نامِ کتاب: خیابانِ خیال – – ڈاکٹرشاہ رشادعثمانی – – – – مبص:غلام نبی کمار

Share

khiaban-e-khayal خیابانِ خیال

نامِ کتاب: خیابانِ خیال
(مکتوبات مولانا طیب عثمانی ندویؒ )
مرتب و ناشر: ڈاکٹرشاہ رشادعثمانی

مبصر: غلام نبی کمار
07053562468
,

زیرِ تبصرہ کتاب’’خیابانِ خیال‘‘ مولانا طیب عثمانی ندوی ؒ کے مکاتیب کا مجموعہ ہے ۔ جو انھوں نے وقتاً فوقتاً ملک کی مختلف شخصیات کے نام متنوع موضوعات جیسے علمی و ادبی، ملّی و اجتماعی، سیاسی و سماجی ،تعزیتی اور گھریلو مسائل وغیرہ پر تحریر کیے ہیں۔ان خطوط کے مکتوب الیہ میں بز رگ اساتذہ، ملت کے قائدین، جماعت کے ذمہ داران، تحریکی رفقاء، ادبی برادران و رسائل کے مدیران، ملت کے نوجوان اور عزیز و اقارب غرض ہر قسم اور قماش کے لوگ شامل ہیں۔

اس کتاب کو ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی نے مرتب کر کے ایک سعادت مند اور فرزندِ ارجمند ہونے کا پختہ ثبوت پیش کیا ہے۔مرتبِ کتاب خود بھی درس و تدریسی شعبہ سے ہی وابستگی رکھتے ہیں اور ان کی اب تک کم و بیش ۱۱ کتابیں منظر عام پر آچکی ہے جو مختلف موضوعات سے متعلق ہے۔انھوں نے اپنے والدِ محترم کے خطوط پر مشتمل اس بیش قیمتی علمی و ادبی سرمایہ کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ اس کو گوشہ گم نامی سے نکال کر منظر عام پر لانا اپنا فرضِ اولین بھی سمجھا۔اس طرح موصوف نے اسے قارئین ادب تک نہایت سلیقہ مندی سے اور مقررہ وقت پر پہنچا کر یقیناً دانشمندی کا فریضہ انجام دیا ہے۔
اس کتاب کے مصنف مولانا طیب عثمانی ندویؒ نے ایک طویل عمر پائی۔ لیکن اس با ت میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ موصوف نے اس طویل عمری کا صد فیصد حق ادا کیا اوراپنی پوری زندگی میں کا رہائے نمایاں انجام دیتے رہے۔ بحیثیتِ ایک ادیب، معلم، مفکر،محقق، نقاد، دانشور، مکتوب نگار، سوانح نگار، سفر نامہ نگار ، صحافی اور سیاسی و سماجی مصلح ان کے کارنامے اور خدمات سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابلِ فراموش بھی ہیں۔ان کی تصنیفات کی تعداد تقریباً ایک درجن کے قریب ہے جن میں ’’رسول اکرمﷺ ‘‘ ،’’نقشِ دوام‘‘،’’ حدیث اقبال‘‘،’’ افکار و اقدار‘‘،’’ حیات دوام‘‘،’’سفرنامہ حرمین شریفین‘‘ وغیرہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے ’’نقیب‘‘ اور ’’ نئی نسلیں‘‘ جیسے رسائل میں ادارت کے فرائض بھی انجام دئے۔ان کی تخلیقی اور تحقیقی و تنقیدی زندگی کا سفر کہیں دہوں تک پھیلا ہوا ہے۔ الغرض ان کی پوری شخصیت ہی ہر لحاظ سے قابل مطالعہ ہے۔
پیش نظر کتاب’’خیابانِ خیال ‘‘ مولانا طیب عثمانیؒ کے مختلف اوقات میں مختلف احباب کو لکھے گئے ۱۱۲ خطوط پر مشتمل ہیں۔موصوف کے یہ خطوط تقریباً پانچ دہائیوں پر پھیلے ہوئے ہیں اور جن کوچار ابواب میں موضوعاتی طور پر تقسیم کیا گیا ہے۔باب اول میں’’ملّی و اجتماعی خطوط‘‘ باب دوم میں’’ علمی و ادبی خطوط‘‘ باب سوم میں’’ تعزیتی و دینی خطوط‘‘ اور آخرپر باب چہارم میں’’ گھریلو و متفرق خطوط‘‘ جیسے موضوعات میں خطوط کو ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر شمس بدایونی نے تحریر فرمایا ہے ۔ جس میں انھوں نے مصنفِ کتاب مولانا طیب عثمانی مرحوم کے ہمہ جہت اوصاف کا سرسری طورپر تبصرہ کرنے کے علاوہ مذکورہ کتاب کے حوالے سے قابل قدر گفتگو کی ہے۔دیباچہ کے بعد مرتبِ کتاب ڈاکٹر شاہ رشاہ عثمانی نے ’’صاحبِ مکاتیب کے بارے میں چند باتیں‘‘ کے عنوان سے ۱۹ صفحات پر مشتمل ایک طویل مضمون تحریر کیا ہے۔جس میں مولانا مرحوم طیب عثمانیؒ کے خاندانی پسِ منظر،پیدائش اور نام، بچپن اور تعلیم، ادبی و صحافتی زندگی اور ملازمت، دعوتی و تحریکی مشاغل، زندگی کے آخری ایام اور وفات اور تصنیف و تالیف کا بھرپور تذکرہ کیا گیا ہے۔اس مضمون سے مولانا مرحوم کے احوال و کوائف پوری طرح افشاں ہوجاتے ہیں۔’’خیابانِ خیال(مجموعۂ مکاتیب)‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی نے ہی زیر نظر مکتوبات پر ۱۱ صفحات کا ایک تفصیلی مضمون رقم کیا ہے۔اس مضمون کی تمہید میں ابتداً سائنس اور ٹکنالوجی کی بے پناہ ترقی اور برق رفتار دور میں بھی مکتوب نگاری کی قدروقیمت اور اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔باوصف اس کے کہ ترسیل وابلاغ کے برقی آلات انٹرنیٹ اور موبائل وغیرہ کی ایجاد اور عام رواج و رجحان کی وجہ سے فنِ مکتوب نگاری خاصی متاثر اور کمزور ہوئی ہے۔اس کے بعد فنِ مکتوب نگاری کا مختلف اقتباسات کی روشنی میں مختصرساجائزہ لیا گیا ہے۔مزید برآں مذکورہ کتاب میں مولانا مرحوم طیب عثمانیؒ کی خطوط نگاری کے بنیادی اوصاف پر بھی خصوصی طور پر بات کی گئی ہے ۔ مرتبِ کتاب مولانا مرحوم کی مکتوب نگاری کے فن میں زبان و بیان کی مہارت پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’آپ کے اسلوب کی خوبی، زبان و ادب کی دلکشی و دلربائی، قلم کی روانی، جملوں کی بے ساختگی، سادگی و صفائی اور فکرو خیال کی رفعت و ندرت آپ کے مضامین کی طرح آپ کے خطوط میں بھی نمایاں نظر آتی ہے۔‘‘
مولانا طیب عثمانیؒ نے ’’میری زندگی(یادوں کے جلتے بجھتے چراغ)‘‘ کے عنوان سے اپنی خودنوشت لکھنا شروع کی تھی لیکن زندگی ان کا ساتھ نہ دے پائی ۔اس طرح یہ خودنوشت نامکمل رہ گئی۔ اسی نامکمل خودنوشت سے چند اوراق اس کتاب میں شامل کر لئے گئے ہیں۔ابتدائی تمہیدی مضامین کے بعد اس کتاب کے بنیادی موضوع کی شروعات ہوتی ہے۔باب اول میں ’’ملّی و اجتماعی خطوط‘‘ کے موضوع پر گیارہ خطوط کو شامل کیا گیا ہے۔جن کے مکتوب الیہ میں عتیق الرحمٰن صدیقی،ڈاکٹر سید عبدالباری شبنم سبحانی، محمد مسلم،ابواللیث،ڈاکٹر احمد سجاد،قاضی ضمیر الحسن،نسیم احمد،ڈاکٹر محسن عثمان وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ باب دوم میں’’علمی و ادبی خطوط‘‘ کے موضوع پرسب سے زیادہ باسٹھ خطوط شاملِ کتاب ہے۔ اس حصّہ کے مکتوب الیہ میں عبدالماجد دریابادی، ڈاکٹر احمد سجاد،ڈاکٹر عبدالمغنی،ڈاکٹر وہاب اشرفی، مسعود ابدالی، انجم نعیم، محمد رابع حسنی،بلال احمد قادری،ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی،عزیز بگھروی، عبدالحی قیصر عثمانی، ڈاکٹر ابن فرید، ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی،عطا عابدی، پروفیسر رشید کوثر فاروقی،محمد الیاس ندوی،انتظار نعیم،احمد فرمان،محمد عارف اقبال،واضح رشید ندوی،دلشاد حسین اصلاحی وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔باب سوم میں’’تعزیتی و دینی خطوط‘‘ کے موضوع کے تحت ستّرہ خطو ط کو جگہ ملی ہے۔ جس کے مکتوب الیہ میں ڈاکٹر سید حبیب حق، محترمہ طاہرہ ابدالی،ڈاکٹر سلیم الدین احمد،سید شاہ عون احمد،قاضی جمیل احمد،ڈاکٹر سید ضیاء الہدیٰ، ضیاء الدین اصلاحی،محمد سراج الحسن،نجیب احمد عثمانی،سید رضوان حسن، سید شاہ آیت اللہ قادری وغیرہ حضرات کے نام خطوط شامل ہیں۔ باب چہارم میں ’’ گھریلو و متفرق خطوط‘‘ کے موضوع پر کل بائیس خطوط کوکتاب میں شامل کر لیا گیا ہے ۔ جن حضرات کے نام خطوط ہے ان میں سید حسیب ابدالی، سیتا رام رانا،ڈاکٹر مشیر الحق، عبد الطیف اعظمی، ڈاکٹر احمد سجاد، سید شاہ عماد الدین قادری،داکٹرشاہ حسن عثمانی، سید ابوالحسن ندوی،حکیم محمد شاہ طاہر،ڈاکٹر قاسم رسول الیاس وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
اس کتاب میں شامل کچھ مکاتیب طویل ہیں اور کچھ مختصر۔ لیکن اس سے مکتوب نگاری کا فن کہیں بھی زائل ہوتا نظر نہیں آتا۔ جس انداز میں مولانا مرحوم طیب عثمانیؒ نے مکاتیب لکھے ہیں وہ ہر اعتبار اور ہر پہلو سے قارئین کا دل موہ لینے کے لئے کافی ہے۔تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ مکتوب نگاری کے فن میں اس سے ایک قابلِ قدر اضافہ ہو گیا ہے۔ ان مکاتیب کی خصوصیت اس وجہ سے اور بڑھ گئی ہے کہ ہر خط کے اخیر میں اس کا اشاریہ بھی شامل ہے۔ جس میں مکتوب الیہ اوراور دیگر احباب(اگر مکتوب میں کسی دوسرے شخص کا ذکر آیا ہو تو اس کا اشاریہ بھی)کا مختصر تعارف (پہچان)پیش کیا گیا ہے۔اکثر و بیشتر خطوط ایسے ہیں جن پر تاریخ کا ندراج بھی ملتاہے جس سے ان خطوط کی زمانی ترتیب بھی ممکن ہوئی ہے۔مولانا مرحوم نے اپنا پہلا خط یکم اکتوبر ۱۹۶۲ء کو مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی کو لکھا ہے۔پہلے ہی خط سے قوم کے تئیں ان کی فکر انگیزی کا اندازہ لگا جا سکتا ہے:
’’واقعہ یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد ملت کی کشتی سمندر کے ایسے بھنور میں پھنس گئی ہے، جس کے نکلنے کی کوئی صورت بظاہر نظر نہیں آتی، ناخدایان ملت کے بازو شل ہیں اور اُن کی تمام تر مخلصانہ کوششوں کے باوجود ساحل کا پتہ نہیں، بس خدا کا آسرا اور سہارا ملت کی اس پھنسی ہوئی اس کشتی کو سلامتی کے ساتھ ساحل سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں جب کہ منزل کے تعین کے باوجود راہیں مسدود ہیں۔ قیادت حیران اور ذہن پریشان ہے۔ کوئی صورت بر نہیں آتی۔‘‘
متذکرہ بالا میں مولانا مرحوم کے پہلے خط کا ایک اقتباس پیش کیا گیا ہے۔ اس خط یا ان کے دیگر خطوط سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے مکاتیب میں فکریہ عنصر، خیالات میں بلندی اور پاکیزگی، بیان میں سنجیدگی، سلاست اور فصاحت،سوچ میں پختگی،شعور میں بالیدگی، تحریرمیں شگفتگی اور چاشنی،اسلوب میں روانی اور لفظوں میں فراوانی وغیرہ کی بہتات ہے۔ انھوں نے جن جن موضوعات پر مکاتیب لکھے ۔اُن سب میں نیت کی خلوص مندی، جذبۂ ہمدردی اورگہری انسیت کا رنگ چھلکتا ہے۔پیچیدگی اور الجھاؤ کا کہی نام ونشان نظر نہیں آتا۔غلطیوں کا کوئی احتمال نہیں۔مولانا مرحوم کے مکاتیب فنِ مکتوب نگاری کے ہر کسوٹی پر کھرا اُترتے ہیں۔
اس کتاب میں مولانا مرحوم نے جن حضرات کے نام خطوط لکھے ہیں ۔ وہ سب اپنے اپنے میدان نام نامی اور معتبر ہے۔زبان و ادب کا ہر قاری ان خطوط کے مطالعے دلچسپی لینا پسند کرے گا۔ کتاب کا ہر خط مطالعے کی دعوت دیتا ہے۔اس کتاب کا آخری حصہ’’عکس تحریر‘‘ کے عنوان سے درج ہے جس میں مولانا مرحوم کے چند خطوط کے عکس پیش کیے گئے ہیں۔آخر میں کتاب کی پُشت پر مصنفِ کتاب مولانا مرحوم طیب عثمانیؒ کے سوانحی کوائف اور تصویر بھی ثبت ہے۔’’خیابانِ خیال‘‘ معیاری طباعت کے ساتھ ساتھ مظبوط جلد بھی رکھتی ہے۔پیپر اور کمپوزنگ بھی اعلیٰ معیار کی ہے۔ہمیں امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے قارئینِ ادب کے علمی اثاثہ میں قابلِ قدراضافہ ہوگا۔
نامِ کتاب: خیابانِ خیال(مکتوبات مولانا طیب عثمانی ندویؒ )
مرتب و ناشر: ڈاکٹرشاہ رشادعثمانی
سنِ اشاعت: جون۲۰۱۶ء
صفحات: ۲۳۲
قیمت: ۲۵۰ روپے
ملنے کا پتہ: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ۳۰۷D-، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی د ہلی-۲
مبصر: غلام نبی کمار
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی
———
gh-nabi

Share
Share
Share