔شورش و بغاوت کی سازشیں رچی جا تی تھیں۔اورنگ زیب نے مندروں کو اراضیات اور مالی امداد دی۔وہ فارسی ،ترکی کے ساتھ ہندی بھی روانی سے بولتا تھا۔
اورنگ زیب نے اپنے بیٹے شہزادے اکبر کو بھی سزا دی۔وہ بھاگتا بھاگتا ایران چلا گیا اور وہیں مر گیا۔اورنگ زیب کا انصاف اور قانون سب کے لئے تھا ۔بیٹے کے لئے الگ ،ہندو کے لئے الگ ،مسلم کے لئے الگ نہیں تھا۔سب کے لئے برابر تھا۔اسے سمجھ جا ئیں تو بہت سی تاریخی بد گمانیوں ، غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔اورنگ زیب کی تعریف بنارس کے برہمن اسکالرس نے کی ہے۔انہوں نے اپنی کتابوں میں توصیفی کلمات قلمبند کئے ہیں۔اورنگ زیب کی وسیع و عریض مغلیہ سلطنت میں سارا بر صغیر ،کابل،قندھار اور جنوبی ہند میں اس کی سلطنت تامل ناڈو تک پھیلی ہو ئی تھی۔اس عظیم مملکت میں امن و سلامتی کی برقراری کی کو ششیں مسلسل کی جاتی تھیں۔پولیس کے افسروں اور اہلکاروں کو بادشاہ سلامت کی جا نب سے احکامات جاری کئے جا تے تھے۔مسلسل چوکسی Constant Vigilance رکھی جا تی تھی۔اورنگ زیب نے کل 49 برس تک شان و شو کت سے حکومت کی۔ 88 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ان کی تاریخ وفات1707 رہی۔
اورنگ زیب کا علم نجوم پر بہت اعتقاد تھا۔وہ ہر بڑا کام انہیں کی صلاح سے کرتا تھا۔اس نے اپنی پہلی رسم تاج پوشی نجومیوں کے کہنے پر 31 جولائی 1658کو دہلی کے شالی مار گارڈن میں انجام دی۔اسی وقت اس نے عالمگیر کا لقب اختیار کیا۔اورنگ زیب کا ہندو افراد سے ربط ضبط تھا۔اس نے1661 میں ایک ہندو پجاری آنند ناتھ کو خط لکھا کہ وہ اسے ایک طبی نسخہ تجویز کرے۔اورنگ زیب نے پنجاب کے گاوں میں آنند ناتھ کی اراضیات میں اضافے کے احکام جاری کئے۔اور زیب اکبر اعظم کے زمانے میں سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کی گئی رامائین اور مہا بھارت کا مطالعہ بھی کرتا تھا۔ اطالوی سیاح نکولی مانوکی نے اورنگ زیب کے بارے میں لکھا ہے کہ و ہ غم ناک طبیعت کا حامل تھا۔اداس اداس سا رہتا۔کسی نہ کسی کام میں ہمہ وقت مصروف رہتا۔وہ انصاف کرنے کے لئے بے تاب رہتا تھا۔وہ صحیع فیصلے صادر کر نا چاہتا تھا۔
ایک انگریز خاتون نے وہ کام کیا ہے جو کسی نے نہیں انجام دیا۔ان کی یہ تصنیف اورنگ زیب کی ذات و صفات کے علاوہ ان کے مملکتی تصورات ،نظم و نسق ،معرکوں ،مہمات ،دربار پر روشنی ڈالتی ہے۔شاہ جہاں ہفتہ میں ایک بار دربار کرتا تھا اورنگ زیب دو بار دربار منعقد کرتے اور فریاد کی درخواستوں پر اپنے ہاتھ سے احکامات لکھتے تھے۔انہیں عدل و انصاف کا بہت خیال رہتا تھا۔انہوں نے
اورنگ آ باد میں اپنی اہلیہ دلراس بانو بیگم کی یاد میں بی بی کا مقبرہ تاج محل کے انداز میں تعمیر کروایا اسے غریب آدمی کے تاج سے موسوم کیا جا تا ہے۔دلراس بانو بیگم اورنگ زیب کی چہیتی بیوی تھی۔ پانچویں بچے کی پیدائش کے وقت کچھ پیچیدگیوں کے سبب ان کی وفات ہو گئی۔ ۔اس کے علاوہ ا ورنگ زیب نے لاہور میں بادشاہی مسجد بنوائی۔جو مغل فن تعمیر کا ایک نادر و نا یاب نمونہ ہے۔پنجاب کے راجہ رنجیت سنگھ نے اسے اصطبل بنا دیا تھا۔بعد میں اسے اس کی اصل شکل میں لا یا گیا۔
ہندو مورخین تنگ نظری سے اورنگ زیب کو غلط رنگ میں پیش کرتے ہیں۔شیواجی کا دیہانت 1680 میں ہوتا ہے۔اس کے بعد27 برس تک اورنگ زیب زندہ رہتے ہیں۔ان کا پڑاو دکن میں رہتا ہے۔کوئی طاقت بھی انہیں دکن کے سطح مرتفع میں شکست نہیں دے سکی بیجا پور اور قطب شاہی سلطنت کا خاتمہ ہو جا تا ہے۔ اورنگ زیب سے آنکھ ملانے کی جرات کسی میں نہیں تھی۔ یہ کتاب اورنگ زیب کی اسٹڈی کرنے والوں کے لئے بہت اہم ہے۔اسے پنگوین مطبع نے شائع کیا ہے۔ اس کی قیمت 390 رو پئے ہے۔

Share
Share
Share