بچوں کا شاعر ۔ حافظ کرناٹکی : – ڈاکٹر سمیہ تمکین

Share
حافظ کرناٹکی

بچوں کا شاعر ۔ حافظ کرناٹکی

ڈاکٹر سمیہ تمکین
شعبہ اردو ‘ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی
حیدرآباد ۔ دکن

’’کسی بھی زبان کا وہ ادب جو بچوں کی ذہنی اور علمی سطح سے مطابقت رکھتا ہے اسے بچوں کا ادب قرار دینے میں کوئی مظائقہ نہیں ہے‘‘
اردو میں بچوں کے ادب کا آغاز پہلی جنگ آزادی کے آس پاس تقریباً انیسویں صدی کے وسط سے ہوتا ہے لیکن واضح طور پر اس کے نقوش بیسویں صدی کے اوائل میں یعنی مولانا محمد حسین آزاد اور محمد اسمائیل میرٹھی کی نظموں سے ہوتا ہے ۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بچے ہمارے ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ان کا تحفظ ملک کے ہر شہری پر واجب ہے ۔ بچوں کی صحیح پرورش ‘تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی نشونما کے لئے منا سب سہولیات بھی فراہم کرنا ضروری ہے ۔یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم بچے کو ابتداء ہی سے اس کی ذہنی نشونما کے لئے نفسیات اور ضروریات کے پیش نظر ادبی مواد فراہم کریں۔جس سے تفنن طبع کے علاوہ ان کی معلومات میں اضافہ کرنے اور ان کے کردار کو جلا بخشنے نیز اس کے ذریعہ مستقبل کا اچھا انسان بننے کی راہ بھی ہموار کی جاسکتی ہے ۔
بچوں کے ادب پر گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں یہ جاننا چا ہئے کہ بچوں کا ادب کسے کہتے ہیں؟ لہذا اس ضمن میں شفیع الدین نیر یوں لکھتے ہیں:
’’ بچوں کے ادب سے مراد نظم و نثر کا وہ ذخیرہ ہے جو خاص طور پر بچوں کے لئے لکھاگیا ہو یا اپنی معنویت
اور افادیت کے اعتبار سے بچوں کے لئے موزوں ہو یا یوں سمجھئے کے جو ادب چار یا پانچ سال کی عمرسے
تیرہ یا چودہ برس تک کے بچوں کے لئے مخصوص ہو‘ہم اسے بچوں کے ادب سے تعبیر کر تے ہیں۔بلا شبہ بچوں کے ادب کو ان اقدار اور خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے جو کسی بھی زبان کی نظم و نثر کو ادب کا درجہ بخشتی ہیں۔ ان تحریروں میں خیال کی رفعت ‘جذبہ کی صداقت ‘زبان کی لطافت اور بیان کا حسن شامل ہیں۔‘‘
ادب اطفال کے لئے دو چیزوں پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ایک تو تجسس اور دوسری چیزہے تخیل۔فرض کیجیے بچہ کوئی ایسی کتاب پڑھ رہا ہے جس میں نہ تخیل کی پرواز ہے اور نہ تجسس کی بھر مار ۔تو ایسے میں بچہ کی ذہنی نشونما میں رکاوٹ آجائے گی اور وہ وہیں ٹھٹر کر رہ جائے گا ۔ ونیز ایسی کتا بیں پڑھنے سے نہ صرف وقت کا زیاں ہو گا بلکہ بچہ کی ذہنی نشونما کا بھی فقدان ہو گا۔لہذا جو کتاب بچوں کے لئے مفید ہو اور ان کے ذہنی نشونما کا کام اچھی طرح سے انجام دے اس کو بلا تامل ادب اطفال میں شامل کرنا چاہئے۔
یہ بات مستند ہے کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر بچپن ہی میں ہو جا تی ہے ۔بچپن دراصل ‘انسان کے بننے اور سنورنے کا زمانہ ہے جو وا قعات بچپن میں رو نما ہو تے ہیں وہ ہما رے ذہنو ں میں اس قدر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں کہ وہ تا دم حیات ہمارے ذہن میں موجود ہو تے ہیں اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان وا قعات کا اثر ہماری زندگی میں ہمیشہ موجود رہتا ہے ۔
بچوں کی ذہنی نشونما کے لئے کتا بیں ہی بہترین ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔بچوں کو جس صنف سے دلچسپی ہوگی وہ وہیں کتابیں پڑھیں گے اور خود کے قائم کردہ نصب العین کے مطابق اپنی زندگی کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ سماج و معاشرے میں بھی سدھار لا سکتے ہیں۔
شا عری دراصل تخلیق ہے ۔شعر جتنا زیادہ تخلیقی ہوگا اتنی ہی زیادہ اس میں شعریت پائی جائے گی۔شا عری سے لطف اندوزہو نے کی میراث کسی خاص طبقہ تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ انسانیت کی معراج ہے ۔ بچوں میں بھی شاعری سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔ چھوٹے بچے بھی تال و سرور اور تکرار سے محظوظ ہوتے ہیں ۔اس لئے تخلیق کاروں پر یہ فرض عین ہے کہ وہ بچوں کے لئے اچھے منظوم ادب کی تخلیق کریں۔
بچوں کی شاعری کے تعلق سے مشیر فاطمہ یوں رقم طراز ہیں:
’’بچوں پر شا عری کے اثرات بڑے دور رس اور مختلف ہو تے ہیں ۔رزمیہ شا عری ان میں جوش و خروش پیدا کر تی ہے ۔شعر کی غنا ئیت ان کے کا نو ں کو مو سیقی سے آشنا کر تی ہے ۔نظم کی ادھوری کہا نیاں بچے کو خوا بوں کی دنیا میں لے جا تی ہیں۔بد قسمتی اور ادا سی کی جذباتی نظمیں طر بیہ گیت کے مصر عے جس کا ہر لفظ نگینہ کی طرح چمکتا ہے ۔یہ سب وہ چیزیں ہیں جنھیں بچے پہچانتے ہیں اور ان سے لطف اندوزہو تے ہیں‘‘
غرض شاعری کے ذریعہ بچے کا تخیل اس کی سوجھ بوجھ سے زیادہ اڑسکتا ہے ۔اس کے جذبات و احساسات اس کے چھو ٹے سے ذہن سے بہت آگے جاسکتے ہیں۔
حافظ کرناٹکی کا شمار عصر حاضرمیں ادب اطفال کے اہم شعراء میں کیا جاتا ہے ۔آپ کا اسلوب انتہائی سادہ اور پرکشش ہے ۔ آپ نے اپنی شاعری میں عروض ‘ بحور اور اوزان کا استعمال نہایت ہی خوبی سے کیا ہے ۔
جناب امجد حسین المعروف حافظ کرناٹکی ایک ہمہ گیر شخصیت کے حا مل ادیب و شا عرہیں۔آپ کا سلسلہ نسب عادل شاہی خاندان سے جا ملتا ہے ۔یہی و جہ ہے کہ ان کے یہا ں ایک الگ طرح کی شہزادگی پائی جاتی ہے ۔
حا فظ کر نا ٹکی اپنی خود نوشت سوا نح میں رقم طراز ہیں:
’’میرے دادا جا ن کا نام محمد قا سم عرف چندا صا حب تھا۔جب کہ دادی جان کا نام بی بی فا طمہ تھا۔
دادا جان پین گنڈا‘آندھراپردیش سے ہجرت کر کے کر نا ٹک آگئے تھے ‘ان کا خاندانی سلسلہ
عا دل شا ہی خاندان سے ملتا ہے اسی کی منا سبت سے آج تک ہم لوگوں کے نام کے سا تھ پا شا
لگا ہوا ہے ۔‘‘
یہ مستند ہے کہ حا فظ کر نا ٹکی کے دو سرے بھا ئی اپنے نام کے سا تھ پا شا کا لفظ استعمال کر تے تھے مگر انہوں نے کبھی یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ پہلے وہ امجد حسین تھے پھر حا فظ امجد حسین ہو ئے اس کے بعد حا فظ کر نا ٹکی کے نام سے ادبی گو شو ں میں خاصے مقبول ہوئے۔اس سے یہ اندا زہ ہو تا ہے کہ وہ اپنی شنا خت خود بنانا چا ہتے تھے اور اس میں کا میا ب بھی ہوئے۔وہ بھی اتنے مستحکم کہ علم و ادب کے وسیع حلقے میں ان کا نام انتہا ئی محبت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔
امجد حسین حافظ کرناٹکی ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔حافظ ان کا تخلص ہی نہیں بلکہ آپ نے کلام پاک بھی حفظ کیا ۔ جہاں تک ان کے ایمان و عقیدہ کی بات ہے ان کے حافظ ہو نے ہی سے ظاہر ہے کہ وہ کس پایہ کے مسلمان ہیں۔
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ حا فظ کرناٹکی کو شاعری کا ذو ق وراثت میں ملا تھا ان کے والد استاد تھے اور اردو زبان و ادب سے گہرا ذوق رکھتے تھے و نیز ان کی والدہ بھی استانی تھیں اور شعر و ادب کا عمدہ ذوق رکھتی تھیں۔والد کی بہ نسبت والدہ میں تخلیقی صلاحیتوں کی بھرمار تھی وہ ادبی ذوق و شوق کی پرورش ہی نہیں کرتی بلکہ اپنے طور پر طبع آزمائی بھی کرتی تھی اور حمد یہ و نعتیہ کلام لکھ کر اسکول میں سنایا کرتی تھیں ۔
یہی وہ ماحول تھا جو جانے انجانے حافظ کرناٹکی کی ادبی زندگی کی بنیاد ڈال رہا تھا۔
حافظ کرناٹکی کی بچوں کی شاعری سے دلچسپی کی ایک وجہ تسمیہ آفاق عالم صدیقی نے یہ بتائی ہے کہ جب انہیں نصابی کمیٹی کا ممبر بنایا گیا تو نصاب کی تیاری کے لئے کام کے تجربہ سے گزرنا پڑا تو انہیں بچوں کے لئے نئے نئے مو ضوعات پر نظموں کی تلاش ہوئی جب آپ نے سنجیدگی سے نظموں کو تلاش کرنا شروع کیا تو شدید ترین مایوسی کا شکار ہونا پڑا ۔پہلی بار انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ بچوں کا ادبی سرمایہ بہت کم ہے ۔یہ صورت حال ان کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج تھا جسے انہوں نے خوش اسلوبی سے نبھایا اور انہوں نے یہ طئے کیا کہ ان تمام موضوعات پر وہ لکھی گئیں جس کی نصابی کتب میں ضرورت پڑھ سکتی ہے ۔حافظ کرناٹکی آج تک اپنی اس بات پر قائم ہیں ۔انہوں نے کم مدت میں ادب اطفال کو ۳۰ گراں قدر کتابوں سے نوازا جن میں سات کتابیں نثر میں ہیں ما باقی سب شاعری ہی میں موجود ہیں۔یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاتی ہے کہ ادب اطفال میں شائد ہی کو ئی موضوع ایسا ہو گا جو ان کی نظر سے چھوٹ گیا ہو ۔حافظ کرناٹکی نے نظم کے علا وہ غزل ‘رباعی ‘ قطعہ ‘لوری ‘مرثیہ ‘مثنوی‘غرض تمام شعری اصناف پر طبع آزمائی کی ہے ۔
حافظ کرناٹکی بچوں کے بے حد مقبول اور ہر دل عزیز شاعر ہیں۔انہیں بچوں کی نفسیات کا عمدہ درک حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی بچوں کے لئے لکھتے ہیں تو ان کی خواہشات ‘نفسیات ‘اور ان کی عادتوں و خصلتوں کا پورا خیال رکھتے ہیں۔
بچوں کے لئے شاعری کرنا کوئی آسان کام نہیں ان کے لئے کچھ لکھا جا رہا ہے تو پہلے اپنی سطح سے ان کی سطح تک پہنچنا ہوگا ۔تب کہیں جاکر بچوں کے لئے کچھ لکھا جاسکتا ہے ۔یوں بھی بچوں کے لئے محض الفاظ و بیان کی سادگی پر توجہ مرکوز کرنا بڑی بات نہیں۔
بچوں پر جب کچھ لکھا جارہا ہے تو پہلے یہ دیکھنا زیادہ ضروری ہے کہ کونسے عمر کے بچوں کے لئے ادب تخلیق کیا جارہا ہے کیو ں کہ جس اسٹیج کے لئے لکھا جا رہا ہے اس عمر میں بچوں کی نفسیات کیا ہو گی اور وہ کس طرح کی چیزیں پڑھنا پسند کریں گے وغیرہ وغیرہ یہ سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جب تخلیق کار لکھنا شروع کرتا ہے تو اس وقت اس کا ذہن زبان و بیان کی سادگی کی طرف مرکوز ہو تا ہے ۔یعنی انہیں ایسی زبان استعمال کرنی پڑتی ہے جو سادہ اور پر کشش ہو ‘جملہ چھوٹے ہو نے چاہیے مگر ان میں تسلسل پایا جانا ضروری ہے۔مرکبات ‘تصنع ‘کا استعمال کم سے کم ہو اور محاورے بر جستہ اور برمحل ہونے چا ہیے ۔بھاری بھرکم تشبیہات سے پرہیز کرنا چاہیے کیوں کہ بچوں کے پاس الفاظ کا زیادہ سرمایہ نہیں ہوتا مگر بچوں کے معلومات میں اضافہ کے لئے کچھ نیاپن اپنی تخلیق میں پیش کرنا چاہیے۔ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھ کر بچوں کے ادب کی تخلیق کا مرحلہ سر ہوتا ہے۔الغرض حافظ کرناٹکی کے یہاں یہ چیزیں من و عن موجود ہیں آپ بچوں کی فطرت کے عین مظابق مو ضوع تشکیل دیتے ہیں۔حافظ کرناٹکی کے موضوعات کے تعلق سے آفاق عالم صدیقی لکھتے ہیں:
’’ان کے یہاں موضوعات کی جو رنگا رنگی دیکھنے کو ملتی ہے وہ ان کے ہم عصروں ہی میں نہیں ان کے ماقبل کے فنکاروں کے یہاں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے ۔وہ موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے اردو زبان کے سب سے زیا دہ زرخیز شا عر ہیں۔کہا جاتا ہے کہ بڑا شاعر نہ صرف معیار میں ہی بڑا ہو تا ہے بلکہ مقدار میں بھی بڑا ہو تا ہے ‘‘۔
غرض ان کی شا عری متنوع موضوعات کا احاطہ کر تی ہے ۔وہ ہر اس موضوع پر قلم اٹھا تے ہیں بچوں کی خواہشات کو کبھی روندتے نہیں بلکہ بچوں کے خواہشات کی پاسداری کرتے ہو ئے ان میں گھل مل جا تے ہیں۔وہ جہاں کھیل کود ‘ ہنسی مذاق ‘ سیر و سیاحت ‘جنگل ‘پہاڑ وغیرہ کو اپنا موضوع بناتے ہیں وہیں رشتوں ‘ناطوں کا تقدس بچوں کے ذہن میں ڈالنے کے لئے دادا دادی‘نانا نانی‘ اماں ابا‘بھیا باجی ‘ استاد‘خالہ وغیرہ پر بھی نظمیں لکھتے ہیں۔ان کی شا عری کا اہم وصف دراصل مقصد یت ہے ۔ان کی شاعری میں کوئی نہ کوئی مقصد پوشیدہ ہوتا ہے تا کہ بچوں کو اس سے کچھ نہ کچھ سبق حا صل ہو۔
مثا لیں ملا حظہ کیجیے
جھو لا جھو لیں آو ’ نا ‘شا ہد رسی لا و’نا
اچھلو پکڑو ڈالی تم ‘زاہد رسی با ندھونا
(جھو لا جھو لیں)

کتنی شیریں زبان ہے اردو
ملت کی آن بان ہے اردو
علم میرا ہے میری دولت ہے
میں نے سیکھی زبان اردو
کتنے طوفان آئے اور گزرے
واہ کیا سخت جان ہے اردو
(اردو)
حافظ کرناٹکی کی شاعری کی تعریف کر تے ہو ئے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں :
’’آپ کی نظموں کو بچوں کے ادب میں ایک قیمتی اضا فہ کہا جا سکتا ہے ‘‘۔
حافظ کرناٹکی جس طرح ہر معاملہ میں اللہ تعالی کی مدد کے طالب ہوتے ہیں اسی طرح وہ چاہتے ہیں کہ بچے بھی اپنے رب کو اچھے سے پہنچانے اور تمام دنیا سے بالا تر ہوکر خدا ئے واحد کی ذات پر کا مل ایمان رکھیں اور خیر و شر کی تمام معاملات کو خدائے واحد کی تعلیمات کے تناظر میں سمجھیں اور اللہ کی ذات سے محبت کا دم بھریں ۔یہی وہ وجہ ہے جس کے لئے ان کے پاس حمدیہ کلام وافر مقدار میں موجود ہیں۔ خود ان کے کئی مجموعے کلام حمدیہ شاعری پر مبنی ہیں ۔جن میں نور وحدت‘ فانوس حرم‘شمع ہدی‘وغیرہ کو غیر معمولی اہمیت حا صل ہیں۔
مثال کے طور پر یہ بند دیکھئے ۔

ذرے ذرے میں جلوہ نمائی تیری
ائے خدا بولتی ہے خدائی تیری
قطرے قطرے میں شبنم کے تیرا ہنر
پتے پتے پہ دیکھی لکھائی تیری
ڈوب جاتی ہے شب تیری تسبیح میں
صبح کرتی ہے مدحت سرائی تیری
کیا بیاں ہوگی حافظ سے تیری ثناء
ما وراء قلم ہے بڑائی تیری
حافظ کرناٹکی کے یہاں نعتیہ کلام بھی بام عروج پر نظر آتا ہے ۔ ان کے نعتیہ کلام کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں رعنائی بھی پائی جاتی ہے اور جلال بھی۔ان کے حمدیہ کلام میں شفافیت اور مٹھاس پائی جاتی ہے ۔جو دلوں کی پیاس بجھا تی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ سیرت کی تعمیر کا مسئلہ بھی آسان کردیتی ہے اور زندگی گزارنے کا درس بھی دے جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام بچے ہی نہیں بلکہ بڑے بزرگ بھی اشتیاق سے پڑھتے ہیں ۔ان کی بعض نعتیں ایسی ہیں جو بچوں کے زبانوں پر بے حد مقبول و معروف ہیں۔مثا لیں دیکھئے
نہیں جن سے افضل کسی کا مقام
انہیں پہ کڑوڑوں درود و سلام
نبیﷺ کا وہ عالی مقام اللہ اللہ
خدا خود ہی بھیجے درود و سلام
پہنچ کر وہ عرش معلی پہ یارو
تمام انبیاء کے بنے تھے امام
چلوں سنتوں پر نبیﷺکی ہمیشہ
اسی راہ پر تم بڑھو صبح و شام
حافظ کرناٹکی کی نعتوں کا مطالعہ کر نے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ شب و روز عشق نبیﷺ سے محبت کی تڑپ رکھنے پر یقین رکھتے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہر بچہ اپنے دل میں نبی ﷺّ سے بے پناہ محبت کی شمع روشن کرے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں کثرت سے نعتیہ کلام پایا جاتا ہے ۔
حافظ کرناٹکی نے ’’صفات ایمان ‘‘ میں بچوں کو ایمان کی صفات سے واقف کرایا ہے۔ اس نظم کا انداز بیان نہایت ہی سادہ ہے ۔پوری نظم سادگی کی عمدہ مثال ہے اس نظم کا مقصد دراصل یہ ہے کہ جو سات صفات اس نظم میں بیان کی گئی ہے وہ بچوں کو ازبر ہوجائے اور بچے نظم کی ہیت میں ایمان کی صفات سے وا قف ہو جائے۔
مثال دیکھئے
سات صفات پر ایمان لاو’
دین کی ساری دو لت پاو’
مانو رب کی کتابوں کو
ایمان رسولوں پر لے آو
یوم قیامت بر حق جانو
جھوٹی باتوں پر نہ جاو
اس کے علا وہ انہوں نے بچوں کی آگہی کے لئے ‘بچوں کی دین سے واقفیت کے لئے چھو ٹے چھوٹے بحروں میں کا میاب نظمیں لکھیں جن میں نماز‘حج‘روزہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
حافظ کرناٹکی کی ایک مشہور نظم ’’استاد‘‘ کے عنوان سے موجود ہیں۔اپنی نظم کے ذریعہ وہ بچوں کے دلوں میں علم کی عظمت جگانے کے ساتھ ساتھ استاد کا ادب و احترام بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ حق بجانب ہے کہ استاد کے بغیر بچوں کے لئے علم کا حصول نا ممکن ہے ۔ اس لئے حافظ کرناٹکی نے بچوں کے ذہن و دل میں یہ بات بٹھانے کی کو شش کی ہے ۔تا کہ بچے استاد کی عزت کر یں‘ان کا احترام کریں‘اور ان کی خدمت میں پیش پیش رہیں‘ کیوں کہ استاد کی خدمت کا شرف حاصل ہونا بڑی قسمت کی بات ہے ۔
مثال ملاحظہ کیجئے
درجہ ان کا اعلی ہے
رتبہ بر تر بالا ہے
درس ملا یہ الفت کا
ان سے سب کچھ پایا ہے
حافظ کرناٹکی کی دو مشہور نظمیں ’’پرا نے اوراق‘‘ اور’’ نئے اوراق‘‘بے حد مقبول ہیں ۔ان نظموں میں انہوں نے بڑی خوبصورتی سے پہلے زمانے کی خوبیوں کے سا تھ ساتھ نئے زمانے کی چند اہم برائیوں کی طرف نشا ندہی کی ہے ۔دونوں نظموں میں اچھائی اوربرائی کے فرق کو اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ خود بچے اچھائی اور برائی کی پہچان کر سکتے ہیں۔ونیز اچھی باتوں کو اپنانے اور برائی سے دور رہنے کا ذوق خود بخود بچوں میں پنپنے لگتا ہے ۔مثالیں ملاحظہ کیجئے ۔
پرا نے اوراق
لوگ مشکل میں کام آتے تھے دوست ‘دشمن کو بھی بناتے تھے
لاٹری سے جوئے سے نفرت تھی ایک روٹی میں کتنی برکت تھی
پردہ عورت کا بھی مثالی تھا دور واقعی وہ جما لی تھا

نئے اوراق
چیزیں مہنگی ہیں نوٹ جعلی ہے اپنی ہر بات سچ سے خالی ہے
بچہ بچہ نشے میں رہتا ہے گٹکھا‘زردہ وہ سب ہی کھاتا ہے
اچھے لوگوں کی اب نہیں عزت جھو ٹے لوگوں کی اب ہوگئی شہرت
علم والوں کے رہنما جاہل جو شرابی تھا بن گیا عامل
وقت کے ساتھ ساتھ حالات بھی بدل جاتے ہیں پہلے جو کچھ موجود تھا وہ اب شاذو نادر دیکھنے میں آتا ہے ۔رشتوں کا تقدس ختم ہوچکا ہے ‘ فیشن پرستی کے تحت مغربی تہذیب کو اپنایا جارہا ہے جس کی وجہ سے قدیم تہذیبی روایات کی خوبصورت قدریں مٹ رہی ہیں۔غرض ایسی صورت حال جس میں دنیا پل پل بدل رہی ہے ‘تہذیب کا گلا گھو نٹا جا رہا ہے ویسے میں بچوں کی ذہنی ‘فکری اور عملی تربیت کی ضرورت ہے ۔ غرض یہی وہ مقاصد ہیں جس کی تشہیر کے لئے حافظ کرناٹکی اپنی شاعری کا سہا را لیتے ہیں تا کہ بچوں کے ذہن و دل میں یہ تمام احساسات و جذ بات پیوست ہو جائیں ۔
حافظ کرناٹکی کا کلا م ‘کوئی نہ کوئی درس دیتا ہوا نظر آتا ہے ۔ایسا درس جو بچہ کی سیرت کی تعمیر میں اہم رول ادا کرنا ہے ۔بچے کی اگر ابتداء ہی سے صحیح تربیت کریں تو وہ یقیناً مستقبل میں ایک کامیاب انسان کی حیثیت سے اپنی پہچان خود بنائیں گے۔الغرض حا فظ کرناٹکی کی نظموں کے چند اشعار ملا حظہ کیجئے جس سے ان کی مقصدیت جھلکتی ہو ئی نظر آتی ہے ؂

ٹریفک کا نسٹبل
چو را ہے پر ہے جو ہلچل
دیکھو وہا ں ہے اک کانسٹبل
سڑکوں کے قانون پڑھو تم
سمجھو ان کو اور چلوں تم

ورزش
ورزش سے جو کترائے گا
بے شک یار و پچھتائے گا
ورزش سے دکھ دور ہوتے ہیں
حافظ جی مسرور ہوتے ہیں

مزدوری سے اسکول
طفلگی میں کام لینا ظلم ہے سب سے بڑا
ظلم ایسا ان پر ہرگز نہ تم ڈھاو دوستو
چوں کہ حافظ کرناٹکی نصابی کتب کی تیاری کے سلسلے میں بچوں کے ادب سے رجوع ہوئے تھے لہذا انہوں نے نصابی طرز پر کئی ایک نظمیں بھی لکھیں۔جو آج کا شاعر شائدہی اس تعلق سے سو چ سکتا ہے ۔ مثا لیں دیکھئے ؂

گنتی
ہم ہے بندے یارب نیک
تو ہی دینے والا ایک
چھ دن کام کے ہیں بابا
ساتواں دن ہے چھٹی کا
عشرے کے کل دن ہے دس
حا فظ گنتی یہاں تک بس

جمع
جمع حسابوں کی رونق ہے
چہرہ بچوں کا کیوں فق ہے
ضرب
جانو ضرب ہے چیز کیا‘کیسا ہے یہ حساب
دو کو ضرب دو چھ سے پھر دیکھ لو حساب
تفریق
میں ہوں جمع کی ضد یہ ذرا جان لیجیے
آڑی لکیر دیکھ کے پہچان لیجیے
تقسیم
استاد ریاضی سے ملی مجھ کو یہ تعلیم
جو بانٹنے کی شئے کو اسے کہتے ہیں تقسیم

گلوب
چھوٹا سا ہے مگر یہ کر شمہ تو دیکھیے
لمحوں میں کل جہاں کو دکھاتا ہے گلوب
کمپیوٹر
بات یہ اب گھر گھر کی ہے
دنیا کمپیوٹر کی ہے
غرض حافظ کرناٹکی نے تعلیم و تعلم سے تعلق رکھنے وا لے ہر مو ضو ع پر قلم اٹھایا ہے۔ یہی نہیں بلکہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعہ ‘بچوں کو اصناف شاعری سے وا قف بھی کرایا ہے وہ بھی اس خوبی سے کہ شعریت کا ذائقہ بھی موجود رہے اور مقصد بھی پورا ہوجا ئے۔ اس ضمن میں نظم کیا ہے ؟‘ غزل کیا ہے ؟‘ قطعہ کیا ہے ؟‘ رباعی کیا ہے ؟‘ قصیدہ کیا ہے ؟‘ مثنوی کیا ہے ؟‘ مرثیہ کیا ہے ؟‘ وغیرہ نظمیں کافی مقبول ہیں۔
اس کے علاوہ ان کے یہاں ہر موضوع جگہ پاگیا ہے جو دنیا میں موجود ہے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے ہر موضوع کو اپنی بچوں کی شاعری کی دنیا میں سمیٹ لیا ہے۔یہاں پر ان کی ہر نظم کا احاطہ کرنا مشکل امر ہے لہذا مقالے کی طوالت کے خیال سے ان کی شاعری کا عمومی جائزہ لیا گیا ہے ۔
بحر کیف حافظ کرناٹکی ادب اطفال کے روشن مینار شاعر کی حیثیت سے ادب کے افق پرچھائے ہوئے ہیں۔حافظ کرناٹکی ایک ایسی شمع روشن کئے ہوئے ہیں جو زمانے کے نشیب و فراز میں کبھی بجھتی ہوئی دکھائی نہیں دے گی بلکہ آنے والی نسلوں کو روشنی سے ہمکنار کرے گی اور انہیں منزل مقصود تک پہنچانے میں رواں دواں رہے گی۔ حافظ کرناٹکی اپنی محنت ‘لگن ‘ خلوص ‘کی وجہ سے ادب اطفال کو مالا مال کر نے کی کو شش کر رہے ہیں ان کی اس محنت کو دیکھ کر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ ادب اطفال کے بے مثال شاعر بن کر ادب کے افق پر ہمیشہ دائم و برقرار رہیں گے۔ ؂
امر جس کو کہتے ہیں وہ زندگی دے
اندھیرا ہے اس دل میں تو روشنی دے
زبان ہو تکلف سے حافظ کی خالی
لجھائے جو سب کو تو وہ سادگی دے
——
Dr. Sumayya Tamkeen
Dept. of Urdu
BRAOU – Hyderabad

Share
Share
Share