امیر خسرو : ارود میں بچوں کا پہلا ادیب : – ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی

Share
امیر خسرو

امیر خسرو : ارود میں بچوں کا پہلا ادیب

ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی

بیش تر محققین اور ادبا جیسے ڈاکٹر مظفر حنفی‘ ڈاکٹر خوشحال زیدی‘ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی‘ ڈاکٹر وحید مرزا‘ پروفیسر ممتاز حسین‘ مولانا محوی صدیقی‘ ریاض صدیقی اور ضیاء الرحمن غوثی نے حضرت یمین الدین امیر خسرو (۱۲۵۳۔۱۳۲۵ء) کو ادب اطفال کا پہلاشاعر اور ان کی کتاب ’’خالق باری‘‘ کو بچوں کے ادب کی پہلی تصنیف قرار دیا ہے۔ البتہ مشہور محقق حافظ محمود شیرانی نے ’’خالق باری‘‘ کو امیر خسرو کی تصنیف ماننے سے انکار کیا ہے‘ اور دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’خالق باری‘‘ یمین الدین ‘ امیر خسرو کے بجائے ضیاء الدین خسرو گوالیاری کی تصنیف ہے

‘ جو امیر خسرو کے بہت بعد کے شخص ہیں۔ موجودہ دور میں ادب اطفال کی محققہ ڈاکٹر سیدہ مشہدی نے نہ صرف حافظ شیرانی کی رائے کی تائید کی ہے‘ بلکہ ان کے دلائل کو بہت مضبوط و مستحکم قرار دیا ہے‘ اس لیے دونوں دلائل کو پیش کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے‘ حافظ محمود شیرانی کے دلائل کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
(۱) حافظ شیرانی کو بچوں کو لغت‘ محاورہ اور روزمرہ یاد کرانے والی ایک کتاب حفظ اللسان دستیاب ہوئی‘ جس کے دیباچہ میں مصنف کا نام ضیاء الدین خسرو ہے‘ اس کا سن تصنیف ۱۰۳۱ھ بعہد جہانگیری ہے۔ (امیر خسرو۔ احوال و آثار۔ ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی۔ ص ۔۳۳۹۔۳۴۰۔ )
(۲) اگر ’’خالق باری‘‘ امیر خسرو کی تصنیف ہوتی اور ساتویں صدی ہجری میں لکھی جاتی تو اس کے بعد پورے تین ساڑھے تین صدی تک اہل علم خاموش رہتے؟ اس عہد سے لے کر اب تک سینکڑوں نصاب اس کی تقلید میں لکھے جاتے‘ اس کی شرحیں لکھی جاتیں‘ اہل لغات اس سے استشہاد کرتے‘ اور اسے سند ماخذ کا درجہ حاصل ہوتا‘ آٹھویں‘ نویں اور دسویں صدی ہجری میں ہندوستانی فرہنگ نگاروں نے جس بے سروسامانی میں فرہنگ ترتیب دی ہے‘ وہ ادنیٰ شرحوں‘ کتابوں کے حواشی‘ خطوط اور مکتوبات سے سند لیتے تھے‘ اگر امیر خسرو اتنا بڑا مجموعۂ لغت اپنی یادگار چھوڑ جاتے جو کئی جلدوں میں اور کئی ہزار اشعار کا حامل تھا‘ تو یہ فرہنگ نگار جو دو درجن سے زیادہ ہیں‘ اس سے ضرور استفادہ کرتے‘ اور اس کے وجود سے بے خبر نہیں رہتے‘ یہ خیال کرنا کہ یہ کتاب محض اتفاقیہ ان کے ہاتھ نہ لگ سکی‘ حقیقت سے بعید ہے‘ کیو ں کہ ان بزرگوں کے مطابق شروع ہی سے یہ کتاب داخل نصاب رہی ہے‘ پھر ان کی واقفیت اس سے کس طرح ممکن نہ تھی؟ (امیر خسرو۔ احوال و آثار۔ ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی۔ ص ۔۳۳۹۔۳۴۰۔ )
(۳) حافظ صاحب نے ’’خالق باری‘‘ میں بعض ایسی غلطیاں بھی نکالی ہیں‘ جن کی امید کم از کم امیر خسرو سے نہیں کی جاسکتی‘ وزن اور بحر کی غلطیاں علاحدہ ہیں‘ صحت الفاظ کی بھی پرواہ نہیں کی گئی ہے‘ بعض ہندی مترادفات بھی غلط سلط دیے گئے ہیں۔ کہیں کہیں ایک ہی لفظ کے کئی مختلف معنی دیے گئے ہیں‘ہندی الفاظ کے تلفظ کی بھی پرواہ نہیں کی گئی ہے‘بھرتی کے الفاظ بھی اس کثرت سے لائے گئے ہیں کہ الفاظ برائے بیت کا پہلو نکلتا ہے‘ اتنے نقائص کی امید کم سے کم امیر خسرو سے نہیں کی جاسکتی ہے۔ (اردو میں بچوں کا ادب ۔ ڈاکٹر سیدہ مشہدی۔ ص۔۹۳۔)
۱۹۱۸ء میں کلیات خسرو کے سلسلہ میں علی گڑھ سے خسرو کے چند رسائل کا مجموعہ ’’جواہر خسروی‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا تھا‘ جو نہایت قابل عالموں کی زیر ادارت تیار کیا گیا تھا‘ ان بزرگوں نے اس پر بہت عالمانہ تنقید اور تبصرہ بھی کیا تھا۔ اسی زمانہ میں بنارس سے ایک ہندی کتاب بھی ’’خسرو کی ہندی کویتا‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی‘ ان مجموعوں میں ہندی (یا مخلوط ہندی اور فارسی) کی یہ چیزیں شامل ہیں:خالق باری‘ چیستاں‘ پہیلیاں‘ کہہ مکرنیاں‘ دو سخنے‘ انمیلیاں یا ڈھکوسلہ‘ چند ہندی کے دوہے اور کچھ گیت وغیرہ۔ (امیر خسرو۔ڈاکٹر وحید مرزا ۔ ص ۔۲۶۵)
مولانا محمد امین چریاکوٹی نے ’’جواہر خسروی‘‘ کے شروع میں تمہید کے طور پر اپنے فاضلانہ مقالہ میں حسب ذیل دلائل کے ذریعہ ’’خالق باری‘‘ کو امیر خسرو کی تصنیف ثابت کیا ہے:
۱۔ یہ تصنیف ہمیشہ سے امیر خسرو کی طرف منسوب چلی آئی ہے‘ اور اس قسم کی متصل روایت میں شک و شبہ کرنے سے تمام تاریخی واقعات معرض شک میں آجاتے ہیں۔
۲۔ خالق باری کی بحریں ایسی شگفتہ اور اصول موسیقی کے مطابق ہیں کہ یہ کتاب خسرو ہی کے سے موسیقی داں شاعر کے ذہن اور قلم کی رہین منت ہوسکتی ہیں۔
۳۔ اس میں بعض ایسے لفظ مثلاً جیتل وغیرہ کا نام ملتا ہے جو خسرو کے زمانے سے متعلق تھا۔ (جیتل ایک سکہ تھا جو خسرو کے زمانے میں رائج تھا اور بعد میں متروک ہوگیا)
۴۔ مثنوی کے آخر تک خسرو کا نام اس خوبی‘ شوخی اور بے ساختگی کے ساتھ آیا ہے کہ خالق باری کی تصنیف کا سوال بالکل حل ہوجاتا ہے۔ (امیر خسرو۔ڈاکٹر وحید مرزا ۔ ص ۔۲۶۶)
دونوں دلائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل باتیں واضح ہوتی ہیں:
(۱) بیش تر حضرات کے نزدیک خالق باری امیر خسرو کی تصنیف ہے۔
(۲) خالق باری امیر خسرو کی تصنیف ہونے سے انکار کرنے والوں میں حافظ شیرانی پیش پیش ہیں۔ دوسروں نے صرف ان کی تائید کی ہے۔
(۳) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حافظ شیرانی کے موقف کی بنیاد ضیاء الدین خسرو کی حفظ اللسان ہے‘ کتاب کے موضوع اور تخلص کے اشتراک کی بنا پر ان کے شبہ کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔
(۴) حافظ شیرانی نے خالق باری کو کئی جلدوں والی ضخیم لغت قرار دیا ہے ‘ جو کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہے‘ جب کہ خالق باری کے اشعار کی کل تعداد دو سو پندرہ ہے‘ کیوں کہ اس زمانہ میں نصاب کی کتابیں دوسو اشعار پر مشتمل ہوتی تھیں‘ شریعت میں دو سو درہم چاندی کے سکے پر زکوۃ کا نصاب مقرر کیا گیا ہے‘ اسی مناسبت سے نصابی کتابوں میں اشعار کی تعداد دو سو یا اس سے کچھ زیادہ ہوا کرتی تھی۔
جہاں تک اغلاط کا تعلق ہے‘ تو امتداد زمانہ اور زبانی روایت کی بنا پر تحریف و تصرف اور غلط انتساب کا کافی امکان رہتا ہے۔
خالق باری کے طرز پر بعد کی صدیوں میں کئی نصابی کتب منظر عام پر آئیں‘ جن میں چار مشہورکتب کا ذکر ڈاکٹر مظفر حنفی نے ’’جہات و جستجو‘‘ کے مقالہ میں کیا ہے‘ اور ڈاکٹر سیدہ مشہدی نے (۲۷) تدریسی کتب کی فہرست پیش کی ہے‘ جن میں ایک ایک نام کے کئی رسالے ہیں‘ اور خود خالق باری کے نام سے تین حضرات محمد اکرام‘ سید غلام علی شاہ امروہی اور احمد الدین خاں کے رسالے ہیں‘ اور اس میں غالب اور غلام احمد فروعی کی ’’قادر نامہ‘‘ اور عبدالصمد بیدل و میر عبدالواسع ہانسوی کی ’’حمد باری‘‘ بھی ہے’ مزید چند نام یہ ہیں: رازق باری (والہ) ایزد باری (محمد قصاد) اللہ باری (حافظ احسن اللہ لاہوری) بامک باری (پنڈت بلرام کشمیری) فیض باری (میر شمس الدین) محمد باری (عبدالسمیع رام پوری)۔
ڈاکٹر وحید مرزا دونوں دلائل کا بہ غور مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ خالق باری کا زیادہ تر حصہ امیر خسرو کی تصنیف ہے‘ البتہ اس کا کچھ حصہ یقیناًفرضی اور مصنوعی ہے‘ لیکن سرے سے پوری تصنیف کو جعلی اور غیر معتبر سمجھنا درست نہیں ہے:
’’ان متضاد رایوں میں سے کون قابل ترجیح ہے؟ یہ ذرا ٹیڑھا سوال ہے‘ لیکن موافق اور مخالف دلیلوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ خالق باری یا اس کا زیادہ تر حصہ امیر خسرو کی تصنیف ضرور ہے‘ یہ دوسری بات ہے کہ امتداد زمانہ سے اس میں تصرف اور تحریف ہوتا رہا ہو‘ اور بعض ہندی الفاظ کی شکل بدل گئی ہو‘‘۔ (امیر خسرو۔ڈاکٹر وحید مرزا ۔ ص ۔۲۶۶)
پروفیسر ممتاز حسین نے حافظ شیرانی کے خیال کی تردید کی ہے‘ اور کہا ہے کہ ضیاء الدین خسرو کی طرف خالق باری کا انتساب کسی طرح درست نہیں ہے:
’’حافظ محمود شیرانی کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ جس ’’خالق باری‘‘ کو امیر خسرو سے منسوب کیا جاتا ہے‘ وہ اصلاً ایک گمنام شخص ضیاء الدین خسرو (گوالیاری) کی
تصنیف ہے‘ ضیاء الدین خسرو ’’حفظ اللسان‘‘ کا مؤلف ہوسکتا ہے‘ لیکن وہ ’’خالق باری‘‘ کا مصنف نہیں‘‘۔ (امیر خسرو دہلوی۔ پروفیسر ممتاز حسین۔ ص۔ ۳۶۷)
اس اعتبار سے یہ بات تقریباً بے غبار ہوجاتی ہے کہ ’’خالق باری‘‘ حضرت یمین الدین امیر خسرو ہی کی اصل تصنیف ہے‘ البتہ اپنی قدامت اور نقل در نقل کی بنا پر اس میں تغیر و تبدل اور تحریف سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
’’خالق باری‘‘ سے قطع نظر امیر خسرو اپنی شگفتہ ‘شوخی و ظرافت سے بھرپور پہیلیوں‘ کہہ مکرنیوں اور دو سخنے وغیرہ کی بنا پر بھی بچوں کے پہلے ادیب قرار دیے جانے کے مستحق ہیں‘ ڈاکٹر سیدہ مشہدی جنھوں نے حافظ شیرانی کے موقف کی تائید کی ہے‘ وہ بھی امیر خسرو کی پہیلیوں ‘ کہہ مکرنیوں اور دو سخنوں کی بنا پر ان کو بچوں کا پہلا ادیب قرار دیتی ہیں‘ چنانچہ وہ لکھتی ہیں:
’’ان کے ہندی کلام میں پہیلیاں‘ کہہ مکرنیاں اور دو سخنے بھی ہیں‘ جو بچوں کے ادب میں بلا شبہ شمار کیے جاسکتے ہے‘ اس طرح حضرت امیر خسرو اردو میں بچوں کے پہلے ادیب قرار پاتے ہیں‘‘۔ (اردو میں بچوں کا ادب ۔ ڈاکٹر سیدہ مشہدی۔ ص ۔ ۱۰۲۔۱۰۳)
لیکن جس طرح خالق باری کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے‘ یہی حال خسرو کی پہیلیوں وغیرہ کا بھی ہے‘ ان کی پہیلیوں اور کہہ مکرنیوں وغیرہ میں بھی بعض خامیاں پائی جاتی ہیں‘ لیکن ہندوی کے وہ کلام یا مصرعے جو فارسی سے مخلوط ہوکر امیر خسرو کے فارسی کلام میں آئے ہیں‘ وہ یقینی طور پر امیر خسرو کی تصنیف ہیں‘ اور ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہیں‘ لیکن ان سے منسوب وہ کلام جن کا ذکر بعد کے مصنفوں اور شاعروں نے کیا ہے‘ ان کا کچھ حصہ ضرور مستند اور قابل اعتماد ہے‘ لیکن کچھ حصہ ایسا بھی ہے جو یقیناًفرضی اور مصنوعی ہے‘ امیر خسرو کا کلام اپنی مقبولیت کی وجہ سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا ہے‘ اور ان سات صدیوں میں ہماری لوک روایت یا لوک ساہتیہ کا حصہ بن گیا ہے‘ لاکھوں کروڑوں زبانوں پر چڑھنے سے اس میں تحریف و تبدیلی ضرور ہوئی ہے۔
امیر خسرو کے دو سخنے ‘ کہہ مکرنیوں اور پہیلیوں وغیرہ میں بڑوں کے لیے زیادہ مواد ہے‘ لیکن اس کے باوجود یہ چیزیں بچوں کے ادب میں شمولیت کا استحقاق اور اولیت کا درجہ رکھتی ہیں‘ اور امیر خسرو بچوں کے پہلے شاعر اور ان کی تصنیف ’’خالق باری‘‘ بچوں کے ادب پر پہلی کتاب قرار پاتی ہے۔
——

ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی

ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی
Dr.Syed Asrarul Haque Sabili
اسسٹنٹ پروفیسر وصدر شعبہء اردو
گورنمنٹ ڈگری اینڈ پی۔جی کالج سدی پیٹ 502103
09346651710

Share
Share
Share