مولانا ابوالکلام آزاد کی ملی اور مذہبی فکر : – ڈاکٹر رضوانہ بیگم

Share


مولانا ابوالکلام آزاد کی ملی اور مذہبی فکر
ترجمان القرآن کے حوالے سے

ڈاکٹر رضوانہ بیگم
اسسٹنٹ پروفیسر کالج آف لنگوئجس
ملے پلی،حیدرآباد

مولانا ابوالکلام آزاد1888ء کو مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے والد کا نام مولانا خیرالدین تھا جو عربی کے ماہر تھے اور والدہ عرب تھی۔مولانا کے جد شیخ جمال الدین عہد اکبری کے علماء اور اصحابِ سلوک وطریقت میں ممتاز و منفرد تھے۔مولانا آزاد کے ننھیال کا سلسلہ بھی بزرگان دین سے مشتمل تھا۔ چونکہ آزاد کا خاندان صوفی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا‘پیری ومرشدی سے ان کا خاندانی وصف تھا‘لیکن مولانا آزاد اس پیری ومرشدی سے بیزار تھے اور کچھ نئے کی تلاش میں تھے چونکہ ان کا ذہن اس طرف مائل نہیں تھا چنانچہ کہتے ہیں:

’’میں نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بزرگوں کو اپنے سامنے پایا جو عقیدہ وافکار میں اپنا خاص مسلک رکھتے تھے،میرا دماغی ورثہ اس تعصب سے بوجھل تھا میری تعلیم اس گدوپیش میں ہوئی جوچاروں طرف بے قدامت پسندی و تقلید کی چار دیواری میں بچپن سے ہماری تربیت نہایت گہری مذہبی فضاء میں ہوئی تھی اور چھ سات برس ہی کے عمر سے مذہبی اعمال پر تشدد شروع ہوگیا تھا۔طفولیت میں ہمارا بڑا کھیل یہ تھا کہ والد کے پیچھے نماز کی صف میں کھڑے ہوجائیں اور اس کے بعد حکماً اورجبراً اُس کی پابندی کرائی گئی۔صبح ساڑھے چار بجے والد ہمیں اُٹھاتے تھے اور مجال نہ تھی کہ پہلی آواز پر نہ اُٹھ بیٹھیں۔’’جاؤ وضو کرو۔‘‘ یہی پہلی آواز تھی جو روز آنکھ کھول کر ہم سنتے تھے، مجھے یاد ہے کہ کئی مرتبہ میں نے تعمیل یوں ہی کی تھی کہ جاڑوں میں صرف منہ پر ایک چلو ڈال کر چلا آیا تھا پھر صبح کی طرح اور تمام نمازوں میں بھی ہماری حاضری لازمی تھی ایسی لازمی کے بجز سخت بیماری کے اور کوئی عذر سے معاف نہیں کرسکتا تھا‘ ختم خواجگان‘ میں بھی ہمیں شریک کیا جاتا تھا اورحکماً اس میں شریک کیا جاتا تھا۔‘‘
مولانا آزاد کے لئے ایک راستہ یہ تھا کہ وہ اپنے خاندانی اسلاف سے بغاوت کا اعلان کرے لیکن چونکہ اُن کی پرورش جس اقدار کے تحت ہوئی اس میں بغاوت کی گنجائش نہ تھی۔بغاوت ان کے مزاج سے ہم آہنگ نہ تھی کیونکہ وہ ایک مصلح دین عظیم قائد اور مہذب سیاست دان بے مثال ادیب بننا چاہتے تھے۔
الغرض مولانا آزاد نے انگریزی فرانسیسی زبانیں سیکھی ادبیات کا مطالعہ کیا لیکن چونکہ مولانا ابوالکلام کا سیاق و سباق عربی زبان سے تھاجس میں انہیں مہارت حاصل تھی۔اسی بنا پر انہوں نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کو تصنیف کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر انہوں نے قرآنِ کریم کی روشنی میں رسالہ’’الہلال‘‘ میں مسلسل مذہبی مضامین لکھے۔انہوں نے مسلمانوں کوانتہائی دلچسپ انداز میں نیکی کی تاکید کی۔یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان انتہائی مشکل دور سے گزر رہے تھے اور مولانا آزادانہیں ہنگامی دور سے ابھارنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے البلال کو بطورہتھیار استعمال کیا۔
مصباح الدین عبدالرحمن اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’مولانا شبلی کو ان پر اعتماد پیدا ہوگیا تھا کہ بعض مہینہ پورا رسالہ ان ہی کی تحریروں سے بھرجاتا1906ء کے شمارہ میں صرف مولانا کے مضامین ہیں’’الہلال‘‘ مسلمانوں کی ملی غیرت ایمانی حرارت اور مذہبی حمیت کا بہت بڑا محاذ بن گیا جس میں مولانا آزاد ہاتھ میں تلوار لینے کے بجائے قرآنِ کریم لئے کھڑے نظر آتے ہیں۔‘‘ ۲؂
یہاں مولانا آزاد کی شخصیت اور ان کے مضامین کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔مولانا ان مضامین کے ذریعہ مسلمانوں کی ملی غیرت اور ایمانیء جذبہ بڑھانا چاہتے تھے۔ان کی تحریروں کو قرآنی آیتوں سے سنوار کر موثربناتے ہوئے اور ملت میں بیداری پیدا کرتے ہوئے مسلمانوں کے ایمان کو جھنجھوڑ کر خوابِ غفلت سے بیدار کرنا اُن کا منشا تھا۔
مولانا شبلی ان ہی مضامین سے متاثر ہوکر ان کے رسالے ’’الندوہ‘‘ میں صرف مولانا آزاد ہی کے مضامین ہی کو شائع کرنے لگے۔
مولانا آزاد نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ علم خاندانی ورثہ میں ملا اورجو کچھ انہوں نے اساتذہ سے حاصل کیا اس نے مولانا آزاد کی بے پناہ ذہانت کو چار چاند لگادیئے۔پانچ سال کی عمر میں حرم شریف میں مولانا کی بسم اللہ کی تقریب ادا کی گئی اور دوسال میں قرآن شریف مکمل کیا اورسورہ یٰسین،سورہ ق، حفظ کرلیا۔قرآن پاک کی قرأت اپنی خالہ سے سیکھی عربی اُن کی مادری زبان تھی۔چودہ برس کی عمر میں فقہ،حدیث،منطق،ادبیات پر عبور حاصل کرلیا۔اس طرح1902ء تک انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کرلی۔1902ء سے1912ء کا یہ وہ زمانہ ہے جب ہندوستانی سیاسی حالات کروٹ لے رہے تھے اور یہی دور مولانا کی شخصیت کی تعمیر وتشکیل کا دور تھا۔اس زمانے میں وہ شاعری کے مناظرے کئے اخبار نویسی کی اور ملک کی سیاست اور تاریخ کا مطالعہ کیا۔مولانا آزاد خود لکھتے ہیں:
’’جو کچھ قدیم ہے‘ وہ ورثے میں ملا اور جو کچھ جدید ہے اس کے لیے اپنی راہیں آپ نکالیں،میرے لیے وقت کی جدید راہیں بھی ویسی دیکھی بھالی ہیں، جس طرح قدیم راہوں میں گام فرسائی کرتا رہوں۔خاندانی تعلیم اور سوسائٹی نے جو کچھ میرے حوالے کیا تھا میں نے اوّل روز ہی اس پر قناعت کرنے سے انکا ر کردیاتھا اور تقلید کی بندیشیں کسی گوشے میں روک نہ ہوسکیں۔تحقیق کی تشنگی نے کسی میدان میں ساتھ نہ چھوڑا۔‘‘ ۳؂
مولانا آزاد نے صرف عربی فارسی اور اُردو پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ کی طبیعت میں جدت تھی اور انہوں نے انگریزی وفرانسیسی زبانیں بھی سیکھی اوران ادبیات کا مطالعہ بھی کیا لیکن کوئی تحریری یا تقریری ثبوت نہیں دیا چونکہ مولانا آزاد کا تعلق عربی زبان اور صوفی گھرانہ تھا ان تمام وجوہات کی بناء پر مولانا آزاد کی طبیعت عربی زبان وہ قرآن شریف کی تعلیم سے آزاد کی غیر معمولی دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے جس کا انہوں نے ’’البلاغ‘‘ کے ابتدائی شمارے میں اظہار کیاتھا۔
’’قرآن حکیم کی تعلیمات کریمہ کے جو حقیقی معارف وبصائر تھے اور جن مقاصد عظمیٰ کے لیے اُس کا نزول ہوا تھا وہ صدیوں سے بالکل بھلادیئے گئے ہیں اور یقیناًوہ وقت آگیا ہے جس کی نسبت کہا جاتا تھا کہ قرآن کے انوار وبرکات زمین سے اُٹھالئے جائیں گے اور جب لوگ تلاوت کے لیے صحائف کھولیں گے تواس کے اوراق کو بالکل سادہ وغیر منقوش پائیں گے….‘‘ ۴؂
مولانا آزاد کا یہ اظہارِ خیال قرآنِ کریم کی تعلیم کو مسلمانوں میں رائج کرنے کی سعی کی۔ مولانا آزاد کے ادبی آثار میں ترجمان القرآن نہ صرف اپنی ضخامت کے اعتبار سے بلکہ اپنی قدروقیمت کے لحاظ سے بھی ایک یادگار کارنامہ ہے۔مولانا آزاد ’’ترجمان القرآن‘‘ کے لیے جتنا وقت اورکاویشیں کی ہیں کسی اور دوسری تصنیف پر نہیں کی اور اس کتاب کے مطالعہ سے ان کی دینی وعلمی سرگرمیوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے دیباچہ سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے پورے ستائیس سال قرآن کریم کا سنجیدہ مطالعہ کیا اور ترجمان القرآن کا متن تیار کیا اور 1930ء کے بعد بھی اس کام میں مصروف رہے۔اس طرح ہمارے سامنے1930ء کو ترجمان القرآن کا پہلا ایڈیشن سامنے آتا ہے اور پھر دوسری جلد کا پہلا ایڈیشن 1932ء کو مکمل ہوا‘ یہ کام یہیں تک محدود نہ رہا بلکہ مولانا1945ء تک اس کام کو جاری رکھا جبکہ وہ قلعہ احمد نگر میں قید تھے اور اس کے بعد وقتاً فوقتاً اس کام میں ہمیشہ مصروف رہے کم وبیش۵۵ سال کا ثمر ’’ترجمان القرآن‘‘ ہے مولانا آزاد نے کسی دوسری کتاب پراتنا وقت نہیں صرف نہیں کیا۔
مولانا آزاد خود ’ترجمان القرآن‘ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’میری زندگی کا سارا ماتم یہی ہے کہ میں اس عہد اور اس عمل کا آدمی نہ تھا مگر اسکے حوالے کردیا گیا۔‘‘ ۵؂
یہاں مولانا آزاد اپنی دل شکنی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہے کہ1918ء تک قرآن کا ترجمہ مکمل کرچکے تھے لیکن بار بار ان کی گرفتاریوں اور تلاشیوں کے سبب کتاب کے مسوودات اور کتابت کئے ہوئے اوراق کو برباد کردیا گیاتھا لیکن مولانا آزاد کی انتہک محنت وجستجو کے بعد ترجمان القرآن کی پہلی جلد شائع ہوئی جس پرمذہبی حلقوں اور کچھ علمی حلقوں میں ملا جلا ردِ عمل رہا۔مولانا کے ترجمان القرآن کے خریدنے کے لئے مولانا سلیمان ندوی نے اُن کی شیروانی کے بٹن فروخت کئے اور ترجمان القرآن کو حاصل کیا۔مولانا سلیمان ندوی خود ایک ماہر قرآن تھے اور انہوں نے ترجمان القرآن کے متعلق اپنا تبصرہ معارف میں لکھا ہے۔
’’مصنف ترجمان القرآن کی یہ دیدہ وری دادکے قابل ہے کہ انہوں نے وقت کی روح کو پہچانا اور اس فتنہ افرنگ کے عہد میں اس طرز وروش کی پیروی کو ابن تیمیہ اورابن قییم نے فتنہ تاتار میں پسند کیا تھا اور جس طرح انہوں نے اس عہد کے مسلمانوں کی تباہی کا راز فلسفۂ یونان کی دماغی پیروی کو قرار دیا‘ اسی طرح اس عہد کے مسلمانوں کی بربادی کا سبب‘ ترجمان القرآن کے مصنف نے فلسفہ افرنگ ویونان کی ذہنی غلامی کو قرار دیا اور نسخۂ علاج وہی تجویز کیا کہ کلام الٰہی کو رسول کی زبان واصطلاح اور فطرت کی عقل وفلسفہ سے سمجھنا چاہیئے۔‘‘ ۶؂
مولانا سید سلیمان ندوی نے سورہ فاتحہ کی تفسیر کے متعلق لکھا اور اُسے بہت پسند کیا اور لکھتے ہیں:
’’اس میں سورہ فاتحہ کے ایک ایک لفظ کی ایسی دل نشین تشریح اور بصیرت افروز تفسیرہے کہ اس سے سورہ کے اُمّ الکتاب(اصل قرآن) ہونے کامسئلہ مشاہدہ معلوم ہونے لگتاہے اوراسلام کے تمام مہماتِ مسائل اوراصولِ دین پرایک تبصرہ ہوجاتا ہے۔خصوصاً قرآنِ پاک کے طرزِ استدلال خالقِ کائنات کی ربوبیت ورحمت کے آثار و دلائل اتنی تفصیل سے لکھے ہیں کہ مصنف کی وسعتِ علم ونظر کی داد بے اختیار دینی پڑتی ہے اورامام غزالی نے الحکمۃ فی مخلوقات اللہ تعالیٰ میں اور ابن قیم نے’’ مفتاح دارالسعادۃ‘‘ میں اس مبحث پر جو کچھ لکھا ہے اس سے زیادہ بسط و تشریح اور مقتفائے زمانہ کی مطابقت سے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں یہ بحث آگئی ہے۔‘‘ ۷؂
اہل قرآن کے سربراہ غلام احمد پرویز تھے۔وہ مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر اور حضرت سلیمان ندوی سے مطمئن نہیں تھے اور احتجاج ’’معارف‘‘ میں ایک طویل مضمون لکھا۔اس مضمون میں سورہ فاتحہ کی تفسیر پر سخت اعتراض کیا ‘مولانا آزاد کے کچھ مداح ترجمان القرآن کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے کہ مولانا آزاد کی محنت جستجو ولگن نے جو کچھ انجام پایا ہے وہ قابلِ داد ہے جس کی وجہ سے فکر کے نئے راستے کھلتے اور مذہبی بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ترجمان القرآن پر اعتراض ہوتے رہے‘مولانا آزاد نے قرآن مجید کی تعلیمات میں جو روح پھونکی وہ کوئی اور نہ کرسکا۔قرآن مجید کی تعلیم سے مولانا کو غیر معمولی لگاؤ تھا جس کا اظہار مولانا کے رسالہ’’البلاغ‘‘ کے ابتدائی شمارے میں ہے :
’’قرآنِ حکیم کی تعلیمات کریمہ کے جو حقیقی معارف وبصائر تھے اورجن مقاصد عظمیٰ کے لیے اُس کا نزول ہواتھا وہ صدیوں سے بالکل بھلا دیئے گئے ہیں اور یقیناًوہ وقت آگیا ہے جس کی نسبت کہا جاتا تھا کہ قرآن کے انواروبرکات زمین سے اُٹھالیے جائیں گے اور جب لوگ تلاوت کے لیے صحائف کھولیں گے تو اُس کے اوراق کوبالکل سادہ وغیرِ منقوش پائیں گے۔‘‘ ۸؂
مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ خواب کہ قرآنِ کریم کی تعلیمات کو عوام میں رائج کرتے ہوئے اُس پرعمل پیرا ہونے کی تلقین کی جائے‘آزاد کے یہی تصورات کی عملی شکل ترجمان القرآن ہے جو اُن کا علمی شاہکار بن گیا۔ترجمان القرآن نہ صرف اپنی ضخامت کے اعتبار سے بلکہ قدروقیمت کے لحاظ سے بھی ایک سدا بہار کارنامہ ہے اس نایاب کارنامہ کوانجام دینے کے لئے مولانا آزاد نے مختلف مصائب و مشکلات کاسامنا کرتے ہوئے قرآنِ کریم کا ترجمہ کیا۔
مولانا آزاد اس سلسلے میں اُن تکالیف کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ میرے صبر و شکیب کے لیے زندگی کی سب سے بڑی آزمائش تھی لیکن میں نے کوشش کی کہ اس میں بھی پورا اُتروں‘یہ سب سے زیادہ تلخ گھونٹ تھا جو جامِ حوادث نے میرے لبوں کو لگایا‘ لیکن میں نے بغیر کسی شکایت کے پی لیا‘ البتہ اس سے انکار نہیں کرتا کہ اس کی تلخی آج تک گلوگیر ہے ۔‘‘ ۹؂
مولانا آزاد کی سیاسی زندگی اور عملی زندگی دونوں یکساں نہیں چل سکتی تھی ایک طرف گرفتاریوں کا دور تھا تو دوسری طرف مذہبی و دینی مصروفیات تھیں۔آخر کار مولانا آزاد کی زندگی کا وہ لمحہ آگیا جب ترجمان القرآن مطبوعہ شکل میں قرآنِ مجید کے تیس پاروں میں سے صرف اٹھارہ پاروں تک پہنچ کر رہ گئی۔
مولانا کی زندگی میں صرف دوجلد یں شائع ہوئے ان کے دوایڈیشن چھپے،مولانا آزاد نے دوسری اشاعت کے لئے بہت سے تبدیلیاں اورنظر ثانی کی اور یہ آزاد کے انتقال کے بعد ساہتیہ اکادمی دلی کی جانب سے ترجمان القرآن کو جدید ترتیب دینے کے بعد چار جلدوں میں شائع کیا گیا جبکہ مولانا آزاد نے کتاب کی ترتیب کو پانچ حصو ں میں تقسیم کیا جن میں تین جلدیں قرآن کا ترجمہ تھا اور دو جلدوں کو مقدمہ وتفسیر کے لئے رکھا گیاتھا۔لیکن مولانا کی مجبوریوں نے مکمل کتاب کو تین جلدوں تک محدود کردیاتھا۔لیکن صرف دوجلد چھپ سکی اور یہ راز بھی ابھی تک نہ کھلا کہ تیسری جلد کا مسودہ چھپا یا نہیں یا مسودہ مکمل ہوچکاتھا لیکن چھپ نہ سکا۔’’ترجمان القرآن‘‘ کے سلسلے میں مختلف مباحث ہوئے آیا کہ یہ قرآن کا ترجمہ ہے یا تفسیر غلام رسول مہر نے ترجمہ وتفسیر کے درمیانی شئے قرار دیا۔
بقولِ مولانا آزاد کے ترجمام القرآن کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اس کی تمام خصوصیات کے اصل محل اُس کا ترجمہ اور ترجمہ کا اسلوب ہے اگر اس پر نظر رکھی گئی تو پوری کتاب پرنظر رہے گی۔
مولانا آزاد نے اپنے الفاظ میں جو دعویٰ کیا اُس سے تفاسیرمیں اس کتاب کا مقام تعین کرنے میں مدد مل سکتی ہے مولانا کا بیان ہے۔
’’ترجمان القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس کی تمام خصوصیات کا اصلی محل اس کا ترجمہ اورترجمے کا اسلوب ہے۔اگر اس پر نظر رہے گی تو پوری کتاب پر نظر رہے گی‘ اور یہی خزینہ ہے جس میں کتاب کی تمام خصوصیات مدفون ہیں‘ جس قدر غوروتدبر سے ترجمے کا مطالعہ کیا جائے گا اُسی قدر قرآن حکیم کے حقائق اپنی اصلی طلعت وزیبائی میں بے نقاب ہوتے جائیں گے ترجمے کے بعد کتاب کا دوسرا محل تدبر نوٹ ہیں۔۔۔ان کی ہر سطر تفسیر کے ایک (پورے) صفحے،بلکہ بعض حالتوں میں ایک پورے مقالے کی قائم مقام ہے، اکثر مقامات میں ایسا ہوا ہے کہ معارف ومباحث کا ایک پورا دفتر دماغ میں پھیل رہا تھا‘ مگر نوکِ قلم پر پہنچا تو ایک سطر‘ یا ایک جملہ بن کر رہ گیا ….. ۱۰؂
مولانا آزاد کی بتائی ہوئی اس کسوٹی پر جب ’’ترجمان القرآن کو پرکھا جائے تو یہ کھرا سونا ثابت ہو‘ اس سے پہلے قرآن مجید کے کئی تراجم اُردو میں موجود ہیں۔لیکن جو ترجمہ مولانا آزاد نے کیا وہ دوسری تراجم کی بہ نسبت زیادہ موثر اور موزوں ہے جس کی وجہ سے علمی حلقوں میں اس تفسیر’’ترجمہ القرآن‘‘ کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔مولانا آزاد کے خطوط کے ذریعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ترجمان القرآن کو کئی لوگوں نے خریدا پڑھا اورپسند کیا۔اس سے قبل بھی یہ ذکر کیا گیا تھا کہ مولانا سلیمان ندوی بٹن فروخت کئے اور ترجمان القرآن خریدا۔
مولانا سید اختر علی اس کتاب پر ایک مفصل مقالہ لکھ کر اس ترجمان القرآن کی قدروقیمت وافادیت کا اعتراف کرتے ہوئے مولانا کی صلاحیتوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
مولانا آزاد ترجمہ القرآن کے دیباچہ میں قرآن فہمی کی بنیادی تصور پربھی گفتگو کی ہے۔
’’اُن کے نزدیک قرآن فہمی اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں جس اعلیٰ معیار پر تھی اُسے بعد کے مفسرین قائم نہ رکھ سکے۔لہٰذاقرآن شناسی کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے معانی ومفاہیم کے قدیم ترین سرچشموں تک رسائی حاصل کریں اور بعد کے مفسرین نے قرآن کے مطالب کے بیان میں لفظی گورکھ دھندوں اور قیاس آرائیوں سے کام لے کر اُس کے مفہوم پر جو نقابیں ڈال دی ہیں ان کو دور کردیا جائے۔‘‘ ۱۱؂
مولانا آزاد نے ترجمان القرآن کے ذریعہ عوام کو قرآن فہمی کا نسخہ عطاکیامولانا نے یہ بتایا کہ قرآن کریم کے مطالعہ کے ذریعہ انسان کے دل و دماغ کو غور و فکرکی دعوت دیتا ہے اور قرآنی آیات انسان کے سوئے ہوئے وجدان کوبیدار کرکے اُن کے قلب کی گہرائیوں میں سما کرہر لفظ اُن کے دل ودماغ کی فطری آواز بن جائے۔
مولانا آزاد قرآنِ مجید کے مطالعہ میں اس درجہ انہماک سے کام لیاہے کہ اُن کی تحریری وتقریری مواد واسلوب دونوں قرآنی اسلوب سے مغلوب ہوگئے اس طرح ابوالکلام کی نثر میں قرآنی لب ولہجہ کی خصوصیت محسوس ہونے لگی۔
سجادانصاری لکھتے ہیں:
’’میرا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن نازل نہ ہوچکا ہوتا تو ….مولانا ابولکلام کی نثر اس کے لیے منتخب کی جاتی۔‘‘ ۱۲؂
ترجمان القرآن دہلی سے پہلی بار شائع ہوئی تھی جبکہ غبارِ خاطر ترجمان سے بہت بعد پہلی بار1942ء میں چھپی یہ مولانا آزاد کی آخری اہم کتاب مانی جاتی ہے۔ترجمان القرآن مولانا ابوالکلام آزاد کی ادبی سفر کی درمیانی منزل کی حیثیت رکھتی ہے۔غبارِ خاطر میں کئی مقامات پر ترجمان القرآن کی عبارت ونکات کے نقوش نظر آتے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ ترجمان القرآن نے غبار خاطر کو بھی متاثر کیا۔
ترجمان القرآن کی اس خوش بیانی کی گونج غبار خاطر کے اس اقتباس سے واضح ہوتی ہے۔
’’جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو‘جہاں شام ہر روز پردۂ شب میں چھپ جاتی ہو جس کی رات میں کبھی ستاروں کی قندیلوں جگمگانے لگتی ہوں کبھی چاندنی کی حسن افروزیوں جہاں تاب رہتی ہوں‘ جہاں دوپہر پر روز چمکتے شفق ہر روز نکھرے پرندے صبح و شام چہکیں اُسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش ومسرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے۔‘‘ ۱۳؂
ترجمان القرآن وہ آئینہ ہے جس میں مولانا آزاد کی علمی،دینی اور ادبی شخصیت پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ملتی ہے۔
حوالہ جات:
۱) مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلیمی تصورات ۔محمد عبدالرزاق فاروقی ۔انجمن حیات نوشاہپور گلبرگہ۔ص:۲۹
۲) مضمون مولانا آزاد کی مذہبی فکر۔مصباح الدین عبدالرحمن ۔مطبوعہ اُردو اکیڈیمی دلی سمینیار
۳) مضمون مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت ایک مطالعہ ۔پروفیسر حکیم چند نیر مطبوعہ اُردو اکیڈیمی نئی دلی
۴) ترجمان القرآن ،جلد سوم،ساہتیہ اکادمی،نئی دلی۔ص: ب تا ج
۵) ترجمان القرآن جلد اوّل ص:۱۹ط
۶) مولانا سلیمان ندوی مشمولہ مضمون معارف اکتوبر
۷) ایضاً ؍؍ ؍؍ ؍؍ ؍؍
۸) رسالہ البلاغ ،کلکتہ ص:۱۵
۹) ترجمان دیباچہ ص:۲۵ تا ۲۶
۱۰) مولانا ابوالکلام آزاد فکر و فن ص:۳۶۰
۱۱) ترجمان جلد اول دیباچہ ص:۳۱
۱۲) محشر خیال ،سجاد انصاری بہ حوالہ آزاد فکر وفن
۱۳) غبارِ خاطر ابوالکلام آزاد ص:۶۱
***
Maulana Abul Kalam Azad ki Milli aur Mazhabi Fikr
written by Dr.Rizwana Begum

Share
Share
Share