انشائیہ : یہ وہ وفات ہے جس کی خبر نہیں ہوتی : – جرار احمد

Share
جرار احمد

انشائیہ
یہ وہ وفات ہے جس کی خبر نہیں ہوتی

جرار احمد
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی

آج جب ہم مسلم معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ پاتے ہیں کہ پہلے کی بہ نسبت تعلیم کی طرف رغبت بڑھی ہے اور ابن آدم کے ساتھ ساتھ بنات حوا بھی گھر سے باہر دور دراز کا سفر کرکے تعلیم حاصل کر رہی ہیں ۔اس پہل کا پورا کریڈٹ گارجین کو جاتاہے ، اس ضمن میں چند باتیں تمام امت مسلمہ اور ہم وطنوں کے گوش گذار کرنا چاہوں گا،کہ جہاں تک تعلیم کی بات ہے یہ ایک بہت ہی اچھی چیز اور مستحسن پیش رفت ہے ، مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں ان کی تربیت پربھی دھیان دینا ہوگا ۔

تربیت اتنی اہم شئ ہے کہ بعض مفکرین نے تعلیم سے زیادہ تربیت پر زور دیا ہے، مگر اکثر والدین اپنی مصروفیات کی باعث اپنے بچوں کی تربیت سے قاصر رہتے ہیں ، حالاں کہ دوسری تمام چیزیں جیسے روپیہ پیسہ اورضرورت و آسائش کی دیگرتمام چیزیں اپنے بچوں کو فراہم کرتے ہیں سوائے تربیت کے۔ شاید اسی چیزکے پیش نظر ابن صفی نے اپنے ناول میں لکھا ہے کہ ’’بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے لیے جسمانی زندگی کی آسائشیں مہیا کر دینے تک ہی ان کے فرائض کے حدود ہیں ۔بچوں کی ذہنی زندگی سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہ بے حد خطر ناک ہے حمید صاحب بے حدخطرناک‘‘ اور سچ میں یہ بے حد خطرناک ہے پہلے جب مشترکہ خاندان کا تصور عام تھا تو اس وقت گھر کے بڑے بزرگ دادا ، دادی وغیرہ بچوں کی تربیت کر دیاکرتے تھے اور بچے بھی ان سے جذباتی طور سے جڑے رہتے تھے جوکہ ایک فطری ٖضرورت ہے ، مگر آج نکلیئر فیملی ہونے کی وجہ سے والدین اپنی مصروفیا ت کے باعث اپنے بچوں سے جزباتی طور سے جڑ نہیں پاتے ہیں نتیجتا بچوں کی پرورش اور ان کی تربیت صحیح نہج پر نہیں ہوپاتی ہے اور اس بات کا احساس تک والدین کو نہیں ہوتاہے، کیوں کہ وہ جسمانی آسائش کی تمام چیزیں فراہم کرکے مطمئن رہتے ہیں ، مگر بچہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں رہتا ہے جس سے کہ وہ جذباتی طور سے جڑ سکے ، جس کے نتیجے میں نئے رشتے(گرل فرینڈ،بوائے فرنڈ وغیرہ) جنم لیتے ہیں پھر یہ لوگ اپنی توجہ تعلیم پر مرکوز کرنے کے بجائے رشتوں کو نبھانے میں کہیں اور بھٹک کر ملک بھسم کے راہی بن جاتے ہیں اور ان کا کریئر اور زندگی تباہی کے دہانے پر آجاتا ہے۔جس طرح سے ابن صفی نے اپنی بات والدین پر کہی ہم اسی کو نظر میں رکھ کر اپنی یہ بات آپ کے حوالے کر رہے ہیں کہ ’بعض بچے یہ سمجھتے ہیں کہ اوپرسے ہی ماں باپ کا کہنا مان لینا کافی ہے یعنی انہوں نے پڑھنے کو کہا تو بس داخلہ لے لینا اور کسی طرح سے امتحان پاس کرلیناہی کافی ہے،پھر ان کے پیسوں پر عیش و عشرت کی زندگی گذارو اور کسی کے ساتھ عیش کرو ۔والدین کی ذہنی زندگی اور توقعات سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتاہے ۔ یہ بھی بے حد خطرناک ہے ابن صفی صاحب بے حد خطرناک۔‘ دونوں عبارتوں سے آپ حالات کی سنگینی کا اندازہ لگا سکتے ہیں مگر دوسری والی صورت اور بھی خطرناک ہے کیوں کہ والدین تو معاشی مجبوریوں کے پیش نظر بچوں کے لیے وقت نہیں نکال پاتے ہیں اور اپنی ذمہ داری کما حقہ ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں ، مگر دوسری صورت میں بچے انہی کی گاڑھی کمائی کا غلط استعمال کرتے ہیں اور جتنی توجہ اپنی تعلیم پر دینی چاہیے نہیں دے پاتے ہیں نتجیتا اپنے کریئر کے برباد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی توقعات کی کسوٹی پر بھی نہیں اتر پاتے اور اپنے مستقبل کو دشوار کن بنا لیتے ہیں ، اس لیے والدین کو بھی چاہیے کہ ہو سکے تو تھوڑا کم ہی کمائیں مگر اپنے بچوں کی تربیت کے لیے وقت نکالیں، اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو پھر چاہے وہ جتنا کمالیں ان کی نسل انہیں برباد کرنے میں وقت نہیں لگائے گی اور پھر ایسی کمائی کا کوئی فائدہ نظر نہیں آئے گا۔ ایسی صورت میں یہ ضروری ہو جاتا ے کہ تھوڑا کم ہی کمائیں کیوں کہ کسی چیز کا بچا لینا کمانے سے کم نہیں ہے اور بچوں کو بھی چاہیے کہ جب وہ اتنے بڑے ہوگئے ہیں کہ باہر جاکر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور کسی نئے رشتے کو جنم دے سکتے ہیں توپھر پرانے رشتوں کوہی نبھانے کی کوشش کریں یعنی اپنے ماں باپ سے خود ہی جذباتی طور سے جڑنے کی سعی کریں نہ کہ ان کی گاڑھی کمائی کو یوں ہی لٹادیں۔
آج کے اس دور میں جہاں علم کی بہتات ہے معلومات کا انفنجار ہے مختلف طرح کی جدید ٹکنالوجی سے دنیا روز بروز لیس ہو رہی ہے اور معلومات کا حاصل کرنا آسان سے آسان تر ہوتاجا رہاہے ہر انسان کے ہاتھ میں’ جامِ جم ‘ کی شکل میں موبائل موجود ہے ، مگر یہ تمام چیزیں فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ نقصاندہ بھی ہیں، کیوں کہ علم بڑھتا جا رہے ، ادب ختم ہوتا جارہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہو پاتا ہے ۔ مثلا آج اگر کوئی بچہ حاضرجواب ہے تو اس کی خوب تعریف ہوتی ہے اورلوگ اسے بہت ذہین سمجھتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ ہر وقت ہر بات پر سوال و اعتراض کرتارہتاہے ۔ سوال و اعتراض کرے مگر آداب کو ملحوظ خاطر رکھ کر، مگر وہ ان سب چیزوں کو کیوں برتے جب اسے یہ سب سکھایا ہی نہیں گیا ہے ۔ آداب کا تقاضا تو یہ ہے کہ جب دو بڑے بات کریں تو بچے خاموش رہیں اور اگر مداخلت کرنی ہی ہو تو بلا اجازت مخل نہ ہوں ،مگر آج منطق اور ذہانت کی آڑ لے کر ہر کوئی اسمارٹ بننے کے چکر میں آداب کا خیال ہی نہیں رکھتا ۔ہم تو ایسے ذہین بچوں اور لوگوں سے یہی گذارش کریں گے کہ اسمارٹ تو ایک چھوٹی شئ ہے اسمارٹ بننے کے بجائے بااخلاق بنیں باادب بنیں۔
ہمارا ضمیر تو اس قدر مر گیا ہے کہ بچوں کی تربیت تو کیا ہم انہیں فرائض کے بارے میں نہیں بتا پارہے ہیں ۔ آج ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے باہر بھیج رہے ہیں ، مگر اسلامی تعلیمات سے ان کا پوراذہن یکسر خالی ہوتا ہے ، نام کے مسلمان ہیں ، نہ ان کو چھ کلمے یاد ہیں ، نہ غسل کے فرائض معلوم نہ وضو کا طریقہ معلوم اور اسلام کے ارکان تو انہیں پتہ ہی نہیں’تم مسلماں ہویہ انداز مسلمانی ہے‘ حد تو یہ کہ اکثر بچے جس مقصد کے لیے تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں یا پھر جس مضمون میں تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں اس پر بھی ان کو گرفت نہیں ہوتی ہے اور ہو بھی کیسے جب والدین صرف ان کی جسمانی زندگی کی ضروریات پوری کریں گے تو بچے بھی ان کی توقعات اور خوابوں کی تعبیر بننے کے بجائے صرف اور صرف نوکری کے لیے تعلیم حاصل کریں گے جو کہ بے حد خطرناک ہے اور قبال نے تو اسے زہر سے تعبیر کیا تھا ۔۔
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے دوکف جو
اکثر گارجین بھی یہی سوچتے ہیں کہ بس پڑھنے کے بعد جلدی سے کوئی جاب مل جائے اور جاب مل بھی جاتی ہے، مگر پھر وہی ہوتاہے کہ جس طرح سے ماں باپ کے پیار کے بغیر بچہ بورڈنگ اسکول میں بچپن گذارنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے تو اسی طرح والدین بھی بڑھاپے میں اولڈ ایج ہوم میں بڑھاپا گزارنے کے لیے مجبور کیے جاتے ہیں، کیوں کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے جذباتی طور سے جڑہی نہیں پاتے کہ ایک دوسرے کو سمجھیں ، اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کی ضعیفی اچھے سے گزرے تو انہیں آج ہی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور ان کو اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہوگی ، اچھے اخلاق و کردار ان کے اندر سمونا ہوگا ، انہیں بودوباش کے طریق ، گفت و شنید کے آداب سکھانے ہی ہوں گے۔
امت مسلمہ کا المیہ تو یہ ہے کہ اگر پیسہ ہے تو اچھی تعلیم کے لیے بچوں کو باہر بھیجتے ہیں مگر ان کی تربیت اور دینی تعلیم کے لیے بالکل بھی فکر مند نہیں ہوتے ، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ، جب گھر پر کسی کا انتقال ہو جاتاہے تو دینداری دکھانے کے لیے تب تک لاش کو دفن نہیں کیاجاتاجب تک کہ باہر پڑھنے یا رہنے والا بچہ آنہ جائے اور ایساکرنے میں کبھی کبھی بہت خطیر رقم صرف کرنی پڑتی ہے ، آنے کے بعد بچہ کو بھی شرمندگی اور ندامت کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے جب وہ نماز جنازہ کے کے لیے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتاہے اور وہ یہ سوچتا ہے کہ کیا پڑھوں ؟ کاش کوئی مجھے بھی جنازے کی دعا یاد کرا دیا ہوتا تو آج میں بھی میت کی مغفرت کی دعا کرتا، کاش جتنا پیسہ لگاکر یہاں آیا وہی رقم صدقۂ و خیرات کردی جاتی تو اس سے زیادہ فائدہ پہنچ جاتا ، یہاں آکر دعائے مغفرت ہی جب نہیں کر سکتا توپھر کیا فائدہ ۔والدین کو آج سے ہی اس چیز کو سمجھنا ہوگا کہ کل ان کی اولاد انہیں کی جنازہ کی نماز میں دعائے مغفرت کے بجائے دعا یاد نہ ہونے کا الزام انہیں پر نہ لگائے اور ان کی اولاد ان کے لیے رحمت و مغفر ت بننے کے بجائے زحمت اور عذاب میں اضافہ کا سبب بنے۔
آج کا مسلمان نہ تو اپنے تہذیبی ورثے کا پاسدار ہے اور نہ ہی اسلامی روایات کا علمبردار بلکہ یہ سب چیزیں اس کی نظر میں ہیچ ہیں ، جب کہ ہمیں پتہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے، وہ کبھی اس زاویہ سے سوچتا ہی نہیں کہ اگر ہم اپنے تہذیبی اور اسلامی ورثے کو اپنے بچوں میں منتقل کردیں اور پھر اسے عصری تعلیم دلائیں یا پھر دونوں ایک ساتھ کریں توان کابچہ دوسروں سے زیادہ علم والا ہوگا، کیوں کہ اس کے تمام ہم جماعت وہی پڑھ رہے ہوتے ہیں جو وہاں پڑھایا جاتاہے ، مگر جس بچے میں یہ چیزیں جذب کردی جاتی ہیں اور وہ اسے اپنے کردار میں سمو لیتاہے تو وہ اسی وقت دوسروں سے ممتاز ہو جاتاہے ۔ آج کے اس دور میں نافرمانی، نفرت، عداوت ، بغض وکینہ اور حسد اس قدر عام ہے کہ اگر کوئی شخص تھوڑی سی ہی محبت اور بھائی چارگی اختیار کرے اور اخلاق کا مظاہرہ کرے تو سب کا نور نظر بن جائے، کیوں کہ سب کی نظر میں اس کا انداز منفرد اور جدا اور پسندیدہ ہوگا اور ایسا کرکے وہ دونوں جہاں میں کامیاب و کامران ہو سکتاہے ، مگر ہمیں وقت ہی نہیں ہے ان سب چیزوں پر غورو فکر کرنے کے لیے اور وقت کی بات کیا حق تو یہ ہے کہ ہمارا ضمیر مر گیا ہے اور ہمارے قلوب و اذہان ان جیسے احساسات سے عاری ہو چکے ہیں ، ہم مادیت میں اس قدر غرق ہوگئے ہیں کہ مت پوچھیے ، ہم صرف گفتار کے غازی ہیں جب کہ ہم تب تک کامیاب و کامران نہیں ہو سکتے جب تک کہ کردار کے غازی نہ بن جائیں۔
کسی نے کہاتھا کہ کسی کی زبان بولتی ہے کسی کا دماغ بولتا ہے ، کسی کا کردار بولتا ہے۔ آج ہم صرف زبان والی بات پر عمل پیراہیں اور وہ بھی ’بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو‘۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے دماغ کا استعمال کر کے کچھ ایساکمال کرجائیں جس سے تاقیامت خلق خدا فائدہ اٹھاتی رہے ۔ اپنے کردار کو معراج کمال تک پہنچادیں جس کی دنیا قیامت تک مثال دیتی رہے ، مگر اس کے لیے ضروری ہے بچوں کی تربیت ۔ پہلے بڑے بوڑھے اخلاقی کہانیاں سناتے تھے درود اور دعائیں یاد کراتے تھے کلمہ یاد کرایا جاتاتھا مگر افسوس ایک عرصے سے اس ورثے کی منتقلی نہیں ہوئی جس کے نتیجے میں اب والدین کوہی یہ سب یاد نہیں تو بچوں کو کہاں سے یاد کرائیں گے اوراب ہم ان سب چیزوں کے بارے میں سوچتے بھی نہیں، حالاں کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ جب عصری تعلیم دنیا بنانے کے لیے دلاسکتے ہیں تو دینی تعلیم دنیا اور آخرت بنانے کے لیے کیوں نہیں دلاسکتے ، اگرگارجین کے پاس وقت نہیں تو الگ سے اس کا کچھ انتظام کریں ، جیسا آج کل شہروں میں رمضان کیمپ یا دینی سمر اور ونٹر کیمپ علما کی جانب یا کسی جماعت کی جانب سے لگایا جاتاہے جہاں بچوں کو دینی تعلیم ،آداب وغیرہ سکھائے جاتے ہیں ، جہاں ایسے کیمپ لگتے ہیں وہاں اپنے بچوں کو بھیج کر ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور جہاں ابھی اس قسم کا رواج نہیں ہے وہاں بھی اس طرح کا کچھ انتظام کرنا چاہیے اور ویسے بھی رمضان میں مدارس کی چھٹی رہتی ہے ااور بہت سے نوجوان عالم رمضان میں گھر پر ہی رہتے ہیں وہ اس ضمن میں پہل کریں تو ان سماجی برائیوں کو دور کرنے میں ایک بہت ہی کار گر عمل ہوگااور بہت بڑی خدمت خلق بھی ہوگی ۔
نماز ، حج ، روزہ ، زکوۃ اپنی جگہ
خدمت خلق کسی ثواب سے کم نہیں
اگر آج بچے آداب سے عاری ہیں تو اس میں ان بچوں کی غلطی سے زیادہ گارجین کے تسامحات ہیں ، اگر گارجین نے ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا انتظام بھی کیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا، کہتے ہیں کہ اعلی تعلیم دلاکر اچھا ڈاکٹر اچھا انجینئر تو بنا سکتے ہیں ، مگر اچھا انسان نہیں کیوں کہ اچھا انسان بننے کے لیے اچھے اخلاق ، اچھے کردار، اچھی تربیت کا ہونا ضروری ہے اور اچھے اخلاق و کردار کا تصور اچھی تربیت کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے ہمیں ایک بار اس امر پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ کس طرح سے اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت کا بھی بندو بست کیا جائے اور گارجین یہ بات بھی ذہن نشیں کرلیں کہ اپنے بچوں کو اسمارٹ بننے کے لیے نہ کہیں ، بااخلاق باادب بننے کے لیے کہیں ، مگر افسوس آج جورویہ اولیائے طلبا کا ہے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ابن صفی کا محولہ اقتباس حرف بہ حرف ان پر صادق آرہاہے ،کیوں کہ ان کوتربیت کی فکر ہی نہیں اور ان سب باتوں کا احساس ہی نہیں اگر کسی کو تھوڑا بہت احساس بھی ہے تو خاموش تماشائی ہے ۔ احساس کی خاموشی سے ضمیر مردہ ہو جاتاہے اور جب ضمیر مردہ ہو جاتاہے تو ہم غلط صحیح کی تمیز ہی نہیں کر پاتے ہیں پھر ہمیں ان سب چیزوں کی خبر ہی نہیں ہوتی اور دھیرے دھیرے پورامعاشرہ برائیوں کے دل دل میں پھنس کر تباہ ہوجاتا ہے ۔
ضمیر مرتاہے احسا س کی خموشی سے
یہ وہ وفات ہے جس کی خبر نہیں ہوتی
—–
جرار احمد
ریسرچ اسکالر ، شعبۂ تعلیم و تربیت،
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
9618783492

Share
Share
Share