اردو زبان پر ٹکنالوجی کا اثر : – ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو

اردو زبان پر ٹکنالوجی کا اثر

ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

بقول اختر حسین اختر ؔ :
کسی بھی شعبے یا میدان سے تعلق رکھنے والے فن یا ہنر کی مہارتوں کے امتیازی علم کی عملی معلومات سے بھری ہوئی سنگین فکرکے ترقیاتی مطالعے کو ٹکنالوجی Technologyکہتے ہیں ۔
ان دونوں تعریفوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صنعتیات ، فنیات ، حِرفتیات اور علمیات کے میدانوں میں ٹکنالوجی نے بے شمار آسانیاں یعنی Easiness ، سہولتیں یعنی Facilities، آسائش یعنی Dreaminessِ اور سادگیاں یعنی simpleness پیدا کردی ہیں ۔

سائنسی علوم کی ترقی نے ٹکنالوجی کو ذبردشت طاقت اور رفتار بخشی ہیں جس قسم کے کام پہلے صدیوں میں بھی نہیں ہوپاتے تھے وہ ٹکنالوجی کے ذریعے سال جیسی قلیل مدّت میں کرنا ممکن ہوگیا ہے ۔سائنس کے سانوں پر ٹکنالوجی اور ٹکنالوجی کے اشاروں پر سائنس نہایت ہی تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی راہ پر نہ صرف گامزن ہے بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں اس کا اثر دیکھا جاسکتا ہے۔کمپیوٹر Computer اور اُس سے جڑی ٹکنالوجی سب سے پہلے انگریزی زبان پر اثر انداز ہوئی ،وجہ بالکل صاف ہے کہ انگریزی اس کے موجدِوں کی مادری یا تعلیمی زبان تھی ۔ آہستہ آہستہ ٹکنالوجی کے اثرات اردو زبان پر بھی غالب آئے ۔
قدیم زمانے میں درخت کے نیچے چلنے والے آشرموں اور مدرسوں میں زبان دانی اور دیگر علوم سیکھانے کے سیدھے سادے طریقے رائج تھے ۔ انسان نے اپنی ذہانت اور قابلیت کے بل بوتے پر اُن میں کئی نئے اضافے کیے ۔لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دور میں دنیا کے مختلف علاقوں کی تہذیبوں کے عروج و زوال کے اسباب میں ٹکنالوجی کا بھی اپنا ایک الگ کردار رہا ہے ۔ پہلے اردو زبان ہر علاقے میں اپنے اپنے طور پر تیار کردہ درسی کتابوں کے ذریعے سیکھائی اور پڑھائی جاتی تھیں لیکن آج ٹکنالوجی کا اثر اردو زبان میں ایسا ہو چکا ہے کہ آپ اپنے پاس پڑوس سے لے کر دور دراز کے علاقوں میں پڑھائے جانے والے اور سیکھائے جانے والے اردو کے نصاب اور جدید طریقوں سے انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے واقف ہو سکتے ہیں ۔مثلاً ’آسان اردو ‘ از وجاہت علی سندیلوی اتر پردیش اردو اکادمی لکھنوء ، سلسلہ ء مطبوعات : ۳۶۴ ، اس کے علاوہ Urdu Forclass 1 , Kids urdu Qaida , اردو املا اور اردو گنتی وغیرہ۔
گنگا جمنی تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ ہندوستان میں آباد دو بڑی قوموں(۱) ہندو (۲) مسلمان کے درمیان بھائی چارہ قائم تھا ۔ انگریز اس بھائی چارے کے مخالف تھے اور وہ بارہا ایسی تحریکیں چلاتے تھے جس سے ہندو مسلم یگانگت ٹوٹ جائے ۔ان دونوں فرقوں کے درمیان پائے جانے والے باہمی اتفاق اور یک جہتی میں درار آجائے ۔ سرسید نے 1857ء کی بغاوت سے پہلے اپنی تقریروں میں باربار اپنی اس بات کو دہرایا تھا:
’’ مادر ہند کی دو آنکھیں۔ ایک ہندو،ایک مسلمان۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایک آنکھ بھی بگڑ جائے گئی تو اس کے چہرے کا سارا حُسن بگڑ جائے گا۔ ‘‘ ۱؂
مغل دور کے بعد انگریزی دورِ حکومت تک بجائے فارسی کے اردو ہی عدالتی اور دستوری زبان تھی ۔لشکری اور بازاری زبان ہونے کے سبب اس کا چلن عوام میں سبھی ہندوستانی زبانوں سے بڑھ کر تھا ۔ 15 اگست 1947 ء بروز جمعہ کو ملک کی تقسیم کے تحت ہندوستان اور پاکستان دو الگ ملک وجود میں آئے ۔مولانا ابوالکلام آزاد جب تقسیم اسناد کے سلسلے میں جلسہ میں پہنچے تو انہوں نے اپنے خطبہ میں فرمایا تھا: (الف) :
’’ تم ایک غیر مذہبی جمہوری نظام حکومت کے باشندے ہو، جس نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ملک کی سیاسی اور اجتماعی زندگی کو غیر مذہبی اور جمہوری طریقے کے مطابق نشوونما دے گی ۔ایک غیر مذہبی جمہوری نظام حکومت کا جوہری خاصّہ یہ ہے کہ وہ ملک کے تمام افراد کے لیے یکساں طریقے پر ہر طرح کی ترقیوں کے مواقع پیدا کردیتی ہیں اس میں مذہب ، نسل ، ذات اور فرقے کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا ۔‘‘ ۲؂
(ب) :
’’ تمہیں اب پرانے ہندوستان کے ذہنی ماحول سے نکلنا ہے اور نئے ہندوستان میں اپنے قابلیت اور صلاحیت کا نیا مصرف ڈھونڈنا ہے تمہاری بلند پروازیوں کے لیے اب پچھلی بلندیاں پست ہوگئیں اور تمہاری جولانیوں کے لیے اب پرانے میدان تنگ ہوگئے ۔‘‘ ۳؂
(پ):
’’ اگر تم نے وقت کی ترقی پسند قومیت کی روح اپنے اندر پیدا کر لی جو تمہاری غیر مذہبی ، جمہوری حکومت کا دستورالعمل ہے ، تو تمہارے وطن کی کوئی بلندی بھی ایسی نہیں ہوگی جہاں تک تمہارا ہاتھ نہ پہنچ سکے اور کوئی کامرانی بھی ایسی نہیں ہوگی جو تمہارا استقبال نہ کرے ۔‘‘ ۴؂
تقسیم کا سانحہ بڑا ہی المناک تھا لیکن اس سے بھی المناک واقعہ یہ ہوا کہ ریاستی یعنی علاقائی زبانوں کے نام پر اردو زبان پر طرح طرح کے تعصّب بھرے ظلم ڈھائے گئے ۔ویسے تو اسے زندہ در گور کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ،لیکن (۱) جس کو راکھے سائیاں مار نہ سکے کوئے ۔(۲) جس کا کوئی نہیں اُس کا خدا ۔جیسی حقیقتوں نے اُسے زندہ رکھا ہے ۔گنگا جمنی تہذیب کا یہ تقاضا تھا کہ آزادی کے بعد اردو کو اُس کا واجب حق دیا جاتا ۔ جیسے تمام مرکزی دفاتر کے نام اردو میں بھی لکھے جاتے ۔ تمام مرکزی دفاتر میں درخواستیں ،عرض داستیں ، گزارشیں ، اطلاح نامے ، اشتہارات ، اعلانات اور نوٹسیںNotices اردو میں قبول کی جاتیں ۔ اسی طرح تمام ریاستی دفاتر میں تمام بلدیاتی شعبوں میں اور تمام گرام پنچایتوں میں اسے رائج رکھا جاتا ۔ ہندی ، انگریزی ، اور علاقائی زبانوں کے تعلیمی اداروں کی طرح (۱) اردو کے تعلیمی ادارے قائم کیے جاتے (۲) اساتذہ کا مسلسل بر وقت تقرر ہوتا رہتا (۳) اردو میں نصابی کتب کی مسلسل بر وقت فراہمی ہوتی ، تو آج مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو اردو کا نام لے کر مگر مچھ کے آنسو بہانے نہ پڑتے ، لیکن بھلاہو ٹکنالوجی کا کہ اس نے اردو والوں کی ڈھارس بندھائی۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح مرکزی حکومت کے فیصلوں کے مطابق فی الوقت اردو کی نصابی ،غیر نصابی اور حوالہ جاتی کتابیں بازار میں یا اسکولوں میں دستیاب نہ بھی ہوں، تو ویب سائٹوں پر اور انٹرنیٹ پر آسانی سے مل جاتی ہے ۔لہٰذا ٹکنالوجی کا اثر اردو زبان پر مثبت انداز میں یوں ہوا ’ کہ اردو کے طلبا اور طلبات اور اساتذہ کو نصابی ، غیر نصابی اور حوالہ جاتی کتب کے لیے نہ تو در در بھٹکنا پڑتا ہے اور نہ ہی کف افسوس ملنا پڑھتا ہے ۔مثلاً این سی ای آر ٹی کی اردو زبان میں شائع کردہ درجہ اوّل Std,firstسے درجہ دوازدہم Std, twelfthکی تمام نصابی کتب اس ویب سائٹ پر موجود ہیں۔http : // www.ncert.nic.in/ programmes/urdu-books.html اورحوالہ جاتی کتب اس ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ http://rekhta.org/ebooks۔
1936ء میں انجمن ترقی پسند مصنیفین کی ایک کل ہند کانفرنس ہوئی تھی ۔جس کی صدارت پریم چند نے کی تھی۔ اس تحریک سے اردو ادب میں انقلابی تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور شعر و ادب کا دامن نہایت وسیع ہوا ۔اس تحریک کے دوران کرشن چندر ، منٹو ، بیدی ، عصمت جیسے افسانہ نگار مجاز ، فراق ،فیض ، مخدوم ، ساحر ، مجروح ، کیفی اور سردار جعفری جیسے شاعر و ں نے اپنے فن کا لوہا منوایا ۔ سجاد ظہیر ، مجنوں گورکھپوری ، آل احمد سرور اور احتشام حسین جیسے نقاّدوں نے اردو تنقید نگاری میں ناقابلِ فراموش اضافے کیے ۔ اس تحریک کے دوران جو شاعری کی گئی، جو افسانے اور افسانچے لکھے گئے ،جوناول اور ناولٹ لکھے گئے، جو ڈرامے اور انشائے لکھے گئے ،جومضامین لکھے گئے ، اور جو تراجم کیے گئے ان کے سبب اردو کے ادب عالیہ میں نہ صرف گراں قدر اضافہ ہوا بلکہ اردو کے جسم میں نئی روح پھونکی گئی۔ آزادی کے بعد ہندوستان سے اردو کو باہر کرنے کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔ کچھ لوگوں نے اسے ملک کی تقسیم کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ اس کے خوبصورت نستعلیق رسم الخط کے خلاف بھی آوازیں بلند ہوئیں ۔اس کے لیے رومن اور دیو ناگری رسم الخط کی حمایت میں سرگرمیاں تیز ہوئیں ۔ مگر اردو کا ’ اللہ کا بیلی ‘ تھا ۔اردو اس قسم کے فتنوں سے بچ نکلی ۔ اس زبان کی شرینی اور تہذیبی وضع داری اپنے تو اپنے غیروں کے دلوں کو بھی اپنی گرفت میں جکڑ لیتی ہے۔جدید ٹکنالوجی کے زمانے میں SMS,WHATSAPP,E-MAIL,TWITTER, وغیرہ کے لیے سوائے انگریزی زبان کے ہندی ، سندھی، گجراتی ، تمل ، کنٹر ، تیلگو ، مراہٹھی ، پنجابی ، بنگالی، اڑیہ ،سنسکرت ، عربی ، فارسی ، نیز دنیا کی دیگر زبان والوں کی طرح اردو والے بھی رومن رسم الخط میں ہی اپنی تحریریں رقم کرتے تھے ۔البتہ اب دیگر زبانوں کی طرح اردو والوں کو بھی PC,LAPTOP,TABLET,CELLPHONE وغیرہ پر اردو صوتی یعنی Phonetic اور تختہ کلیدی یعنی KeyBoard ، Windows XP میں یونیکوڈ: Unicode میں اردو لکھنے کی سہولت حاصل ہوچکی ہے ۔اس کے علاوہ اسمارٹ فون پر اب اردو میں بھی وائس ٹائپنگVoice Typing کی سہولت نعمت غیر مترقّبہ کے طور پر اردو والوں کو بہت جلد حاصل ہونے والی ہے اس سے اردو صحافت اور تصنیف و تالیف کے کام میں برق رفتار تیزی آجائے گی ۔
زمانہ بدلتا ہے تو زمانے کی ترجیحات بدل جاتی ہیں جس کا اثر انسان مسائل اور ادراک پر براہِ راست ہوتا ہے ۔ اردو زبان بھی ان تبدیلیوں سے متاثر ہوئیں اردو تنقید کی طرح اردو تحقیق بھی مثبت اور منفی تبدیلیوں سے ہمکنار ہوئی ۔ پہلے تحقیقی کام کی رفتار نہایت سست تھی کہ ایک زمانے تک ولیؔ دکنی کو اردو کا پہلا شاعر سمجھا گیا ۔قلی قطب شاہ کے دیوان کی دستیابی نے اسے یکسر بدل کر رکھ دیا ۔ آج کل تحقیق کا کام جدید ٹکنالوجی کے ساتھ کیا جارہا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ تحقیق کا معیار پست سے پست تر ہوتا جارہا ہے ۔ ایم فل اور پی ایچ ڈیM.phil اور Ph.D کی سند کے لیے جو مقالے ہماری جامعات میں لکھے جارہے ہیں وہ تحقیق کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ جدید ٹکنالوجی نے مخطوطات اور حوالہ جاتی کتابوں تک رسائی کو نہایت ہی آسان بنا دیا ہے ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انٹرنیٹ اور ویب سائٹ نے سرقے کی راہیں کھول دی ہے۔ زیادہ تر مقالوں میں بغیر حوالے کے دوسروں کے اقتباسات پیش کرنے کا چلن خطر ناک حد تک عام ہوچکا ہے ۔ بس خوشی اس بات کی ہے کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو تحقیق کے اصول و ضوابط کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔وہ اپنی تحقیق کے ذریعے نئے مسائل ، نئے موضوعات ،اور نئے انکشافات قارئین کے سامنے لاتے ہیں ۔سخت محنت اور ریاضت کرنے والے ایماندار اور محقیقوں کے کام کے سبب ہماری زبان اردو کے کچھ نئے دریچے کھلتے ہیں اور کچھ نئے گوشوں میں منظر عام پر آتے ہیں ۔ پہلے دیوان غالب کے نسخۂ حمیدیہ کی دریافت کے لیے عبدالرحمن بجنوری کو کتب خانۂ حمیدیہ جانا پڑا تھا ۔ اگر وہ کتب خانہ حمیدیہ ،بھوپال نہ جاتے تو مولوی عبدالحق کی فرمائش پر ان کا تحریر کردہ گراں بہا مقالہ ’’ محاسنِ کلام غالب ‘‘ کے نام سے ہم تک پہنچا ۔ اسی طرح رام پور کی رضا لائبریری کی خاک چھاننا ، کلکتہ کی نیشنل لائبریری کی ملاقات کو جانا یا انڈیا آفس لائبریری میں موجود کسی قلمی یا غیر قلمی نسخے سے فیض یاب ہونا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا ۔ ٹکنالوجی کے سبب گھر بیٹھے ہر طرح کے ہر موضوع کے مخوطات ، کتابیں اور رسائل پڑھے جاسکتے ہیں ۔ مثلاً www.razalibarary.gov.in(2) www.nationallibrary.gov.in (1)
انٹرنیٹ نے پوری دنیا میں انگشتی انقلاب یعنی Digital Revolution پیدا کردیا ہے ۔صرف ہندوستان اور پاکستان کے تقریباً گیار ہ مِلین Million Elevenیعنی ایک کروڑ دس لاکھ لوگ اردو ویب کا استعمال کررہے ہیں۔Google Search کے مطابق فی الحال انٹرنیٹ پر مختلف نوعیت کی ۲۶ لاکھ ۶۰ ہزار اردو کی ویبس ہیں ۔ پہلے ہندوستان کے لوگ پاکستان کے اخبار اور رسائل پڑھنے سے قاصر تھے اسی طرح پاکستان کے لوگ ہندوستان میں شائع ہونے والے اردو اخبار اور رسائل سے بے خبر تھے ۔لیکن اب کوئی بھی شخص دنیا کے کسی بھی علاقے میں رہتا ہو ویب سائٹ پر اردو اخبارات اور رسائل کی اپنی سہولت کے مطابق ورق گردانی کر سکتا ہے اب تو اردو کے ای اخبار ، ای کتابیں اور ای رسائل کی اشاعت اور سرکولیشننCirculation میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ جیسے ای اخبار ’ جہان اردو ‘ : www.jahan-e-urdu.com, ، (۲) ای ارسالہ : اردو ریسرچ جنرل :www.urduresearchjournal.com ٹکنالوجی اردو کے لیے رحمت ثابت ہورہی ہے ۔ پہلے جو لوگ سرکاری ، سیاسی یا مذہبی دباؤ میں اردو نہیں سیکھ پاتے تھے یا اردو سیکھنے سے گریز کرتے تھے وہ اب آن لائن میڈیم کے سہارے بڑی تعداد میں اردو سیکھ رہے ہیں۔ اب تو فیس بک Face Book ، ٹیوٹر Twitter،واہٹ اپ Whatsapp ، بلوگنگ Blogging ، جیسے سوشیل میڈیا کے پلٹ فارمس پر اردو کے چاہنے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے یہاں کوئی رسمی دیوار نہیں ہے اس لیے لوگ بلا خوف اپنے اور غیروں کے بیانات ایک دوسرے سے سیر Share کر رہے ہیں ۔
اب سے پہلے بڑے ادیبوں کے یہاں بھی بہ مشکل ایک آدھ لغت دیکھنے کو ملتی تھی۔ آج کسی لفظ کا املا یعنی (Spelling)، معنی یعنی Meaning،مترادف یعنی Synonym، مشتق یعنی Derivative،مصدر یعنی Infinitive ،متضاد یعنیAntonym ، یا دنیا کی کسی بھی زبان میں مشینی ترجمہ آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔اردو سے اردو ہی نہیں بلکہ انگریزی ، ہندی ، عربی اور فارسی میں کئی لغتیں موجود ہیں۔ یہ لغتیں بطور Apps کے طور پر دستیاب ہیں۔ جہاں تک آن لائن ترجمہ کا سوال ہے دنیا کی ہر بڑی زبان کا اردو میں اور اردو کا دنیا کی ہر بڑی زبان کا ترجمہ کرنا ممکن ہے ۔ البتہ اس ترجمے کا معیار وہ نہیں ہے جس کے ہم خواہاں ہیں ۔اس راہ میں حائل تکنیکی مشکلات بہت جلد دور ہونے والی ہیں۔
مجموعی طور پر میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ٹکنالوجی کا اثر اردو زبان پر نہایت ہی خیر اندیس رہا ہے ۔جن کی مادری زبان اردو ہے اردو کے تعلق سے ان کے حاصلے اور بلند ہوگئے ہے جو لوگ روزی روٹی اور نوکری پیشہ کے چکر میں اردو سے ناطہ توڑ بیٹھے تھے وہ اب بڑی حسرتوں کے ساتھ اردو بولنے ، پڑھنے اور لکھنے لگے ہیں۔اردو جن کی نہ تو مادری زبان ہے اور نہ ہی روزی روٹی اور نوکری پیشہ کا سبب ہے ایسے غیر اردو داں لوگ اردو کی غزلیں ، قوالیاں ، مشاعرے ، فلمی ، نغمیں ، گیت ، حمد و نعت کی محفلیں وغیرہ سے لگاؤ کے سبب اردو سے محبت رکھنے والوں میں شامل ہوگئیں ۔ یقیناً مجھے ٹکنالوجی کے اثر سے اردو زبان کا مستقبل روشن تر نظر آرہا ہے ۔
——
حواشی :
(۱) مضمون : خطبہ جلسۂ تقسیمِ اسناد ، کتاب : مولانا آزاد سرسید علی گڑھ از محمد ضیاالدین انصاری ، انجمن ترقی اردو ہند (نئی دہلی ) ۱۹۹۲ء، سلسلہ مطبوعات : ۱۴۱۴ ص ۔ ۳۰۳ اور ۳۰۴
(۲) (الف ) : ایضاً : ص ۔ ۳۱۱
(۳) (ب ) : ایضاً : ص ۔ ۳۱۱ اور ۳۱۲
(۴) (پ) : ایضاً: ص ۔ ۳۱۲

Technology (Dictamp Oxford Dictionary Refernce: )
noun (pL. technologies) [mass noun] the application of scientific knowledge for practical purposes , especially in industry advances in computer technology.
Origin :
early 17 th cen. from Greek tekhnologia ‘ systematic treatment ‘ , from tekhne’ art , craft ‘ + – logia ( see – logy )
——
Dr. Sufiyabanu . A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676
Email :

Share
Share
Share